Monday, October 7, 2019

بنت حوا کے مسائل اور ان کا شرعی حل(قسط-18)


بنت حوا کے مسائل اور ان کا شرعی حل(قسط-18)

جوابات ازشیخ مقبول احمد سلفی
اسلامک دعوۃ سنٹر، شمالی طائف (مسرہ) سعودی عرب

سوال (1):لوگ کہتے ہیں کہ عورتیں ناقص العقل ہوتی ہیں ، ان کی وجہ سے ہی گھروں میں بگاڑ پیدا ہوتا ہے کیا ایسی بات حدیث میں آئی ہے ؟
جواب : صحیح مسلم میں ہے کہ عورت کےدین اوراس کی عقل میں نقص ہوتا ہے ،یہ بات علی الاطلاق نہیں ہے بلکہ دین میں نقص سے مراد حیض ونفاس کی حالت  میں نماز وروزہ ادا نہ کرنا ہے اور عقل میں نقص سے مرادمالی گواہی میں (تمام قسم کی گواہی میں نہیں )مردوں کے مقابلے میں آدھی گواہی ہے ۔ عقل کے اعتبار سے عورت مردوں سے کم نہیں ہے ،اسی مذکورہ حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک عورت کو"امراۃ جزلۃ"سے تعبیرکیا ہےجس کے معنی زیادہ عقل والی عورت ہے جو رسول اللہ سے پوچھتی ہیں کہ ہماری عقل اور دین میں کیا کمی ہے ؟ اگر عورت عقل میں علی الاطلاق مردوں سے کم ہوتی تو آپ اسے عقلمند عورت نہ کہتے ۔حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بہت تیز ، ذہین وفطین اور بڑی علم والی تھیں ، کبارصحابہ آپ سے علمی استفادہ کرتے تھے ۔(۲۲۱۰) احادیث بیان کرنے والی زوجہ رسول  کی کسی روایت پر انگلی نہیں اٹھائی جاسکتی ہے کہ اسے بیان کرنے والی عورت ہے اور عورت کی عقل میں نقص ہے۔ آپ کی بہن کے بیٹے عروہ جنہیں نہ صرف آپ کی مصاحبت نصیب ہوئی بلکہ ان کے علم سے بہت فائدہ بھی اٹھائے وہ کہتے ہیں :"ما رأيت أحداً أعلم بفقه ولا طب ولا شعر من عائشة - رضي الله عنها" یعنی میں نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے زیادہ فقہ، طب اور شعر کا زیادہ جانکار نہ دیکھا۔ طبقات ابن سعد میں ہے : كانت عائشة - رضي الله عنها - أعلم الناس، يسألها الأكابر من أصحاب رسول الله - صلى الله عليه وسلم - سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا لوگوں میں سب سے زیادہ جانکار تھیں ، آپ سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اکابر صحابہ مسائل دریافت کرتے تھے ۔
آپ کی علمی اور فقہی بصیرت کے بارے میں تو بہت کچھ بیان کیا جاتا ہے اور ان لوگوں کی تردیدکے لئے آپ کی مثال ہی کافی ہے جو عورتوں کو ہراعتبار سے بے عقل کہتے ہیں اس لئےکسی کو یہ زیب نہیں دیتا کہ عورتوں کو بے عقل کا طعنہ دے ۔ گھروں میں ہونے والے جھگڑوں کے مختلف اسباب ہوسکتے ہیں ہمیں ان کو جاننے اور دور کرنےکی ضرورت ہے اور حاکمیت مردوں کا حق ہے اس حق کی ادائیگی ٹھیک ڈھنگ سے کرنی ہے ، زیادہ تر جھگڑے حاکمیت میں بے توجہی ، حق تلفی اور مشترکہ خاندانی نطام کی وجہ سے ہوتے ہیں۔
سوال (2):ایک عورت سلائی سے کچھ پیسے جمع کی ہے اور اپنے بھتیجے کے ساتھ عمرہ کرنا چاہتی ہے مگر ابھی بھی کچھ رقم کی ضرورت ہے ایسے میں کیا زکوۃ کی رقم سے ان کی مدد کی جاسکتی ہے ؟
جواب :بعض اہل علم جن میں شیخ الاسلام ابن تیمیہ ؒ بھی ہیں کہتے ہیں  کہ فریضہ حج کی ادائیگی کے لئے فقراء ومساکین کوزکوۃ کی رقم سے امداد کی جاسکتی ہے اس لئے کوئی صاحب خیرحج کے سلسلے میں اس عورت کی امداد کرنا چاہیں تو کر سکتے ہیں ۔
سوال (3): مجھے بیماری کے لئے دعائیں بتائیں تاکہ ان کو پڑھتی رہوں اور دل کو سکون ملے اور بیماری میں افاقہ نصیب ہو ۔
جواب : عموما خواتین بیماری، گھریلو مسائل، نوکری اور اولاد کے واسطے مجھ سے مخصوص قسم کاوظیفہ پوچھتی رہتی ہیں اور ایسے مواقع پرمیں نے عوام میں مختلف قسم کے خیالات اور اعمال کا مشاہدہ کیا ہے، اس وجہ سے اپنی بہنوں کو چند باتوں کی نصیحت کرنا چاہتا ہوں ۔
سب سے پہلی بات یہ ہے کہ پریشانی اللہ کی جانب سے ہے ، ہم اس بات کا عقیدہ رکھیں اور دل سے یہ خیال نکال دیں کہ کسی دوسرے کی وجہ سے پریشانی آئی ہے یا ہمارے اوپر یا گھر پہ کوئی سایہ رہتا ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ جب ہمارے اوپر پریشانی آئے تو اپنے اعمال کا محاسبہ کرنا چاہیے کیونکہ بسا اوقات اعمال کی خرابی کی وجہ سے پریشانی آتی ہے اوراعمال صالحہ و توبہ کے ساتھ  اللہ تعالی کی طرف رجوع کرنا چاہئے ۔
تیسری بات یہ ہے کہ اسلام نے ہر بیماری اور پریشانی کا علاج بتلایا ہے ، جب کسی کو بیماری لاحق ہو تو اس کا طبی معائنہ کرائے اور اچھے سے علاج کرائے ، بیماری کو لاعلاج چھوڑ کر صرف اللہ پر بھروسہ کرنا غلط ہے۔ اللہ نے ہی ہمیں علاج کرنے کو کہا ہے ۔
چوتھی بات یہ ہے کہ نبی ﷺ نے جو مسنون دعائیں سکھائی ہیں ان کا بھی ورد کریں مثلا صبح وشام، نماز اور سونے جاگنے کی دعائیں وغیرہ ۔ ان اذکار کی برکت سےموجودہ پریشانی میں راحت ملے گی اور بہت ساری انہونی آفات سے حفاظت ہوگی ۔
پانچویں بات یہ ہے کہ ہمیں رسول اللہ نے ہر بیماری کی مخصوص دعا نہیں بتائیں ، چند بیماریوں کی دعا بتائی ہیں ۔ آپ کو آپ کی پریشانی کے مطابق مسنون دعا مل جائے تو بغیر عدد اور وقت خاص کئے وہ دعا پڑھتے رہیں اور اس پریشانی کی مسنون دعا نہ ملے تو عام پریشانی سے متعلق وارد تمام دعائیں پڑھ سکتے ہیں۔ یاد رہے من گھرنت وظیفے  اور ضعیف دعاؤں سے پرہیز کریں ۔
آخری سب سے اہم نصیحت یہ ہے کہ سماج میں بہت سے لوگ پیسہ کمانے کے لئے عملیات کرتے ہیں ، ان کے پاس نہ جائیں وہ آپ میں ڈر پیدا کرکے آپ سے مال کمائیں گے۔
سوال (4):کیا مسلمان عورت شیعہ کے بچوں کو قرآن پڑھا سکتی ہے ؟
جواب : شیعہ بچے کو قرآن کی تعلیم دینے میں کوئی حرج نہیں ہے بلکہ یہ تو ایک اچھا موقع ہوگا کہ اسے قرآن کی تعلیمات اور دین حق سے بھی متعارف کرایا جائے۔اس کے گھر سے بھی اچھے روابط رکھے جائیں اور بچہ کے ساتھ اس کے گھروالوں کو بھی صحیح مسلمان بنانے کی کوشش کی جائے۔
سوال (5):کیا عورت کے لئے گھر میں اور بیت الخلا میں داخل ہوتے وقت سر کے بالوں کو چھپانا واجب ہے ؟
جواب : شریعت میں ایسی بات مذکور نہیں ہے کہ عورت گھر میں داخل ہو یا بیت الخلاء جائے تو سر پہ دوپٹہ رکھ لے ۔ جہاں کوئی اجنبی مرد نہیں ہو وہاں عورت اپنا سر کھول سکتی ہے ۔
سوال (6): کیا ایسی جگہ جہاں ایک عورت موجود نہ ہو اور اس جگہ عورت کا ذکر ہو تو اس سے بھی نظر لگ سکتی ہے ؟
جواب : نظر کہتے ہیں کسی چیز کو آنکھ سے دیکھنے کو ، جب کوئی چیز سامنے نہیں ہوگی تو اس پہ نظر نہیں پڑے گی اور جس پہ نظر نہ پڑے اسے نظر نہیں لگ سکتی ۔
سوال(7):ایک عورت کا انتقال ہوا ہے اس نے بہت سارا جہیز کا سامان اور ذاتی ملکیت چھوڑی ہے ، یہ چیزیں اور استعمال کی چیزیں کیا کرنی ہے ؟
جواب : عورت کی وفات کے بعد اس کا چھوڑا ہوا ترکہ اس کے وارثین یعنی شوہر، اولاد اور اس کے ماں باپ میں تقسیم ہوگااور جو استعما ل کی چیزیں ہیں مثلا کپڑے وغیرہ تو انہیں آپس میں جس طرح تقسیم کرنا چاہیں کرلیں اور دوسروں کو ہدیہ کرنا چاہیں تو یہ بھی کرسکتے ہیں ۔ میت کے استعمال کی چیزیں اگر استعمال کے قابل ہوں تو انہیں استعمال کی جاسکتی ہیں انہیں پھینک کر ضائع نہیں کرنا چاہئے ۔
سوال(8):قرآن کو تھیلے میں لٹکاکر اوپر رکھنا کیسا ہے جبکہ نیچے کوئی اونچی چیز رکھنے کے لئے نہ ہو ؟
جواب : قرآن کا ادب واحترام ہمارے اوپر واجب ہے اورجس پہلو سے بھی اس کی اہانت ہو اس سے پرہیز کرناہے۔ اہل علم نے قرآن کو اونچی جگہ رکھنا بہتر خیال کیا ہے تاکہ جس طرح یہ کتاب  اعلی وارفع ہے اسی طرح کسی جگہ رکھنے میں بھی بلند رہے،اسی طرح تھیلے میں لٹکاکر بھی اسے بلند رکھ سکتے ہیں۔ جہاں بلند جگہ قرآن رکھنے کی گنجائش نہ ہو وہاں نیچے پاک فرش وزمین پربھی رکھ سکتے ہیں کیونکہ ایسا کرنا مجبوری کے تحت ہے۔
سوال (9):ایک خاتون نے بالوں کا علاج کرایا ہے جس کی وجہ سے تین دن تک اس میں پانی نہیں لگنا چاہئے ، ایسے میں وضو اور غسل کے لئے تیمم کر سکتی ہے؟
جواب : مسلمان عورت کو ایسا شوق نہیں رکھنا چاہئے جس کی وجہ سے حقوق وفرائض متاثر ہوں ۔ غسل طہارت میں لازما سر کے بالوں کی جڑوں تک پانی پہنچانا ہے اور وضو میں پورے سر کا مسح کرنا ہے ، اگر کسی نے ایسا نہ کیا تو اس کاغسل اور وضو نہ ہوگا اور جب غسل نہ ہو یا وضو نہ ہو تو نماز نہیں ہوگی ۔ تیمم اس صورت میں جائز ہے جب پانی نہ ملے یا پانی کا استعمال مضر ہو ۔اس لئے میری بہنو! عبادتیں ضائع نہ کرو ،ماہواری یا نفاس کے ایام میں ہیرٹریٹمنٹ کرائیں کوئی حرج نہیں ہے۔
سوال (10):ایک بیٹے نے ذاتی کمائی کا ایک مکان ماں کے نام سے کردیا تو وہ مکان بعد میں ماں کی جائیداد ہوگی اور اس کی اولاد میں تقسیم ہوگی یا پھر اسی بیٹے کا رہے گا؟
جواب : جس بیٹے نے ماں کے نام مکان کیا ہے اس کی نیت پوچھی جائے گی کہ اس نے یہ مکان ماں کو ہدیہ کردیا ہے یا حکومتی کاروائی میں مشکلات کی وجہ سے محض کاغذی طور پر ماں کے نام کیا ہے ؟۔اگر بیٹے نے ماں کو ہدیہ نہیں کیا ہے تو وہ مکان بیٹے کی ملکیت ہے اور اگر ماں کو کفٹ کردیا ہے تو وہ ماں کی ملکیت ہے ۔ ماں یا بیٹے کی وفات ہوجائے تو اس مکاں کی تقسیم ملکیت کے حساب سے وارثوں میں ہوگی ۔
سوال (11):میں ایک طبیبہ ہوں میرے پاس لوگ الٹراساؤنڈ کے لئے آتے ہیں اور مجھ سے انتہائی درخواست کے ساتھ بچے کا جنس (لڑکا /لڑکی) پوچھتے ہیں ، میرے لئے ایسے میں قرآن وحدیث سے کیا حکم ہے ؟
جواب : طبی ضرورت کے تحت الٹراساونڈ کی اجازت ہے تاہم جولوگ محض بچے کا جنس معلوم کرنے کے لئے الٹراساونڈ کرواتے ہیں جائز نہیں ہے ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ عورت کا پورا جسم پردہ ہے اسے کوئی اجنبی مرد بلاضرورت نہیں دیکھ سکتا جبکہ عموما الٹراساونڈ کرنے والا مرد ہی ہوتا ہے اور عورت بھی ہو تب بھی بلاضرورت کسی دوسری عورت کا بدن ناف سے گھٹنے کے درمیان نہیں دیکھ سکتی ہے ۔طبی ضرورت کے تحت کرائے گئے الٹراساونڈ کے وقت آپ نے جنین کا جنس بتلادیا تو کوئی حرج نہیں ہے لیکن صرف جنس بتلانے کے لئے الٹراساونڈ نہیں کرسکتے اور اگر کسی شخص کے بارے میں یہ معلوم ہوجائے کہ جنین لڑکی ہو تو ساقط کرواسکتا ہے تب تو اسے ہرگز جنس کی خبر نہیں دینا چاہئے ۔
سوال (12):دوا کمپنی والے ڈاکٹرکے پاس نئی دوائیاں پرچار کے لئے لاتے ہیں اور ساتھ ہی کچھ پیسہ ہدیہ میں دیتے ہیں کیا یہ پیسے ڈاکٹر لے سکتے ہیں ؟
جواب : اگر دوائیاں مریض کے حق میں معیاری اور مفید ہیں تو ان دوائیوں کے اشتہار کے بدلے دوا کمپنی والوں کی طرف سے دئے گئے ہدیہ قبول کرنے میں حرج نہیں ہے لیکن اگر دوا غیرمعیاری اور غیرمفید ہو تو ڈاکٹر کو چاہئے کہ اس کا پرچار نہ کرے ۔
سوال(13):بیوی کے زیورات کی زکوۃ شوہر کے ذمہ ہے یا بیوی نکالے گی اور پھر بیوی کے پاس پیسے نہ ہوں تو کیا کرے ؟
جواب : بیوی کے زیورات کی زکوۃ بیوی کے ذمہ ہے کیونکہ وہ زیورات کی مالکن ہے اور اگر شوہر بیوی کی طرف سے زیورات کی زکوۃ ادا کرنا چاہے تو اداکرسکتا ہے ۔ بیوی کے پاس زکوۃ کی ادائیگی کے لئے روپیہ نہ ہو تو شوہر یا میکے سے مدد طلب کرسکتی ہے یا پھر زیورات کا کچھ حصہ بیچ کر زکوۃ ادا کرے ۔
سوال (14):ایک خاتون کے دادا ابو بیمار ہیں تو ان کی دیکھ بھال کرتی ہے، رات میں تاخیر سے سوتی ہے اور فجر کی نماز چھوٹ جاتی ہے اس عورت کو کیا کرنا چاہئے ؟
جواب : یہ اچھی بات ہے کہ عورت گھر کے بوڑھوں کی خدمت کرے ، یہ احسان کے درجے میں ہےاور احسان کرتے ہوئےیہ بات بھی خیال رکھنا ضروری ہے کہ حقوق وواجبات کی ادائیگی میں کوتاہی نہ ہو۔عورت کو چاہئے کہ احسان وخدمت کے ساتھ وقت پر نماز فجر کی ادائیگی کے لئے مناسب طریقہ اختیار کرے ،کم ازکم یہ کرسکتی ہے کہ سورج نکلنے سے پہلے پہلے یعنی فجر کو آخری آخری وقت ادا کرنے کی کوشش کرے ۔
سوال (15): ایک لڑکا شادی کی نیت سے ایک لڑکی سے بات کرنا چاہتا ہے تو کیا یہ جائز ہے ؟
جواب : نکاح سے متعلق مباح بات چیت اس لڑکی سے کرنا جائز ہے جس سے نکاح کا ارادہ ہے جیساکہ نبی ﷺ نے مخطوبہ (منگیتر) کو شادی سے پہلو دیکھنے کی اجازت دی ہے ۔ یاد رہے بات چیت یا منگیتر کو دیکھنا خلوت میں نہ ہو بلکہ لڑکی کے باپ ، بھائی اور ماں وغیرہ کے سامنے ہو اور غیرضروری بات چیت ، طول کلامی یا فون پہ مسلسل روابط جائز نہیں ہے۔
سوال (16): ہندوستان میں جب کسی لڑکی کی شادی ہو جاتی ہے اورجب اس کا کوئی سرکاری کاغذ بنتا ہے مثلا آدھار کارڈ، ووٹرکارڈ، بینک پاس بک، پاسپورٹ وغیرہ تو اپنے نام کے ساتھ باپ کے نام کے بجائے شوہر کا نام ہوتا ہے مثلا بیوی عائشہ اور شوہرعبدالرحمن ہو تو عائشہ عبدالرحمن ہوجاتا ہے کیا یہ غلط ہے؟ بعض لوگ کہتے ہیں کہ باپ کے علاوہ دوسروں کی طرف نسبت حرام ہے اور دلیل بھی دئیے ہیں: مَنْ انْتَسَبَ إِلَى غَيْرِ أَبِيهِ .. فَعَلَيْهِ لَعْنَةُ اللَّهِ وَالْمَلائِكَةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ(رواه ابن ماجة: 2599)
جواب : اس مسئلے میں پہلی بات تو یہ ہے کہ جب ہندوستان میں اس قسم کا کوئی کارڈ بنتا ہے تو پہلے فارم پر کیا جاتا ہے جس میں لڑکی کی معلومات درج کی جاتی ہے اور شوہر کا نام بحیثیت شوہر ہی لکھا جاتا ہے نہ کہ باپ کی حیثیت سے حتی کہ بعض کارڈز میں وائف(فلاں کی بیوی ) کا لفظ بھی مکتوب ہوتا ہےاس لئے اس میں کوئی حرج نہیں ہے اور حدیث میں جس بات کی ممانعت ہے وہ غیرباپ کی طرف نسبت کا دعوی کرنا ہے یعنی کوئی غیرباپ کو اپنا باپ کہہ کر نہیں بلا سکتا ہےلیکن فلاں کی بیوی ، فلاں کی بہن اور فلاں کی بہو جیسے الفاظ قطعی ممنوع نہیں ہیں ۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کوئی تبصرہ کرنا چاہتے ہیں تو مثبت انداز میں تبصرہ کر سکتے ہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔