Wednesday, October 30, 2019

اسقاط حمل پہ دیت وکفارہ کا حکم


اسقاط حمل پہ دیت وکفارہ کا حکم

تحریر: مقبول احمد سلفی
اسلامک دعوۃ سنٹرشمالی طائف(مسرہ)

آج انسانی جان کی قیمت گاجرمولی سے کمتر معلوم ہوتی ہے یہی وجہ ہے کہ قتل جیسے سنگین جرائم اب کھیل تماشہ بن گیا ہے۔ قاتلوں کے خلاف کوئی سخت اقدام نہیں بلکہ اکثر قاتلوں کی پشت پناہی کی جاتی ہے ۔ پشت پنانی کرنے والے سماجی افراد ہی نہیں عدالت وکچہری بھی ہے۔ ایک قاتل کو کھلے عام گھومتے دیکھ کر دوسروں میں بھی قتل وغارتگری کا عنصر پیدا ہوجاتا ہے۔ اس طرج آج کا سماج قتل وخون میں لت پت ہے ، انسانیت سسک رہی ہے اور حکومت وعدالت کے قوانین کاغذوں کی فقط زینت بنے ہوئے ہیں ۔
مذکورہ تمہید کا عنوان سے ربط یہ ہے کہ ماں کے پیٹ میں پل رہے بچے کا اسقاط بھی قتل جیسا سنگین جرم ہے بلکہ ایک طرح سے قتل سے بھی بھیانک جرم ہے ۔ یہ وہ سفاکانہ قتل ہے جو زمانہ جاہلیت میں زندہ درگور ہونے والی بچیوں کے مشابہ ہے۔کل قیامت میں ان سب سے سوال کیا جائے گا جنہوں نے کسی کا قتل کیایاقتل کرنے پر مدد کی،معصوم کا خون بہایا، حمل ضائع کیا اور زندہ درگور کیا۔
آج کل حمل ضائع کرنا تو معمولی سی بات بن گئی ہے ، نہ ڈاکٹر کو شرم وخوف ہے ابارشن میں اور نہ ہی میاں یا بیوی کواوراس زمانے کاقانون تواندھا بہرا ہےہی۔ ایسے پرفتن حالات میں اللہ ہی لوگوں کو ہدایت دینے والا ہے۔اللہ نے اپنے بندوں کو فقروفاقہ کے ڈر سے اولاد کا قتل کرنے سے منع کیا ہے اور آج اسی سبب اکثر حمل کا اسقاط ہورہاہے ۔ مسلمان ہونے کا مطلب اللہ کا مطیع وفرمانبردار ہونا ہے ، اگر ہم واقعی مسلمان ہیں توماں کے پیٹ میں پل رہے بچے کی حفاظت والدین کی ذمہ داری ہے، یہ اللہ کی امانت ہے اس کو نقصان پہنچانا یا ضائع کرنا امانت میں خیانت اور انسانی قتل ہے۔
حمل ایک نفس اور ایک جان ہے ، حمل کی مدت جوں جوں بڑھتی ہے اس میں خلقت پروان چڑھتی جاتی ہے ۔ حمل کے پہلے چالیس دن کے بعد دوسرا چالیسواں شروع ہوتا ہے تو بیالیسویں دن انسانی تخلیق کی شروعات ہوجاتی ہے ، نبی ﷺ کا فرمان ہے :
إذَا مَرَّ بالنُّطْفَةِ ثِنْتَانِ وَأَرْبَعُونَ لَيْلَةً، بَعَثَ اللَّهُ إلَيْهَا مَلَكًا، فَصَوَّرَهَا وَخَلَقَ سَمْعَهَا وَبَصَرَهَا وَجِلْدَهَا وَلَحْمَهَا وَعِظَامَهَا(صحيح مسلم:2645)
ترجمہ: جب نطفے پربیالیس راتیں گذر جاتی ہیں تو اللہ تعالیٰ اس کے پاس ایک فرشتہ بھیجتا ہے، وہ اس کی صورت بناتا ہے، اس کے کان، آنکھیں، کھال، گوشت اور اس کی ہڈیاں بناتا ہے۔
اور صحیح مسلم کی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ 120 دن یعنی چار ماہ کی مدت پہ جنین میں روح پھونکی جاتی ہے ، نبی ﷺکا فرمان ہے :
إنَّ أَحَدَكُمْ يُجْمَعُ خَلْقُهُ في بَطْنِ أُمِّهِ أَرْبَعِينَ يَوْمًا، ثُمَّ يَكونُ في ذلكَ عَلَقَةً مِثْلَ ذلكَ، ثُمَّ يَكونُ في ذلكَ مُضْغَةً مِثْلَ ذلكَ، ثُمَّ يُرْسَلُ المَلَكُ فَيَنْفُخُ فيه الرُّوحَ(صحيح مسلم:2643)
ترجمہ: بے شک تم میں سے ہر ایک آدمی کا نطفہ اس کی ماں کے پیٹ میں چالیس دن جمع رہتا ہے، پھر چالیس دن میں لہو کی پھٹکی ہو جاتا ہے، پھر چالیس دن میں گوشت کی بوٹی بن جاتا ہے، پھر اللہ تعالیٰ اس کی طرف فرشتے کو بھیجتا ہے وہ اس میں روح پھونکتا ہے۔
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ جنین پر چار ادوار گزرتے ہیں تب جاکر خلقت مکمل ہوتی ہے ، پہلے دور جوکہ چالیس دنوں پر محیط ہوتا ہے اس میں منی پر مختلف مراحل گزرتے ہیں ،اس مرحلہ کو نطفہ کہا جاتا ہے ،پھر دوسرےمرحلے(چالیس دن) میں نطفہ مختلف مراحل سےگزرکر منجمد خون کی شکل اختیار کرتا ہے اس مرحلہ کو علقہ کہاجاتا ہے ، پھرتیسرے مرحلے(چالیس دن) میں منجمد خون گوشت کے لوتھڑے کی شکل اختیار کرتا ہے ،اسے مضغہ کہا جاتا ہے۔ ان تین مراحل سے گزرکر جنین میں اعضاء کی تشکیل اور ہڈیوں کی بناوٹ کے آثار ظاہر ہوجاتے ہیں اور جب چار ماہ بعد اعضائے جسم کا ظہور ہوجاتا ہےتو اس میں روح پھونک دی جاتی ہے ۔
ان باتوں سے ہم نے یہ جانا کہ جب حمل ٹھہرجاتا ہے تو پھر اس کی خلقت کا سلسلہ جاری رہتا ہے اس وجہ سے شروع حمل میں یا درمیان یا آخر میں کبھی بھی اسقاط جائز نہیں ہے ، جن علماء نے کہا کہ بلاسبب بھی پہلے چالیس دن میں حمل کا اسقاط کرسکتے ہیں وہ خطا پر ہیں ، حمل کے معاملے میں اصل یہی ہے کہ بلاعذر اس کا اسقاط نہ پہلے دور میں جائز ہے اور نہ ہی دوسرے،تیسرے اور آخری دور میں بلکہ 42 دن کے بعد جب کان ناک آنکھ کے آثار پیدا ہوجاتے ہیں تب اور بھی سخت جرم ہے اور اس سے بڑا جرم 120 دن کے بعد اسقاط ہے کہ اس وقت بچے میں روح پھونک دی جاتی ہے ۔
اگر کسی عورت نے خود سے، یا شوہریا کسی دوسرے کے بہکاوے میں آکر حمل کا اسقاط کروا دیا ہے تو اس عورت پر لازم ہے کہ فورا اللہ کے حضور گڑگڑاکر سچی توبہ کرے اور کثرت سے استغفار کرے کہ کہیں یہ جرم اس کی ہلاکت کا موجب نہ جائے ، سچی توبہ سے ممکن ہے کہ گنہگار کو بخش دے۔
اب یہاں یہ حکم جاننا ہے کہ کسی عورت نے بلاعذرعمدا حمل ساقط کروایا ہے توكيا اس پر توبہ کے ساتھ کفارہ بھی ہوگا؟
تو اس سوال کا جواب یہ ہے کہ اگر اسقاط پہلے دوریعنی اول چالیسویں میں ہو تو اس میں عورت پر فقط توبہ واستغفار لازم ہے اور اگر دوسرے دورمیں 42 دن کے بعد اور روح پھونکنے سے پہلے ہواہو تو دیت دینی ہوگی کیونکہ اس مرحلہ میں انسانی خلقت کی ابتداء ہوچکی ہوتی ہے جیساکہ صحیح مسلم کی روایت سے ہمیں معلوم ہوا ہے۔ اس دیت کی دلیل مندرجہ ذیل حدیث ہے :
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَضَى فِي امْرَأَتَيْنِ مِنْ هُذَيْلٍ اقْتَتَلَتَا، فَرَمَتْ إِحْدَاهُمَا الأُخْرَى بِحَجَرٍ، فَأَصَابَ بَطْنَهَا وَهِيَ حَامِلٌ، فَقَتَلَتْ وَلَدَهَا الَّذِي فِي بَطْنِهَا، فَاخْتَصَمُوا إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَضَى: أَنَّ دِيَةَ مَا فِي بَطْنِهَا غُرَّةٌ عَبْدٌ أَوْ أَمَةٌ، فَقَالَ وَلِيُّ المَرْأَةِ الَّتِي غَرِمَتْ: كَيْفَ أَغْرَمُ، يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَنْ لاَ شَرِبَ وَلاَ أَكَلَ، وَلاَ نَطَقَ وَلاَ اسْتَهَلَّ، فَمِثْلُ ذَلِكَ يُطَلُّ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنَّمَا هَذَا مِنْ إِخْوَانِ الكُهَّانِ»(صحيح البخاري:5758)
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے قبیلہ ہذیل کی دو عورتوں میں فیصلہ کیا جنہوں نے آپس میں جھگڑا کیا تھا۔ ان میں سے ایک نے دوسری کو پتھر مارا جو اس کے پیٹ پر کر لگا۔ یہ عورت حاملہ تھی، اس لیے اس کے پیٹ کا بچہ مرگیا۔ یہ معاملہ دونوں فریق نبی ﷺ کے پاس لے کر آئے تو آپ نے فیصلہ فرمایا کہ عورت کے پیٹ کی دیت ایک غلام یا لونڈی ادا کرنا ہے۔ جس عورت پر تاوان واجب ہوا تھا اس کے سرپرست نےکہا: میں اس کا تاوان ادا کروں جس نے نہ کھایا نہ پیا نہ بولا اور نہ چلایا؟ ایسی صورت میں تو کچھ بھی دیت واجب نہیں ہوسکتی۔ اس پر نبی ﷺ نے فرمایا: یہ تو کاہنوں کا بھائی معلوم ہوتا ہے۔
42 دن سے لیکر 120 دن سے پہلے تک اسقاط حمل کروانے کی صورت میں دیت دینا ہوگا ، دیت کو " غرۃ عبد او امۃ "سے تعبیر کیا گیا ہے یعنی ایک غلام یا لونڈی کی شکل میں بچے کی دیت ہوگی ، اس سے مراد ماں کی دیت کا دسواں حصہ جوکہ پانچ اونٹ بنتا ہے ۔اس بابت شیخ ابن باز رحمہ اللہ نے ذکر کیا ہے کہ "مرد کی دیت سواونٹ ہے ، اس کا آدھا پچاس اونٹ کی دیت عورت کی ہوگی ، اس طرح عورت کی دیت کا دسواں حصہ پانچ اونٹ بنتا ہے اور آج کل دیت کی قیمت ایک لاکھ ریال ہے اس طرح عورت کی دیت کا دسواں حصہ پانچ ہزار ریال ہوگا"۔
یہ دیت جنین کے وارثوں میں تقسیم ہوگی تاہم جنین کے قاتل خواہ ماں ہو یا باپ یا دونوں ان کو حصہ نہیں ملے گا کیونکہ رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے :
ليس للقاتلِ شيءٌ، وإن لمْ يكن لهُ وارثٌ، فوارثهُ أقربُ الناسِ إليه، ولا يرثُ القاتلُ شيئًا(صحيح أبي داود:4564)
ترجمہ:قاتل کے لیے کچھ بھی نہیں، اور اگر اس کا کوئی وارث نہ ہو تو اس کا وارث سب سے قریبی رشتے دار ہو گا لیکن قاتل کسی چیز کا وارث نہ ہو گا۔
اگر اسقاط روح پھونکنے کے بعد کرایاگیاہوجس کے نتیجے میں جنین کی موت ہوجائے تو دیت کے ساتھ کفارہ بھی دینا پڑے گا اور کفارہ یہ ہے کہ یاتو ایک مسلمان غلام کی گردن آزاد کرے یا پھر مسلسل دوماہ کے روزے رکھے ۔
مقتول کے ورثاء چاہیں تو دیت معاف ہوسکتی ہے لیکن کفارہ معاف نہیں ہوسکتا ہے کیونکہ دیت حقوق العباد ہے جو بندوں کے معاف کرنے سے معاف ہوجائے گا لیکن کفارہ اللہ کا حق ہے جسے فرض کردیا گیا ہے ،اسے ہرحال میں ادا کرنا ہوگا،اللہ کا فرمان ہے :
ومن قتل مؤمنا خطأ فتحرير رقبة مؤمنة ودية مسلمة إلى أهله إلا أن يصدقوا (النساء:92)
ترجمہ:جو شخص کسی مسلمان کو بلاقصد مار ڈالے ،اس پر ایک مسلمان غلام کی گردن آزاد کرنا اور مقتول کے عزیزوں کو خون بہا پہنچانا ہے ، ہاں یہ اور بات ہے کہ وہ لوگ بطور صدقہ (دیت)معاف کردیں(توکوئی بات نہیں)۔
آخر میں مسلمان عورتوں سے گزارش کرتا ہوں کہ مغربی تہذیب کی نقالی اور غیروں کی دیکھادیکھی میں اپنی اولاد کا قتل نہ کریں، نہ ہی فقروفاقہ اور تعلیم کا بہانہ بناکر معصوم کی جان لیں ۔ یاد رکھیں ، روزی کا مالک اللہ ہے ، جس طرح وہ آپ کو روزی دیتا ہے اسی طرح آنے والے بچے کو بھی اپنے نصیب کی روزی دے گا۔ اگر آپ نے یہ بات ذہن میں نہ بٹھائی اور من مانی کرتے ہوئے حمل ساقط کرواتے رہیں تو عین ممکن ہے بچے کی روزی کا حصہ آپ کی روزی سے کم کردی جائے ، زندگی میں آزمائش بڑھادی جائے اور معصوم بچےکےقتل کے جرم میں آخرت میں دردناک سزا سے دوچار کیا جائے ۔ الحفظ والامان
مکمل تحریر >>

Sunday, October 27, 2019

قادیانیت کے بڑھتے قدم اورہماری ذمہ داریاں


قادیانیت کے بڑھتے قدم اورہماری ذمہ داریاں

تحریر: مقبول احمد سلفی
اسلامک دعوۃ سنٹر، طائف (سعودی عرب)

عقیدہ ختم نبوت ، عقائد کے باب میں ایک اہم ترین عقیدہ ہے ۔ عہد رسول سے ہی اس عقیدہ کی حفاظت کی گئی ہے اور آج تک بلکہ یہ کہہ لیں قیامت تک منہج سلف پر چلنے والےکما حقہ  اس کی حفاظت کرتے رہیں گے ، اس سلسلے میں مناظراسلام مولاناثناء اللہ امرتسری ؒ کا نام ہمیشہ سرفہرست رہے گا۔ اسلام اللہ کا نظام اور اس کے دستور کا نام ہے اس لئے اللہ کے دشمن ہمیشہ سے اسلام کے خلاف ریشہ دوانیاں کرتے رہے مگر اسلام سدا پھلتا پھولتا رہا اور زمانے میں پھیلتا رہا۔ اللہ نے اس دین کو تمام ادیان باطلہ پرغالب کرنے کا عہد کرلیا ہے اور ان شاء اللہ یہ ہوکر رہے گا چاہے کفر کی ساری خدائی اس کے خلاف آپس میں دوست ومعاون  ہی کیوں نہ بن جائے ۔
نبوت کے نام پر جس طرح عہد رسالت میں جھوٹے دعویدار پیدا ہوتے رہے آج بھی نت نئے رنگ وروپ لے کر ظاہر ہورہے ہیں  ۔ ان کے اہم مقاصد میں  مسلمانوں کو اسلام سے برگشتہ کرنا، غیروں کو اسلام میں داخل ہونےسے روکنا اور دنیا والوں پر اسلام کی شبیہ بگاڑ پر پیش کرنا ہے ۔ اس کے بالمقابل ایسے نظریات پیش کرنا ہے جس سے ظاہر ہو کہ  امن اسلام میں نہیں ہے بلکہ ہمارے پاس ہے ، یا دوسرے الفاظ میں یوں سمجھیں کہ اسلام وہ نہیں جو پرانے خیال کے دقیانوس مسلمان پیش کررہے ہیں بلکہ روشن خیالی، بین الاقوامی امن وسلامتی ،عالمی مراسم وروابط اور اصل اسلام تو ہمارے پاس ہے ۔ یہی وجہ تھی کہ استعماری قوت کے لئے  ہندوستان میں جب مسلمانوں کو جہاد سے روکنے کا مسئلہ درپیش ہوا تو مرزا غلام احمد جیسا وفادار غلام ملا۔ اس نے انگریزی وفاداری میں نہ صرف جہاد کا انکار کیا بلکہ دھیرے دھیرے نبوت کا دعوی بھی کر بیٹھا۔ مرزا غلام احمد کل انگریزوں کی ضرورت تھا  اور آج مسلمانوں کے لئے بڑا چیلنج بن کر سامنے آگیا ہے۔ مولانا ثناء اللہ امرتسری رحمہ اللہ سے مباہلہ کے بعدمرزا   بدترین موت مر توگیا مگر پیچھے چھوڑی گئیں درجنوں نجس کتاب اور پلید آقاؤں کی مدد سے مرزائی فرقہ زندہ رہا جس کے ماننے والے ہندوپاک میں کثیر تعداد میں اور چھوٹی چھوٹی ٹولیوں میں دنیا کے اکثر حصے میں موجود ہیں۔یہ عرب ممالک سمیت افریقی اور مغربی ممالک میں بھی پائے جاتے ہیں حتی کہ اسرائیل سے گہرے روابط ہیں ۔ جس طرح ہندوستان میں انگریزی سرکار نے اس شجرہ خبیثہ کی آبیاری کی اسی طرح آج بھی کر رہی ہے۔اسرائیل کی طرف اسے بڑا فنڈ ملتا ہے جس کے ذریعہ یہ اپنی دعوتی مشنریاں، رفاہی ادارے، تعلیمی سنٹرز چلا رہے ہیں ، انہیں پیسوں کو مبلغین اور قادیانی کتب اور ان کی نشر واشاعت پر صرف کیا جاتا ہے۔پاکستان میں ربوہ، ہندوستان میں قادیان اور اسرائیل میں حیفا قادیانیوں کا مرکز ہے ، اسرائیل کی طرح ہند کی سنگھی تنظیم آرایس ایس سےبڑے گہرے تعلقات اور ایک دوسرے کا دست وبازو ہیں ۔ آرایس ایس کی ذیلی  سنگھی تنظیم "راسٹریہ مسلم منچ" میں اصل کردار مسلمانوں کا نہیں قادیانیوں کا ہے ۔
بالآخر ہمارے سامنے جو نتائج ہیں وہ نہایت ہی افسوسناک ہیں ۔ دن بدن یہ فرقہ اپنی جڑیں مضبوط کرتا چلا رہا ہے اور اسلام کے راستے میں اور عقیدہ ختم نبوت کے باب میں ہمارے لئے بڑی مشکلات پیدا کررہا ہے ۔سب سے بڑی فکرمندی تو یہ ہے کہ آج تک جتنے بھی لوگ اس کے آلہ بنے یا بن رہے ہیں ان کی اکثریت مسلمانوں کی ہے ۔ یہ فرقہ مسلمانوں کو گمراہ کرکے قادیانی بنا رہا ہے  کیونکہ یہ خود کو مسلمان ظاہر کرتا ہے، اپنا نام احمدی یااحمدی مسلمان یا احمدیہ مسلم کمیونٹی  بتلاتا ہے۔ جس ملک میں بھی یہ فرقہ موجود ہے اس ملک میں حکومتی طور پر خود کو مسلمانوں کی فہرست میں داخل کروانے کی کوشش کرتا ہے۔ ہندوستان میں مسلم پرسنل لاء بورڈ میں شیعہ کی بھی رکنیت ہے،آرایس ایس کے زیراثرمقامات پروقف بورڈ اور حج کمیٹی کے اصل ذمہ دار ہوتے ہیں  جبکہ انگریزی دور حکومت میں مرزاغلام احمد نے خود کو مسلمانوں سے الگ ایک مستقل فرقہ کی حیثیت سے متعارف کروایا تھا لیکن آزادی کے بعد کانگریس پارٹی مسلم دشمنی میں 2011 کی پہلی  بارمردم شماری کے وقت مسلمانوں کے ساتھ شمار میں لائی اور بروقت تو بی جے پی حکومت ہے جس کے منشور میں مسلم دشمنی کے علاوہ کچھ ہے ہی نہیں ۔پاکستان  میں قادیانی اپنا قدم مضبوط اور حکومتی سطح پر اپنی پکڑبنالیا تھا اس وجہ سے وہاں بطور آئین  غیرمسلم اقلیت قرار دینے میں کافی وقت لگ رہا ، 1953 کی تحریک ختم نبوت میں ہزاروں مسلمانوں نے جام شہادت نوش کیا پھر بھی قادیانی غیرمسلم ہونے کا مطالبہ پورا نہ ہوسکاتاہم قادیانی وزیر خارجہ ظفراللہ خان کی برطرفی ہوگئی جس کی وجہ سے ربوہ میں ایک بڑی اراضی قادیانی مرکز کے لئے الاٹ کی گئی تھی ۔سترہزار سے زائد کی آبادی والے شہرربوہ کی 97 فیصد آبادی قادیانیوں پرمحیط ہےاور اس جگہ کا استعمال قادیانیت کی تبلیغ میں بڑے شد ومد کے ساتھ کیا جارہا ہے ۔ آزاد کشمیر کی اسمبلی نے 1973 میں قادیانیوں کو غیرمسلم قرار دیا جبکہ اپریل 1974 میں رابطہ عالم اسلامی نے مکہ مکرمہ میں ایک بڑا اجلاس منعقد کیا جس میں  دنیا بھر سے مسلم تنظیمیں اور علمائے کرام نے شرکت کیں اوراس اجلاس میں مرزائی کو غیرمسلم قرار دے کر تمام مسلمانوں سے اس کا بائیکاٹ کرنے، اس سے متنبہ رہنے اور اس کا ڈٹ کر مقابلہ کرنے کی اپیل کی ۔ اسی سال 7 ستمبرکو مسلمانوں کی مشترکہ کوششیں رنگ لائیں اورپاکستان میں  ذوالفقار علی بھٹو کےعہد حکومت میں طویل بحث ومناظرہ کے بعد قادیانی کودستوری طور پر غیرمسلم اقلیت قرار دے کر تاریخ رقم کی گئی ۔وہاں عوامی طور پر آج بھی 7 ستمبر کو یوم ختم نبوت کے طور پر منایا جاتا ہے۔
تمہیدی باتیں کچھ طویل ہوگئیں ، اب آتے ہیں اصل مقصد کی طرف کہ مرزائی  ٹولہ کس طرح اپنا قدم بڑھا اور جمارہا ہے اسے سمجھنے کی ضرورت ہے تاکہ اس کا بڑھتا قدم روکا جاسکے اور فتنہ ارتداد کا سد باب کیا جاسکے ۔یہ کام مسلمانوں کے کسی مخصوص فرد یا مخصوص تنظیم کا نہیں ہے بلکہ ہر موحد کا ہے ، تمام مسلمانوں کا ہےبالخصوص بااثرمسلم شخصیات ، زیرقیادت مسلم  حکمراں اور عالمی پیمانے پر اثرونفوذ  والی مسلم تنظیمات کا ہے۔
٭قادیانی فرقہ عوام میں  خود کو مسلمان مشتہر کرتا ہےاور سرکاری طور پرمسلمان کا خطاب پانے کے لئے سیاسی ہتھکنڈے اپناتا ہے، ذرا سا کہیں موقع ملا قادیانی میڈیا کو بروئے کار لاتے ہوئے دنیا بھر میں اس کا پرچار کرتا ہے۔ اس کی ایک بڑی مثال 2017 میں ابوظبی  میں منعقد ہونے والے بین الاقوامی کانفرنس سے لیں ۔یہ کانفرنس شیخ عبداللہ بن بیہ کی قیادت میں "تعزیزالسلم فی المجتمع المسلم "  کے عنوان سے ہوئی ، اس میں نہ جانے کیسے دو قادیانی بھی شریک ہوگئے ، انہوں نے اس میں شرکت کی اپنی ویڈیو بنائی اور اسے قادیانی چینل ربوہ ٹائمس کو بھیج دیا جس نے مختلف طریقے سے کئی دن تک نمک مرچ لگاکر اس خبر کی اشاعت کی ، لوگوں میں غلط فہمیاں پھیلاتا رہا حتی کہ ایک شیعہ چینل نے کہہ دیا کہ سعودی مفتی نے قادیانی کو مسلم قرار دے دیا۔ اس واقعہ میں ہمارے لئے نصیحت یہ ہے کہ اپنی مخصوص مجالس سے انہیں دور رکھیں، یہ کسی بھیس میں بھی ہوسکتے ہیں اور ہمارے ہی پروگرام کو ہمارے خلاف مورچہ بنا سکتے ہیں ۔
٭ سرکاری عہدوں کی حصولیابی اہم ترین ہتھکنڈہ ہے ، قیادت ملنے کے بعد زیلا قطرہ سماج میں گھولنا شروع کردیتا ہےجس کے زیر اثر کمزور ایمان والوں کا دل قادیانیت کی وبا سے بیمار ہوجاتا ہے۔ محمد ظفراللہ خان کے دور میں پاکستانی حکومت کی طرف سے ربوہ نامی جگہ کی فراہمی اس کی زندہ مثال ہے۔1034 ایکڑپر مشتمل  یہ جگہ آج قادیانیت کی تبلیغ کا مرکز ہے اور قادیانیوں کا شہر کہلاتا ہے۔یہاں قادیانیت کی اشاعت کا کون سا وسیلہ موجود نہیں ہے۔تعلیمی ادارے، تبلیغی مراکز، عبادت گاہیں ،قادیانی میڈیا کا بہتر انتظام ہے اوریہ  دنیا بھر کے قادیانیوں کی توجہ کا نہ صرف مرکز ہےبلکہ اس کے سالانہ اجتماع میں ہندوپاک کے علاوہ تمام ممالک سے قادیانی شریک ہوتے ہیں۔ماضی کی اس خطا سے ہمیں سبق لینا ہے اورآئندہ یہ منصوبہ بنانا ہے کہ حکومت کے ایسے عہدوں پر کسی قادیانی کو برداشت نہ کیا جائے جس سے اسلام اور مسلمانوں کو خطرہ لاحق ہو۔
٭ انتشار اور بلوی کے مواقع سے فائدہ اٹھانا بھی قادیانی ہتھکنڈہ ہے، ایسے حالات میں   یہ لوگ بڑی عیاری سے اپنے افکار وخیالات پھیلانے کی کوشش کرتے ہیں ، لوگوں کا ذہن انتشار میں مبتلاہوتا ہے اور قادیانی اپنے مشن میں مصروف ہوتے  ہیں تاکہ ایسے حالات میں کوئی ان پر شک بھی نہ کرسکے ۔
٭ آپ یہ سمجھیں کہ ہرقادیانی مبلغ ہے، طلبہ کے بھیس میں ، روزگار کی تلاش میں،بیمار کی شکل میں ، اخباری نمائندہ ہونے  کے بہانے سے یعنی وہ جس روپ میں بھی  ہوایک مبلغ ہے ،ہمیں ہر قادیانی سے بچنا ہے اور اپنا ایمان بچانا ہے اور دوسروں کو اس کا آلہ کار بننے سے روکنا ہے۔
٭ قادیانی کا خطرناک جال جس میں بڑے بڑے پھنس جاتے ہیں، کلمہ کی تبلیغ ، نرم اخلاق کا مظاہرہ ، شعائراسلام کا استعمال اور خود کو مسلمان بتلانا ہے۔ جب کوئی قادیانی تبلیغ کرے گا تو کہے گا ہم بھی مسلمان ہیں ،لاالااللہ محمد رسول اللہ کی تبلیغ کرتے ہیں، مساجد میں نماز ادا کرتے ہیں  اورمرزا غلام احمد کو فقط ایک مبلغ اور مجدد مانتے ہیں جبکہ مرزا کو اپنا نبی مانتا ہے اور کلمہ میں محمد سے مراد بھی مرزا ہی لیتا ہے ، اس طرح شروع میں میٹھا زہردیں گے پھر موت کے گھات اتار دیں گے ۔ اس لئے کوئی مسلمان قادیانی سے دھوکہ نہ کھائے ، نہ کلمہ سے ، نہ اس کے شعائر سےاور نہ ہی اچھے اخلاق سے ۔
٭ ایک بڑے بھیانک فریب  کا پتہ چلا ہے کہ قادیانیت کی تشہیر میں ایڈزسے بھی کام لیا جاتا ہے ۔ اس کا طریقہ کار یہ ہے کہ دوستی کے نام پہ لڑکیوں کے موبائل نمبر اخبارات وجرائد کے ذریعہ مشہور کئے جاتے  ہیں ۔ یہ لڑکیاں دوستی کے بہانےلڑکوں کو زناکاری کے گروہ میں شامل کرتی ہیں جو ایڈس زدہ ہوتی ہیں ۔ جب لڑکوں کو ایڈس کا روگ لگ جاتا ہے تو اس گروہ کے لئے کام کرنا مجبوری بن جاتی ہے ۔قادیانیت کی تشہیر میں لڑکیوں کا استعمال کسی بھی طرح ہوسکتا ہے مثلا روزگار، شادی، تعلیم ، معاملات، تجارت وغیرہ
٭قادیانی کی طرف سے مختلف قسم کے محرف تراجم وتفاسیر موجود ہیں ، اسی سے زائد زبانوں میں قادیانی تراجم اور 200 سے زائد ممالک میں ان کی توزیع اس فرقے کے بڑھتے وسیع قدم کی طرف اشارہ کناں ہیں۔اب تو انڈورائیڈ موبائل میں قادیوں کی طرف سے مختلف زبانوں میں مختلف قسم کے قرآنی آیپ  بھی ڈال دئے گئے ہیں ،  ایسے بھی ایپ ہیں جن کی مدد سے 24 گھنٹے ان کی مذہبی نشریات سن سکتے ہیں ۔ اب تو قادیانی گھر گھر اور ہرفرد تک پہنچ گیا ، ایسے میں ہمیں کیا کرنا ہے  سوچنے کا مقام ہے؟ جانتے ہیں سوشل میڈیا پہ قادیانی گروپ اور پیج چلانے والے باتنخواہ رکھے گئے ہیں ۔
٭ ایک ہتھکنڈہ جو ہرباطل مذہب کا ہے ، مادیت کا فریب ، اسنے بھی اپنارکھا ہے ۔ اس ہتھکنڈے سے ناخواندہ، نیم خواندہ اور مجبور وحاجتمندکو تعلیم، نوکری، مکان، علاج، پیسہ، خارجی ممالک کا سفراوردوسرے ممالک کی نشنلٹی کی خدمات مہیا کرکے بدلے میں دین کا سودا کرتا ہے۔
٭ ہندوستان میں آر ایس ایس اور ہندوتوا کے منصوبوں  کی تکمیل میں شامل اور مسلمانوں کے خلاف ہرقسم کے مواد فراہم کرنے والا خطرناک ایجنٹ قادیانی ہے ۔آپ کو حیرت ہوگی غیرمسلم کو اسلامی تعلیمات میں شک کرنے، ان پر اعتراض کرنے اور مذاق اڑانے کا موقع کیسے ملتا ہے ؟ یہی غدار ہیں جو ہماری باتیں ان تک پہنچاتے ہیں اور قرآ ن وحدیث سے مواد تلاش تلاش کردیتے ہیں ، قرآن سے جہاد کی آیات نکالنے کا شوشہ دیتے ہیں ۔ قادیانی کا یہ ہتھیار نہ صرف ہندوستان میں چلایا جارہا ہے بلکہ ہرجگہ اسے آزمایا جارہا ہے ۔ خود کو سنی مسلمان کہنے والا ناپاک انسان طارق فتح کا کردار آپ کے سامنے ہے ۔
دنیا میں قادیانیت کے بڑھتے وسیع قدم اور ان کے اسباب آپ کے سامنے ہیں ، ایک مسلمان ہونے کے تئیں اس فتنے کا سدباب اور عقیدہ ختم نبوت کا تحفظ ہرفرد بشر کی اولین ذمہ داری ہے ۔ آئیے آج عزم مصمم کرتے ہیں کہ ہم میں سے جو محرر ہے وہ تحریرسے، جو مقرر ہے وہ تقریر سے ، جو بااثر ہے وہ اپنے اثرسے، جو صاحب اقتدار ہے وہ قوت واقتدار سے اور جو مالدار ہے اپنے مال سے کلمہ توحید کو سربلندی اور عقیدہ  ختم نبوت کا تحفظ کرتے ہوئے فتنہ ارتداد کو روکے گا۔ ہم میں سے ہرپڑھا لکھا جس کے گردقادیانی رہتا ہےپوری زندگی میں کم ازکم ایک قادیانی کو اسلام میں داخل کرنے کی خالص نیت کرے ، مدد کرنے والا اللہ تعالی ہے ۔ عام آدمی کم ازکم اس ذمہ داری کا احساس کرے کہ جب بھی اسے کسی قادیانی مکروفریب کی خبرہوفورا مسلم شخصیات کو اطلاع کرے۔ اتنا تو ہرآدمی کر ہی سکتا ہے کہ اپنے اپنے گھر میں قادیانی الحادو کفراور اس کی چالبازیوں سے باخبرکرےجس کا فائدہ یہ ہوگا کہ آپ کے گھر کا مسلم اس فرقہ کا آلہ کار بننےسے بچ سکے گا۔ گفت وشنید سے معلوم ہواہےکہ بہت سے وہ  مسلمان  جو کسی مجبوی کے تحت قادیانی کا شکار ہوگئے ہیں اور انہیں اپنی غلطی کا احساس ہوگیا ہے وہ واپس پلٹنا چاہتے ہیں مگر کوئی مددگار نہیں ملتا ، خودمیں اتنی جسارت محسوس نہیں کرپاتے کہ وہ قادیانی چنگل سے نکل سکیں کیونکہ اس فرقہ کی طرف سے تشددیا  اپنے قادیانی رشتہ داروں سے تکلیف کا سامنا ہوسکتا ہے۔ایک اہم کام جو سمجھ میں آرہاہے  ، وہ مخصوص مسلم تنظیم ہی کرسکتی  ہے ، اس کی شکل یہ ہوگی  کہ جہاں جہاں قادیانیت عروج پر ہےوہاں ہماری بھی ایک مخصوص ٹیم ہوجس میں مختلف علوم وفنون کے ماہرین شامل ہوں اور مختلف محاذ پر کام کی نوعیت تقسیم کرکے ردقادیانیت پر مخلصانہ کوشش کرے ۔ اس سلسلے میں صاحب ثروت بھی آگے آئیں اور اس نوعیت کا کام شروع کروائیں یا جہاں کام کیا جارہا ہے اس کا سپورٹ کریں ۔ یہ کام آپ کے حق میں اور اس میں شامل تمام افراد کے حق میں صدقہ جاریہ ہوگا۔ اللہ تعالی سے دعا ہیکہ ہمارے ایمان وعقیدے کی حفاظت فرمائے اور ہمیں احقاق حق اور ابطال باطل کی توفیق مرحمت فرمائے ۔ آمین  
مکمل تحریر >>

Tuesday, October 22, 2019

کالے یرقان کا جنگلی کبوتر سے علاج کی شرعی حیثیت



کالے یرقان کا جنگلی کبوتر سے علاج کی شرعی حیثیت

تحقیق: مقبول احمد سلفی
اسلامک دعوۃ سنٹر،شمالی طائف (مسرہ)

یرقان جسے انگریزی میں (Hepatitis) کہتے ہیں ، یہ ایک قسم کا مرض ہے جو جگر سے متعلق ہے جو دراصل وائرس ہے اور دوسروں میں منتقل بھی ہوتا ہے۔اس کی پانچ اقسام ہیں ۔ ہیپاٹائٹس اے، ہیپاٹائٹس بی، ہیپاٹائٹس سی، ہیپاٹائٹس ڈی اور ہیپاٹائٹس ای۔ ہیپاٹائٹس اے کو پیلا یرقان اور بی و سی کو کالا یرقان کہا جاتا ہے ۔
آج کل یہ مرض دنیا میں عام ہے، ہرملک میں وافر مقدار میں اس کے مریض پائے جاتے ہیں ،اس وجہ سے علاج کے مختلف طریقے لوگوں میں پائے جاتے ہیں بلکہ آئے دن اس مرض کے خاتمہ کے لئے نئے نئے علاج تلاش کئے جارہے ہیں ۔ علم طب وسائنس کے یہاں ہیپاٹائٹس کی جملہ اقسام کا علاج موجود ہے بلکہ اکثر ممالک کے بڑے بڑے شہروں میں ان کا مفت علاج ہوتا ہے ۔ گھریلو طور پر عوام نے بھی مختلف قسم کے علاج ومعالجے ایجاد کر رکھی ہے۔ کالے یرقان سے متعلق عوامی علاج کا ایک نیا طریقہ آج کل کافی مشہور ہوتا جارہاہےاور لوگ اس کی شرعی حیثیت جاننا چاہتے ہیں تاکہ اگر علاج درست ہو تو اسے عمل میں لایا جائے ورنہ اس طریقہ علاج سے پرہیز کیا جائے ۔
کالے یرقان یعنی ہیپاٹائٹس سی  کا  علاج آج کل جنگلی کبوتر سے کیا جاتا ہے ، اس کا طریقہ یہ ہے کہ جو اس مرض کا شکار ہو اس کی ناف پہ جنگلی کبوتر(نر) کے پیخانہ کی جگہ سٹاکر رکھی جائے ،اس سے مریض کا وائرس ناف کے راستے کبوتر میں منتقل ہوکر کبوتر خود بخود مرجائے گا ، کبوتر والا یہ عمل اس وقت تک جاری رکھنا ہے جب تک کبوتر ناف سے لگ کر مرتا رہے اور اگر مرنا بند ہوجائے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ اب مریض کو افاقہ ہوگیا ہے ، اس مریض کا ٹیسٹ کرایا جائے تومعلوم ہوجائے گا کہ کالے یرقان کی بیماری ختم ہوچکی ہے۔یہ عوامی خیال ہے۔
جواب اس بنیاد پر دیا جارہا ہے کہ اگر یہ عوامی خیال درست ہوتو اس علاج کی شرعی  حیثیت کیا ہوگی؟ اس کے لئے ہمیں یہ جاننا ہوگا کہ اسلام نے ہمیں جانوروں کے ساتھ کیسا سلوک کرنے کا حکم دیا ہے اور کیا علاج کی غرض سے جاندار کا قتل جائز ہوسکتا ہے ؟
ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ تمام کائنات کا خالق اکیلا اللہ ہے ، وہی انسانوں کا بھی اور حیوانوں کا بھی خالق ہے ۔ وہ اپنی تمام مخلوقات پر شفیق ومہربان ہے ، فرمان الہی ہے : إِنَّ رَبَّكُمْ لَرَءُوفٌ رَّحِيمٌ (النحل:7)
ترجمہ: یقینا تمہارا رب بڑا ہی شفیق اور نہایت مہربان ہے۔
جس طرح اللہ اپنی مخلوق پر مہربان ہے اسی طرح اپنے نبی محمد ﷺ کے ذریعہ بندوں کو بھی زمین پر رہنے والی تمام مخلوق کے ساتھ مہربانی کرنے کا حکم دیا ہے ، نبی ﷺ کا فرمان ہے : الراحمون يرحمهم الرحمن، ارحموا اهل الارض يرحمكم من في السماء(صحیح ابی داؤد:4941)
ترجمہ: رحم کرنے والوں پر رحمن رحم فرماتا ہے، تم زمین والوں پر رحم کرو، تو آسمان والا تم پر رحم کرے گا۔
یہ حدیث ہمیں تعلیم دیتی ہے کہ  زمین پر رہنے والی تمام مخلوق کے ساتھ پیارومحبت اور حسن سلو ک سے پیش آنا چاہئے اورکسی مخلوق کوبغیر کسی وجہ کے  تکلیف دینے سے پرہیز کرنا چاہئے حتی کہ چیونٹی کا بھی قتل ممنوع ہے ۔
کہاجاتا ہے کہ جنگلی کبوتر سے کالے یرقان کا علاج کرنے میں کبوترخود بخود مرجاتا ہے،اس کا گلا نہیں دبایا جاتاہے۔یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ ایک آدمی کے علاج میں اسی اسی اور چالیس چالیس کبوتر مرتے ہیں ۔
اگر یہ بات صحیح مان لی جاتی ہے تو اس کا مطلب یہ نکلتا ہے کہ کبوتر کی موت تکلیف دہ صورت میں تڑپ تڑپ کر ہوتی ہوگی کیونکہ جب اسے تیزآلہ سے ذبح نہیں کیا گیا تو کبوتر کی جان نکلنے کی صورت یہی تکلیف دہ بنتی ہے ۔ اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے ذرا اس حدیث پہ غور کریں جس میں حلال جانور کو ذبح کرنے میں تکلیف سے بچتے ہوئے آرام پہنچانے کا حکم دیا گیا ہے ۔ نبی ﷺ فرماتے ہیں:
إن الله كتب الإحسان على كل شيء، فإذا قتلتم فاحسنوا القتلة، وإذا ذبحتم فاحسنوا الذبح وليحد احدكم شفرته، فليرح ذبيحته(صحيح مسلم:1955)
ترجمہ:اللہ تعالی نے ہر چیز کے بارے میں احسان کا حکم دیا ہے ، لہذا جب تم قتل کرو تو اچھے طریقے سے قتل کرو اور جب ذبح کرو تو اچھے طریقے سے ذبح کرو ، نیز تم میں سے ہر شخص کو چاہئے کہ اپنی چھری تیز کرلے اور ذبح ہونے والے جانور کو آرام پہنچائے ۔
اس حدیث میں سب سے پہلے احسان کا حکم دینے کا مطلب یہ ہے کہ تم جانور کو ذبح کرو تو وہاں بھی احسان کو مدنظر رکھو یعنی چھری تیز کرکے اس طرح جانور ذبح کرو کہ اسے تکلیف نہ ہو۔  ذرا اندازہ لگائیں کہ اسی اسی کبوتر کو ایک آدمی کے علاج کے لئے تڑپاتڑپاکر مارنا کسی بھی صورت جائز ہوسکتا ہے جبکہ اس بیماری کےلئے متعدد قسم کے علاج موجود ہیں؟۔
اسے ضرورت کے تحت قتل نہیں کہیں گے بلکہ یہ سراسر جانور کا ناحق قتل ہے۔ یہ قتل حدیث میں موجود اس جانورکے قتل کے مشابہ ہے جسے باندھ کر قتل کرنا کہاگیا ہے، یا نشانہ لگانے کے لئے قتل کہاگیا ہے، یا ٹارگٹ کرکے قتل کرنا کہا گیا ہے ۔ آئیے ان احادیث کو ایک نظر دیکھتے ہیں ۔
عن سعيد بن جبير ، قال: مر ابن عمر بنفر قد نصبوا دجاجة يترامونها، فلما راوا ابن عمر تفرقوا عنها، فقال ابن عمر : من فعل هذا؟ إن رسول الله صلى الله عليه وسلم لعن من فعل هذا.(صحيح مسلم:1958)
‏‏‏‏ترجمہ: سیدنا سعید بن جبیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما گزرے چند لوگوں پر جنہوں نے ایک مرغی کو نشانہ بنایا تھا اس پر تیر چلا رہے تھے، جب ان لوگوں نے سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کو دیکھا تو وہاں سے الگ ہو گئے۔ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا: یہ کام کس نے کیا؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تو لعنت کی ہے اس پر جو ایسا کام کرے۔
اسی طرح سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے:نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم ان يقتل شيء من الدواب صبرا(صحيح مسلم:1959)
‏‏‏‏ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی جانور کو باندھ کر مارنے سے منع کیا ہے۔
ایک دوسری حدیث میں سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
عذبت امراة في هرة، سجنتها حتى ماتت فدخلت فيها النار، لا هي اطعمتها وسقتها إذ حبستها، ولا هي تركتها تاكل من خشاش الارض(صحیح مسلم:2242)
ترجمہ:ایک عورت کو بلی کے مارنے کی وجہ سے عذاب ہوا، اس نے بلی کو پکڑ کر رکھا یہاں تک کہ وہ مر گئی پھر اسی بلی کی وجہ سے وہ جہنم میں گئی، اس نے بلی کو نہ کھانا دیا نہ پانی جب اس کو قید میں رکھا نہ اس کو چھوڑا کہ وہ زمین کے جانور کھاتی۔
یہ فرمان مزید واضح ہے کہ جس میں بھی جان ہے اسے ٹارگٹ اور ہدف بنانا جائز نہیں ہے کیونکہ رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے:
لا تَتَّخِذُوا شَيْئًا فِيهِ الرُّوحُ غَرَضًا(صحیح مسلم:1957)
ترجمہ: جس چيز ميں بھى روح ہو اسے ٹارگٹ مت بناؤ۔
ان ساری احادیث سے معلوم ہوا کہ کالے یرقان کے علاج کے لئے کبوتر کی جان لینا صریح قتل ہے بلکہ اس عمل کے بارے میں قیامت کے دن پوچھ ہوسکتی ہے اور اس عورت کا حال بھی جان لئے جو بلی کے قتل کے سبب جہنم رسید ہوئی ۔
حضرت عبداللہ بن عمروؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
ما من إنسانٍ يَقْتُلُ عُصْفُورًا فما فَوْقَها بغيرِ حَقِّها ، إلَّا سَأَلهُ اللهُ عَنْها يومَ القيامةِ قيل : يا رسولَ اللهِ ! وما حَقُّها ؟ قال : حَقُّها أنْ يذبحَها فَيأكلَها ، ولا يَقْطَعَ رَأْسَها فَيَرْمِيَ بِه(صحيح الترغيب:2266)
ترجمہ:جو شخص چڑیا یا اس سے بھی چھوٹے جانور کو ناحق قتل کرے، اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس سے اس کے بارے میں پوچھے گا۔ پوچھا گیا: اے اللہ کے رسول! اس کا حق کیا ہے؟ آپ نے فرمایا:اسے ذبح کر کے کھائے۔ اس کا سر کاٹ کر نہ پھینک دے۔
اسی طرح رسول اللہ ﷺ کا یہ بھی فرمان ہے:لتؤدن الحقوق إلى اهلها يوم القيامة حتى يقاد للشاة الجلحاء من الشاة القرناء(صحیح مسلم:2582)
ترجمہ: روز قيامت تم حقداروں كے حقوق ضرور ادا كرو گے حتى كہ بغير سينگ والى بكرى سينگ والى بكرى سے قصاص لے گى۔
ان ساری احادیث کو سامنے رکھتے ہوئے فیصلہ کریں کہ جب ایک بیماری کے لئے متعدد علاج موجود ہیں بلکہ سستی اور فری علاج بھی دستیاب ہیں توایسی صورت میں ایک آدمی کے لئےکیا درجنوں کبوتر کی تکلیف دہ صورت میں جان لینا درست ہے ؟ ویسے بھی یہ سائنسی طریقہ علاج نہیں ہے ، اسے عوام نے ایجاد ومشہورکررکھا ہے ۔ ایک ہوشمند آدمی کو علاج کے لئے خصوصا خطرناک بیماری کے واسطے مستند ڈاکٹر اور مستند اسپتال سے رجوع کرنا چاہئے نہ کہ ایرے غیرے کا نسخہ اپنانا چاہئے۔ ساتھ ہی جن لوگوں نے بھی بے قصور پرندوں کا علاج کرنے کے واسطے جان لیا ہے اسے توبہ کرنا چاہئے اور آئندہ اس عمل سے بچنا چاہئے ۔ اس سلسلے میں ایک آخری بات یہ ہے کہ اگر علم طب وسائنس کا ماہر اس طریقہ کو مفید قرار دے اور کوئی کالے یرقان کا ایسا مریض ہو جس کی جان کا خطرہ ہو اور اس مرض کا کبوتری علاج کے ماسوا کوئی دوسرا علاج نہ ہو تب جان بچانے کی غرض سے اس طریقہ کو اپنانے میں حرج نہیں ہے جبکہ ہمیں معلوم ہے  ہیپاٹائٹس سی کا بےضررعلاج موجود ہےتوپھر کبوتر کا علاج کے واسطے جان لینا گناہ کا باعث ہے۔
مکمل تحریر >>

Wednesday, October 16, 2019

اونٹ کی ہڈی سے جادوئی علاج کی حقیقت


اونٹ کی ہڈی سے جادوئی علاج کی حقیقت

تحریر: مقبول احمد سلفی
اسلامک دعوۃ سنٹر،شمالی طائف -مسرہ

لوگوں میں اصل دین کی معلومات نہ ہونے کے سبب مختلف قسم کی گمراہیاں پائی جاتی ہیں ، افکار ونظریات سے لیکر عقائد وایمان کے باب تک میں بہکے اور بھٹکے ہوئے ہیں ۔ اللہ تعالی نے کس قدر واضح اور روشن دین  ہمیں عطا فرمایا ہے اور مسلمانوں کی اکثریت ضعیف الاعتقادی، باطل خیالات ، طلسماتی عملیات اور شرکیہ وکفریہ اعمال میں گم ہے ، یہی وجہ ہے کہ لوگ آج اللہ سے کم جنات اور اس کی ذریت سے زیادہ ڈرتے ہیں، اس ڈر سے فریبی عاملین اور مکار جادوگرخوب  اٹھاتے ہیں ، مال بھی لوٹتے ہیں اور ایمان کا بیڑا غرق کرتے ہیں۔ ایک پختہ مومن صرف اللہ کو اپنا خالق ومالک مانتا ہے، اس کی بندگی کرتا ہے اورہمیشہ اسی سے ڈرتا ہے ۔
سماج میں بہت سے کمزور ایمان وعمل والے لوگ جنات وشیطان کے نام سے ڈرے سہمے رہتے ہیں اور ان کے شر سے بچنے کے لئے اپنے گھروں میں مختلف اقسام کی چیزیں رکھتے ہیں اس امید میں کہ یہ ہمیں جادو او ر شیطانی شر سے محفوظ رکھے گی مثلا چھری، لکڑی، چھلہ ، دھاکہ ، تعویذ، لوح ، تختی وغیرہ ۔
ایسے ہی لوگوں میں یہ خیال عام ہے کہ گھروں میں اونٹ کی ہڈی رکھنے سے گھر اور اہل خانہ جادوئی اثرات سے محفوظ رہیں گے ۔ جادو کے علاوہ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ دیمک او ر زہریلے کیڑوں سے حفاظت ہوتی ہے تاہم اصل ہدف یہی ہوتا ہے کہ اونٹ کی ہڈی ہمیں جنات کے اثرات سے بچائے گی ۔
اب ہم یہ جاننے کی کوشش کریں گے کہ لوگوں میں یہ خیال کیسے شہرت پاگیا اور اس کی حقیقت کیا ہے ؟ چنانچہ آج کے بعض صوفیاء اور گمراہ لوگوں کا کہنا ہے کہ محدثین ، فقہاء اور اکابرین نے اپنے تجربات سے یہ بات کہی ہے کہ اونٹ کی ہڈی سے جادو کے اثرات ختم ہوجاتے ہیں جبکہ میرے علم کی روشنی میں اہل علم کے یہاں ایسی کوئی بات نہیں ملتی ہے ، ان لوگوں کا نام لیکر عوام کو محض دھوکہ دیا جاتا ہے ۔
اصل ماجرا روحانی وظائف والوں کا ہے ، وہ اس عمل سے اپنا کاروبار چلاتے ہیں او ر باطل طریقے سے لوگوں کا مال کھاتے ہیں ۔ اونٹ کی ہڈیوں والا عمل کے نام سے مختلف قسم کے روحانی وظائف بنائے گئے ہیں جن کی بھاری قیمت وصول کی جاتی ہے ۔میں نے انٹرنیٹ پہ ایسے بھی واقعات پڑھے ہیں جن سے معلوم ہوا کہ جن ممالک میں اونٹ کی ہڈی نہیں ملتی وہاں والے گھر میں رکھنےکے لئے دوسرے ملکوں سے ہڈی منگواتے ہیں ۔ العیاذباللہ
ہمیں جاننے کی ضرورت ہے کہ اونٹ کی ہڈیوں والا کوئی وظیفہ شریعت موجود ہے یا یہ خیال درست ہے کہ گھر میں اونٹ کی ہڈی رکھنے سے جادو کے اثرات نہیں ہوتے ؟
اس سوال کا جواب یہ ہے کہ شریعت میں اونٹ کی ہڈی سے متعلق کسی بھی قسم کا وظیفہ نہیں پایا جاتا ہے جو لوگ اس کے لئے وظیفہ بتاتے ہیں کہ سات روز یا اتنے روز تک فلاں فلاں سورت پڑھو یا فلاں فلاں ورد کرو توجادو کا اثر گھر سے زائل ہوجائے گا وہ لوگ جھوٹے اور مکار ہیں بلکہ بسااوقات اس عمل کے لئے مخصوص چلہ کرایا جاتاہے یہ بھی مردود عمل ہے۔ خدا رااس سے خود بھی بچیں اور دوسروں کو بھی بچائیں ۔
دوسری بات یہ ہے کہ اسلام نے ہمیں ایسی بھی کوئی بات نہیں بتائی ہے کہ گھروں میں اونٹ کی ہڈی رکھنے سے کوئی فائدہ ہوتا ہے یا جنات کے اثرات ختم ہوجاتے ہیں ، جو ایسا کہے وہ جھوٹا ہے اور اگر کوئی یہ کہتا ہے کہ یہ بات تجربہ سے ثابت ہے تو اس سے یہی کہا جائے گا کہ دین میں تجربہ دلیل نہیں ہے بلکہ قرآن وحدیث دلیل ہے ۔
شرعی ناحیہ سے اس بات کا عقید ہ رکھنا کہ اونٹ کی ہڈی فائدہ پہنچاتی ہے شرک کے قبیل سے ہے کیونکہ نفع ونقصان کا مالک صرف اللہ تعالی ہے ، فرمان الہی ہے : ولاَ تَدْعُ مِن دُونِ اللّهِ مَا لاَ يَنفَعُكَ وَلاَ يَضُرُّكَ فَإِن فَعَلْتَ فَإِنَّكَ إِذًا مِّنَ الظَّالِمِين (یونس:107)
ترجمہ:اور اللہ کو چھوڑ کر کسی اور کو مت پکارنا جو تجھے نہ نفع پہنچا سکتے اور نہ نقصان پہنچاسکتے ہیں، اگر تم نے ایسا کیا تو تم ظالموں میں سے ہوجاو گے ۔
شرعی ناحیہ سے ایک خامی یہ بھی ہے کہ جانوروں کی ہڈیاں جنات کا کھانا ہے ، شریعت نے ہمیں اسی سبب ہڈیوں سے استنجا کرنے سے منع کیا ہے ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے : لا تَستَنجوا بالرَّوثِ ولا بالعِظامِ فإنَّهُ زادُ إخوانِكُم منَ الجنِّ(صحيح الترمذي:18)
ترجمہ: گوبر اور ہڈی سے استنجا نہ کرو کیوں کہ وہ تمہارے بھائیوں جنوں کی خوراک ہے۔
جب ہڈی جنات کی خوراک ہے تو اسےمحفوظ کرکے گھروں میں نہیں رکھنی چاہئے بلکہ جب ہمارے یہاں کھانے کے لئےجانور ذبح ہو تو اس کی ہڈیاں جمع کرکے کہیں زمین میں دفن کردینا چاہئے۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ اگر کوئی حفاظت کے ساتھ گھروں میں ہڈیاں رکھتا ہے تو اس کے گھر میں مزید جنات آئیں گے تاکہ ان ہڈیوں کو کھائیں ۔ یہی تو جادوگروں کا کام ہے کہ وہ جان بوجھ کر آپ کے گھروں میں جنات بھیجتے ہیں تاکہ آپ ان جادو گروں کے پاس جاکر اپنا ایمان اور اپنا مال ضائع کریں ۔ہڈیوں پر بھی جادو کیا جاتا ہے اس طرح جادوگر بآسانی آپ کے گھر پہ جادو کرنےمیں کامیاب ہوسکتا ہے۔خدارافریب کاروں کے فریب کو سمجھیں اور اس کا شکار ہونے سے بچیں۔
صحیح بخاری (5686)میں مذکور ہے کہ نبی ﷺ نے قبیلہ عرینہ اور عکل کے کچھ لوگوں کو اونٹ کا دودھ اور پیشاب پینے کا حکم دیا تھا اس بنیاد پر یہ کہہ سکتے ہیں کہ بیماری میں اونٹ کا دودھ و پیشاب پیا جاسکتا ہے لیکن اس کی ہڈی میں جنات اور جادو سے بچاؤہے ایسا نہیں کہا جائے گا۔ نظربد کے متعلق ایک حدیث میں وارد ہے کہ وہ اونٹ کو بھی لاحق ہوجاتی ہے اور وہ بھی موت کے منہ میں چلی جاتی ہے پھر اس کی ہڈی ہمیں بچائے گی ؟
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:العينُ تُدخِلُ الرجلَ القبْرَ ، وتُدخِلُ الجملَ القِدْرَ(صحيح الجامع:4144)
ترجمہ:نظر بدانسان کو قبر میں اور اونٹ کو ہانڈی میں پہنچا دیتی ہے۔
یعنی نظربد کی وجہ سے انسان موت کے منہ میں جاکر قبر میں چلا جاتا ہے اور اونٹ بھی نظر کا شکار ہوکر موت کے قریب ہوجاتا ہے اور لوگ اسے ذبح کرکے پکنے کے لئے ہانڈی میں چڑہا دیتے ہیں۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ اونٹ کی ہڈی گھر میں رکھنے سے جنات کے اثرات ختم نہیں ہوتے ہیں بلکہ یہ تو الٹا نقصان کا سبب بن سکتا ہے اور شرعی ناحیہ سے گناہ کا بھی سبب ہے لہذا کسی مسلمان کو ایسا عمل نہیں کرنا چاہئے ۔ آپ جنات اور شیطان کے شر سے محفوظ ہونا چاہتے ہیں تو پنج وقتہ نمازوں کی پابندی کریں، نماز کے بعد ، صبح وشام اور سونے جاگنے کے اذکار کا اہتمام کریں، ہمیشہ پاک رہا کریں ، گھروں کو نمازوتلاوت سے آباد کریں اور اللہ کے ذکر سے زبان تر رکھا کریں ، شیطان آپ کے قریب بھی نہ ہوگا اور آپ کے گھروں کو نقصان نہیں پہنچا سکے گا۔کیا آ پ کو نہیں معلوم کہ ہرآدمی کے ساتھ ایک شیطان لگا رہتا ہے ،جب ہمارے ساتھ ہمہ وقت شیطان ہے تو اس سے اسی وقت بچ سکتے ہیں جب ہم اللہ کی بندگی اور اسکے دین پر عمل کریں گے ، جب ہم اللہ کے دین سے دور ہوں گے تو یہ شیطان ہم پر غالب آکر زندگی اور گھر تباہ کردے گا۔ اللہ ہمیں شیطان کے شر سے بچائے ۔آمین
مکمل تحریر >>

Saturday, October 12, 2019

بنت حوا کے مسائل اور ان کا شرعی حل (قسط-19)


بنت حوا کے مسائل اور ان کا شرعی حل (قسط-19)

جوابات ازشیخ مقبول احمد سلفی
اسلامک دعوۃ سنٹر،شمالی طائف(مسرہ)

سوال(1): کیا اولاد کے تمام عملوں کا اجر والدین کو بھی ملتا ہے ؟
جواب : اصل تو یہی ہے کہ انسان کو خود ان کے عملوں کا ہی اجروثواب ملتا ہے ، کسی کا عمل دوسرے کو فائدہ نہیں پہنچاتا جیساکہ اللہ کا فرمان ہے:
وَأَنْ لَيْسَ لِلْإِنْسَانِ إِلَّا مَا سَعَى(النجم:39)
ترجمہ: اور یہ کہ ہرانسان کے لئے صرف وہی ہے جس کی کوشش خود اس نے کی ۔
والد اور والدہ کو بھی خود اپنے کئے کا اجر ملتا ہے ، اولاد کے عملوں کا اجر نہیں پہنچتا سوائے ان عملوں کے جن میں اولاد کی تربیت، نصیحت اور تعلیم وترغیب شامل ہے یعنی اگر ماں باپ نے اپنی اولاد کو کسی عمل کی خاص ترغیب اور تعلیم دی ہو اور اولاد نے وہ عمل انجام دیا تو اس کا اجر والدین کو بھی ملتا ہے جیساکہ نبی ﷺ کا فرمان ہے:إنَّ الدالَ على الخيرِ كفاعلِه (صحيح الترمذي:2670)
ترجمہ: بھلائی کی طرف رہنمائی کرنے والا (ثواب میں) بھلائی کرنے والے ہی کی طرح ہے۔
اسی طرح ایک دوسری جگہ فرمان نبوی ہے :
مَن دَعا إلى هُدًى، كانَ له مِنَ الأجْرِ مِثْلُ أُجُورِ مَن تَبِعَهُ، لا يَنْقُصُ ذلكَ مِن أُجُورِهِمْ شيئًا(صحيح مسلم:2674)
ترجمہ:جو شخص ہدایت کی طرف بلائے اس کو ہدایت پر چلنے والون کا بھی ثواب ملے گا اور چلنے والوں کا ثواب کچھ کم نہ ہو گا۔
ہمیں قرآن وحدیث سے ایسی کوئی دلیل نہیں ملتی ہے جس کی بنیاد پر ہم یہ کہہ سکیں کہ اولاد کے تمام عملوں کا اجر ان کے والدین کو بھی پہنچتا ہے ۔ ایک حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ نیک لڑکا پیچھے چھوڑنا میت کے لئے اجرکا باعث ہے ، نبی ﷺ کا فرمان ہے:
إنَّ مِمَّا يلحقُ المؤمنَ من عملِهِ وحسناتِه بعدَ موتِه عِلمًا علَّمَه ونشرَه وولدًا صالحًا ترَكَه ومُصحفًا ورَّثَه أو مسجِدًا بناهُ أو بيتًا لابنِ السَّبيلِ بناهُ أو نَهرًا أجراهُ أو صدَقةً أخرجَها من مالِه في صِحَّتِه وحياتِه يَلحَقُهُ من بعدِ موتِهِ(صحيح ابن ماجه:200)
ترجمہ: مومن کو اس کے اعمال اور نیکیوں میں سے اس کے مرنے کے بعد جن چیزوں کا ثواب پہنچتا رہتا ہے وہ یہ ہیں: علم جو اس نے سکھایا اور پھیلایا، نیک اور صالح اولاد جو چھوڑ گیا، وراثت میں قرآن مجید چھوڑ گیا، کوئی مسجد بنا گیا، یا مسافروں کے لیے کوئی مسافر خانہ بنوا دیا ہو، یا کوئی نہر جاری کر گیا، یا زندگی اور صحت و تندرستی کی حالت میں اپنے مال سے کوئی صدقہ نکالا ہو، تو اس کا ثواب اس کے مرنے کے بعد بھی اسے ملتا رہے گا۔
اس حدیث میں مطلق نیک لڑکا چھوڑنے کا ذکر ہے جبکہ صحیح مسلم میں قید ہے کہ نیک لڑکا جب والد کے لئے دعا کرے تو اس کو ثواب پہنچتا ہے ، نبی ﷺ کا فرمان ہے:إذا مات الإنسانُ انقطع عنه عملُه إلا من ثلاثةٍ : إلا من صدقةٍ جاريةٍ . أو علمٍ ينتفعُ به . أو ولدٍ صالحٍ يدعو له(صحيح مسلم:1631)
ترجمہ: جب انسان وفات پاجاتا ہے تو اس کا عمل منقطع ہوجاتا ہے مگر تین عمل ایسے ہیں جن کا اجروثواب اسے مرنے کے بعدبھی ملتا رہتا ہے ۔ صدقہ جاریہ،علم جس سے فائدہ اٹھایاجاتا ہو،صالح اولاد جو مرنے والے کے لیے دعا کرے ۔
خلاصہ یہ ہوا کہ اولاد کے ان ہی عملوں کا اجر والدین کو پہنچتا ہے جن عملوں کی ترغیت وتعلیم انہوں نے دی ہو۔ نیز اولاد کو چاہئے کہ والدین کے حق میں کثرت سے دعا و استغفار اور ان کی طرف سے صدقہ وخیرات کرے۔
سوال(2):مفتی فیصل جاپان والا اپنے ایک بیان میں قرآن کے حوالے سےبات کرتا ہے اور گھر میں کتا پالنے کی بات کرتا ہے یعنی اس سے رحمت کے فرشتے نہیں رکتے، ایک دلیل دیتا ہے کہ سورہ مائدہ آیت 4 میں شکاری کتے کا ذکر ہے ان کتوں کے بارے میں اللہ نے یہ نہیں کہا کہ انہیں گھر میں نہیں رکھو کیونکہ اس سے رحمت کے فرشتے گھر میں داخل نہیں ہوتے۔دوسری دلیل سورہ کہف آیت 10 میں صراحت ہے کہ غار میں اصحاب کہف کے ساتھ کتا بھی تھا ان لوگوں نے اللہ سے رحمت کی دعا کی ہے، اس نے یہ بھی ذکر کیا ہے کہ بعض حدیث میں ہےکہ ایک مرتبہ جبریل نبی کے پاس آئے اور آپ کے گھر میں کتا تھا جس پر نجاست لگی تھی تو جبریل صرف اپنےذاتی ذوق کی وجہ سے گھر میں داخل نہیں ہوئے ۔ اس فتوی کو آپ کس نظر سے دیکھتے ہیں؟
جواب: سب سے پہلے تو یہ جان لیں کہ یہ مفتی فیصل جاپان والاغامدی فکر کا حامل ہے،اس کے بیانات سے دور ہی رہیں۔اس نے غامدی کی تائید میں کتاب بھی شائع کی ہے بلکہ غامدی کے داماد اورشاگرد محمد حسن الیاس حیدری سے ایک انٹریو میں اعتراف کیا ہے کہ غامدی کے افکار منہج سلف صالحین کے مطابق ہیں۔ اب اس مفتی کے فتوی کے بارے میں سنیں کہ اس کا فتوی سراسر قرآن وحدیث کے خلاف ہے ، نبیﷺ کا فرمان ہے:
لَا تَدْخُلُ المَلَائِكَةُ بَيْتًا فيه كَلْبٌ ولَا صُورَةٌ(صحيح البخاري:3322)
ترجمہ:(رحمت کے) فرشتے ان گھروں میں نہیں داخل ہوتے جن میں کتا یا (جاندار کی) تصویر ہو۔
اس لئے کوئی بھی مسلمان اپنے گھر میں شوقیہ کتا نہیں پال سکتا ہے ، ہاں شریعت نے تین قسم کے کتوں کو پالنے کی اجازت دی ہے جن کا ذکر اس حدیث میں ہے، نبی ﷺ کا فرمان ہے:مَنِ اتَّخَذَ كَلْبًا إلَّا كَلْبَ ماشِيَةٍ، أوْ صَيْدٍ، أوْ زَرْعٍ، انْتَقَصَ مِن أجْرِهِ كُلَّ يَومٍ قِيراطٌ(صحيح مسلم:1575)
ترجمہ: جو شخص کتا پالے اور وہ شکاری نہ ہو اور نہ جانوروں کی حفاظت کے لیے ہو، نہ زمین کے (یعنی کھیت کے) تو اس کے ثواب میں سے دو قیراط کا ہر روز نقصان ہوگا۔
جہاں تک مفتی کا پیش کردہ قرآن میں مذکور کتوں کی بات ہے تو ان میں ایک کتا شکاری ہے جس کی ہمیں اجازت ہے اور ایک کتا اصحاب کہف والا رکھوالی کے لئے ہے اس کی بھی علماء نے رخصت دی ہے یعنی ہم حفاظت اور گھروں کی رکھوالی کے لئے کتا پال سکتے ہیں اورمفتی کا یہ کہنا کہ جبریل علیہ السلام ذاتی ذوق کی وجہ سے رسول کے گھر میں نہیں داخل ہوئے سراسر جھوٹ ہے، حقیقت یہ ہے کہ جبریل علیہ السلام کتے کی وجہ سے ہی آپ کے گھر میں داخل نہیں ہوئے ، پھر آپ نے کتے کو گھر سے نکال دیا۔ تفصیل کے لئے دیکھیں أبوداود(4158)، سنن الترمذي(2806)، صحیح ابن حبان(5854)۔
جن کتوں کو ہمیں رکھنے کی اجازت ہے وہ کتے اگر گھر میں ہوں تو فرشتوں کے گھر میں داخل ہونے سے مانع نہیں ہے۔
سوال (3):کہا جاتا ہے کہ قرض کا ایک روپیہ ادا کرنا ہزار روپیہ صدقہ کرنے سے بہتر ہے اس بات کی کیا حقیقت ہے ؟
جواب : ہمیں اللہ اور اس کے رسول نے ایسی کوئی بات کی خبر نہیں دی ہے کہ قرض کا ایک روپیہ ادا کرنا ہزار روپیہ صدقہ کرنے سے بہتر ہے، کسی نے اپنے من سے یہ جملہ گھڑ لیا ہے۔ صدقہ کی اپنی جگہ اہمیت ہے ، قرض حسنہ دینے کی اپنی جگہ فضیلت ہے اور قرض کی احسن طریقے سے ادائیگی کا اپنا مقام ہے۔ نبی ﷺ نے قرض کی ادائیگی سے متعلق ارشاد فرمایا:
إنَّ خِيَارَ النَّاسِ أَحْسَنُهُمْ قَضَاءً.(صحيح مسلم:1600)
ترجمہ:اچھے وہ لوگ ہیں جو قرض کو اچھی طرح سے ادا کریں۔
اسی طرح یہ بھی آپ ﷺ کا فرمان ہے :
إنما جزاءُ السَّلَفَ ، الحمدُ والأداءُ.(صحيح النسائي:4697)
ترجمہ: قرض کا بدلہ اس کو پورا کا پورا چکانا اور قرض دینے والے کا شکریہ ادا کرنا ہے۔
یہاں ایک بات یہ جاننی اہم ہے کہ صدقہ کرنا افضل ہے یا کسی کو قرض دینا ؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ صدقہ کرنا قرض دینے سے افضل ہے کیونکہ اس میں ادائیگی کی کلفت نہیں ہوتی ہے۔
سوال (4):جنت میں سب سے پہلے کون سی عورت داخل ہوگی ؟
جواب : مردوں میں اس بات کی صراحت ہے کہ نبی ﷺ سب سے پہلے جنت میں داخل ہوں گے جیساکہ آپ ﷺ کا فرمان ہے:
آتي بابَ الجَنَّةِ يَومَ القِيامَةِ فأسْتفْتِحُ، فيَقولُ الخازِنُ: مَن أنْتَ؟ فأقُولُ: مُحَمَّدٌ، فيَقولُ: بكَ أُمِرْتُ لا أفْتَحُ لأَحَدٍ قَبْلَكَ.(صحيح مسلم:197)
ترجمہ:میں قیامت کے دن جنت کے دروازے پر آؤں گا اور دروازہ کھلواؤں گا چوکیدار پوچھے گا: تم کون ہو؟ میں کہوں گا: محمد! وہ کہے گا: آپ ہی کے واسطے مجھے حکم ہوا تھا کہ آپ سے پہلے کسی کے لیے دروازہ نہ کھولنا۔
لیکن عورتوں میں سب سے پہلے جنت میں کون داخل ہوگی اس بات کی کسی حدیث میں صراحت نہیں ملتی ہے ، یہ غیبی امور میں سے ہے اس لئے بلادلیل کچھ نہیں بولنا چاہئے ، فاطمہ رضی اللہ عنہا جنتی عورتوں کی سردار ہوں گی ،نبی ﷺ فرماتے ہیں :
إنَّ هذا ملَكٌ لم ينزلِ الأرضَ قطُّ قبلَ اللَّيلةِ استأذنَ ربَّهُ أن يسلِّمَ عليَّ ويبشِّرَني بأنَّ فاطمةَ سيِّدةُ نساءِ أَهْلِ الجنَّةِ وأنَّ الحسَنَ والحُسَيْنَ سيِّدا شبابِ أَهْلِ الجنَّةِ(صحيح الترمذي:3781)
ترجمہ: یہ ایک فرشتہ تھا جو اس رات سے پہلے زمین پر کبھی نہیں اترا تھا، اس نے اپنے رب سے مجھے سلام کرنے اور یہ بشارت دینے کی اجازت مانگی کہ فاطمہ جنتی عورتوں کی سردار ہیں اور حسن و حسین رضی الله عنہما اہل جنت کے جوانوں (یعنی جو دنیا میں جوان تھے ان) کے سردار ہیں۔
سوال(5):حرم میں خواتین کو دیکھتے ہیں کہ وہ سونے کے بعد اٹھ کر اس کے پاس اسپرے والا پانی کا چھوٹابوتل ہوتا ہے اس سے چھینٹے مار کر وضو کرلیتی ہیں کیا اس سے وضو ہوجاتا ہے ؟
جواب :وضو میں تین تین مرتبہ عضو دھونا اس لئے مسنون ہے تاکہ اچھی طرح سے اعضائے وضو بھیگ جائیں جبکہ ایک ایک مرتبہ بھی عضو دھونا کافی ہے اس شرط کے ساتھ دھونے والی جگہ مکمل بھیگ جائے ،بالکل ہی خشک نہ رہے ۔ وضو میں کسی حصے کا خشک رہ جانا باعث گناہ ہے ، اس پہ سخت وعید آئی ہے ۔حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے انہوں نے کہا:
رَجَعْنَا مَعَ رَسُولِ مِنْ مَكَّةَ إِلَى المَدِينَةِ، حَتَّى إِذَا كُنَّا بِمَاءٍ بِالطَّرِيقِ، تَعَجَّلَ قَوْمٌ عِنْدَ العَصْرِ، فَتَوَضَّؤُوا وَهُمْ عِجَالٌ، فَانْتَهَيْنَا إِلَيْهِمْ، وَأعْقَابُهُمْ تَلُوحُ لَمْ يَمَسَّهَا المَاءُ، فَقَالَ رَسُولُ: «وَيْلٌ لِلأَعْقَابِ مِنَ النَّارِ، أسْبِغُوا الوُضُوءَ. (صحیح مسلم :241)
ترجمہ : ہم نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے ہمراہ مکہ سے مدینہ کو واپس لوٹے یہاں تک کہ جس وقت ہم پانی پر پہنچے جو راستہ میں تھا تو کچھ لوگوں نے نماز عصر کے لیے وضو کرنے میں جلدی کی اور وہ لوگ بہت جلدی کرنے والے تھے ، چنانچہ جب ہم ان لوگوں کے پاس پہنچے تو دیکھا کہ ان کی ایڑیاں چمک رہی تھیں (خشک رہ جانے کی وجہ سے) کیونکہ ان تک پانی نہیں پہنچا تھا (ان خشک ایڑیوں کو دیکھ کر) رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : ایڑیوں کے لئے جہنم کی آگ کی صورت میں ہلاکت ہے، مکمل طور پر وضو کرو۔
اعضائے وضو میں سے کسی حصے یا حصے کے بعض حصے کا خشک رہ جانا عدم وضو کی دلیل ہے یعنی وضو ہوا ہی نہیں۔ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی نے وضو کیا اور اس نے اپنے پیر پہ ناخن کے برابر حصہ چھوڑ دیا یعنی ناخن کے برابر پیر پہ خشک رہ گیا۔ آپ نے اسے دیکھا اور فرمایا:ارجِعْ فأحسنْ وضوءَكَ فرجع ثم صلُّى(صحیح مسلم:243)
ترجمہ : لوٹ جاؤ اور اچھے ڈھنگ سے اپنا وضو کرکے آؤ پس وہ لوٹ گیا پھر اس نے (دوبارہ وضو کرکے) نماز پڑھی۔
اسپرے والی چھوٹی بوتل سے اعضائے وضو کامل طور پر نہیں بھیگ سکتے ہیں اور جب وضو نہیں خشکی رہ جائے تو وضو نہیں ہوگا اور وضو نہیں ہوگا تو نماز بھی نہیں ہوگی لہذا مسلم بہنوں سے گزارش ہے کہ اسپرے سے وضو نہ کریں نل پہ جاکر اچھی طرح کامل وضو کریں اور وضو کی خاطر سستی کا مظاہرہ نہ کریں ۔
سوال(6): روٹی کے چار ٹکڑے کرکے کھانا مسنون ہے ؟
جواب: سنت میں ایسی کوئی دلیل نہیں ہے کہ روٹی چار ٹکڑے کرکے کھانا چاہئے ، جتنی مرضی ٹکڑے کریں اور روٹی کھائیں ، کسی قسم کی کوئی ممانعت نہیں ہے۔
سوال(7): مجھے میری امی جمعہ کے دن کپڑے بھگونے سے منع کرتی ہے ، وہ عہد رسالت کا ایک واقعہ بیان کرتی ہے کہ ایک آدمی نے نبی ﷺ سےتنگی کی شکایت کی تو آپ نے اسے کہا اپنی بیوی کوجمعہ کے دن کپڑا دھونے سے منع کرو، اس آدمی نے اس پر عمل کیا دولت اس قدر بڑھ گئی کہ سنبھالنا مشکل ہوگیا پھر اس نے نبی سے اس بات کا ذکر کیا تو آپ نے کہا جمعہ کے دن کپڑے کا ایک کونہ بھگودو ایسا کرنے سے دولت برابر ہوگئی، اس بات کی کیا حقیقت ہے؟
جواب :آپ کی والدہ نے جو واقعہ بیان کیا ہے وہ میرے علم میں کسی کتاب میں موجودنہیں ہے ، جمعہ کے دن کپڑا دھونے سے کوئی تنگی نہیں آتی اور نہ ہی اس دن کپڑا نہ دھونے سے اس کے سبب کوئی رزق ملتا ہے ، یہ جہالت اور بداعتقادی ہےاس لئے اپنے ذہن سے اس بات کو نکال دیں ۔ جمعہ تو غسل کا افضل دن ہے، اس دن خصوصی طور پر ہمیں رسول اللہ ﷺ نے غسل کا حکم دیا ہے اور ظاہر سی بات ہے کہ جب ہم کپڑا پہن کر غسل کریں گے تو بھیگے ہوئے کپڑے بھی دھونے ہوں گے ۔ معلوم یہ ہوا کہ جمعہ کے دن غسل کرنا اس بات کی واضح دلیل ہے کہ اس دن کپڑا بھی دھوسکتے ہیں ۔
سوال(8):حیض کا غسل جمعہ کے دن نہیں کرسکتے بلکہ کپڑے میں بھی نجاست لگی ہو تو اسے بھی نہیں دھونا ہے ، یہ میری امی کی تعلیم ہے کیا یہ صحیح ہے ؟
جواب :یہ بات بھی جہالت پر مبنی ہے ، اس جہالت کو بھی اپنے گھروں سے دفع کریں ، کس قدر حیرانی کی بات ہے کہ ایک عورت جمعہ کو حیض سے پاک ہورہی ہے اور محض جہالت کی وجہ سے غسل نہ کرکے اس دن کی ساری نمازیں چھوڑتی ہے ۔یہ تو بہت بڑے گناہ کا کام ہے اس سے باز آئیں ۔ جمعہ ہفتے کی عید ہے، اس دن غسل کرنا ،عمدہ لباس لگانا، خوشبو استعمال کرنا، سورہ کہف کی تلاوت کرنا ، دعا کرنا اور نبی ﷺ پر کثرت سے درود پڑھنا مسنون ہے۔ عورتوں کے لئے مسجد میں جمعہ پڑھنے کا مخصوص انتظام ہو تو مردوں کے ساتھ مسجد میں جمعہ کی نماز ادا کریں ورنہ ظہرپڑھیں۔
سوال(9): کیا عورت اپنی عزت بچانے کے لئے خودکشی کرسکتی ہے ؟
جواب: اسلام نے ہمیں کسی بھی حال میں خود کو ہلاک کرنے کی اجازت نہیں دی ہے کیونکہ خود کو ہلاک کرنا گناہ کبیرہ ہے اس گناہ کی وجہ سے آدمی آخرت میں بھی خود کو تکلیف پہنچاتا رہے گا، نبی ﷺ کا فرمان ہے:
مَن تَرَدَّى مِن جَبَلٍ فَقَتَلَ نَفْسَهُ، فَهو في نَارِ جَهَنَّمَ يَتَرَدَّى فيه خَالِدًا مُخَلَّدًا فِيهَا أَبَدًا، وَمَن تَحَسَّى سُمًّا فَقَتَلَ نَفْسَهُ، فَسُمُّهُ في يَدِهِ يَتَحَسَّاهُ في نَارِ جَهَنَّمَ خَالِدًا مُخَلَّدًا فِيهَا أَبَدًا، وَمَن قَتَلَ نَفْسَهُ بِحَدِيدَةٍ، فَحَدِيدَتُهُ في يَدِهِ يَجَأُ بِهَا في بَطْنِهِ في نَارِ جَهَنَّمَ خَالِدًا مُخَلَّدًا فِيهَا أَبَدًا.(صحيح البخاري:5778)
ترجمہ: جس نے پہاڑ سے اپنے آپ کو گرا کر خودکشی کرلی وہ جہنم کی آگ میں ہوگا اور اس میں ہمیشہ پڑا رہے گا اور جس نے زہر پی کر خودکشی کر لی وہ زہر اس کے ساتھ میں ہو گا اور جہنم کی آگ میں وہ اسے اسی طرح ہمیشہ پیتا رہے گا اور جس نے لوہے کے کسی ہتھیار سے خودکشی کر لی تو اس کا ہتھیار اس کے ساتھ میں ہو گا اور جہنم کی آگ میں ہمیشہ کے لیے وہ اسے اپنے پیٹ میں مارتا رہے گا۔
اس لئے کسی بھی مسلمان بہن کو کسی بھی حال میں خودکشی نہیں کرنی چاہئے ۔واقعی  آج کل مسلمانوں کے حالات بہت برے ہیں،کہیں عزت نفس تو کسی کے لئے گھریلومسائل شدید ہیں ، برے سے برے حالات میں بھی میں اپنی بہنوں سے کہوں گا کہ دلیری سے ان کا مقابلہ کریں اور اللہ سے مدد طلب کریں ۔عزت پہ بن آئے تو عزت بچانے کے لئے حتی المقدوراپنا دفاع کریں ۔ جو کوئی مردوعورت جان ومال اور دین وعزت کے دفاع میں قتل کیا جائے شہید کے حکم میں ہے ، نبی ﷺ کا فرمان ہے :
من قُتِلَ دونَ مالِهِ فَهوَ شَهيدٌ ومن قتلَ دونَ دينِهِ فَهوَ شَهيدٌ ومن قتلَ دونَ دمِهِ فَهوَ شَهيدٌ ومن قتلَ دونَ أَهلِهِ فَهوَ شَهيدٌ(صحيح الترمذي:1421)
ترجمہ:جو اپنے مال کی حفاظت کرتے ہوئے قتل کیا جائے وہ شہید ہے، جو اپنے دین کی حفاظت کرتے ہوئے قتل کیا جائے وہ شہید ہے، جو اپنی جان کی حفاظت کی خاطر مارا جائے وہ شہید ہے اور جو اپنے اہل و عیال کی حفاظت کرتے ہوئے قتل کیا جائے وہ شہید ہے۔
مشکل حد سے زیادہ بڑھ جائے اور صبرکرنا ناممکن ہوتب بھی خودکشی کا راستہ اختیار نہیں کرنا ہے تاہم ایسے حالات میں اللہ سے یہ دعا کرسکتے ہیں:
اللَّهُمَّ أحْيِنِي ما كانَتِ الحَياةُ خَيْرًا لِي، وتَوَفَّنِي إذا كانَتِ الوَفاةُ خَيْرًا لِي.(صحيح مسلم:2680)
ترجمہ :یااللہ! جلا مجھ کو جب تک جینا میرے لیے بہتر ہو اور مار مجھ کو جب مرنا میرے لیے بہتر ہو۔
سوال(10): میری ایک سہیلی کی شادی کئی سالوں سے نہیں ہورہی ہے کوئی وظیفہ بتائیں، شادی کا رشتہ آتا ہے مگر کہیں سے کوئی جواب نہیں آتاوہ کیا کرے؟
جواب : اسلام میں ایسا کوئی وظیفہ نہیں ہے جسے پڑھنے سے فورا شادی ہوجاتی ہے جو ایسا کہتا ہے وہ لوگوں کا مال ٹھگنے کے لئے کہتا ہے ، مال کےایسے لٹیروں سے ہوشیار رہیں ۔ شادی زندگی کا ایک اہم ترین اور نازک مرحلہ ہے ،اس سلسلے میں اسلام نے ہمیں رہنمائی کی ہے کہ جو شادی کے لائق ہوجائے وہ بلاتاخیردیندار سے شادی کرلے۔ آج کل شادی میں تاخیراورپریشانی اکثر ہماری غفلت اوربے دینی کا نتیجہ ہے۔اولا وقت پر شادی نہیں کرتے ، ثانیا تاخیر سے شادی کا ارادہ کرتے ہیں پھر معیار شادی دولت، حسن وجمال، نوکری،ذات وبرادری ، جاہ ومنصب اور اعلی تعلیم ٹھہراتے ہیں ، اس معیار کی تلاش میں عمر کا ایک حصہ گزرجاتا ہےجبکہ شادی میں معیار فقط دین ہے۔ کبھی شادی ہمارے لئے اللہ کی طرف سے آزمائش بھی ہوسکتی ہے اس لئے اپنا محاسبہ کرنا چاہئے اور اعمال صالحہ کے ذریعہ اللہ سے مدد طلب کرنا چاہئے ۔
آپ اپنی سہیلی سے کہیں کہ نماز اورصبر کے ذریعہ اللہ سے مدد مانگے اور اپنے اولیاء سے کہے کہ نکاح کی کوشش جاری رکھے اور دیندار لڑکا مل جائے تو رشتہ طے کرلے خواہ وہ غریب اور کسی ذات کا ہو بس دیندار ہونا چاہئے حتی کہ کوئی شادی شدہ مرد بھی مل جائے تو اس سے شادی میں عار نہیں ہونی چاہئے۔
مکمل تحریر >>