بنت حوا کے مسائل اور
ان کا شرعی حل (قسط:32)
جدہ دعوہ سنٹر، حی السلامہ ، سعودی عرب
13/02/2023
سوال(1): ایک عورت جو صاحب استطاعت ہے، اس کا شوہر حج نہیں کررہا ہے کیا وہ اپنے بھائی کے ساتھ حج کرسکتی ہے یا شوہر ہی بیوی کو حج کرائے گا جیساکہ ہمارے یہاں کا ماحول ہے ، شوہر حج نہ کرائے تو بیوی حج نہیں کرسکتی ہے ۔اور کیا صاحب استطاعت بیوی شوہر کو چھوڑ کراپنے بھائی کے ساتھ حج کرتی ہے ، تو وہ گنہگارہوگی؟
جواب:اللہ نے فرمایا ہے کہ جو اس کے گھر کی طرف جانے کی طاقت رکھتا ہو اس پر حج فرض ہے ۔ اس فرمان الہی کی روشنی میں اگر بیوی کو بیت اللہ تک جانے کی مالی اور جسمانی استطاعت ہے تو اس پر حج فرض ہے اس عورت کو بلاتاخیرحج کرنا پڑے گا اور حج کے سفر کے لئے عورت کو محرم چاہئے ، محرم کے طور پر عورت شوہر کو یا بھائی کو یا بیٹا کویا باپ کو، ان میں سے کسی کو اپنےساتھ لے جاسکتی ہے یعنی ضروری نہیں ہےکہ بیوی شوہر کے ساتھ ہی حج کے لئے سفر کرے وہ کسی بھی محرم کے ساتھ حج پہ جاسکتی ہے اور وہ گنہگار نہیں ہوگی کیونکہ یہ فریضہ ہے جو بیوی کے ذمہ ہے، نہ کہ شوہر کے ذمہ ۔
اور یہ بھی ضروری نہیں ہے کہ شوہر ہی بیوی کو حج کرائے۔ دوسرے الفاظ میں یہ کہہ سکتے ہیں کہ اگر شوہر بیوی کو اپنے پیسے سے حج کرادے تویہ اس کا احسان ہے مگر شوہر کے ذمہ بیوی کا حج کرانا نہیں ہے اور جس بیوی پر حج فرض ہوجائے وہ شوہر کےساتھ یا شوہر کے علاوہ کسی اور محرم کے ساتھ حج کرسکتی ہے۔
سوال(2):ایک بہن کو بہت دنوں سے درد کی شکایت ہے اور وہ دردناف کے نیچے نجاست کی جگہ پر ہے کیا وہ اس جگہ پر دم کرسکتی ہے ؟
جواب:اس میں کوئی حرج نہیں ہے کہ وہ بہن مسنون اذکار پڑھ کر جہاں درد ہورہا ہووہاں پھونک مارے ، پڑھنا تو زبان سے ہی ہے ، درد والی جگہ صرف پھونکنا ہے اور اس میں کوئی حرج نہیں ہے ۔ عثمان بن ابی العاص ثقفی سے روایت ہے، انہوں نے شکوہ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک درد کا اپنے بدن میں جو پیدا ہو گیا تھا جب سے وہ مسلمان ہوئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
ضَعْ يَدَكَ عَلَى الَّذِي تَأَلَّمَ مِنْ جَسَدِكَ، وَقُلْ بِاسْمِ اللَّهِ ثَلَاثًا، وَقُلْ سَبْعَ مَرَّاتٍ أَعُوذُ بِاللَّهِ، وَقُدْرَتِهِ مِنْ شَرِّ مَا أَجِدُ وَأُحَاذِرُ (صحیح مسلم:5737)
ترجمہ:تم اپنا ہاتھ درد کی جگہ پر رکھو اور کہو: «بسم الله» تین بار، اس کے بعد سات بار کہو «أَعُوذُ بِاللَّهِ وَقُدْرَتِهِ مِنْ شَرِّ مَا أَجِدُ وَأُحَاذِر» ۔ یعنی میں پناہ مانگتا ہوں اللہ تعالیٰ کی برائی سے اس چیز کی جس کو پاتا ہوں میں اور جس سے ڈرتا ہوں۔
اسی طرح یہ بھی صحیح ہے کہ مسنون اذکار پڑھ کر ہاتھ پر پھونک مارلیں اور اپنے ہاتھ کو چہرہ ، بدن اور درد والی جگہ پر پھیر لیں نیز پانی پر دم کرکے بھی پینا جائز ہے ۔
سوال(3):ایک بہن کو سفر پہ جانا ضروری ہے مگر اس کا کوئی محرم نہیں ہے تو کیا ایک دوسری بہن کو اس کا ساتھ دینا چاہئے یا اپنے گھر میں رہنا چاہئے ؟
جواب:جس بہن کو سفر کے لئے محرم نہیں ہے اور سفر کرنا ضروری ہے تو مجبوری میں بغیر محرم کے اکیلی سفر کرسکتی ہے ، رہا مسئلہ ایک دوسری بہن کا اس کے ساتھ ہونا تو چونکہ عورت کسی عورت کا محرم نہیں بن سکتی ہے اس لئے شرعا تو فائدہ نہیں ہے لیکن سفر میں بھی اس بہن کو کسی کی سخت ضرورت ہو تو احسان وسلوک کے طور پر ساتھ دینا جانا جائز ہے اور دوسری بہن بھی عذرکے سبب بغیر محرم کے سفر کرنے کی وجہ سے گنہگار نہیں ہوگی ۔
یہاں پر ایک اور بات جان لی جائے کہ جو ضرورت اپنے شہر میں پوری ہوسکتی ہو اس کے لئے دوسرے شہر جانا جائز نہیں ہے اور سامان وغیرہ کی خرید وفروخت آج کل آن لائن ہونے کی وجہ سے سہولت ہوگئی ہے اس لئے ناگزیر ضرورت کے تحت ہی سفر کرے ۔ دوسری بات یہ ہے کہ بہت ساری عورتوں کا کوئی نہ کوئی محرم موجود ہوتا ہے مگر آپسی تعلقات اچھے نہیں ہونے کی وجہ سے ان سے بات چیت بند کربیٹھتی ہے حتی کہ کتنی عورت کا شوہر موجود ہوتا ہے مگر آپسی رنجش میں شوہر کے بغیر سفر کرتی ہے ایسی صورت کو عورت کو اپنے اختلاف بھول کر میل جول اورتعلقات استوار کرلیناچاہئےکیونکہ قطع تعلق گناہ کبیرہ ہے پھر محرم کے ساتھ سفر کرنا چاہئے۔
سوال(4): ایک عورت کا انتقال ہواہے، اس کا ترکہ جو زیور اور نقدی کی شکل میں تھا تقسیم ہوگیا ہے۔میت کا ایک گھر بھی ہے، اس میں گھر کے لوگ اورشوہر رہتے ہیں، باپ کی وجہ سے بیٹے گھرتقسیم نہیں کرنا چاہتے کہ کیا بیٹوں کایہ فیصلہ صحیح ہے ؟
جواب:میت کے انتقال کے بعد اس کی وراثت کو تدفین کے بعد فورا تقسیم کردیا جائے گا کیونکہ حقوق کا معاملہ ہے ، ہمارے یہاں عموما تقسیم وراثت میں تاخیر کی جاتی ہے جو شریعت سے غفلت اور حقوق میں لاپرواہی کے سبب ہے یا مجبوری میں مشترکہ فیملی سسٹم کے سبب ۔ عورت کے انتقال پرجب اس کے زیورات اور نقدی تقسیم کئے گئے اسی وقت گھر بھی تقسیم ہوجانا تھا۔میت کے ترکہ کو تقسیم کرتے وقت اس کےتمام ترکہ کو جمع کرکے وراثت کے نظام کے تحت وارثوں میں تقسیم کیا جائے گا۔
مذکورہ مسئلہ میں گھر کی تقسیم میں باپ کی وجہ سے جو تاخیر کی جارہی ہے وہ بالکل صحیح نہیں ہے ۔ تقسیم وراثت میں باپ کا گھر میں رہنے یا نہ رہنے سے تعلق نہیں ہے کیونکہ وہ ترکہ ہے جو باپ کی نہیں بیوی کی ملکیت تھی ۔اس وجہ سے یہاں باپ کا خیال کرنا اہم نہیں ہے بلکہ وقت پر وارثوں کے درمیان میت کی جائیداد کی منصفانہ تقسیم اہم ہے ۔ وراثت کی تقسیم کا مطلب ہی یہ ہے کہ میت کی جائیداد اس کی تدفین کے بعد تقسیم کردی جائے تاکہ حقداروں کو وقت پر اور صحیح سے حق مل جائے ۔ آج مکان صحیح سالم ہے اوراس کی مالیت زیادہ ہےلیکن کل یہی مکان گر جائے ، ٹوٹ جائے یا کسی فتنہ اورحادثہ کاشکارہوجائے اور تمام وارثوں کو اس کا حق نہ مل سکے تو اس کا ذمہ دار کون ہوگا؟ اس لئے بلاخیر اس گھرکو بھی تقسیم کردیا جائے اور باپ اپنے حصے کی جگہ میں رہے گا یا جگہ نہ ہو تو بیٹے کے ساتھ رہے گا ۔
سوال(5):رمضان کے فرض روزے جو حیض یا نفاس کی وجہ سے چھوٹ گئے تھے کیا رجب میں ان روزوں کی قضا کرناممنوع ہے اور اس ماہ میں ایام بیض کی نیت سے روزہ رکھ سکتے ہیں؟
جواب:کسی عذر کی وجہ سےجس سے رمضان کا روزہ چھوٹ جائے وہ اگلا رمضان آنے سے قبل کبھی بھی اور کسی ماہ میں اس کی قضا کرسکتا ہے ، رجب میں بھی اور شعبان میں بھی قضا کرسکتا ہے ، کسی ماہ میں روزہ قضا کرنے کی ممانعت نہیں ہے، صرف بعض ایام میں روزہ رکھنے کی ممانعت ہے جیسے جمعہ کا اکیلاروزہ رکھنا منع ہے ، عیدین اور ایام تشریق میں بھی روزہ رکھنا منع ہے۔ اور جو بھائی یا بہن ایام بیض کا روزہ پہلے سے رکھتے آرہے ہیں وہ اس ماہ رجب میں بھی ایام بیض کا روزہ رکھیں گے لیکن اگر کوئی اس مہینہ میں روزہ رکھنے کو افضل سمجھ کر صرف اسی ماہ میں ایام بیض کا روزہ رکھے تو غلط ہے ۔
سوال(6):کیا بیٹی کو صدقہ دینے کی فضیلت میں یہ حدیث صحیح ہے ؟رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:کیا میں تم کو افضل صدقہ نہ بتا دوں؟ اپنی بیٹی کو صدقہ دو جو (شوہر کی موت یا طلاق کی وجہ سے )تمہارے پاس آ گئی ہو اور تمہارے علاوہ اس کا کوئی کمانے والا بھی نہ ہو۔(سنن ابن ماجہ:3667)
جواب:ابن ماجہ میں یہ حدیث ان الفاظ کے ساتھ وارد ہے:
عَنْ سُرَاقَةَ بْنِ مَالِكٍ , أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَ:أَلَا أَدُلُّكُمْ عَلَى أَفْضَلِ الصَّدَقَةِ؟ ابْنَتُكَ مَرْدُودَةً إِلَيْكَ لَيْسَ لَهَا كَاسِبٌ غَيْرُكَ.
ترجمہ:سراقہ بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:کیا میں تم کو افضل صدقہ نہ بتا دوں؟ اپنی بیٹی کو صدقہ دو، جو تمہارے پاس آ گئی ہو، اور تمہارے علاوہ اس کا کوئی کمانے والا بھی نہ ہو۔
اس حدیث کو شیخ البانی نے ضعیف کہا ہے ۔ (حوالہ کے لئے دیکھیں ضعیف ابن ماجہ :3667)
گویا بیٹی کی فضیلت میں یہ حدیث ثابت نہیں ہے لیکن چونکہ وہ مطلقہ یا بیوہ ہونے کے سبب محتاج و نادار ہے اور اس کے بچےبھی ہوں تو بچے یتیم کہلائیں گے ایسے میں ان یتیموں اور ضرورت مند بیٹی پر خرچ کرنا بڑے اجر کا کام ہے ۔
سوال(7): کیا سونے کے وقت حیض والی عورت وضو کرسکتی ہے ؟
جواب:صحیح بخاری(282) و مسلم(305) میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ اگر جنابت میں ہوتے تو کھانے سے پہلے یا سونے سے پہلے نماز کی طرح وضو کرتے ، اس حدیث پر قیاس کرتے ہوئے کہہ سکتے ہیں کہ حائضہ بھی وضو کرسکتی ہے ۔ سونے کے وقت وضو کرکے سونا اجر کا باعث ہے تو حائضہ بھی وضو کرکے سو سکتی ہے۔شیخ عبدالرحمن بن عبداللہ السحیم رحمہ اللہ سے سوال کیا گیا کہ کیا حائضہ عورت وضو کرکے اپنے مصلی میں بیٹھ سکتی تاکہ ذکرکرے اور اسی طرح قیام اللیل کے وقت حائضہ کا وضو کرنا اوراپنے مصلی میں ذکر کے لئے بیٹھنا جائز ہے تو شیخ نے جنبی والی روایت سے استدلال کرتے ہوئے جائز کہا ہے اور بطور استشہاد فتوی کے آخر میں سنن دارمی کے تین آثارجوحکم بن عتیبہ، عطاء اور مکحول سے مروی ہیں بیان کئے جن میں مذکور ہے کہ حائضہ عورت ہرنماز کے وقت وضو کرسکتی ہے تاکہ وہ اللہ کا ذکر اور دعاکرے ۔شیخ صالح فوزان حفظہ اللہ سے سوال کیا گیا کہ کیا حائضہ عورت کے لئے سونے کے وقت وضو کرنا مستحب ہے تو شیخ نے جواب دیا کہ ہاں ،جب جنبی اور حائضہ سونے کا ارادہ کرے تومستحب ہے کہ کم ازکم وضو کرے کیونکہ وضو سے حدث(ناپاکی) میں تخفیف ہوتی ہے۔
سوال(8):کہیں کہیں عورتوں کے اعتکاف کے لئے مساجد میں اس طرح پردہ لٹکائے جاتے ہیں جس سے الگ الگ گھر یا خیمہ کی طرح بن جاتا ہے اور کہیں تو کوئی پردہ نہیں ہوتا ، اعتکاف کرنے والی عورتیں سب ایک دوسرے کے سامنے چہرہ کھولے رکھتی ہیں جبکہ میں نے سنا ہے کہ اعتکاف میں چہرہ دکھانا منع ہے اور اعتکاف میں تنہائی ضروری ہے،ان باتوں کی حقیقت بتائیں۔
جواب: عورتوں کا اعتکاف بھی مسجد میں ہی ہوگا، گھر میں اعتکاف جائز نہیں ہے اور عورت کا عورت سے چہرے کا پردہ نہیں ہے خواہ عورت اعتکاف میں ہی کیوں نہ ہویعنی یہ ضروری نہیں ہے کہ اعتکاف کی حالت میں ایک عورت دوسری عورت سے اپنا چہرہ چھپائے ۔ عورت کے اعتکاف کے لئے سب سے زیادہ ضروری یہ ہے کہ مسجد میں مردوں سے الگ تھلگ عورتوں کا مخصوص حصہ ہو جہاں وہ اعتکاف کرے ، اس مخصوص حصے میں اعتکاف کرنے والی عورتیں چاہیں تو الگ الگ اپنے لئے کپڑ ااور پردہ وغیرہ سے خیمہ کی شکل بنالیں جیسے ازواج مطہرات مسجد نبوی میں اپنا اپنا خیمہ لگالیا کرتی تھیں ۔نبی ﷺ کے متعلق بھی آتا ہے کہ آپ کا بھی خیمہ ہوتا تھا مگر یہ ضروری امر نہیں ہے، مسجد میں ٹھہرنا ہی تنہائی ہے کیونکہ مسجد میں ٹھہرنے والا بستی اور لوگوں سے الگ ہوتا ہے ۔ اگر خیمہ لگانے میں آسانی ہو تو خیمہ لگانا چاہئے تاکہ مزید تنہائی حاصل ہوجائے عبادت کے لئے لیکن مسجد میں خیمہ لگانے سے نمازیوں کے لئے مشکل پیدا ہو تو خیمہ نہیں لگانا چاہئے ۔مسجد کے کسی گوشے میں بیٹھ کر عبادت ، تلاوت اور ذکر و اذکار کرسکتے ہیں، یہی کافی ہے یعنی خیمہ ضروری نہیں ہے۔مسجد میں جب پانچ اوقات اور تراویح کی نمازہوتی ہے تو سارے نمازی بشمول معتکف ایک ساتھ جمع ہوتے ہیں اور جمعہ کے دن تو بستی کے سارے لوگ مسجد میں جمع ہوتے ہیں جس سے تنہائی نہیں رہتی اور اس سے اعتکاف پر کوئی اثر نہیں پڑتا ہے کیونکہ اعتکاف کی اصل عبادت کی نیت سے مسجد میں وقوف کرنا ہےاور یہی کافی ہے۔
سوال(9): ہروقت عورتوں کے لئے کوئی نہ کوئی کام ہوتا ہے ، صبح کے وقت بھی شوہرکو آفس اور بچوں کو سکول بھیجنے کی تیاری اور دیگرمشاغل تو کیا عورتیں فجر کی نماز کے بعد ان کاموں سے فارغ ہوکراشراق کی نماز ادا کرے تو اشراق کی فضیلت حاصل ہوگی؟
سوال(10): ایک عورت نے ٹسٹ ٹیوب بیبی ( ivf )کا علاج کرایا ہے ، اس کے لئے جسم پر پانی بہانا توصحیح ہے مگر سر پر پانی نہیں بہا سکتی ہے ۔ مسئلہ یہ ہے کہ رحم میں انجکشن کے ذریعہ جو منی رکھی گئی ہے اس کی وجہ سے غسل کرنا پڑے گا اور کیسے غسل کرے گی ؟
جواب: نظر بد سے حفاظت اور حمل کو نقصان نہ پہنچے اس نیت سے حاملہ عورت اپنے پیٹ پر کالا دھاگہ باندھتی ہوگی ۔ یہ جہالت اور بے دینی کی وجہ سےہے، اسلام میں برکت کے حصول یا شفا کی نیت سے بدن پر کچھ لٹکانا جائز نہیں ہے ۔اس طرح کی کوئی چیز جسم پر کہیں بھی لٹکائی جائے یا پہنی جائے وہ تعویذ میں شمار کی جائے گی اور تعویذلٹکانا شرک ہے ۔نبی ﷺ کا فرمان ہے: مَن عَلَّق تميمةً فقد أشرَكَ(صحيح الجامع:6394)
ترجمہ:جس نے تعویذ لٹکایا اس نے شرک کیا۔
اس تعویذ میں مروجہ تعویذجو عموما گردن میں لٹکایا جاتا ہے وہ اور اس جیسی کوئی چیز دھاگہ، کڑا، چھلہ سب شامل ہیں۔
سوال(12):چند عورت مل کر گھر میں جماعت سے نماز پڑھے تو اشراق کی نیت سے نماز پڑھ سکتی ہے؟
جواب: اصل جماعت والی نماز وہ ہے جو مسجد میں ادا کی جاتی ہے ، کسی عورت کے لئے آسانی ہو تو وہ مسجد میں حاضرہوکر جماعت سے نماز پڑھ سکتی ہے ، ورنہ اپنے گھر میں اکیلی پڑھے اور اور عورت کی نماز گھر میں افضل ہے ۔ گھر میں چند عورتیں ہوں اور وہ جماعت بناکر فجر کی نماز اور دیگر نمازیں ادا کرے تو اچھی بات ہے ، عورت بھی جماعت بناکر نماز پڑھ سکتی ہے اس کا جواز ملتا ہے ۔جہاں تک فجر کی جماعت اور اشراق کا مسئلہ ہے تو عورت چاہے اکیلی فجر کی نماز پڑھے یا چند عورتیں مل کرجماعت سے نماز پڑھے پھر اس جگہ بیٹھی اللہ کا ذکر کرتی رہے یہاں تک کہ سورج نکل آئے اور کچھ بلند ہوجائے تو دورکعت ادا کرے ، اس میں کوئی حرج نہیں ہے ۔اللہ بہتر بدلہ دینے والا ہے ۔
سوال(13): بیوی سو رہی ہو اور شوہر پاس آکر ڈس چارج کرلے اور بیوی پہ منی کا ایک قطرہ بھی نہ گرے تو کیا بیوی کو غسل کرنا پڑے گا؟
جواب:اگر بیوی نیند میں ہو، شوہر بیوی کے جسم سے فائدہ اٹھا کر منی خارج کرلے لیکن بیوی کی شرمگاہ میں دخول نہ کرے تو بیوی پر غسل نہیں ہوگا، صرف شوہر پر غسل ہوگاتاہم شوہر کو چاہئے کہ شہوت کی تکمیل مشروع طریقے سے کرے یعنی جماع کے ذریعہ ۔
سوال(14):اگر کسی عورت کو برص کی بیماری ہو تو اس کے ہاتھ کا بنا ہوا کھانا کھا سکتے ہیں جیسا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم برص ، دیوانگی اور کوڑھ جیسے مرض سے پناہ مانگتے تھے؟
اس حدیث کی روشنی میں کوئی شک نہیں ہے کہ برص بری بیماری ہے جو متعدی بھی مانی جاتی ہے اور عموما لوگ ایسے مریض سے تنفر اختیار کرتے ہیں لیکن نبی ﷺ نے کوڑھ کی طرح برص والوں سے دور بھاگنے کی تعلیم نہیں دی ہے۔ ساتھ ہی ایک مسلمان کا عقیدہ ہے کہ کوئی بیماری آپ خود کسی کو منتقل نہیں ہوتی ہے ، ہاں متعدی امراض سے احتیاطی تدبیر کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔ برص کی بیماری میں مبتلا عورت کے ہاتھ کا بناہوا کھاناکھانے میں کوئی حرج نہیں ہے ، اس کے ساتھ بیٹھنے اور کھانے پینے میں کوئی مسئلہ نہیں ہے ، ہاں برص والی لڑکی سے شادی میں احتیاط کرتے ہیں تو کوئی حرج نہیں ہے ۔ برص لاعلاج بھی نہیں ہے اس کا علاج ہوتا ہے اور مریض کو شفا ملتی ہے اس لئے اس کا بہتر علاج کرایا جائےاور اس سے شادی بھی کی جاسکتی ہے ۔
سوال(15):آج کی میڈیکل سائنس یہ کہتی ہیکہ اپنی فرسٹ کزن سے شادی کرنا بچوں کیلئے نقصان دہ ہے یعنی بچے اپاہچ وغیرہ پیدا ہوتے ہیں اور یہ بات عام مشاہدے میں بھی آتی ہے،اس بارے میں اسلام کا حکم کیا ہے؟
جواب:شادی کے معاملے میں ہمیں اسلام دیکھنا ہے، اللہ نے ہمیں جو حکم دیا ہے وہ حکم انسانی مصلحت ، حکمت اور ضرر سے خالی فائدے پر منحصر ہے۔ میڈیکل سائنس کی یہ بات اس معاملے میں قابل قبول نہیں ہے کیونکہ وہ ظن وگمان ہے۔ بہت سارے کیس میں ڈاکٹر ماں کے پیٹ کے بچہ کو گرانے کا مشورہ دیتے ہیں کہ یہ بچہ ناقص پیدا ہوگا ، یا بچے کو دماغ نہیں ہوگا وغیرہ مگر اس کے برعکس ہوتا ہے۔اس لئےکزن سے شادی کو نقصان دہ ماننامحض گمان ہے ، ہمیں اللہ کے حکم پر عمل کرنا ہے جو علم یقین ہے۔ اگر بسا اوقات کہیں کزن سے شادی پربچوں میں عذریا موروثی بیماری نظر آتی ہے تو وہ اللہ کی طرف سے ہے، وہ جس کو جیسے چاہے پیدا کرےاور یہ خیال نہیں کرنا ہےکہ اپنے کزن سے شادی کی اس لئے ایسا ہوا ۔
صحت اور بیماری اللہ کی طرف سے ہے وہ جسے چاہتا ہے کامل صحت کے ساتھ پیدا کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے معذور مثل اندھا، کانا، گونگا، لنگڑااور دیوانہ بناکر پیداکرتا ہے، اس میں اللہ کی طرف سے بندوں کے لئے آزمائش ہے اور یہ دنیا آزمائش کی جگہ ہے ۔ ایک مسلمان لڑکا دین وایمان کی بنیاد پر کسی بھی لڑکی سے شادی کرسکتا ہے جس سے اس کا نکاح کرنا حلال ہے خواہ وہ خاندان کی لڑکی ہو یا خاندان سے باہر کی لڑکی ہو۔ مذکورہ ظنی سائنسی فکرکی وجہ سےکزن یا فرسٹ کزن سے شادی نہ کرنے کا تصور غیراسلامی ہے اس تصور کا خاتمہ ہونا چاہئے ۔
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کوئی تبصرہ کرنا چاہتے ہیں تو مثبت انداز میں تبصرہ کر سکتے ہیں۔
اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔