Tuesday, December 8, 2020

اعمال صالحہ کی طرف جلدی کرنا

 

اعمال صالحہ کی طرف جلدی کرنا

مقبول احمد سلفی
اسلامک دعوۃ سنٹر، مسرہ –طائف
نبی نوع آدم کی فطرت میں اللہ تعالی نے عجلت رکھی ہے اس عجلت کا پرتو ہمیں انسانی زندگی میں نظر آتا ہے خصوصا
 کفرومعصیت کے ارتکاب میں جبکہ اللہ تعالی بندوں کو ڈھیل دیتا ہے ، وہ اہل معصیت کی طرح عذاب دینے میں جلدی نہیں کرتاکیونکہ وہ بہت بخشنے والا اور رحم کرنے والا ہے ۔ اللہ کافرمان ہے:
وَرَبُّكَ الْغَفُورُ ذُو الرَّحْمَةِ ۖ لَوْ يُؤَاخِذُهُمْ بِمَا كَسَبُوا لَعَجَّلَ لَهُمُ الْعَذَابَ ۚ بَلْ لَهُمْ مَوْعِدٌ لَنْ يَجِدُوا مِنْ دُونِهِ مَوْئِلًا(الكهف:58)
ترجمہ:تیرا پروردگار بہت ہی بخشش والا اور مہربانی والا ہے وہ اگر ان کے اعمال کی سزا میں پکڑے تو بیشک انہیں جلدی عذاب کردے بلکہ ان کے لئے ایک وعدہ کی گھڑی مقرر ہے جس سے وہ سرکنے کی ہرگز جگہ نہیں پائیں گے ۔
عجلت گوکہ فطری امر ہے لیکن یہ کبھی مذموم ہوتی ہے تو کبھی ممدوح ہوتی ہے ۔ گناہوں کے کاموں میں عجلت بہت بری ہے جبکہ اعمال صالحہ کی انجام دہی میں جلدی کرنا مستحسن ہے ۔
یہاں ایک چیز اور قابل ذکر ہے کہ اعمال صالحہ کے تعلق سے بھی بعض امور میں عجلت سے منع کیاگیا ہے،ہم دیکھتے ہیں کہ نمازجمعہ کے لئے جلدی کرنے کا حکم دیا گیا ہے جبکہ پنج وقتہ نمازوں کی طرف جلدی جلدی چل کرآنے سے منع کیاگیاہے فرمان نبوی ہے :
إِذَا أُقِيمَتِ الصَّلَاةُ، فلا تَأْتُوهَا تَسْعَوْنَ، وأْتُوهَا تَمْشُونَ، عَلَيْكُمُ السَّكِينَةُ(صحيح البخاري:908)
ترجمہ: جب نماز کے لیے تکبیر کہی جائے تو دوڑتے ہوئے مت آؤ بلکہ (اپنی معمولی رفتار سے) آؤ پورے اطمینان کے ساتھ۔
اسی طرح نماز کی ادائیگی میں جلدی جلدی کرنے ، امام سے پہلے سر اٹھانےاوردعاکی قبولیت میں جلدی کرنے سے منع کیا گیا ہے حتی کہ ہروہ کام جو حسن ادائیگی سے انجام نہ دیا جائےممنوع ہے۔اس کے ساتھ ہی ہمیں شارع علیہ السلام نے اعمال صالحہ کی انجام دہی میں جلدی کرنے کا حکم دیا ہےجوکہ یہاں میرا مقصودِ بیان ہے۔ یہ اللہ کا حکم ، مومنوں کی ایک عظیم خوبی اور سارے انبیاء کی صفت ہے ۔
اللہ تعالی نیکی کی طرف جلدی کرنے کا حکم دیتے ہوئے فرماتاہے : فَاسْتَبِقُوا الْخَيْرَاتِ(البقرۃ:148) یعنی تم نیکیوں کی طرف دوڑو۔
اللہ تعالی مومنوں کی صفت بیان کرتے ہوئے کہتا ہے :أُولَٰئِكَ يُسَارِعُونَ فِي الْخَيْرَاتِ وَهُمْ لَهَا سَابِقُونَ (المؤمنون:61)
ترجمہ: یہی ہیں جو جلدی جلدی بھلائیاں حاصل کررہے ہیں اور یہی ہیں جو ان کی طرف دوڑ جانے والے ہیں ۔
اللہ تعالی جمیع انبیاء کے بارے میں ارشاد فرماتا ہے:إِنَّهُمْ كَانُوا يُسَارِعُونَ فِي الْخَيْرَاتِ وَيَدْعُونَنَا رَغَبًا وَرَهَبًا وَكَانُوا لَنَا خَاشِعِينَ(الانبیاء:90)
ترجمہ: یہ بزرگ لوگ(انبیاء)نیک کاموں کی طرف جلدی کرتے تھے اور ہمیں لالچ طمع اور ڈرخوف سے پکارا کرتے تھے۔
ان چند آیات سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ بھلائی کے کاموں میں جلدی کرنا انبیاء اورمومنوں کی صفت ہے ، یہ اللہ اور اس کے رسول کا حکم بھی ہے اس لئے ہمیں اس صفت کو اپنانا چاہئے ۔ اعمال صالحہ میں جلدی کرنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ کسی کام کو ایک جھٹکے میں تمام کرلیا جائے ، نہیں بلکہ اس کا مقصود یہ ہے کہ کسی بھی بھلائی کو انجام دینے میں تاخیر اور ٹال مٹول سے کام نہ لیا جائے ، اسےبلاتاخیرفوری طورپر انجام دے دیا جائے ۔ اس میں مصلحت یہ ہے کہ تاخیرکرنے سے ممکن ہے کوئی رکاوٹ پیدا ہوجائے اور سوچا ہوا نیک کام ادا نہ ہوسکے ۔ یہ سب کو معلوم ہے کہ آج کے زمانے میں نیکی کرنا مشکل اور برائی انجام دینا سہل ہےکیونکہ گناہوں میں جلدبازی شیطان کی طرف سےہےاور اس کے لئے کوئی رکاوٹ نہیں ہے جبکہ نیکی کے راستے میں متعدد رکاوٹیں ہیں ۔ نیک کام سے روکنے کے لئے نفس، شیطان ، برا ماحول، برا ساتھی ، سستی، ضعیفی،بیماری، مشغولیت اور موت گھات میں لگے ہوئے ہیں ۔نبی ﷺ نے پانچ چیزوں سے پہلے پانچ چیزوں کو غنیمت جاننے کی نصیحت کی ہے۔ بڑھاپے سے پہلےجوانی کو،بیماری سے پہلے صحت کو، محتاجگی سے پہلے تونگری کو،مشغولیت سے فرصت کواور موت سے پہلے زندگی کو۔ اس لئے اچھا آدمی وہ ہے جو برابرعمل کرتا رہتا ہے اور نیک کام کے کرنے میں جلدی کرتا ہے۔اس تعلق سے چند احادیث پر نظر ڈالتے ہیں تاکہ مزید ہمیں نصیحت ملے اور یہ محرک بن کرہمارے دل کو اس صفت حمیدہ کی طرف ابھارے ۔ چنانچہ نبی کریم ﷺ ہمیں فتنہ کے ظہور سے پہلے نیک کام جلدی جلدی کرلینے کا حکم دیتے ہیں کیونکہ فتنہ ظاہر ہونے کے بعد اعمال صالحہ پر قابو پانا مشکل ہوجائے گا ۔
بَادِرُوا بالأعْمَالِ فِتَنًا كَقِطَعِ اللَّيْلِ المُظْلِمِ، يُصْبِحُ الرَّجُلُ مُؤْمِنًا وَيُمْسِي كَافِرًا، أَوْ يُمْسِي مُؤْمِنًا وَيُصْبِحُ كَافِرًا، يَبِيعُ دِينَهُ بعَرَضٍ مِنَ الدُّنْيَا(صحيح مسلم:118)
ترجمہ: جلدی جلدی نیک کام کر لو ان فتنوں سے پہلے جو اندھیری رات کے حصوں کی طرح ہوں گے، صبح کو آدمی ایماندار ہو گا اور شام کو کافر یا شام کو ایماندار ہو گا اور صبح کو کافر ہو گا اور اپنے دین کو بیچ ڈالے گا دنیا کے مال کے بدلے۔
ایک دوسری حدیث میں نبی ﷺ نےچھ فتنوں کا ذکر کیا ہے۔
بادِرُوا بالأعْمالِ سِتًّا: الدَّجَّالَ، والدُّخانَ، ودابَّةَ الأرْضِ، وطُلُوعَ الشَّمْسِ مِن مَغْرِبِها، وأَمْرَ العامَّةِ، وخُوَيْصَّةَ أحَدِكُمْ.(صحيح مسلم:2947)
ترجمہ: جلدی کرو نیک اعمال کرنے کی چھ چیزوں سے پہلے، ایک دجال کے نکلنے سے، دوسرے دھواں، تیسرے زمین کا جانور، چوتھے آفتاب کا پچھم سے نکلنا، پانچویں قیامت، چھٹے موت۔
ان احادیث سے ہرگز یہ مطلب نہیں لیا جائے گا کہ محض فتنے کی آمد سے قبل اعمال صالحہ کی طرف جلدی کی جائے بلکہ یہ حکم عام ہے جیساکہ اوپر کی آیات میں مومنوں کی اور انبیاء کی صفت قراردی گئی ۔اس کا اندازہ نبی ﷺ کے مندرجہ ذیل عمل سے بھی لگاسکتے ہیں ۔عقبہ بن حارث رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا:
صَلَّيْتُ مع النبيِّ صَلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ العَصْرَ، فَلَمَّا سَلَّمَ قَامَ سَرِيعًا دَخَلَ علَى بَعْضِ نِسَائِهِ، ثُمَّ خَرَجَ ورَأَى ما في وُجُوهِ القَوْمِ مِن تَعَجُّبِهِمْ لِسُرْعَتِهِ، فَقالَ: ذَكَرْتُ وأَنَا في الصَّلَاةِ تِبْرًا عِنْدَنَا، فَكَرِهْتُ أنْ يُمْسِيَ - أوْ يَبِيتَ عِنْدَنَا - فأمَرْتُ بقِسْمَتِهِ(صحيح البخاري:1221)
ترجمہ: میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ عصر کی نماز پڑھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سلام پھیرتے ہی بڑی تیزی سے اٹھے اور اپنی ایک بیوی کے حجرہ میں تشریف لے گئے، پھر باہر تشریف لائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی جلدی پر اس تعجب و حیرت کو محسوس کیا جو صحابہ کے چہروں سے ظاہر ہو رہا تھا، اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نماز میں مجھے سونے کا ایک ڈلا یاد آ گیا جو ہمارے پاس تقسیم سے باقی رہ گیا تھا۔ مجھے برا معلوم ہوا کہ ہمارے پاس وہ شام تک یا رات تک رہ جائے۔ اس لیے میں نے اسے تقسیم کرنے کا حکم دے دیا۔
اس حدیث سے اندازہ لگاسکتے ہیں کہ آپ کے پاس صدقہ کا سامان تھا اس کی تقسیم میں ذرہ برابر بھی یعنی رات بھرکی تاخیربھی کس قدر ناگوار معلوم ہوئی ،جیسے ہی معلوم ہواصدقہ کی چیز گھر میں موجود ہے فورا اس کو تقسیم کرنےکا حکم دے دیا ، اس کام کے لئے آپ نے اذکارصلاۃ بھی ترک کردی حتی کہ لوگوں کے کندھے بھی پھلانگے ۔ کس قدر صدقہ میں آپ نے جلدی دکھائی، یہ ہے نیک عمل میں جلدی کرنے کا مطلب اور اس کا اعلی نمونہ ۔اسی طرح حقوق العباد سے متعلق نبی ﷺکا فرمان ہے:
ما حقُّ امِرئٍ مسلمٍ ، له شيءُ يُوصي فيه ، يَبِيتُ ليلتين إلا ووصيتُه مكتوبةٌ عندَه.(صحيح البخاري:2738)
ترجمہ: کسی مسلمان کے لئے جن کے پاس وصیت کے قابل کوئی بھی مال ہو درست نہیں کہ دو رات بھی وصیت کو لکھ کر اپنے پاس محفوظ رکھے بغیر گزارے۔
اور جنازہ کے بارے میں یہ حدیث ملاحظہ فرمائیں ، نبی ﷺ کا فرمان ہے:
أَسْرِعُواْ بالجنازةِ ، فإن تَكُ صالحةً فخيرٌ تُقَدِّمُونَهَا ، وإن يَكُ سِوَى ذلكَ ، فشَرٌّ تضعونَهُ عن رقابكم .(صحيح البخاري:1315) ترجمہ:جنازہ لے کر جلد چلا کرو کیونکہ اگر وہ نیک ہے تو تم اس کو بھلائی کی طرف نزدیک کررہے ہو اور اگر اس کے سوا ہے تو ایک شر ہے جسے تم اپنی گردنوں سے اتارتے ہو۔
مذکورہ دونوں احادیث سے خیرکے کام میں جلدی کرنےکی ترغیب ملتی ہے ، پہلی حدیث کے مطابق جلدی کرنے سے حقدار کو حق مل جائے گا گرچہ موصی کی وفات ہوجائےکیونکہ وصیت لکھ لی گئی ہے اور دوسری حدیث کے مطابق میت کو ان کے اعمال صالحہ کا فائدہ جلدی سے قبر میں ملنا شروع ہوجائے گا۔
آپ ﷺ کے پیارے صحابہ سے اعمال خیر میں سبقت اور جلدی کرنے کی بہت ساری مثالیں ملتی ہیں ،خوف طوالت کی وجہ سے یہاں پرمحض دو واقعات کا ذکر کررہا ہوں جس نے میرے دل کو جھنجھوڑا ہے۔
پہلا واقعہ: جابر بن عبداللہ انصاری رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں:
قالَ رَجُلٌ للنبيِّ صَلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ يَومَ أُحُدٍ أرَأَيْتَ إنْ قُتِلْتُ فأيْنَ أنَا؟ قالَ: في الجَنَّةِ فألْقَى تَمَرَاتٍ في يَدِهِ، ثُمَّ قَاتَلَ حتَّى قُتِلَ(صحيح البخاري:4046)
ترجمہ: ایک صحابی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے غزوہ احد کے موقع پر پوچھا: یا رسول اللہ! اگر میں قتل کر دیا گیا تو میں کہاں جاؤں گا؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جنت میں۔ انہوں نے کھجور پھینک دی جو ان کے ہاتھ میں تھی اور لڑنے لگے یہاں تک کہ شہید ہو گئے۔
سبق:اس واقعہ سے صحابی کا جہاد میں جلدی کرنا، اعلائے کلمۃ اللہ اور رضائے الہی کے لئےاس کی راہ میں جلدی سے شہیدہوجانےكى مثال ہمارے لئے کس قدر سبق آموز ہے،ہاتھ کا معمولی نوالہ کھانے بھر بھی تاخیر نہیں کی۔
دوسرا واقعہ: عبدالعزیز بن صہیب نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا ہم لوگ تمہاری «فضيخ» (کھجور سے بنائی ہوئی شراب) کے سوا اور کوئی شراب استعمال نہیں کرتے تھے، یہی جس کا نام تم نے «فضيخ» رکھ رکھا ہے۔
فإنِّي لَقَائِمٌ أسْقِي أبَا طَلْحَةَ، وفُلَانًا وفُلَانًا، إذْ جَاءَ رَجُلٌ فَقالَ: وهلْ بَلَغَكُمُ الخَبَرُ؟ فَقالوا: وما ذَاكَ؟ قالَ: حُرِّمَتِ الخَمْرُ، قالوا: أهْرِقْ هذِه القِلَالَ يا أنَسُ، قالَ: فَما سَأَلُوا عَنْهَا ولَا رَاجَعُوهَا بَعْدَ خَبَرِ الرَّجُلِ(صحيح البخاري:4617)
ترجمہ: میں کھڑا ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کو پلا رہا تھا اور فلاں اور فلاں کو، کہ ایک صاحب آئے اور کہا: تمہیں کچھ خبر بھی ہے؟ لوگوں نے پوچھا کیا بات ہے؟ انہوں نے بتایا کہ شراب حرام قرار دی جا چکی ہے۔ فوراً ہی ان لوگوں نے کہا: انس رضی اللہ عنہ اب ان شراب کے مٹکوں کو بہا دو۔ انہوں نے بیان کیا کہ ان کی اطلاع کے بعد ان لوگوں نے اس میں سے ایک قطرہ بھی نہ مانگا اور نہ پھر اس کا استعمال کیا۔
سبق:سبحان اللہ ! اس واقعہ نے تو ایمان تازہ کردیا ، اللہ نے صحابہ کا مقام یونہی بلند نہیں کیا، ان کے اعمال بھی اعلی تھے ۔اللہ کا پیامِ حرمت سنتے ہی شراب بہادئے، ذرہ برابر بھی کسی نے نہ ترددکیا ،نہ تاخیر کی اورنہ ہی ایک قطرہ حلق سے نیچے اتارا۔
ان باتوں کی روشنی میں جب ہم اپنا جائزہ لیتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے اندر جلدبازی ہے مگر دنیا کمانے میں اور گناہ کا کام کرنے میں ،بھلائی کے کاموں میں جلدی نہیں ہے۔اللہ تعالی نے جابجا مختلف عملوں کا بڑا بڑا اجر بتلایاہے اور عظیم انعامات کا وعدہ کیا ہے مگر ان کی طرف دل راغب نہیں ہوتااوراگردنیا کی بات کی جائےمثلاکہاجائے کہ جو فلاں جگہ اورفلاںوقت پر حاضر ہوگا اس کوایک ایک لاکھ روپیہ ملے گاچنانچہ اس خبرکوسننےوالاہرکوئی وقت پرروپیہ لینے اس جگہ حاضرہوجائےگا ۔اس بات کا صاف مطلب ہے کہ ہمارا ایمان بہت کمزور ہے اس کی اصلاح اورقوت دینے کی ضرورت ہے۔ آئیے آج سے عزم کرتے ہیں کہ اپنے ایمان کی اصلاح کریں گے اور انبیاء وصالحین کی مذکورہ خوبی کو اپنے اندر پیدا کریں گے ۔ان شاء اللہ

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کوئی تبصرہ کرنا چاہتے ہیں تو مثبت انداز میں تبصرہ کر سکتے ہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔