مشرک
کے لئے دعا، سابقہ امت کی عبادات، حجاب، مشورہ اور استخارہ سے متعلق سوالوں کے
جواب
میرے کچھ سوالات ہیں جن کے جوابات قرآن وحدیث کی روشنی میں چاہئے۔
(۱) ہم جانتے ہیں کہ مشرک کی موت کے بعد اس کی ہدایت اور مغفرت کے لئے دعا نہیں کرسکتے ہیں تو کیا اس کی زندگی میں کرسکتے ہیں ؟
جواب(۱): ہدایت اور مغفرت کی دعا میں فرق ہے ۔ مشرک کی زندگی میں ہدایت کی دعا کرسکتے ہیں جیساکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوجہل اور حضرت عمر کے لئے ہدایت کی دعا فرمائی لیکن مشرک کی زندگی میں یا اس کے مرنے کے بعد اس کی مغفرت کے لئے دعا نہیں کرسکتے ہیں ۔ اللہ کا فرمان ہے : مَا كَانَ لِلنَّبِيِّ وَالَّذِينَ آمَنُوا أَن يَسْتَغْفِرُوا لِلْمُشْرِكِينَ وَلَوْ كَانُوا أُولِي قُرْبَىٰ مِن بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّهُمْ أَصْحَابُ الْجَحِيمِ (التوبة:113)
جواب(۲): ہاں ، سابقہ امتوں میں بھی نماز، روزہ اور زکوۃ جیسی عبادات موجود تھیں جیساکہ اللہ تعالی نے انبیاء کے حوالے سے قرآن میں تذکرہ کیا ہے ۔
ترجمہ:اور اس نے مجھے بابرکت کیا ہے جہاں بھی میں ہوں ، اور اس نے مجھے نماز اور زکوۃ کا حکم دیا ہے جب تک بھی میں زندہ رہوں ۔
ابراہیم علیہ السلام کے متعلق اللہ کا فرمان ہے:رَبِّ اجْعَلْنِي مُقِيمَ الصَّلاَةِ وَمِن ذُرِّيَّتِي رَبَّنَا وَتَقَبَّلْ دُعَاء{إبراهيم:40}
ترجمہ:اے میرے پالنے والے! مجھے نماز کا پابند رکھ اور میری اولاد سے بھی ، اے ہمارے رب میری دعا قبول فرما ۔
شعیب علیہ السلام کے متعلق اللہ کا فرمان ہے:قَالُواْ يَا شُعَيْبُ أَصَلاَتُكَ تَأْمُرُكَ أَن نَّتْرُكَ مَا يَعْبُدُ آبَاؤُنَا أَوْ أَن نَّفْعَلَ فِي أَمْوَالِنَا مَا نَشَاء إِنَّكَ لَأَنتَ الْحَلِيمُ الرَّشِيدُ{هود:87}
ترجمہ:انہوں نے جواب دیا کہ اے شعیب! کیا تیری صلاۃ تجھے یہی حکم دیتی ہے کہ ہم اپنے باپ دادوں کے معبودوں کو چھوڑ دیں اور ہم اپنے مالوں میں جو کچھ چاہیں اس کا کرنا بھی چھوڑ دیں تو تو بڑا ہی با وقار اور نیک چلن آدمی ہے ۔
جواب(۳): جیساکہ آپ نے لکھا کہ آپ پردہ بھی کرتی ہیں مگر کبھی کسی مجبوری کی وجہ سے بے پردہ ہونا پڑتا ہے یعنی چہرہ کھولنا پڑتا ہےتو کیا اس کا گناہ ملے گا تو اس کا جواب یہ ہے کہ آپ کے متعلق یہ اچھی بات ہے کہ آپ پردہ بھی کرتی ہیں ، ایسا نہیں ہے کہ آپ ہمیشہ بے پردہ رہتی ہیں تاہم کبھی کبھی مجبوری کے تحت چہرہ کھولنا پڑتا ہے ۔ اس کے لئے آپ کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ آپ اپنی استطاعت کے مطابق مکمل حجاب کا اہتمام کریں اور اجنبی مردوں سے اپنے چہروں سمیت جسم کی مکمل زینت کو چھپائیں۔ عورت کے حق میں اصل یہ ہے کہ وہ فحش کاری سے بچے، اپنی عفت و عصمت اور شرمگاہ کی حفاظت کرے اور حیا کا پرتو بنے۔ یہ خوبی عورت میں ہے تو وہ قابل مبارکباد ہے۔ آپ صرف اس وجہ سے پریشان ہیں کہ کبھی کبھار چہرہ کھولنا پڑتا ہے تاہم جسم کے باقی حصے مکمل حجاب میں ہوتے ہیں۔ آپ سے عرض ہے کہ آپ پریشان نہ ہوں ، اگر کبھی ضرورت یا مجبوری کے تحت چہرہ کھولنا پڑے تو کوئی حرج نہیں ہے بس آپ کی نیت اورکوشش ہو کہ ہمیں طاقت بھر اسلامی حجاب کرنا ہے۔ ان شاء اللہ ، آپ کی غیبی مدد ہوگی اور اللہ ہر شر سے محفوظ رکھے گا۔
اس کا جواب یہ ہے کہ جس قسم کے معاملات ہوں اس میدان میں مہارت رکھنے والے خیرخواہ سے مشورہ طلب کیا جائے مثلا گھریلو معاملہ ہو تو گھر والوں سے پوچھا جائے، طب کا مسئلہ ہو تو اطباء سے پوچھا جائے، تجارت کا معاملہ ہو تو تاجر سے پوچھا جائے اور خالص دین کا معاملہ ہو تو جو قرآن اور حدیث کا علم رکھنے والا معتبر عالم ہو ان کی طرف رجوع کیا جائے ۔
ترمذی، ابوداود، ابن ماجہ اور مسند احمد میں صحیح سند سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: المستشارُ مؤتمنٌ(صحيح الترمذي:2822) یعنی مشیر جس سے مشورہ لیا جاتا ہے اس کو امانت دار ہونا چاہیئے۔ بایں سبب جس سے مشورہ طلب کریں وہ مطلوبہ معاملہ کا خبیرہو ، ساتھ ہی وہ خیرخواہ بھی ہو تاکہ امانتداری سے مشورہ دے سکے اور بعد میں راز کی حفاظت بھی کرسکے۔
جواب(۵): استخارہ کی نماز ایک مرتبہ پڑھنا کافی ہے لیکن اگر کسی کا دل ایک مرتبہ نماز پڑھنے کے بعد مطمئن نہ ہو تو وہ دوسری بار، تیسری بار یعنی اطمینان قلب کے لئے ایک سے زائد بار استخارہ کرسکتا ہےاس کی تعداد متعین نہیں ہے۔ استخارہ کے ساتھ ثقہ اور اہل خیر سے اپنے معاملات میں مشورہ بھی لیا جائے خصوصا جب استخارہ کرکے بھی اطمینان نہ ہو ۔
کتبہ
مقبول احمد سلفی / شعبہ جالیات طائف- سعودی عرب
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کوئی تبصرہ کرنا چاہتے ہیں تو مثبت انداز میں تبصرہ کر سکتے ہیں۔
اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔