الجواب بعون اللہ الوھاب
مذکورہ بالا تحریر میں طلاق سے متعلق سوال کیا گیا ، مسئلہ یہ ہے کہ سلمان(ساکن مروکیہ ، مدھوبنی، بہار) نامی ایک بھائی نے موبائل کے توسط سے جب وہ اپنے والداور سسرالی رشتہ داروں سے بات کررہے تھے اس وقت فیروز نامی شخص کو گواہ بناکر اپنی بیوی کے بارے میں اس طرح کہا"آپ گواہ رہئے ، یہ میری بیوی جتنا لین دین کیا ہے ، جب تک پائے پائے نہ ختم کردے ، اور یہ گل پراگ جب تک چھوڑ نہ دے ، وہ دلوکھر جائے ، جب تک یہ ماجرا ختم کرکے نہیں آئے گی تب تک میں اس کو ایک دو تین ، تین طلاقیں دے رہاہوں ۔ بس"
سائل اس بارے میں پوچھنا چاہتا ہے کہ یہ طلاق واقع ہوگئی یا نہیں اور اگر طلاق واقع ہوئی ہے تو کتنی طلاق واقع ہوئی ہے اور طلاق ہونے کی صورت میں بچنے کی کوئی صورت ہے؟
اس سوال کا جواب یہ ہے کہ جس طرح اسلام نے ہمیں نکاح کا طریقہ سکھایا ہے اسی طرح طلاق دینے کا طریقہ بھی سکھایا ہے ، اگر کوئی آدمی شرعی نکاح سے ہٹ کر غلط طریقے سے نکاح کرتا ہے تو وہ نکاح نہیں مانا جائے گاباطل نکاح ہوگا، اسی طرح طلاق کا بھی معاملہ ہے یعنی کوئی اگر طلاق کےشرعی طریقہ سے ہٹ کر طلاق دے تو یہ طلاق نہیں مانی جائے گی ، یہ لغوطلاق ہوگی ۔مذکورہ بالا مسئلہ میں بھی طلاق دینے کا طریقہ غلط ہے ، اس میں کہا گیا ہے کہ جب تک بیوی لین دین ختم نہیں کرلیتی اور گل وپراگ نہیں چھوڑ دیتی تب تک طلاق دے رہا ہوں ، گویا یہاں محض ایک انجان وقت تک کے لئے طلاق دی گئی ہے ۔ اگر اسے طلاق مانیں تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ 27/ جنوری 2024 سے بیوی کو طلاق ہوگئی اور آج 9/جولائی 2024 تک بیوی لین دین ختم کرلی ہواور گل وپراگ چھوڑ دی ہو تو خود بخود بیوی شوہر کو لوٹ جائے گی ۔ شریعت نے اس طرح صرف ایک مدت کے لئے طلاق دینے کا طریقہ نہیں سکھایا ہے اس لئے یہ لغوطلاق مانی جائے گی ۔ بالفاظ دیگر سلمان کے مذکورہ بالا جملہ کہنے سے بیوی پرکوئی طلاق واقع نہیں ہوئی اور جب طلاق واقع ہی نہیں ہوئی تو جیسے پہلے سلمان کے لئے بیوی حلال تھی اب بھی بدستوراس کے لئے بیوی حلال ہے اور ان دونوں میں کوئی جدائی نہیں ہوئی ہے ۔
طلاق کی اصل یہ ہے کہ بیوی سے ہمیشہ کے لئے جدائی حاصل کی جائے یعنی طلاق محض کچھ دنوں یا کچھ مہینوں کے لئے نہیں ہوتی ہے اس لئے جب طلاق(رجعی ) ہوتی ہے تو عدت کے بعد بیوی ہمیشہ کے لئے جدا ہوجاتی ہے بلکہ طلاق مغلظہ سے تو فورا بیوی سے ہمیشہ کے لئے جدائی ہوجاتی ہے گویا مذکورہ بالا صورت طلاق مشروط یا طلاق معلق بھی نہیں ہے ۔ طلاق معلق اس صورت میں ہوتی جب کسی کام کے کرنے سے طلاق معلق ومشروط کی جاتی مثلا کہا جاتا کہ اگر وہ پراگ کھائے گی تو اس کو طلاق ، ایسی صورت میں یہ طلاق معلق ہوتی اور شرط پائے جانے پر طلاق واقع ہوجاتی اور عدت میں شوہر کو رجوع کا حق ہوتا اور عدت گزرنے پر ہمیشہ کے لئے بیوی جدا ہوجاتی مگر یہاں یہ طلاق نہیں ہے ۔
ایلاء میں ایک متعین مدت کے لئے بیوی سے الگ رہنے کی قسم کھائی جاتی ہے مگر مذکورہ بالاصورت ایلاء سےبھی مطابقت نہیں رکھتی ہے اور یہ طلاق دینے کی بھی صحیح صورت نہیں ہے اس وجہ سےیہ لغو طلاق مانی جائے گی اوریہ طلاق واقع نہیں ہوگی ۔
اگر کوئی آدمی اس کو طلاق مانے تو یہ اسی طرح ہے جیسے کوئی زبردستی کسی سے طلاق دلوائے ۔ ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے وہ بیان کرتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا:
((لا عَتاقَ ولا طَلاقَ في إغْلاقٍ)) یعنی زبردستی کی صورت میں طلاق دینے اور آزاد کرنے کا اعتبار نہیں ہو گا۔ اسے ابوداؤد(ح:2193) نے روایت کیا ہے اور اس کی سند صحیح ہے۔
سائل نے بیوی کی غلط حرکت کی وجہ سے طلاق کا لفظ استعمال کیا تھا اس لئے بیوی کو چاہئے کہ اپنی غلط حرکت سے باز آجائےاور اللہ سے سچی توبہ کرلے اورجو لین دین کا معاملہ ہے میاں بیوی دونوں مل کر جلد سے جلد ختم کرلیں ، مزید برآں بیوی کوچاہئےکہ آئندہ اپنے شوہر کی اجازت کے بغیر اس طرح کا لین دین نہ کرےبلکہ جو بھی کام کرنا ہو شوہر سے پوچھ کر کرے ۔
موقع کی مناسبت سے یہاں یہ بتانا ضروری سمجھتا ہوں کہ طلاق کے سلسلے میں اپنے سماج میں بہت سارے غلط طریقے رائج ہیں اور شریعت کے خلاف ہیں ان باتوں کی اصلاح کرنا ضروری ہے ۔
پہلا مسئلہ : لوگ معمولی معمولی بات پر بھی بیوی کوطلاق دے دیتے ہیں جبکہ طلاق تو اس وقت ہے جب طلاق دینے کا کوئی شرعی عذر پایا جائے اور اس معاملہ میں لوگوں اللہ سے ڈرنا چاہئے کیونکہ یہ حقوق العباد کا معاملہ ہے اور بغیر حق کے طلاق دینے پر آخرت میں پوچھ ہوگی ۔
دوسرامسئلہ : طلاق دینے کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ بیوی کو ایسے طہر میں جب شوہر نے اس سے جماع نہ کیا ہو ایک طلاق دے ، یہی طلاق عدت گزرنے پر طلاق بائن ہوجائے گی اور بیوی جدا ہوجائے گی اور عدت میں شوہر رجوع کرنا چاہے تو رجوع ہوجائے گابشرطیکہ وہ پہلی یا دوسری طلاق ہو کیونکہ تیسری مرتبہ طلاق دیتے ہی فورا بیوی جدا ہوجاتی ہےاسے طلاق بائنہ مغلظہ اور طلاق بتہ کہتے ہیں ۔
اپنے یہاں لوگ ایک ساتھ تین طلاق دینا ضروری سمجھتے ہیں جبکہ تین طلاق ایک ساتھ نہیں دینا ہے ، ایک وقت میں ایک ہی طلاق دینا ہے ۔ اگر کسی نے غلطی سے اپنی بیوی کو ایک ساتھ تین طلاق دے بھی دیا تو یہ صرف ایک طلاق مانی جائے گی کیونکہ اللہ نے طلاق کے بارے میں فرمایا : الطلاق مرتان یعنی طلاق دومرتبہ ہے ۔ اس آیت میں اللہ دو رجعی طلاق کا ذکر کررہا ہے کہ دو طلاق دو مرتبہ یعنی دو الگ الگ وقتوں میں ہے کیونکہ اگلی آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ ممکن ہے طلاق کے بعد رجوع کی صورت پیدا ہوجائے ۔اللہ نے ہمیں ایک ساتھ تینوں طلاق دینے کا اختیار ہی نہیں دیا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ دو طلاق تک رجوع کا انسان کو حق ہے اور جب تیسری مرتبہ طلاق دی جاتی ہے تب بیوی فورا جدا ہوجاتی ہے اس لئے اللہ نے الگ سے تیسری طلاق کا ذکر کیا ہے ۔ معلوم یہ ہوا کہ جس طرح کسی کو تین طلاق سے زیادہ مثلا چار پانچ طلاق کا اختیار نہیں دیا گیا ہے اسی طرح کسی کو ایک ساتھ تین طلاق دینے کا بھی اختیار نہیں دیا گیا ہے ۔ غلطی سے کسی نے ایک ساتھ تین طلاقیں دیدی تو ایک ہی شمار ہوگی کیونکہ آدمی نے اپنے اختیار سے زائد استعمال کرلیاجبکہ اس کے اختیار میں ایک مرتبہ میں ایک طلاق دینا ہے ۔نیزمسند احمد کی حدیث رکانہ سے معلوم ہوتا ہےکہ ایک صحابی رکانہ رضی اللہ عنہ نے اپنی بیوی کو ایک مجلس میں تین طلاق دیدی تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ یہ ایک طلاق ہے اور اگر تم رجوع کرنا چاہتے ہو تو رجوع کرسکتے ہواور صحابی نے اپنی بیوی سے رجوع کرلیا تھا۔
تیسرا مسئلہ : اولا اپنے سماج میں تین طلاق کو تین مانا جاتا ہے جو کہ قرآن وحدیث کے خلاف ہے ، ثانیا: تین طلاقوں کو ایک ساتھ تین طلاق مان کر بیوی کو شوہر پر حرام قرار دیا جاتا ہے اور اس عورت کا منصوبہ بند طریقہ سے ایک رات کے لئے کسی مرد سے چوری چھپے فرضی نکاح کردیا جاتا ہے اور صبح اس سے طلاق دلاکرشوہر اول کے لئے حلال کیا جاتا ہے جس کا نام حلالہ ہے ۔ میں نے اوپر بتایا ہے کہ اسلام میں نکاح کا طریقہ متعین ہے، جس میں ولی ، دو عادل گواہان ، مہر اور نکاح کا اعلان کرنا پڑتا ہے مگرمروجہ حلالہ میں شرعی طور پر نکاح نہیں ہوتا ہے بلکہ ایک رات کے لئے عورت کو کسی مرد کے حوالے کیا جاتاہے ۔ یہ حلالہ گاؤں گاؤں اس قدر عام ہوگیا ہے کہ آج اکثر غیرمسلم ، ہمیں حلالہ کی پیداوار کہہ کر طعنہ دیتے ہیں کیونکہ وہ لوگ اپنے سماج میں مسلم عورتوں کی عزتوں کے ساتھ اس طرح کھلواڑ ہوتے ہوئے دیکھ رہے ہیں
مروجہ حلالہ سراسر غلط اور خلاف شرع ہے ۔ سنن ترمذی ہے کہ نبی ﷺ نےفرمایا: حلالہ کرنے والے اور جس کے لئے حلالہ کیا جائے اس پراللہ کی لعنت ہے ، ابن ماجہ میں روایت موجود ہے ، نبی ﷺ نے حلالہ کرنے والے کو کرائے کا سانڈ قرار دیا ہے ۔ مصنف عبدالرزاق اور مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے کہ عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں حلالہ کرنے والا اور جس کے لئے حلالہ کیا گیا ، اگر یہ دونوں میرے علم میں آگئے تو میں دونوں کو رجم کر دوں گا۔
میں اس فتوی کے ذریعہ چاہتا ہوں کہ اپنے سماج کو معلوم ہو کہ طلاق دینے کا صحیح طریقہ کیا ہےبلکہ ممبر ومحراب سے عوام الناس کو بتایا جائے کہ ہرممکن طور پر طلاق دے بچا جائے اور اگر کسی کو طلاق دینا ناگزیرہو تو ایک وقت میں حالت طہر(بلاجماع)میں صرف ایک طلاق دے اور اگر کسی نےایک ساتھ تین طلاق غلطی سے دیدی ہے تو اسے تین نہیں مانا جائے ، یہ ایک طلاق ہے اور اپنے سماج سے مروجہ حلالہ کی لعنت ختم کی جائے ، حلالہ ہرگز کوئی نکاح نہیں ہے ، یہ فحاشی اور بے حیائی ہےاس عمل سے پورے ہندوستان میں مسلمان بدنام اور رسوا ہورہے ہیں بلکہ دنیا بھرمیں یہ عمل بدنامی کا باعث ہے ۔
ھذا ماعندی واللہ اعلم بالصواب
کتبہ
مقبول احمد سلفی -جدہ (سعودی عرب)
9/جولائی 2024 م مطابق 3/محرم الحرام 1445ھ
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کوئی تبصرہ کرنا چاہتے ہیں تو مثبت انداز میں تبصرہ کر سکتے ہیں۔
اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔