لڑکیوں کی عمرکے لحاظ سے روزوں کی قضا سے متعلق غلط امیج
یہ نقشہ مکمل طور پر غلط ہے ۔ اس میں سب سے پہلی خرابی تو یہ ہے کہ اس سے یہ میسیج جارہا ہے کہ عورت رمضان کے چھوٹے روزے عمر میں کبھی بھی رکھ سکتی ہے جبکہ معلوم ہونا چاہئے کہ رزوں کی قضا رمضان سے رمضان تک ہی ہونا چاہئے مگر شرعی عذر ہو تو اور مسئلہ ہے بلکہ بعض اہل علم نے تو یہ بھی کہا ہے کہ روزوں کی قضا میں تاخیر ہوتو قضا کے ساتھ فدیہ بھی ہے ۔میرے نزدیک فدیہ کی دلیل نہیں ہےبس قضا کرنا ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ ہر عورت کا حیض مختلف ہوتاہے کسی کو ایک دن، کسی کو تین دن، کسی کو سات دن یعنی مختلف عورتوں کے مختلف ایام ہوتے ہیں ان سب کے لئے کوئی ایک ٹیبل نہیں بنایا جاسکتا ہے ۔
تیسری بات یہ ہے کہ ایک ماہ میں حیض کی وجہ سے 23 روزے کبھی بھی قضا نہیں ہوسکتے ہیں ، اگرکسی کو زیادہ دن خون آئے تو بھی پندرہ دن سے زیادہ حیض نہیں مانا جائے گا، پندرہ دن کے بعد والا خون استحاضہ کا مانا جائے گااور استحاضہ میں عورت کو نماز و روزہ کی پابندی کرنی ہے۔
چوتھی بات یہ ہے کہ اس میں جو ہرسال کے قضا روزے کے الگ الگ ایام بتائے گئے ہیں ، ان کی کوئی حیثیت نہیں ہے ، جس عورت کو جتنا روزہ شرعی عذر کی وجہ سے چھوٹا ہوگا اتنا ہی قضا کرے گی اور قضا کے معاملہ میں ہرعورت کا معاملہ الگ ہوگا حیض کے فرق کی وجہ سے۔
آخری بات یہ ہے کہ بارہ سال بلوغت کی عمر متعین نہیں ہے ، بلوغت کی نشانی ظاہر ہونے سے لڑکی بالغ ہوجائے گی، چاہے حیض شروع ہوجائے یا بغل وزیر ناف کے بال آجائے یا احتلام ہونے لگے ، اس اعتبار سے آٹھ سال کی بچی بھی بالغ ہوسکتی ہے تو بلوغت کا اعتبار عمر سے نہیں، نشانی سے ہوگا۔
واللہ اعلم
مقبول احمد سلفی
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کوئی تبصرہ کرنا چاہتے ہیں تو مثبت انداز میں تبصرہ کر سکتے ہیں۔
اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔