Wednesday, November 25, 2015

بلا وضو قرآن کی تلاوت

بلا وضو قرآن کی تلاوت
=============

دلائل کی روشنی میں قرآن بلا وضو پڑھنے کا جواز نکلتا ہے ، اور جہاں قرآن بغیر وضو کے اور بغیر چھوئے پڑھ سکتے ہیں ، وہیں بلاوضو قرآن چھوکر بھی پڑھا جاسکتا ہے ۔ بعض لوگ یہ اعتراض کرتے ہیں کہ بلاوضو قرآن پڑھنے کے جوبھی دلائل ہیں ، ان میں چھونے کا ذکر نہیں ہے ۔ چلیں دیکھتے ہیں ، اس بات کی کیا حقیقت ہے ۔
صحیح بخاری شریف میں ایک حدیث ہےجسے ابن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں۔ اس حدیث میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سوئے ہوئے تھے، جب اُٹھے تو اپنی آنکھوں کو ہاتھ سے صاف کیا اور پھر سورۃ آل عمران کی آخری دس آیات کی تلاوت کی۔ پھر لٹکائے ہو مشکیزہ کی طرف بڑھے اور وضو کیا اور نماز شروع کر دی''۔
(صحیح بخاری مع الفتح ١۱/ ٣٤٣۳۴۳،۳۴۴٣٤٤)۔
اس حدیث سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پہلے تلاوت کی اور وضو بعد میں کیا۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث پر باب قائم کیا ہے: بے وضو ہونے کے بعد قرآن مجید کی تلاوت کرنا۔

حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا اثر دیکھیں : عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ کَانَ فِي قَوْمٍ وَهُمْ يَقْرَئُونَ الْقُرْآنَ فَذَهَبَ لِحَاجَتِهِ ثُمَّ رَجَعَ وَهُوَ يَقْرَأُ الْقُرْآنَ فَقَالَ لَهُ رَجُلٌ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ أَتَقْرَأُ الْقُرْآنَ وَلَسْتَ عَلَی وُضُوئٍ فَقَالَ لَهُ عُمَرُ مَنْ أَفْتَاکَ بِهَذَا أَمُسَيْلِمَةُ ۔
ترجمہ : محمد بن سيرین سے روایت ہے کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ لوگوں میں بیٹھے اور لوگ قرآن پڑھ رہے تھے پس گئے حاجت کو اور پھر آکر قرآن پڑھنے لگے ایک شخص نے کہا آپ کلام اللہ پڑھتے ہیں بغیر وضوکے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا تجھ سے کس نے کہا کہ یہ منع ہے کیا مسیلمہ نے کہا؟
حوالہ : موطاامام مالک:جلد نمبر 1:باب: کلام اللہ بے وضو پڑھنے کی اجازت۔

اس اثر سے یہ پتا چلتا ہے کہ لوگوں میں قرآن بلاوضو نہ پڑھنے کی غلط فہمی پہلے سے پائی جاتی ہے ۔ اسی سبب حضرت عمررضی اللہ عنہ نے اس جھوٹ کا انتساب مسیلمہ کی طرف کیا تاکہ لوگوں کو معلوم ہوجائے یہ بات جھوٹ ہے ۔ جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ تلاوت الگ چیز ہے اور چھونا الگ چیز ہے ۔ یہ بات صحیح ہے کہ تلاوت ایک چیز ہے اور مس ایک چیز ہے مگر تلاوت کے حکم سے مس کا بھی جواز ملتا ہے کیونکہ قرآن کی تلاوت کا ہمیں حکم ملا ہے اور تلاوت شامل ہے مس اور غیر مس دونوں کو ۔ اگربلاوضو چھوکر تلاوت کرنے کی ممانعت مانی جائے تو اس کے لئے صریح اور صحیح نص چاہئے ۔

ایک اور عقلی بات: قرآن پوری کائنات کے لئے آیا چاہے مسلم ہو یا کافر۔ اگر بغیر وضو کے چھونے کی ممانعت ہوتی تو مذہب اسلام پوری دنیا میں نہیں پھیل پاتا کیونکہ دین کا دارومدار قرآن پہ ہے ۔ اور آپ ﷺ نے غیرمسلم بادشاہوں کو خطوط لکھے جس میں قرآن کی آیات بھی تھیں ۔ اگر قرآن بغیر وضو کے چھونا منع ہوتا تو نبی ﷺ کبھی بھی غیرمسلم کو خط میں قرآنی آیات نہ لکھتے ۔


واللہ اعلم

1 comments:

عبد القہار محسن نے لکھا ہے کہ

جزاکم اللہ خیرا۔ آپ نے اچھے نکتہ کی طرف رہنمائ کی، تھوڑی مزید وضاھت ہو جاتی کہ کیسے مس تلاوت میں شامل ہے دلائیل اور قرائین سے۔
اور جو لوگ وضو لازم قرار دیتے ہیں، وہ غلاف یا کسی چیز کے ساتھ پکڑنے کی اجازت دیتے ہیں،
تو عموما ہمارے ہاں مصاحف اک مضبوط جلد میں ہی ہوتے ہیں اور ہر صفحہ پہ خالی جگہ بھی ہوتی ہے صفحہ پلٹنے کے لیے۔

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کوئی تبصرہ کرنا چاہتے ہیں تو مثبت انداز میں تبصرہ کر سکتے ہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔