Saturday, October 12, 2019

بنت حوا کے مسائل اور ان کا شرعی حل (قسط-19)


بنت حوا کے مسائل اور ان کا شرعی حل (قسط-19)

جوابات ازشیخ مقبول احمد سلفی
اسلامک دعوۃ سنٹر،شمالی طائف(مسرہ)

سوال(1): کیا اولاد کے تمام عملوں کا اجر والدین کو بھی ملتا ہے ؟
جواب : اصل تو یہی ہے کہ انسان کو خود ان کے عملوں کا ہی اجروثواب ملتا ہے ، کسی کا عمل دوسرے کو فائدہ نہیں پہنچاتا جیساکہ اللہ کا فرمان ہے:
وَأَنْ لَيْسَ لِلْإِنْسَانِ إِلَّا مَا سَعَى(النجم:39)
ترجمہ: اور یہ کہ ہرانسان کے لئے صرف وہی ہے جس کی کوشش خود اس نے کی ۔
والد اور والدہ کو بھی خود اپنے کئے کا اجر ملتا ہے ، اولاد کے عملوں کا اجر نہیں پہنچتا سوائے ان عملوں کے جن میں اولاد کی تربیت، نصیحت اور تعلیم وترغیب شامل ہے یعنی اگر ماں باپ نے اپنی اولاد کو کسی عمل کی خاص ترغیب اور تعلیم دی ہو اور اولاد نے وہ عمل انجام دیا تو اس کا اجر والدین کو بھی ملتا ہے جیساکہ نبی ﷺ کا فرمان ہے:إنَّ الدالَ على الخيرِ كفاعلِه (صحيح الترمذي:2670)
ترجمہ: بھلائی کی طرف رہنمائی کرنے والا (ثواب میں) بھلائی کرنے والے ہی کی طرح ہے۔
اسی طرح ایک دوسری جگہ فرمان نبوی ہے :
مَن دَعا إلى هُدًى، كانَ له مِنَ الأجْرِ مِثْلُ أُجُورِ مَن تَبِعَهُ، لا يَنْقُصُ ذلكَ مِن أُجُورِهِمْ شيئًا(صحيح مسلم:2674)
ترجمہ:جو شخص ہدایت کی طرف بلائے اس کو ہدایت پر چلنے والون کا بھی ثواب ملے گا اور چلنے والوں کا ثواب کچھ کم نہ ہو گا۔
ہمیں قرآن وحدیث سے ایسی کوئی دلیل نہیں ملتی ہے جس کی بنیاد پر ہم یہ کہہ سکیں کہ اولاد کے تمام عملوں کا اجر ان کے والدین کو بھی پہنچتا ہے ۔ ایک حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ نیک لڑکا پیچھے چھوڑنا میت کے لئے اجرکا باعث ہے ، نبی ﷺ کا فرمان ہے:
إنَّ مِمَّا يلحقُ المؤمنَ من عملِهِ وحسناتِه بعدَ موتِه عِلمًا علَّمَه ونشرَه وولدًا صالحًا ترَكَه ومُصحفًا ورَّثَه أو مسجِدًا بناهُ أو بيتًا لابنِ السَّبيلِ بناهُ أو نَهرًا أجراهُ أو صدَقةً أخرجَها من مالِه في صِحَّتِه وحياتِه يَلحَقُهُ من بعدِ موتِهِ(صحيح ابن ماجه:200)
ترجمہ: مومن کو اس کے اعمال اور نیکیوں میں سے اس کے مرنے کے بعد جن چیزوں کا ثواب پہنچتا رہتا ہے وہ یہ ہیں: علم جو اس نے سکھایا اور پھیلایا، نیک اور صالح اولاد جو چھوڑ گیا، وراثت میں قرآن مجید چھوڑ گیا، کوئی مسجد بنا گیا، یا مسافروں کے لیے کوئی مسافر خانہ بنوا دیا ہو، یا کوئی نہر جاری کر گیا، یا زندگی اور صحت و تندرستی کی حالت میں اپنے مال سے کوئی صدقہ نکالا ہو، تو اس کا ثواب اس کے مرنے کے بعد بھی اسے ملتا رہے گا۔
اس حدیث میں مطلق نیک لڑکا چھوڑنے کا ذکر ہے جبکہ صحیح مسلم میں قید ہے کہ نیک لڑکا جب والد کے لئے دعا کرے تو اس کو ثواب پہنچتا ہے ، نبی ﷺ کا فرمان ہے:إذا مات الإنسانُ انقطع عنه عملُه إلا من ثلاثةٍ : إلا من صدقةٍ جاريةٍ . أو علمٍ ينتفعُ به . أو ولدٍ صالحٍ يدعو له(صحيح مسلم:1631)
ترجمہ: جب انسان وفات پاجاتا ہے تو اس کا عمل منقطع ہوجاتا ہے مگر تین عمل ایسے ہیں جن کا اجروثواب اسے مرنے کے بعدبھی ملتا رہتا ہے ۔ صدقہ جاریہ،علم جس سے فائدہ اٹھایاجاتا ہو،صالح اولاد جو مرنے والے کے لیے دعا کرے ۔
خلاصہ یہ ہوا کہ اولاد کے ان ہی عملوں کا اجر والدین کو پہنچتا ہے جن عملوں کی ترغیت وتعلیم انہوں نے دی ہو۔ نیز اولاد کو چاہئے کہ والدین کے حق میں کثرت سے دعا و استغفار اور ان کی طرف سے صدقہ وخیرات کرے۔
سوال(2):مفتی فیصل جاپان والا اپنے ایک بیان میں قرآن کے حوالے سےبات کرتا ہے اور گھر میں کتا پالنے کی بات کرتا ہے یعنی اس سے رحمت کے فرشتے نہیں رکتے، ایک دلیل دیتا ہے کہ سورہ مائدہ آیت 4 میں شکاری کتے کا ذکر ہے ان کتوں کے بارے میں اللہ نے یہ نہیں کہا کہ انہیں گھر میں نہیں رکھو کیونکہ اس سے رحمت کے فرشتے گھر میں داخل نہیں ہوتے۔دوسری دلیل سورہ کہف آیت 10 میں صراحت ہے کہ غار میں اصحاب کہف کے ساتھ کتا بھی تھا ان لوگوں نے اللہ سے رحمت کی دعا کی ہے، اس نے یہ بھی ذکر کیا ہے کہ بعض حدیث میں ہےکہ ایک مرتبہ جبریل نبی کے پاس آئے اور آپ کے گھر میں کتا تھا جس پر نجاست لگی تھی تو جبریل صرف اپنےذاتی ذوق کی وجہ سے گھر میں داخل نہیں ہوئے ۔ اس فتوی کو آپ کس نظر سے دیکھتے ہیں؟
جواب: سب سے پہلے تو یہ جان لیں کہ یہ مفتی فیصل جاپان والاغامدی فکر کا حامل ہے،اس کے بیانات سے دور ہی رہیں۔اس نے غامدی کی تائید میں کتاب بھی شائع کی ہے بلکہ غامدی کے داماد اورشاگرد محمد حسن الیاس حیدری سے ایک انٹریو میں اعتراف کیا ہے کہ غامدی کے افکار منہج سلف صالحین کے مطابق ہیں۔ اب اس مفتی کے فتوی کے بارے میں سنیں کہ اس کا فتوی سراسر قرآن وحدیث کے خلاف ہے ، نبیﷺ کا فرمان ہے:
لَا تَدْخُلُ المَلَائِكَةُ بَيْتًا فيه كَلْبٌ ولَا صُورَةٌ(صحيح البخاري:3322)
ترجمہ:(رحمت کے) فرشتے ان گھروں میں نہیں داخل ہوتے جن میں کتا یا (جاندار کی) تصویر ہو۔
اس لئے کوئی بھی مسلمان اپنے گھر میں شوقیہ کتا نہیں پال سکتا ہے ، ہاں شریعت نے تین قسم کے کتوں کو پالنے کی اجازت دی ہے جن کا ذکر اس حدیث میں ہے، نبی ﷺ کا فرمان ہے:مَنِ اتَّخَذَ كَلْبًا إلَّا كَلْبَ ماشِيَةٍ، أوْ صَيْدٍ، أوْ زَرْعٍ، انْتَقَصَ مِن أجْرِهِ كُلَّ يَومٍ قِيراطٌ(صحيح مسلم:1575)
ترجمہ: جو شخص کتا پالے اور وہ شکاری نہ ہو اور نہ جانوروں کی حفاظت کے لیے ہو، نہ زمین کے (یعنی کھیت کے) تو اس کے ثواب میں سے دو قیراط کا ہر روز نقصان ہوگا۔
جہاں تک مفتی کا پیش کردہ قرآن میں مذکور کتوں کی بات ہے تو ان میں ایک کتا شکاری ہے جس کی ہمیں اجازت ہے اور ایک کتا اصحاب کہف والا رکھوالی کے لئے ہے اس کی بھی علماء نے رخصت دی ہے یعنی ہم حفاظت اور گھروں کی رکھوالی کے لئے کتا پال سکتے ہیں اورمفتی کا یہ کہنا کہ جبریل علیہ السلام ذاتی ذوق کی وجہ سے رسول کے گھر میں نہیں داخل ہوئے سراسر جھوٹ ہے، حقیقت یہ ہے کہ جبریل علیہ السلام کتے کی وجہ سے ہی آپ کے گھر میں داخل نہیں ہوئے ، پھر آپ نے کتے کو گھر سے نکال دیا۔ تفصیل کے لئے دیکھیں أبوداود(4158)، سنن الترمذي(2806)، صحیح ابن حبان(5854)۔
جن کتوں کو ہمیں رکھنے کی اجازت ہے وہ کتے اگر گھر میں ہوں تو فرشتوں کے گھر میں داخل ہونے سے مانع نہیں ہے۔
سوال (3):کہا جاتا ہے کہ قرض کا ایک روپیہ ادا کرنا ہزار روپیہ صدقہ کرنے سے بہتر ہے اس بات کی کیا حقیقت ہے ؟
جواب : ہمیں اللہ اور اس کے رسول نے ایسی کوئی بات کی خبر نہیں دی ہے کہ قرض کا ایک روپیہ ادا کرنا ہزار روپیہ صدقہ کرنے سے بہتر ہے، کسی نے اپنے من سے یہ جملہ گھڑ لیا ہے۔ صدقہ کی اپنی جگہ اہمیت ہے ، قرض حسنہ دینے کی اپنی جگہ فضیلت ہے اور قرض کی احسن طریقے سے ادائیگی کا اپنا مقام ہے۔ نبی ﷺ نے قرض کی ادائیگی سے متعلق ارشاد فرمایا:
إنَّ خِيَارَ النَّاسِ أَحْسَنُهُمْ قَضَاءً.(صحيح مسلم:1600)
ترجمہ:اچھے وہ لوگ ہیں جو قرض کو اچھی طرح سے ادا کریں۔
اسی طرح یہ بھی آپ ﷺ کا فرمان ہے :
إنما جزاءُ السَّلَفَ ، الحمدُ والأداءُ.(صحيح النسائي:4697)
ترجمہ: قرض کا بدلہ اس کو پورا کا پورا چکانا اور قرض دینے والے کا شکریہ ادا کرنا ہے۔
یہاں ایک بات یہ جاننی اہم ہے کہ صدقہ کرنا افضل ہے یا کسی کو قرض دینا ؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ صدقہ کرنا قرض دینے سے افضل ہے کیونکہ اس میں ادائیگی کی کلفت نہیں ہوتی ہے۔
سوال (4):جنت میں سب سے پہلے کون سی عورت داخل ہوگی ؟
جواب : مردوں میں اس بات کی صراحت ہے کہ نبی ﷺ سب سے پہلے جنت میں داخل ہوں گے جیساکہ آپ ﷺ کا فرمان ہے:
آتي بابَ الجَنَّةِ يَومَ القِيامَةِ فأسْتفْتِحُ، فيَقولُ الخازِنُ: مَن أنْتَ؟ فأقُولُ: مُحَمَّدٌ، فيَقولُ: بكَ أُمِرْتُ لا أفْتَحُ لأَحَدٍ قَبْلَكَ.(صحيح مسلم:197)
ترجمہ:میں قیامت کے دن جنت کے دروازے پر آؤں گا اور دروازہ کھلواؤں گا چوکیدار پوچھے گا: تم کون ہو؟ میں کہوں گا: محمد! وہ کہے گا: آپ ہی کے واسطے مجھے حکم ہوا تھا کہ آپ سے پہلے کسی کے لیے دروازہ نہ کھولنا۔
لیکن عورتوں میں سب سے پہلے جنت میں کون داخل ہوگی اس بات کی کسی حدیث میں صراحت نہیں ملتی ہے ، یہ غیبی امور میں سے ہے اس لئے بلادلیل کچھ نہیں بولنا چاہئے ، فاطمہ رضی اللہ عنہا جنتی عورتوں کی سردار ہوں گی ،نبی ﷺ فرماتے ہیں :
إنَّ هذا ملَكٌ لم ينزلِ الأرضَ قطُّ قبلَ اللَّيلةِ استأذنَ ربَّهُ أن يسلِّمَ عليَّ ويبشِّرَني بأنَّ فاطمةَ سيِّدةُ نساءِ أَهْلِ الجنَّةِ وأنَّ الحسَنَ والحُسَيْنَ سيِّدا شبابِ أَهْلِ الجنَّةِ(صحيح الترمذي:3781)
ترجمہ: یہ ایک فرشتہ تھا جو اس رات سے پہلے زمین پر کبھی نہیں اترا تھا، اس نے اپنے رب سے مجھے سلام کرنے اور یہ بشارت دینے کی اجازت مانگی کہ فاطمہ جنتی عورتوں کی سردار ہیں اور حسن و حسین رضی الله عنہما اہل جنت کے جوانوں (یعنی جو دنیا میں جوان تھے ان) کے سردار ہیں۔
سوال(5):حرم میں خواتین کو دیکھتے ہیں کہ وہ سونے کے بعد اٹھ کر اس کے پاس اسپرے والا پانی کا چھوٹابوتل ہوتا ہے اس سے چھینٹے مار کر وضو کرلیتی ہیں کیا اس سے وضو ہوجاتا ہے ؟
جواب :وضو میں تین تین مرتبہ عضو دھونا اس لئے مسنون ہے تاکہ اچھی طرح سے اعضائے وضو بھیگ جائیں جبکہ ایک ایک مرتبہ بھی عضو دھونا کافی ہے اس شرط کے ساتھ دھونے والی جگہ مکمل بھیگ جائے ،بالکل ہی خشک نہ رہے ۔ وضو میں کسی حصے کا خشک رہ جانا باعث گناہ ہے ، اس پہ سخت وعید آئی ہے ۔حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے انہوں نے کہا:
رَجَعْنَا مَعَ رَسُولِ مِنْ مَكَّةَ إِلَى المَدِينَةِ، حَتَّى إِذَا كُنَّا بِمَاءٍ بِالطَّرِيقِ، تَعَجَّلَ قَوْمٌ عِنْدَ العَصْرِ، فَتَوَضَّؤُوا وَهُمْ عِجَالٌ، فَانْتَهَيْنَا إِلَيْهِمْ، وَأعْقَابُهُمْ تَلُوحُ لَمْ يَمَسَّهَا المَاءُ، فَقَالَ رَسُولُ: «وَيْلٌ لِلأَعْقَابِ مِنَ النَّارِ، أسْبِغُوا الوُضُوءَ. (صحیح مسلم :241)
ترجمہ : ہم نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے ہمراہ مکہ سے مدینہ کو واپس لوٹے یہاں تک کہ جس وقت ہم پانی پر پہنچے جو راستہ میں تھا تو کچھ لوگوں نے نماز عصر کے لیے وضو کرنے میں جلدی کی اور وہ لوگ بہت جلدی کرنے والے تھے ، چنانچہ جب ہم ان لوگوں کے پاس پہنچے تو دیکھا کہ ان کی ایڑیاں چمک رہی تھیں (خشک رہ جانے کی وجہ سے) کیونکہ ان تک پانی نہیں پہنچا تھا (ان خشک ایڑیوں کو دیکھ کر) رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : ایڑیوں کے لئے جہنم کی آگ کی صورت میں ہلاکت ہے، مکمل طور پر وضو کرو۔
اعضائے وضو میں سے کسی حصے یا حصے کے بعض حصے کا خشک رہ جانا عدم وضو کی دلیل ہے یعنی وضو ہوا ہی نہیں۔ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی نے وضو کیا اور اس نے اپنے پیر پہ ناخن کے برابر حصہ چھوڑ دیا یعنی ناخن کے برابر پیر پہ خشک رہ گیا۔ آپ نے اسے دیکھا اور فرمایا:ارجِعْ فأحسنْ وضوءَكَ فرجع ثم صلُّى(صحیح مسلم:243)
ترجمہ : لوٹ جاؤ اور اچھے ڈھنگ سے اپنا وضو کرکے آؤ پس وہ لوٹ گیا پھر اس نے (دوبارہ وضو کرکے) نماز پڑھی۔
اسپرے والی چھوٹی بوتل سے اعضائے وضو کامل طور پر نہیں بھیگ سکتے ہیں اور جب وضو نہیں خشکی رہ جائے تو وضو نہیں ہوگا اور وضو نہیں ہوگا تو نماز بھی نہیں ہوگی لہذا مسلم بہنوں سے گزارش ہے کہ اسپرے سے وضو نہ کریں نل پہ جاکر اچھی طرح کامل وضو کریں اور وضو کی خاطر سستی کا مظاہرہ نہ کریں ۔
سوال(6): روٹی کے چار ٹکڑے کرکے کھانا مسنون ہے ؟
جواب: سنت میں ایسی کوئی دلیل نہیں ہے کہ روٹی چار ٹکڑے کرکے کھانا چاہئے ، جتنی مرضی ٹکڑے کریں اور روٹی کھائیں ، کسی قسم کی کوئی ممانعت نہیں ہے۔
سوال(7): مجھے میری امی جمعہ کے دن کپڑے بھگونے سے منع کرتی ہے ، وہ عہد رسالت کا ایک واقعہ بیان کرتی ہے کہ ایک آدمی نے نبی ﷺ سےتنگی کی شکایت کی تو آپ نے اسے کہا اپنی بیوی کوجمعہ کے دن کپڑا دھونے سے منع کرو، اس آدمی نے اس پر عمل کیا دولت اس قدر بڑھ گئی کہ سنبھالنا مشکل ہوگیا پھر اس نے نبی سے اس بات کا ذکر کیا تو آپ نے کہا جمعہ کے دن کپڑے کا ایک کونہ بھگودو ایسا کرنے سے دولت برابر ہوگئی، اس بات کی کیا حقیقت ہے؟
جواب :آپ کی والدہ نے جو واقعہ بیان کیا ہے وہ میرے علم میں کسی کتاب میں موجودنہیں ہے ، جمعہ کے دن کپڑا دھونے سے کوئی تنگی نہیں آتی اور نہ ہی اس دن کپڑا نہ دھونے سے اس کے سبب کوئی رزق ملتا ہے ، یہ جہالت اور بداعتقادی ہےاس لئے اپنے ذہن سے اس بات کو نکال دیں ۔ جمعہ تو غسل کا افضل دن ہے، اس دن خصوصی طور پر ہمیں رسول اللہ ﷺ نے غسل کا حکم دیا ہے اور ظاہر سی بات ہے کہ جب ہم کپڑا پہن کر غسل کریں گے تو بھیگے ہوئے کپڑے بھی دھونے ہوں گے ۔ معلوم یہ ہوا کہ جمعہ کے دن غسل کرنا اس بات کی واضح دلیل ہے کہ اس دن کپڑا بھی دھوسکتے ہیں ۔
سوال(8):حیض کا غسل جمعہ کے دن نہیں کرسکتے بلکہ کپڑے میں بھی نجاست لگی ہو تو اسے بھی نہیں دھونا ہے ، یہ میری امی کی تعلیم ہے کیا یہ صحیح ہے ؟
جواب :یہ بات بھی جہالت پر مبنی ہے ، اس جہالت کو بھی اپنے گھروں سے دفع کریں ، کس قدر حیرانی کی بات ہے کہ ایک عورت جمعہ کو حیض سے پاک ہورہی ہے اور محض جہالت کی وجہ سے غسل نہ کرکے اس دن کی ساری نمازیں چھوڑتی ہے ۔یہ تو بہت بڑے گناہ کا کام ہے اس سے باز آئیں ۔ جمعہ ہفتے کی عید ہے، اس دن غسل کرنا ،عمدہ لباس لگانا، خوشبو استعمال کرنا، سورہ کہف کی تلاوت کرنا ، دعا کرنا اور نبی ﷺ پر کثرت سے درود پڑھنا مسنون ہے۔ عورتوں کے لئے مسجد میں جمعہ پڑھنے کا مخصوص انتظام ہو تو مردوں کے ساتھ مسجد میں جمعہ کی نماز ادا کریں ورنہ ظہرپڑھیں۔
سوال(9): کیا عورت اپنی عزت بچانے کے لئے خودکشی کرسکتی ہے ؟
جواب: اسلام نے ہمیں کسی بھی حال میں خود کو ہلاک کرنے کی اجازت نہیں دی ہے کیونکہ خود کو ہلاک کرنا گناہ کبیرہ ہے اس گناہ کی وجہ سے آدمی آخرت میں بھی خود کو تکلیف پہنچاتا رہے گا، نبی ﷺ کا فرمان ہے:
مَن تَرَدَّى مِن جَبَلٍ فَقَتَلَ نَفْسَهُ، فَهو في نَارِ جَهَنَّمَ يَتَرَدَّى فيه خَالِدًا مُخَلَّدًا فِيهَا أَبَدًا، وَمَن تَحَسَّى سُمًّا فَقَتَلَ نَفْسَهُ، فَسُمُّهُ في يَدِهِ يَتَحَسَّاهُ في نَارِ جَهَنَّمَ خَالِدًا مُخَلَّدًا فِيهَا أَبَدًا، وَمَن قَتَلَ نَفْسَهُ بِحَدِيدَةٍ، فَحَدِيدَتُهُ في يَدِهِ يَجَأُ بِهَا في بَطْنِهِ في نَارِ جَهَنَّمَ خَالِدًا مُخَلَّدًا فِيهَا أَبَدًا.(صحيح البخاري:5778)
ترجمہ: جس نے پہاڑ سے اپنے آپ کو گرا کر خودکشی کرلی وہ جہنم کی آگ میں ہوگا اور اس میں ہمیشہ پڑا رہے گا اور جس نے زہر پی کر خودکشی کر لی وہ زہر اس کے ساتھ میں ہو گا اور جہنم کی آگ میں وہ اسے اسی طرح ہمیشہ پیتا رہے گا اور جس نے لوہے کے کسی ہتھیار سے خودکشی کر لی تو اس کا ہتھیار اس کے ساتھ میں ہو گا اور جہنم کی آگ میں ہمیشہ کے لیے وہ اسے اپنے پیٹ میں مارتا رہے گا۔
اس لئے کسی بھی مسلمان بہن کو کسی بھی حال میں خودکشی نہیں کرنی چاہئے ۔واقعی  آج کل مسلمانوں کے حالات بہت برے ہیں،کہیں عزت نفس تو کسی کے لئے گھریلومسائل شدید ہیں ، برے سے برے حالات میں بھی میں اپنی بہنوں سے کہوں گا کہ دلیری سے ان کا مقابلہ کریں اور اللہ سے مدد طلب کریں ۔عزت پہ بن آئے تو عزت بچانے کے لئے حتی المقدوراپنا دفاع کریں ۔ جو کوئی مردوعورت جان ومال اور دین وعزت کے دفاع میں قتل کیا جائے شہید کے حکم میں ہے ، نبی ﷺ کا فرمان ہے :
من قُتِلَ دونَ مالِهِ فَهوَ شَهيدٌ ومن قتلَ دونَ دينِهِ فَهوَ شَهيدٌ ومن قتلَ دونَ دمِهِ فَهوَ شَهيدٌ ومن قتلَ دونَ أَهلِهِ فَهوَ شَهيدٌ(صحيح الترمذي:1421)
ترجمہ:جو اپنے مال کی حفاظت کرتے ہوئے قتل کیا جائے وہ شہید ہے، جو اپنے دین کی حفاظت کرتے ہوئے قتل کیا جائے وہ شہید ہے، جو اپنی جان کی حفاظت کی خاطر مارا جائے وہ شہید ہے اور جو اپنے اہل و عیال کی حفاظت کرتے ہوئے قتل کیا جائے وہ شہید ہے۔
مشکل حد سے زیادہ بڑھ جائے اور صبرکرنا ناممکن ہوتب بھی خودکشی کا راستہ اختیار نہیں کرنا ہے تاہم ایسے حالات میں اللہ سے یہ دعا کرسکتے ہیں:
اللَّهُمَّ أحْيِنِي ما كانَتِ الحَياةُ خَيْرًا لِي، وتَوَفَّنِي إذا كانَتِ الوَفاةُ خَيْرًا لِي.(صحيح مسلم:2680)
ترجمہ :یااللہ! جلا مجھ کو جب تک جینا میرے لیے بہتر ہو اور مار مجھ کو جب مرنا میرے لیے بہتر ہو۔
سوال(10): میری ایک سہیلی کی شادی کئی سالوں سے نہیں ہورہی ہے کوئی وظیفہ بتائیں، شادی کا رشتہ آتا ہے مگر کہیں سے کوئی جواب نہیں آتاوہ کیا کرے؟
جواب : اسلام میں ایسا کوئی وظیفہ نہیں ہے جسے پڑھنے سے فورا شادی ہوجاتی ہے جو ایسا کہتا ہے وہ لوگوں کا مال ٹھگنے کے لئے کہتا ہے ، مال کےایسے لٹیروں سے ہوشیار رہیں ۔ شادی زندگی کا ایک اہم ترین اور نازک مرحلہ ہے ،اس سلسلے میں اسلام نے ہمیں رہنمائی کی ہے کہ جو شادی کے لائق ہوجائے وہ بلاتاخیردیندار سے شادی کرلے۔ آج کل شادی میں تاخیراورپریشانی اکثر ہماری غفلت اوربے دینی کا نتیجہ ہے۔اولا وقت پر شادی نہیں کرتے ، ثانیا تاخیر سے شادی کا ارادہ کرتے ہیں پھر معیار شادی دولت، حسن وجمال، نوکری،ذات وبرادری ، جاہ ومنصب اور اعلی تعلیم ٹھہراتے ہیں ، اس معیار کی تلاش میں عمر کا ایک حصہ گزرجاتا ہےجبکہ شادی میں معیار فقط دین ہے۔ کبھی شادی ہمارے لئے اللہ کی طرف سے آزمائش بھی ہوسکتی ہے اس لئے اپنا محاسبہ کرنا چاہئے اور اعمال صالحہ کے ذریعہ اللہ سے مدد طلب کرنا چاہئے ۔
آپ اپنی سہیلی سے کہیں کہ نماز اورصبر کے ذریعہ اللہ سے مدد مانگے اور اپنے اولیاء سے کہے کہ نکاح کی کوشش جاری رکھے اور دیندار لڑکا مل جائے تو رشتہ طے کرلے خواہ وہ غریب اور کسی ذات کا ہو بس دیندار ہونا چاہئے حتی کہ کوئی شادی شدہ مرد بھی مل جائے تو اس سے شادی میں عار نہیں ہونی چاہئے۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کوئی تبصرہ کرنا چاہتے ہیں تو مثبت انداز میں تبصرہ کر سکتے ہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔