Monday, October 9, 2023

بنت حوا کے مسائل اور ان کا شرعی حل (قسط:35)

 
بنت حوا کے مسائل اور ان کا شرعی حل (قسط:35)
جواب از : شیخ مقبول احمد سلفی (جدہ دعوہ سنٹر)
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
 
سوال(1):کیا والدین کی طرف دیکھنے سے حج کا ثواب ملتا ہے؟
جواب: لوگوں میں یہ بات عام ہے کہ والدین کے چہرے کی طرف دیکھنا عبادت ہے اور مسکرا کر انہیں دیکھنے سے حج کا ثواب ملتا ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ قرآن و حدیث سے ایسی بات ثابت نہیں ہے اس لئے کسی مسلمان مردوعورت  کو ایسی بات نہیں بولنا چاہئے خصوصا اللہ اور اس کے رسول کی طرف ایسی بات منسوب کرکے اجر بیان کرنا اللہ اور رسول کے بارے میں جھوٹ بولنا ہے ۔
امام بیہقی نے شعب الایمان اور دیلمی نے الفردوس میں ذکر کیا ہے ۔حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
ما منْ ولدٍ بارٍّ ينظر إلى والدَيهِ نظرةَ رحمةٍ ؛ إلا كتب اللهُ لهُ بكل نظرةٍ حجةً مبرورةً، قالوا : وإن نظر كلَّ يومٍ مائةَ مرةٍ ؟ ‍ قال : نعَم، اللهُ أكبرُ وأطيبُ .
ترجمہ :جو بھی فرمانبردار شخص اپنے والدین کی طرف رحمت کی نظر سے دیکھتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی ہر نظر کے بدلے مقبول حج کا ثواب لکھ دیتا ہے، لوگوں نے کہا: اگروہ ہرروز سوبار دیکھے تو؟ فرمایا: ’’ہاں،اللہ بہت بڑا اور بہت پاکیزہ ہے۔
یہ حدیث من گھڑت اور جھوٹی ہے ، شیخ البانی رحمہ اللہ نے اس کو موضوع قرار دیا ہے ۔ دیکھیں :(هداية الرواة:4872 ، السلسلة الضعيفة:6273، 3298)
اس کی سند میں محمد بن حمید نامی جھوٹا راوی ہے جس کے بارے میں اسحاق بن منصورؒ حلفیہ کہتے ہیں :’’میں اللہ کے سامنے اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ وہ جھوٹا ہے‘‘۔اور امام ابوزرعہ رازیؒ فرماتے ہیں:’’وہ جان بوجھ کر جھوٹ بولتا تھا‘‘۔
لہذا جھوٹی بات کو اللہ اور رسول کی جانب منسوب کرنا بڑا بہتان ہے اور اس بات کو لوگوں میں بیان کرنا اللہ اور اس کے رسول کے بارے میں جھوٹ بولنا ہے ۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ والدین کی طرف دیکھنے سے عبادت یا حج کا ثواب ملتا ہے یہ بات جھوٹ ہے، کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں ہے۔
سوال(2):کیا طلاق صرف بولنے سے واقع ہو جاتی ہے، یا دو لوگوں کو بٹھا کر سنجیدگی سے دی جاتی ہے، میرے شوہر نے کہا آج سے میرا اور تمہارا رشتہ ختم، میں تمہیں طلاق دیتا ہوں، کیا ایسا کہنے سے طلاق واقع ہو جاتی ہے جبکہ شوہر کا کہنا ہے کہ انہوں نے غصہ میں کہہ دیا تھا؟
جواب:جی ہاں، طلاق بول دینے سے واقع ہوجاتی ہے، یہ نازک معاملہ ہے اس لئے شوہر نے زبان سے بول دیا میں طلاق دیتا ہوں طلاق واقع ہوگئی ۔ طلاق کے لئے دو لوگوں کا آپس میں بیٹھنا ، سمجھنا اور سنجیدگی سے طلاق دینا ضروری نہیں ہے ، یہ شوہر کا اختیاری معاملہ ہے وہ زبان سے بول دیا طلاق ہوگئی ۔ اور شوہر غصہ میں ہی عموما طلاق دیتا ہے ، کوئی بھی خوشی خوشی طلاق نہیں دیتا۔
سوال(3):کیا عورتیں اپنے مختلف قسم کے حقوق حکومت سے منوانے کے لیے مظاہرہ کر سکتی ہیں؟
جواب:شرعی طور پر مظاہرہ کرنے کی اجازت مردوں کو بھی نہیں ہے کیونکہ مظاہرے میں متعدد قسم کی شرعی خامیاں ہیں اور عورتوں کا معاملہ برعکس ہے ۔ ان کو"وقرن فی  بیوتکن" کے ذریعہ  اپنے گھروں میں ٹھہری رہنے  کا قرآن نے حکم دیاہےاس لئے ضرورت کے تحت ہی وہ گھر سے باہر نکلے گی اور عام حالات میں اپنے گھروں میں سکونت اختیار کرے گی ۔
یہاں پر یہ یاد رہے کہ انتظامی امور اور سماجی اصلاحات کے کام مردوں کے ذمہ ہیں خواہ ان امور کا تعلق مردوں سے ہو یا عورتوں سے جس کا مفہوم  قرآنی آیت "الرجال قوامون" سے مترشح ہے۔
المختصر عورتوں کےحقوق کے واسطے مردوں کے لیے پرامن مظاہرے شدید حاجت کی بنیاد پر وہ بھی جمہوری ملک میں جائز کہے جا سکتے ہیں مگر عورتوں کے لیے کسی قسم کا مظاہرہ روا نہیں ہوسکتا ہے۔جس اسلام نے عورتوں کو پیر پٹک کرچلنے سےمنع کیا ہے حتی کہ  سڑک پر آخری کنارے چلنے کا حکم ہے ، انہیں مظاہرہ کرنے کی  کیسے اجازت ہوسکتی ہے؟
سوال(4):ایک بہن نے مکہ سے نبی بوٹی منگوائی ہے وہ پوچھ رہی ہیں اس کو استعمال کیسے کرتے ہیں اور اسکا استعمال کرنا کیسا ہے؟
جواب:مکہ و مدینہ میں اجنبی دوکاندار ایک بوٹی بیچتے ہیں جس کا نام مریم بوٹی ہے  اور اس کو حاملہ عورت استعمال کرتی ہے تاکہ زچگی میں آسانی ہو۔
مریم بوٹی کی نسبت عیسی علیہ السلام کی طرف کی جاتی ہےاور خیال کیا جاتا ہے کہ اسے مریم علیہ السلام نے حضرت عیسی علیہ السلام کی ولادت کے وقت استعمال کیا تھا۔دراصل یہ نسبت اور خیال دونوں غلط ہیں یعنی مریم بوٹی کے تعلق سے جو بات کہی جاتی ہے وہ من گھڑت ہے اس کی کوئی حقیقت نہیں ہے ۔
جس عقیدہ و خیال سے مریم بوٹی کا استعمال کیا جاتا ہے سراسر بے دینی ، جہالت اور ضعیف الاعتقادی ہے اس لئے ایک مسلمان عورت کو اس بدعقیدگی سے دوری اختیار کرنا چاہئے ۔ مسلمان عورت کو زچگی کے عالم میں اللہ رب العالمین سے  دعائیں کرنی چاہئے اور تکلیف دور کرنے کے لئے دنیاوی جائز اسباب اختیار کرنا چاہئے جس سے آسانی ہو۔
سوال(5):کیا ہم حالت حیض میں قرآن لکھ سکتے ہیں، ہم نے قرآن لیا ہے جو لائٹ پرنٹ ہے، کیا ہم اسے اس وقت بھی گلوب پہن کر لکھ سکتے ہیں؟
جواب:عورتوں میں ایک غلط حرکت رواج پاگئی ہے وہ ہے قرآن شوقیہ لکھنا اور اس کو نیکی سمجھنا،آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ قرآن لکھنا ایک ضرورت ہے، یہ کوئی شوقیہ عمل نہیں ہے۔اور جبکہ زمانہ کمپیوٹرائزڈ ہوگیا ہے، ہاتھ کا لکھا نہیں چلتا، نہ کوئی پڑھتا ہے ایسے وقت میں ہاتھ سے قرآن لکھ کر ایسے مصحف کا ڈھیر لگایا جاتا جسے پڑھا نہیں جائے گا، دل سے پوچھیں کہ کیا یہ عمل درست ہے، اس سے قرآن کا کوئی حق ادا ہوتا ہے؟بلکہ کچھ دن بعد اس کو ضائع کرنا پڑے گا جو افسوسناک ہے۔
دنیا بھر میں ہزاروں لاکھوں سلفی ادارے ہیں، کہیں بھی مردوں والے اداروں میں یہ عمل نہیں ہے، مستند سلفی ادارے جو خواتین کے ہیں ان میں بھی یہ عمل نہیں ہےمگر پتہ کیسے بعض نسواں اداروں میں طالبات کے لئے یہ کیسے کورس میں شامل کیا گیا ہے اور خواتین کو اس کام کے لئے ابھارا جاتا ہے؟
میں سمجھتا ہوں اس کام پر روک لگنا چاہیے، اس سے بہتر ہے جتنا وقت قلم چلانے پر دیتے ہیں، اتنی دیر آیات حفظ کریں، یا تلاوت کریں یا تفسیر پڑھیں۔
سوال(6): پیر میں کچھ تکلیف تھی ، ایک ڈاکٹر سے دکھایا تو انہوں نے کہا کہ پیر کا حجامہ کردوں گا ، ٹھیک ہوجائے گا، میں بہت سی عورتوں کا حجامہ  بھی کرتا ہوں ، کیا مجھے اس ڈاکٹر سے حجامہ کرانا چاہئے ؟
جواب:آپ کی مراد ہے کہ کیا مرد ڈاکٹر سے پیر کا حجامہ کراسکتے ہیں تو اس کا جواب یہ ہے کہ حجامہ کرنے والی بہت سی خواتین موجود ہیں ، آپ حجامہ کرانا چاہتی ہیں تو کسی خاتون سے پیر کا حجامہ کروائیں ، اگر مرد ڈاکٹر پیر کا حجامہ کرے تو وہ پیر کو چھوئے گا، وہ حصہ ڈاکٹر کے پاس ننگا ہوگا اس لئے آپ کسی خاتون سے حجامہ کروائیں ۔
سوال(7): اگر شوہر نے دو طلاق دی ہو اور رجوع کرلیا ہو، پھر اس نے کہا کہ "دے تو دی ہے" کیا اس بات سے پھر طلاق ہوجائے گی ؟
جواب:اگر شوہر نے ایک طلاق دی رجوع کرلیا اور پھر دوسری طلاق دی اور رجوع کرلیا تو اس طرح سے دو طلاق کا اختیار شوہر سے ختم ہوگیا ہے لیکن اگراکٹھے دو طلاق دی تھی تو ایک ہی مانی جائے گی ۔ اگر شوہر یہ کہے کہ "دے تو دی ہے" تو یہ طلاق نہیں ہے ، یہ مہمل بات ہے اس سے طلاق مراد نہیں ہوگی ۔
سوال(8): کیا اس طرح کے کپڑے بچوں کو پہناسکتے ہیں جس پہ ہاتھی گھوڑا کی تصویر بنی ہوئی ہو؟
جواب:جاندار کی تصویر سے بڑے اور چھوٹے سبھی کو بچنا چاہیےخواہ یہ تصویر استعمال کی کسی بھی چیز میں ہو،اور ان کپڑوں کو بڑے چھوٹے سبھی استعمال کرنے سے بچیں جن میں جاندار کی تصویر بنی ہے۔
سوال(9)؛ ایک خاتون کی عمر 65 سال ہے، وہ تیس سال پہلے شوہر سے علاحدہ ہوکر میکے آگئی تھی مگر طلاق نہیں ہوئی تھی ، شوہر سے کوئی تعلق نہیں تھا ہاں ، کبھی کبھار وہ بیوی کے گھر آجاتا ہے مگر کسی قسم کا ربط و تعلق نہیں تھا، اب اس کے شوہر کا انتقال ہوگیا ہے تو کیا اس کو عدت گزارنی ہوگی؟
جواب:جب میاں بیوی کے درمیان طلاق، خلع یا فسخ نکاح نہیں ہوا تھا بلکہ بیوی اپنے میکے میں الگ رہتی تھی تو میاں بیوی کا رشتہ باقی تھا چاہے دونوں آپس میں ملتے ہوں یا نہیں ملتے ہوں، اور چاہے جتنے سال سے بھی الگ رہتے ہوں۔
اب جب شوہر وفات پاگیا ہے تو بیوی عدت کرے گی اور شوہر کی جائیداد میں حصہ بھی ملے گا،ساتھ ہی بیوی کو توبہ کرنا چاہیے کہ وہ شوہر سے بلا تعلق  ہوکرتیس سالوں سے  الگ رہ رہی تھی، شوہر کے لیے بھی اللہ سے مغفرت طلب کرے کیونکہ اس معاملہ میں وہ بھی گنہگار ہے۔
سوال(10): اگر کسی عورت کے ذمہ رمضان میں جماع کے سبب کفارے کے روزے ہوں اور ان روزوں کی ادائیگی  کرتے ہوئے درمیان میں کوئی عذر پیش آجائے مثلا بیماری ، یا حیض تو کیا پھر سے روزہ دہرانا ہوگا؟
جواب: اگر کسی عورت پر بطور کفارہ تسلسل کے ساتھ دو ماہ کے روزہ رکھنا واجب ہو اور روزہ رکھتے ہوئے کوئی شرعی عذر آجائے یعنی وہ بیمار ہوجائے یا حیض آجائے تو ان دنوں روزہ سے رک جانا ہے اور جب عذر ختم ہوجائے تو پھر سے روزہ رکھناشروع کردے اور پہلے جو روزہ رکھا تھا وہ بھی شمار کیا جائے گا،عذر کے سبب  درمیان میں انقطاع ہوجانے سے پہلے والے روزوں پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔
سوال(11):جب جمعہ کے دن خواتین  مسجدجاتیں ہیں تو جو چھوٹے بچے ہوتے مثلا چھ سال پانچ سال  کے ،وہ اکثر صف کے بیچ میں سو جاتے ہیں تو کیا سوئے ہوئے بچے کے بازو سے صف بناکر نماز ہوجائے گی  اور دوسری بات کہ یہی چھوٹے بچے اکثر ماؤں کو  دوران خطبہ مخاطب  بھی کرتے ہیں توکیا ماں جواب دے سکتی ہے  جبکہ دوران خطبہ بات کرنا منع ہے ؟
جواب:نماز میں صفوں کے درمیان خلا نہیں رکھنا ہے، صف کے درمیان بچہ رکھ کر نماز پڑھنے سے نماز تو ہوجائے گی مگر خلا تو پیدا ہوا۔
صف بندی میں قدم سے قدم ملا کر کھڑا ہونا ہے اس لیے بچے کو صف سے الگ رکھ سکیں تو بہتر ہے ورنہ حالت مجبوری میں پاس میں رکھ سکتے ہیں،
نماز کا مسئلہ نہیں ہے، نماز صحیح ہے۔
رہا خطبہ کے دوران باتیں کرنے کا تو آپ بولنے والے بچوں کو گھر پہ تربیت کریں کہ مسجد میں کیسے رہنا ہے۔خطبہ اہم موقع ہے جس وقت بالکل کچھ بھی نہیں بولنا ہے، بچہ مخاطب کرے تو اشارے سے چپ ہونے کو کہیں اور گھر پہ اچھی تربیت کریں کہ مسجد میں ایسی نوبت نہ آئے ، نماز کا شوق بھی دلائیں بلکہ کسی معمولی تحفہ کا وعدہ کریں اگر وہ مسجد میں خاموشی اختیار کرے تو یہ زیادہ کارگر نسخہ ہوگا۔  
سوال(12): بچے کے احرام کا کیا حکم ہے، بچے کا احرام باندھ لیا جائے اور عمرہ نہ کرسکے تو کفارہ دینا ہوگا اور کیا شرط کے ساتھ بچے کا احرام باندھ سکتے ہیں؟
جواب:پہلی بات تو یہ ہے کہ بچہ بھی حج و عمرہ کر سکتا ہے اور ظاہر سی بات ہے کہ حج و عمرہ کے لئے بچے کو بھی احرام باندھنا پڑے گا اور ممنوعات سے بچنا ہوگا۔لہذا بچے کے سر پرست کو چاہیے کہ جب بچے کے لیے احرام سہل ہو اسی وقت اس کو احرام باندھے ورنہ نہیں۔
دوسری بات یہ ہے کہ کسی نے  بچے کو احرام باندھ دیا مگر اس کی پابندی مشکل ہوگئی تو احرام کھول سکتے ہیں اور کوئی دم نہیں ہے کیونکہ بچہ مکلف نہیں ہے اور شرط کے ساتھ بچے کو احرام باندھنے کی ضرورت نہیں ہے، سہولت دیکھ کر احرام باندھے یا احرام نہ باندھے ۔
سوال(13):ایک والدہ کا سوال ہے کہ اس  کے بیٹے کا انتقال ہو گیا ہےکیا وہ اپنے بیٹے کے بچوں پر صدقہ کر سکتی ہے یعنی  اپنے صدقے کے پیسے بیٹے کے بچوں کو یا اپنی بہو کو دے دے  تاکہ وہ اس سے اپنی ضروریات پوری کر سکیں اور اپنے بچوں کی تعلیم پر خرچ کریں،صدقہ کرتے وقت ان کی نیت فوت شدہ بیٹے کی طرف سے صدقہ کرنا بھی ہوتا ہے کہ اللہ اسے بھی اس صدقے کا اجر دے؟
جواب:اپنی بہو اور پوتے پوتیوں پر جو محتاج ہوں صدقہ کی نیت سے خرچ کرنا جائز ہے بلکہ اجر کے اعتبار سے دہرا اجر ملے گا، ایک صدقہ کا اور دوسرے رشتہ دار پر خرچ کرنے کا اور اس میں بھی کوئی حرج نہیں ہے کہ فوت شدہ بچے کی طرف سے  ان لوگوں پرصدقہ کیا جائے ۔
نبی ﷺ کا فرمان ہے: الصَّدقةُ على المسْكينِ صدقةٌ، وعلى ذي القرابةِ اثنتان: صدقةٌ وصلةٌ(صحيح ابن ماجه:1506)
ترجمہ:مسکین و فقیر کو صدقہ دینا (صرف) صدقہ ہے، اور رشتہ دار کو صدقہ دینا دو چیز ہے، ایک صدقہ اور دوسری صلہ رحمی۔
سوال(14): کاسمیٹولوجی ڈاکٹر (خوبصورتی والے ) سے جلد ی علاج یا لیزر سے بال ریموو کرنا اور دوسرا علاج کروانا جائز ہے ؟
جواب: کسی عورت کو جلد سے متعلق کوئی تکلیف یا بیماری ہے تو اس بیماری کا علاج کاسمیٹولوجی ڈاکٹر سے کراسکتی ہے ، اس علاج میں حرج نہیں ہے تاہم عورت کو کسی لیڈی ڈاکٹر سے ہی علاج کرانا چاہئے ، لیڈی ڈاکٹر نہ ملے تو بوقت ضرورت مرد طبیب سے اپنا علاج کرا سکتی ہے۔
جہاں تک جسم کے داغ دھبے ، اور بال زائل کرنے کے لئے لیزر کا استعمال کرنے کا مسئلہ ہے تو یہ عمل بھی جائز ہے مگر کسی خاتون کے لئے جائز نہیں کہ اپنے جسم کے کسی جگہ کا بال کسی مرد ڈاکٹرسے زائل کرائے یا اس سے جلدی تجمل کا کام کروائے ، یہ عمل صرف لیڈی ڈاکٹر سے ہی کرانا جائز ہے ۔ اور دوسری بات یہ ہے کہ ایک عورت کے لئے دوسری عورت کا جو ستر ہے اس کی صفائی ستھرائی کا کام خود سے کرنا ہے نہ کہ کسی بیوٹی پارلرسے کرانا جیساکہ آج کل خاتون زیرناف کی صفائی دوسری عورتوں سے کراتی ہے ، یہ جائز نہیں ہے۔
سوال (15): وہ کس قسم کے چار برتن ہیں جن کے استعمال سے منع کیا گیا ہے؟
جواب:صحیح مسلم کی روایت ہے۔عن ابن عباس ، قال: " نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن الدباء والحنتم والمزفت والنقير ".(صحیح مسلم:17)
ترجمہ:‏‏‏‏ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، منع کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تونبے اور سبز برتن اور لاکھی اور چوبین سے۔
ان برتنوں کی تفصیل حدیث کی روشنی میں اس طرح آئی ہے۔
عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ، قَال: سَمِعْتُ زَاذَانَ يَقُولُ: سَأَلْتُ ابْنَ عُمَرَ عَمَّا نَهَى عَنْهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنَ الْأَوْعِيَةِ، أَخْبِرْنَاهُ بِلُغَتِكُمْ وَفَسِّرْهُ لَنَا بِلُغَتِنَا فَقَالَ: " نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ الْحَنْتَمَةِ وَهِيَ الْجَرَّةُ، وَنَهَى عَنِ الدُّبَّاءِ وَهِيَ الْقَرْعَةُ، وَنَهَى عَنِ النَّقِيرِ وَهُوَ أَصْلُ النَّخْلِ يُنْقَرُ نَقْرًا أَوْ يُنْسَجُ نَسْجًا، وَنَهَى عَنِ الْمُزَفَّتِ وَهِيَ الْمُقَيَّرُ، وَأَمَرَ أَنْ يُنْبَذَ فِي الْأَسْقِيَةِ (سنن ترمذی:1868، صححہ البانی)
ترجمہ:عمرو بن مرہ سے روایت ہے ، انہوں نے کہازاذان کہتے ہیں کہ میں نے ابن عمر رضی الله عنہما سے ان برتنوں کے متعلق پوچھا جن سے آپ نے منع فرمایا ہے اور کہا: اس کو اپنی زبان میں بیان کیجئے اور ہماری زبان میں اس کی تشریح کیجئے، انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے «حنتمة» سے منع فرمایا ہے اور وہ مٹکا ہے، آپ نے «دباء» سے منع فرمایا ہے اور وہ کدو کی تونبی ہے۔ آپ نے «نقير» سے منع فرمایا اور وہ کھجور کی جڑ ہے جس کو اندر سے گہرا کر کے یا خراد کر برتن بنا لیتے ہیں، آپ نے «مزفت» سے منع فرمایا اور وہ روغن قیر ملا ہوا (لاکھی) برتن ہے، اور آپ نے حکم دیا کہ نبیذ مشکوں میں بنائی جائے ۔
اس حدیث میں  ان چاروں برتنوں کی کیفیت بیان کی گئی ہے جس کا خلاصہ یہ ہے ۔
الدباء والحنتم والمزفت والنقير
الدباء: یہ کدو کا برتن ہے، جب کدو سوکھ جاتا تو اس کے اندر کا دانہ نکال کر اسے برتن بنالیا جاتا۔
الحنتم: یہ سبز رنگ کا مٹکا ہے۔
النقیر:کھجورکی درخت کی جڑ کو کھوکھلا کرکے بنایا جانے والا برتن ۔
المزفت: روغنی برتن جس پہ تارکول ملا ہوتا تاکہ شراب نہ گرے۔
یہ چار قسم کے برتن شراب رکھنے کے لئے استعمال کئے جاتے تھے اس لئے ان کو استعمال سے منع کیا گیا پھر یہ حکم منسوخ کردیا گیا اور ان برتنوں کے استعمال کی اجازت دیدی گئی جیساکہ ترمذی کی مندرجہ ذیل حدیث سے معلوم ہوتا ہے ۔
بریدہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إِنِّي كُنْتُ نَهَيْتُكُمْ عَنِ الظُّرُوفِ، وَإِنَّ ظَرْفًا لَا يُحِلُّ شَيْئًا وَلَا يُحَرِّمُهُ، وَكُلُّ مُسْكِرٍ حَرَامٌ (ترمذی:1869، صححہ البانی)
ترجمہ:میں نے تمہیں (اس سے پہلے باب کی حدیث میں مذکور) برتنوں سے منع کیا تھا، درحقیقت برتن کسی چیز کو نہ تو حلال کرتے ہیں نہ حرام (بلکہ) ہر نشہ آور چیز حرام ہے۔





 

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کوئی تبصرہ کرنا چاہتے ہیں تو مثبت انداز میں تبصرہ کر سکتے ہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔