Wednesday, April 24, 2024

خواتین، صلوۃ التسبیح اور رمضان المبارک

 
خواتین، صلوۃ التسبیح اور رمضان المبارک
_____
✒️تحریر: مقبول احمد سلفی
 
یوں تو فرائض کے علاوہ نفل نماز کی بہت ساری اقسام ہیں جن کو تواتر کے ساتھ بہت کم مسلمان مرد اور مسلمان عورت ادا کرتے ہیں تاہم ان نفل نمازوں میں صلاۃ التسبیح ایک ایسی نماز ہے جس کے تئیں عورتوں کا رجحان مردوں کے مقابلے میں کافی زیادہ ہے اور خاص طور پر دیوبندی حلقہ میں بطور خاص دیوبندی خواتین میں اس نماز کی اس قدر مقبولیت ہے کہ اتنی مقبولیت ان خواتین کی نظر میں نہ اشراق کی نماز ہے، نہ چاشت کی نماز ہے، نہ تہجد کی نماز ہے اور نہ ہی شاید شب قدر میں نوافل کی ادائیگی اتنی اہمیت کا حامل ہے۔
دیوبندی خواتین کا رجحان دیکھ کر بہت ساری اہل حدیث خواتین بھی اس نماز کا شوق زیادہ رکھتی ہیں بھلے وہ فرض میں کوتاہی کرتی ہوں یا سرے سے فرض نماز ہی نہیں ادا کرتی ہوں یا پھر سنن رواتب میں کوتاہی برتی ہوں یا دیگر نوافل کا اس قدر اہتمام نہ کرتی ہوں۔
جب رمضان کا مبارک مہینہ آتا ہے تو پھر صلوۃ التسبیح کے تعلق سے سوشل میڈیا پر پیغام در پیغام کا ایک طوفانی سلسلہ شروع ہو جاتا ہے اور رمضان میں جب آخری عشرہ شروع ہوتا ہے تو طرح طرح سے صلاۃ التسبیح کو بیان کرکے اس نماز کو اخری عشرے میں اور خاص طور پر شب قدر میں انجام دینے کی بڑی شد و مد سے ترغیب دی جاتی ہے۔
مجھ سے جب جب کسی خاتون نے اس نماز کے تعلق سے سوال کیا تو میں نے انہیں یہی بتایا کہ آپ اس نماز کو نہ پڑھیں کیونکہ اس سلسلے میں جو بھی احادیث وارد ہیں وہ ضعیف ہیں اور خود اس نماز کی ادائیگی کا جو طریقہ ہے اور اس نماز میں جس قدر تعداد کے ساتھ تسبیح پڑھنے کا ذکر ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک نمازی کی توجہ نماز اور خشوع و خضوع سے ہٹ کر گنتی اور تعداد کی طرف لگ جاتی ہے۔
بہرکیف! بہت سے علماء نے اس نماز کو پڑھنا صحیح کہا ہے کیونکہ بہت سے علماء اس سے متعلق احادیث کو صحیح بھی قرار دیتے ہیں لیکن میری نظر میں حق اور صحیح بات یہ ہے کہ اس سلسلے میں وارد ساری احادیث ضعیف ہیں لہذا اس نماز کو نہ پڑھنا ہی اولی ہے۔
میں لوگوں کو بطور خاص خواتین کو ان نفل نمازوں کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں جو صحیح احادیث سے ثابت ہیں اورجن کی ادائیگی میں کوئی شک نہیں ہے اور جس میں ڈھیر سارا اجروثواب ہے۔ سب سے پہلے تو اشراق کی نماز کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں جس کا ثواب حج و عمرہ کے برابر ہے۔ اگر اشراق کی ادائیگی مشکل ہے تو ظہر سے پہلے کسی وقت چاشت و اوابین کی دو رکعت نماز پابندی سے ادا کریں، اس سے جسم کے ہر جوڑ کا صدقہ ادا ہوجاتا ہے۔ یہ وہی نماز ہے جس کی فضیلت کی وجہ سے ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مرتے دم تک ادا کرنے کی وصیت کی اور سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ نے اس نماز کو مرتے دم تک ادا کیا۔
اشراق اور چاشت میں معمولی فرق ہے ۔ اشراق کی نماز پڑھنے کا طریقہ یہ ہے کہ آپ فجر کی نماز جماعت سے پڑھیں اور اسی جگہ بیٹھے ذکر و اذکار میں مشغول رہیں یہاں تک کہ سورج طلوع ہوکر کچھ بلند ہو جائے تو دو رکعت ادا کریں اور چاشت کی نماز یہ ہے کہ آپ ظہر کی نماز سے پہلے اور سورج نکلنے کے بعد کسی وقت چاشت کی نیت سے دو رکعت نماز ادا کر لیں ، اس نماز کو اوابین بھی کہتے ہیں۔
اشراق اور چاشت کو عموماً ایک جیسی نماز کہا جاتا ہے تاہم یہ معمولی فرق ذہن میں رکھیں۔
اسی طرح نوافل میں وضو کی سنت ، تحیۃ المسجد اور رات کا قیام ہے بلکہ خصوصیت کے ساتھ میں ذکر کروں گا کہ اگر آپ کو اللہ رب العالمین نے شوق عبادت دیا ہے تو رات میں اٹھ کر جس قدر ہو سکے دو دو رکعت کرکے قیام اللیل کریں خواہ رمضان کا مہینہ ہو یا غیر رمضان کا مہینہ ہو۔ کم از کم گیارہ رکعت جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول رہا ہے اس پر عمل کرنے کا آپ بھی معمول بنالیں۔ یہی ایک نماز آپ کو اپنے رب سے ملادے گی، ہر قسم کی بھلائی عطا کرے گی، آپ کی ہر ضرورت پورا کرے گی، آپ کی ہر دعا عند اللہ مقبول ہوگی اور آپ کی ہر مشکل اس سے آسان ہوگی بشرطیکہ آپ پنج وقتہ نمازیں بھی ادا کرتے ہوں اور دیگر فرائض و واجبات کا بھی اہتمام کرتے ہوں اور فواحش و منکرات کے ساتھ کبیرہ گناہوں سے یکسر بچتے ہوں۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں ہمارے لئے اسوہ ہے، آپ ذرا اندازہ لگائیں کہ فرائض کے بعد آپ کون سی عبادت پر زیادہ توجہ دیتے اور شوق و انہماک سے اسے انجام دیتے حتی کہ آپ کے قدموں میں ورم آجاتا ۔۔ وہ یہی قیام اللیل ہے۔
عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے وہ بیان کرتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم رات کی نماز میں اتنا طویل قیام کرتے کہ آپ کے قدم پھٹ جاتے۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے ایک مرتبہ عرض کیا کہ یا رسول اللہ! آپ اتنی زیادہ مشقت کیوں اٹھاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے تو آپ کی اگلی پچھلی خطائیں معاف کر دی ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا پھر میں شکر گزار بندہ بننا پسند نہ کروں۔(صحیح بخاری: 4837)
(امام بخاری نے اس حدیث کو کتاب التہجد کے تحت بیان کیا ہے)
 

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کوئی تبصرہ کرنا چاہتے ہیں تو مثبت انداز میں تبصرہ کر سکتے ہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔