Tuesday, September 8, 2020

ایک عظیم ذکر" رَضيتُ باللَّهِ ربًّا، وبالإسلامِ دينًا، وبِمُحمَّدٍ رسولًا" کا عظیم فائدہ


 

ایک عظیم ذکر" رَضيتُ باللَّهِ ربًّا، وبالإسلامِ دينًا، وبِمُحمَّدٍ رسولًا" کا عظیم فائدہ

مقبول احمد سلفی
اسلامک دعوۃ سنٹر مسرہ -طائف

اللہ کا ذکر جسم وروح کی غذا ہے ، اسی سے انسان کا جسم اور اس کی روح زندہ وباقی رہتی ہے ۔ جو اللہ کے ذکر سے غافل اور اس کی یاد سے دور ہوجاتا ہے وہ نہ صرف بہت سارے دنیاوی اور جسمانی خسارے میں رہتا ہے بلکہ اس کی روح تک مردہ ہوجاتی ہے ۔مومن ہمیشہ ذکر الہی میں رطب اللسان رہتا ہے ۔ عبداللہ بن بسر سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے کہا: اللہ کے رسول! اسلام کے احکام و قوانین تو میرے لیے بہت ہیں
، کچھ تھوڑی سی چیزیں مجھے بتا دیجئیے جن پر میں (مضبوطی) سے جما رہوں، آپ نے فرمایا:لا يزالُ لسانُك رطبًا من ذكرِ اللهِ(صحيح الترمذي:3375)
ترجمہ:تمہاری زبان ہر وقت اللہ کی یاد اور ذکر سے تر رہے۔
اس لئے ہمیں سدا اپنے خالق ومالک کا گن گان اور اس کی حمد وثنا بجا لاتے رہنا چاہئے ۔ یہ ہمارا لازمی فریضہ ہے ۔ ہم سوتے جاگتے ، اٹھتے بیٹھتے ، چلتے پھرتے، کھاتے پیتے ہمیشہ اس کی مہربانی کے محتاج ہیں ، وہ جسم میں جان ،آنکھوں میں روشنی، ہاتھ وپیر میں حرکت وقوت ، دل ودماغ میں فکروصلاحیت ، کام کاج کی توفیق اورروزی روٹی کےاسباب مہیا کرتا ہے ۔ آخر اسی کے دم سے ہمارا وجود اور ساری کائنات ہے بھلا اس کا ذکر کئے بغیر خالق ومالک کے بنائے ہوئے اعضائے جسم کو کیسے سکون مل سکتا ہے ؟ اے کاش! اس بات کو اکثر مسلمان سمجھ لیتے ۔
آئیے میں آپ کو ایک عظیم ذکر بتاتا ہوں جس کے پڑھنے سے عظیم فائدہ حاصل ہوتا ہے۔ وہ عظیم فائدہ گناہوں کی مغفرت اور جنت میں داخلہ نصیب ہونا ہے ۔ ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
من قالَ: رَضيتُ باللَّهِ ربًّا، وبالإسلامِ دينًا، وبِمُحمَّدٍ رسولًا، وجَبت لَهُ الجنَّةُ(صحيح أبي داود:1529)
ترجمہ: جو شخص کہے: «رضيت بالله ربا وبالإسلام دينا وبمحمد رسولا» ”میں اللہ کے رب ہونے، اسلام کے دین ہونے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے رسول ہونے پر راضی ہوا“تو جنت اس کے لیے واجب گئی۔
سبحان اللہ یہ تین کلمے اور جنت کی ضمانت ؟ جنت کا حصول کس قدر آسان معلوم ہوتا ہے ۔ ٹھہرئیے ! یہاں ایک بات اور ذکر کرتا چلوں ۔آپ کو معلوم ہوگا کہ جس طرح ایمان کے لئے کلمہ کے اقرار کے ساتھ زبان سے اس کی تصدیق اور اعضاء وجوارح سے اس کے تقاضے کو پورا کرنا ضروری ہے اسی طرح یہاں بھی اس ذکر سے حصول جنت کے لئے دل سے تصدیق کے ساتھ ان تین باتوں پر عمل کرنا بھی ضروری ہے جن کا زبان سے اقرار کررہے ہیں ۔ غور کریں تو معلوم ہوگا کہ یہی تین کلمے مومن کے شب وروز اور اس کی زندگی ہیں اور قبرمیں انہی تین باتوں کے متعلق سوال ہوگا ۔ تمہارا رب کون ہے ؟ تمہارا دین کیا ہے ؟ تمہارے رسول کون ہیں؟ اس کا مطلب یہ ہوا کہ یہ ذکر " رَضيتُ باللَّهِ ربًّا، وبالإسلامِ دينًا، وبِمُحمَّدٍ رسولًا"ہم سے مطالبہ کرتا ہے کہ جس طرح زبان سے یہ تین کلمے کہے جائیں دل بھی ان باتوں کی تصدیق کرے اور عملا ان کا تقاضہ بھی پورا کریں جیساکہ سیدنا عمررضی اللہ عنہ نے تصدیقا وعملا اقرار کیا۔ ابوقتادہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ کے روزوں کے بارے میں پوچھا گیا، تو آپ ناراض ہو گئے، عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: رَضينا باللَّهِ ربًّا، وبالإسلامِ دينًا، وبمحمَّدٍ رسولًا(صحيح النسائي:2382)
ترجمہ: ہم اللہ کے رب (حقیقی معبود) ہونے پر، اسلام کے دین ہونے پر، اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے رسول ہونے پر، راضی ہیں۔
یہ روایت صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں بھی ہے ، میں نے الفاظ کے اختصار کی وجہ سے سنن نسائی کا حوالہ دیا ہے ، یہاں پر قول عمر بحیثت ذکر نہیں ہے بلکہ تصدیق اور عمل کی حیثیت سے ہے کہ میں اللہ کے حقیقی معبود ہونے پر ، تمام ادیان میں دین اسلام کے برحق ہونے پر اورمحمد صلی اللہ علیہ وسلم کے سچے رسول ہونے پر راضی ہوا۔جو آدمی زبان سے اقرار اور دل سےاس طرح تصدیق کرے کہ اللہ اس کا خالق ومالک ہے ، اسی کی بندگی کرنی ہے ، وہی ساری کائنات کا حاکم ومدبر ہے،اسلام ہی سیدھا راستہ ہے ، محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بتائی ہوئی باتیں حق ہیں ، آپ اللہ کے آخری اور سچے رسول ہیں اورساتھ ساتھ نبی کی لائی ہوئی اسلامی شریعت کے مطابق  عمل اور اللہ کی بندگی کرے یقینا اللہ تعالی اپنے فضل واحسان سے اسے جنت میں داخل فرمائے گا۔
اسی بات کو ایک دوسری حدیث میں یوں بیان کیا گیا ہے سیدنا عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے: ذاقَ طعمَ الإِيمانِ مَنْ رَضِىَ باللهِ ربًّا ، و بِالإسلامِ دِينًا ، و بِمُحمدٍ رسولًا(صحيح مسلم:34)
ترجمہ: ایمان کا مزہ چکھا اس نے جو راضی ہو گیا اللہ کی حکمرانی پر اور اسلام کے دین ہونے پر اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی پیغمبری پر۔
اس فرمان رسول سے مذکورہ ذکر کی حقیقت بالکل واضح ہوگئی کہ یہ عظیم ذکر دراصل ایمان ہے اور ایمان کی حلاوت پانے کے لئے رب کی معرفت ،اس کی وحدانیت ، ربوبیت اور اسماء وصفات پر ایمان ،اسلام کے ماسوا سارے مذاہب کا بطلان اور دین اسلام سے رضامندی اور محمد صلی اللہ علیہ کی نبوت ورسالت پر ایمان وسر تسلیم خم کرنا اس ذکر میں شامل ہے ۔ اسی طرح سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
يا أبا سَعِيدٍ، مَن رَضِيَ باللَّهِ رَبًّا، وبالإسْلامِ دِينًا، وبِمُحَمَّدٍ نَبِيًّا، وجَبَتْ له الجَنَّةُ، فَعَجِبَ لها أبو سَعِيدٍ، فقالَ: أعِدْها عَلَيَّ يا رَسولَ اللهِ، فَفَعَلَ، ثُمَّ قالَ: وأُخْرَى يُرْفَعُ بها العَبْدُ مِئَةَ دَرَجَةٍ في الجَنَّةِ، ما بيْنَ كُلِّ دَرَجَتَيْنِ كما بيْنَ السَّماءِ والأرْضِ، قالَ: وما هي يا رَسولَ اللهِ؟ قالَ: الجِهادُ في سَبيلِ اللهِ، الجِهادُ في سَبيلِ اللَّهِ.(صحيح مسلم:1884)
ترجمہ: اے ابوسعید جو راضی ہو اللہ کے رب ہونے سے اور اسلام کے دین ہونے سے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے نبی ہونے سے اس کے لیے جنت واجب ہے۔یہ سن کر سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نے تعجب کیا اور کہا: پھر فرمایئے یا رسول اللہ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر فرمایا اور فرمایا کہ ایک اور عمل ہے جس کی وجہ سے بندے کو سو درجے ملیں گے جنت میں اور ہر ایک درجہ سے دوسرے درجہ تک اتنا فاصلہ ہو گا جتنا آسمان اور زمین میں ہے۔“ سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نے عرض کیا وہ کون سا عمل ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جہاد کرنا اللہ کی راہ میں، جہاد کرنا اللہ کی راہ میں۔
حدیث رسول پہ غور کریں کہ ہم جس ذکر کی شروع سے بات کررہے ہیں وہ ذکر یہاں بطور عمل مذکور ہے یعنی یہاں یہ مذکور نہیں ہے کہ جس نے " رَضيتُ باللَّهِ ربًّا، وبالإسلامِ دينًا، وبِمُحمَّدٍ رسولًا"کہا اس کے لئے جنت واجب ہوگئی بلکہ کہا گیا ہے کہ جو راضی ہو اللہ کے رب ہونے سے اور اسلام کے دین ہونے سے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے نبی ہونے سے اس کے لیے جنت واجب ہے۔
اس بات کی وضاحت ہوجانے کے بعد کہ اس ذکر میں اقرار کے ساتھ تصدیق وعمل بھی شامل ہے تبھی جنت کا حصول ممکن ہے اب یہ جانتے ہیں کہ کہاں کہاں اس کا ذکر کر سکتے ہیں چنانچہ تین ایسے مقامات ہیں جہاں یہ ذکر کرناثابت ہے۔
پہلا مقام : یہ ذکر بغیر قید کے کبھی بھی پڑھ سکتے ہیں جیساکہ مذکورہ احادیث سے پتہ چلتا ہے ۔
دوسرامقام : اذان کے وقت یہ ذکر کہنا ثابت ہے تاہم اس بات میں اہل علم کے درمیان اختلاف ہے کہ یہ ذکر شھادتین کے وقت کہا جائے گا یا اذان کے اختتام پر۔شیخ ابن باز اور شیخ ابن عثیمین کا کہنا ہے کہ یہ شھادتین کے وقت کہا جائے گا ان کی دلیل صحیح مسلم کی یہ روایت ہے :
سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد بیان کیا :
مَن قالَ حِينَ يَسْمَعُ المُؤَذِّنَ أشْهَدُ أنْ لا إلَهَ إلَّا اللَّهُ وحْدَهُ لا شَرِيكَ له، وأنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ ورَسولُهُ، رَضِيتُ باللَّهِ رَبًّا وبِمُحَمَّدٍ رَسولًا، وبالإسْلَامِ دِينًا، غُفِرَ له ذَنْبُهُ.(صحيح مسلم:386)
ترجمہ: مؤذن کی اذان سن کر جس نے یہ کہا: ” «أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ رَضِيتُ بِاللَّهِ رَبًّا وَبِمُحَمَّدٍ رَسُولًا وَبِالْإِسْلَامِ» میں اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی اور دوسرا معبود نہیں ہے، اللہ تعالیٰ یکتا ہے اور اس کا کوئی شریک نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے بندے اور رسول ہیں۔ میں اللہ کی ربوبیت اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت سے مسرور خوش ہوں اور میں نے مذہب اسلام کو قبول کر لیا ہے تو ایسے شخص کے گناہ معاف کر دئیے جاتے ہیں۔
یہاں اشھد آیاہے جبکہ روایتوں میں"وانااشھد" آیا ہے ۔ شیخ ابن عثیمین کہتے ہیں کہ واو عاطفہ کا مطلب ہے کہ موذن کے کلام اشھد ان لا الہ الا اللہ۔۔ کے فورا بعد یہ ذکر کیا جائے ۔
تیسرا مقام : صبح کے وقت کہنا دخول جنت کا سبب ہے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
من قال إذا أصبحَ : " رَضِيتُ باللهِ رَبًّا ، و بِالإسلامِ دِينًا و بِمحمدٍ نبيًّا " ، فَأنا الزَّعِيمُ ، لآخُذَنَّ بيدِهِ حتى أُدْخِلَهُ الجنةَ(السلسلة الصحيحة:2686)
ترجمہ: جس نے صبح کے وقت کہا:"رَضِيتُ باللهِ رَبًّا ، و بِالإسلامِ دِينًا و بِمحمدٍ نبيًّا"میں اللہ کو رب مان کر اور اسلام کو دین مان کر اور محمدﷺ کو رسول مان کر راضی ہوں،میں ضامن ہوں اس بات کا کہ ضرور میں اس کو اپنے ہاتھ سے پکڑوں حتی کہ اللہ کی جنت میں داخل کردوں گا۔
یہ تین مقامات ہیں جہاں یہ ذکر کرنا ثابت ہے ، ان کے علاوہ دوسرے مخصوص اوقات میں پڑھنے سے متعلق احادیث ضعیف ہیں ۔ ایک روایت میں نماز کے بعد پڑھنے کا ذکر ہے ، ایک روایت میں شام کے وقت پڑھنے کا ذکر ہے اور ایک روایت میں صبح وشام تین تین دفعہ پڑھنے کا ذکر ہے یہ ساری احادیث ضعیف ہیں ۔
آخر میں رب العالمین سے دعا ہے کہ ہمیں اس ذکر کا کثرت سے اہتمام کرنے اور اس کا عملی تقاضہ پورا کرنے کی توفیق دے ۔ آمین

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کوئی تبصرہ کرنا چاہتے ہیں تو مثبت انداز میں تبصرہ کر سکتے ہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔