Thursday, November 26, 2015

قرآن کی تعظیم برصغیر اور حرمین شریفین کے تناظر میں​

قرآن کی تعظیم برصغیر اور حرمین شریفین کے تناظر میں

تحریر: مقبول احمد سلفی


سوال : برصغیر پاک و ہند میں مصحف قرآن کے جو ”آداب“ ہمیں نظر آتے ہیں، وہ حرمین شریفین میں وہاں کے مقامی لوگوں کے ہاتھوں نظر نہیں آتے؟ اس کی کیا وجہ ہے ؟ کیا ہم اُنسے زیادہ آداب قرآن کے قائل ہیں یا وہ لوگ (خدا نخواستہ) قرآن کا ادب کرنے کے قائل نہیں ؟ سائل : یوسف ثانی پاکستان، سینئر رکن محدث فورم


الجواب بعون اللہ الوھاب

الحمد للہ

سب سے پہلے تو یہ علم میں رہے کہ ایک مسلمان کے لئے چاہے کہیں کا بھی ہو قرآن کی تعظیم واجب اور اس کی اہانت حرام ہے ۔ آپ نے کہا کہ برصغیر میں قرآن کا جو ادب نظر آتا ہےوہ حرمین شریفین میں نہیں۔ اس کی کیا وجہ ہے ؟

اس بات کو سمجھنے کے لئے پہلے یہ سمجھنا ہوگا کہ قرآن کے نزول کا مقصد کیا ہے ؟

چنانچہ اللہ تعالی کا فرمان ہے :
قُلْ أَيُّ شَيْءٍ أَكْبَرُ شَهَادَةً ۖ قُلِ اللَّهُ ۖ شَهِيدٌ بَيْنِي وَبَيْنَكُمْ ۚ وَأُوحِيَ إِلَيَّ هَٰذَا الْقُرْآنُ لِأُنذِرَكُم بِهِ وَمَن بَلَغَ ۚ أَئِنَّكُمْ لَتَشْهَدُونَ أَنَّ مَعَ اللَّهِ آلِهَةً أُخْرَىٰ ۚ قُل لَّا أَشْهَدُ ۚ قُلْ إِنَّمَا هُوَ إِلَٰهٌ وَاحِدٌ وَإِنَّنِي بَرِيءٌ مِّمَّا تُشْرِكُونَ( الانعام : 19)
ترجمہ :آپ کہئے کہ سب سے بڑی چیز گواہی دینے کے لئے کون ہے ، آپ کہئے کہ میرے اور تمہارے درمیان اللہ گواہ ہے ، اور میرے پاس یہ قرآن بطور وحی کے بھیجا گیا ہے تاکہ میں اس قرآن کے ذریعہ سے تم کو اور جس جس کو یہ قرآن پہنچے ان سب کو ڈراؤں، کیا تم سچ مچ یہی گواہی دوگے کہ اللہ تعالی کے ساتھ کچھ اور معبود بھی ہیں، آپ کہہ دیجئے کہ میں تو گواہی نہیں دیتا ۔ آپ فرما دیجئے کہ بس وہ تو ایک ہی معبود ہے اور بے شک میں تمہارے شرک سے بیزارہوں۔ 

قرآن کے نزول کا مقصدمعرفت الہی ہےیعنی رب کی بندگی کے واسطے قرآن اتارا گیا یا یہ کہیں کہ قرآن اس لئے اتارا گیا تاکہ اس پہ عمل کیا جائے ۔
اب اس مقصد کے پس منظر میں برصغیر اور حرمین شریفین کے لوگوں میں قرآن کے آداب کا موازنہ پیش کرتا ہوں۔

برصغیر ہندوپاک کے آداب قرآنی :
٭ہمارے یہاں قرآن کی بڑی تعظیم کی جاتی ہے ، اسی سبب یہاں قرآن کا سب سے زیادہ استعمال تعویذ کے لئےکیا جاتا ہے ۔
٭مردو خاتون اس تعویذ کو گلا، بازو، کمراور ران پہ باندھتے ہیں۔
٭قرآنی تعویذ لٹکاکر حمام تشریف لے جاتے ہیں۔
٭تعویذ کے ذریعہ قرآن کی آیات سے کھلواڑ کیا جاتاہے ، تعویذ پہ قرآنی آیات الٹے ،سلٹے، یا ابجد ی شکل میں لکھے جاتے ہیں، حد تو یہ ہے کہ قرآنی آیات کو الگ الگ بیماریوں کے لئے خاص کردیا گیا ہے۔
٭ قرآن کا دوسرا سب سے بڑا استعمال مکان ودوکان کی برکت اور میت کے ایصال ثواب کی غرض سے قرآن خوانی میں اجتماعی شکل میں کیا جاتا ہے جوکہ بدعت لاشکہ ہے ۔
٭قرآن کا ادب کرنے کے لئے اسے دھوکے پیا جاتا ہے اور اسے چوماچاٹا جاتا ہے ۔
٭قرآن کو خوبصورت جزدان میں پیک کرکے سب سے اوپری جگہ پہ رکھنے کا مطلب صاف ظاہر ہے کہ اسے کم سے کم اتارا جائے گا اور کم سے کم پڑھا جائے گاکیونکہ اس میں مشقت کے ساتھ تکلف بھی ہے ، اس طرزعمل کو ہمارے یہاں سب بڑا ادب مانا جاتا ہے۔
٭قرآن کو نیچے رکھنا ، بغیر جزدان کے رکھنا، قرآن کو پیچھے رکھنا، قرآن کے پیچھے قرآن پڑھنا، ہاتھ میں اٹھا کے قرآن پڑھنا، ران پہ رکھ کے قرآن پڑھنا، اذان و اقامت کے دوران قرآن پڑھنا، سمجھ کر قرآن پڑھنایہ سب قرآن کی توہین سمجھی جاتی ہے ۔
٭ ہمیں برصغیرمیں قرآن کی بہت تعظیم نظر آتی ہے مگرحقیقت میں یہاں کے لوگ قرآنی تعلیمات سے کوسوں دور ہیں، اگر واقعی قرآن کا ہم ادب کرتے تو کبھی بھی ہمارے اندر غیراللہ سے فریاد، عبادت میں شرک اور قرآنی تعلیمات سے بے اعتنائی نہیں پائی جاتی ۔ 

اب ہم حرمین شریفین میں نزول قرآن کے مقصد کو سامنے رکھتے ہوئے قرآنی آداب دیکھتے ہیں۔

٭حرمین والے اپنی مساجد میں بے شمار تعداد میں مصاحف رکھتے ہیں تاکہ ہرنمازی قرآن کی تلاوت کرسکے ، یہاں دیکھنے کو ملتا ہے کہ یہ لوگ جب بھی مسجد آتے ہیں، سنت و تحیہ المسجدپڑھنے کےبعد تلاوت قرآن میں لگ جاتے ہیں چاہے جماعت میں چند منٹ ہی کیوں نہ باقی ہو۔
٭حرمین شریفین کے لوگ قرآن کو ہمیشہ اپنی زندگی کا ایک حصہ بنائے رکھتے ہیں، اسی لئے تو ان کی جیب میں، گاڑی میں، دفترمیں اور مساجد و مدارس میں جہاں بھی رہے قرآن سے جڑے رہتے ہیں۔
٭ قرآن کو اتنی اونچی جگہ نہیں رکھتے کہ پڑھنے کے لئے سوبار سوچنا پڑے اور اتارنے کے لئے ٹیبل یا سیڑھی لگانی پڑے ۔
٭ برصغیر میں شاید بایدکوئی آفسوں میں قرآن پڑھتا ہوگامگر یہاں آفسوںمیں بھی قرآن کی تلاوت کی جاتی ہے ۔
٭ قرآن کی تعظیم یہاں اس قدر ہے کہ مدرسوں سے فارغ ہوتے ہوتے بچے حافظ قرآن ہوجاتے ہیں۔ بلکہ یہ کہہ لیں ایک عام سعودی کو جتنا قرآن یاد ہوتا ہے ہمارے یہاں کےاکثر عالمکو بھی اتنا یاد نہیں ہوتا۔
٭مساجد میں قرآن کا درس، اور تحفیظ کے بے شمار حلقات قائم کئے جاتے ہیں، ملکی پیمانے پہ تحفیظ القرآن الکریم کا ادارہ چلایا جاتاہے جس کی شاخیں پورے ملک میں پائی جاتی ہیں۔
٭ جب جس وقت موقع مل جائے ہاتھ میں قرآن اٹھاکرتلاوت شروع کردیتے ہیں، ریحل تلاشنےیاٹیبل ڈھونڈنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتے ۔
٭یہاں اس قدر قرآن عام ہونے کے باوجود قرآن خوانی، قرآنی تعویذکے شرک وبدعات نہیں پائے جاتے، نہ ہی کوئی اسے چومتا اور پانی میں گھول کے پیتا ہےکیونکہ ایسا کرنا قرآنی تعلیم کے خلاف ہے ۔ شرعی دم کے لئے قرآن کا بقدر ضرورت استعمال کیا جاتا ہے ۔
٭ یہاں قرآن پڑھاجاتاہے ، سمجھاجاتا ہے اور اس پہ عمل کیا جاتاہے ۔ اس لئے تو یہاں مزارتو کیا شرک کی بدبو بھی نہیں پائی جاتی ۔

ویسے تو اس قسم کی سیکڑوں مثالیں ہیں مگر یہاں میں چند باتوں کے ذکر پہ ہی اکتفا کرتاہوں اورفیصلہ آپ کے ذمہ چھوڑتا ہوں کہ کون قرآن کی سچی تعظیم کرتا ہے ، برصغیر کے لوگ یا حرمین شریفین والے ؟ 

اپنے خیالات کا اظہار ضرور فرمائیں۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کوئی تبصرہ کرنا چاہتے ہیں تو مثبت انداز میں تبصرہ کر سکتے ہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔