متیمم
کو نماز پڑھتے وقت یا بعد میں پانی مل جائے
اسلامک دعوۃ سنٹر مسرہ -طائف
اس سلسلے میں ایک قول تو یہ ہے کہ متیمم اپنی نماز جاری رکھے اوراسے مکمل کرے ، یہی کفایت کرجائے گی دہرانے کی ضرورت نہیں ہے اور دوسرا قول یہ ہے کہ متیمم اپنی نماز توڑدے اور وضو بناکر پھر سے نماز پڑھے ۔ میرے نزدیک دوسرا قول دلیل سے قوی معلوم ہوتا ہے ۔ اللہ کا فرمان ہے :
فَلَمْ تَجِدُوا مَاء فَتَيَمَّمُوا(النساء:43)ترجمہ: اور تمہیں پانی نہ ملے تو تیمم کرو۔
پاک مٹی سے تیمم عذرکے وقت ہے اور وہ عذر پانی کا نہ ملنا ہے ، جب اور جیسے ہی پانی مل جائے عذر ختم ہوجائے گا لہذا متیمم کو جاری نماز ختم کرکے پانی سے وضو بناکر ازسرے نو نماز ادا کرنا ہوگا۔ شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ ذکر کرتے ہیں کہ جب پانی مل جائے تو تیمم کا حکم باطل ہوجائے گا اور جب تیمم باطل تو نماز بھی باطل ہوگئی کیونکہ حدث(ناپاکی) پھر سے لوٹ آئی ۔ (الشرح الممتع:1/404)
اسی طرح سنن الترمذی کی مندرجہ ذیل حدیث بھی دلیل ہے کہ پانی ملنے سے تیمم باطل ہوجائے گا اور جب تیمم باطل ہے تو اس میں جاری نماز بھی باطل ہوجائے گی کیونکہ پھر سے حدث لوٹ آیا۔ابوذر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:
إنَّ الصعيدَ الطيبَ طهورُ المسلمِ وإن لم يجدِ الماءَ عشرَ سنين فإذا وجد الماءَ فليمسَّه بشرتَه فإن ذلك خيرٌ(صحيح الترمذي:124)
ترجمہ: پاک مٹی مسلمان کو پاک کرنے والی ہے گرچہ وہ دس سال تک پانی نہ پائے، پھر جب وہ پانی پا لے تو اسے اپنی کھال (یعنی جسم) پر بہائے، یہی اس کے لیے بہتر ہے۔
اب رہا ایک دوسرا مسئلہ وہ یہ کہ اگر کوئی پانی کی عدم دستیابی پر تیمم کرکے نماز پڑھ لے اور نماز کے بعد پانی مل جائے تو کیا پڑھی گئی نماز دہرانی ہوگی یا اداکی گئی نمازہوجائے گی؟ اس کا جواب یہ ہے کہ نماز کے بعد پانی ملنے پر متیمم کو اپنی نماز دہرانے کی ضرورت نہیں ہے وہی نماز کافی ہے ۔ چنانچہ ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:
خرجَ رجلانِ في سفَرٍ، فحضرتِ الصَّلاةُ وليسَ معَهُما ماءٌ، فتيمَّما صَعيدًا طيِّبًا فصلَّيا، ثمَّ وجدا الماءَ في الوقتِ، فأعادَ أحدُهُما الصَّلاةَ والوضوءَ ولم يُعدِ الآخرُ، ثمَّ أتيا رسولَ اللَّهِ صلَّى اللَّهُ علَيهِ وسلَّمَ فذَكَرا ذلِكَ لَهُ فقالَ للَّذي لم يُعِد: أصبتَ السُّنَّةَ، وأجزَأتكَ صلاتُكَ. وقالَ للَّذي توضَّأَ وأعادَ: لَكَ الأجرُ مرَّتينِ(صحيح أبي داود:338)
ترجمہ: دو شخص ایک سفر میں نکلے تو نماز کا وقت آ گیا اور ان کے پاس پانی نہیں تھا، چنانچہ انہوں نے پاک مٹی سے تیمم کیا اور نماز پڑھی، پھر وقت کے اندر ہی انہیں پانی مل گیا تو ان میں سے ایک نے نماز اور وضو دونوں کو دوہرایا، اور دوسرے نے نہیں دوہرایا، پھر دونوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے تو ان دونوں نے آپ سے اس کا ذکر کیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص سے فرمایا جس نے نماز نہیں لوٹائی تھی:تم نے سنت کو پا لیا اور تمہاری نماز تمہیں کافی ہو گئی اور جس شخص نے وضو کر کے دوبارہ نماز پڑھی تھی اس سے فرمایا:تمہارے لیے دوگنا ثواب ہے۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ تیمم کرکے پڑھی گئی نماز پانی ملنے سے دہرانی نہیں ہے اور یہ بھی علم ہوگیا کہ یہی سنت طریقہ ہے جیساکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز نہ دہرانے والے صحابی سے کہا"اصبت السنۃ" یعنی تم نے سنت کو پالیا۔ اس لئے سنت معلوم ہونے کے بعد کوئی دہرا اجر پانےکی نیت سے نماز نہیں دہرائے گا۔
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کوئی تبصرہ کرنا چاہتے ہیں تو مثبت انداز میں تبصرہ کر سکتے ہیں۔
اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔