Monday, May 27, 2019

بنت حوا کے مسائل اور ان کا شرعی حل (قسط- 14)


بنت حوا کے مسائل اور ان کا شرعی حل (قسط- 14)

جوابات ازشیخ مقبول احمد سلفی
اسلامک دعوۃ سنٹر طائف

سوال(1):دعا سے پہلے الله کی تعریف کرنا ہے تو سورة فاتحہ پڑھنا صحیح ہے کہ نہیں ؟
جواب : دعا میں بلاشبہ اللہ کی تعریف کرنی چاہئے اور بھی بہت سے مقامات ہیں جہاں اللہ  کی تعریف بیان کی جاتی ہے مثلا جمعہ اور عید کے خطبہ میں ۔ ان تمام جگہوں پر کہیں بھی نبی ﷺ سے اللہ کی حمد کے طور پر سورہ فاتحہ پڑھنا ثابت نہیں ہے لہذا ہمیں دعا سے پہلے یا دعا کو ختم کرنے کے لئے سورہ فاتحہ کو مخصوص نہیں کرنا ہے ۔
سوال(2): تحیة الوضو نماز کے بارے میں بتائیں کیا عورتیں گھر میں بھی پڑھ سکتی ہیں، سنت اور تحیة الوضو کی نیت ایک ساتھ کر کے؟
جواب: تحیۃ المسجد اور سنت الوضوء یہ کوئی مستقل بالذات نماز نہیں ہے بلکہ مسجد میں داخل ہونے اور وضو کرکے پڑھی جانے والی نماز ہے اس لئے اس کو دوسری نماز میں داخل کرسکتے ہیں ۔ کوئی مسجد میں داخل ہو اس وقت چاشت کی نماز کا وقت ہو تو تحیہ المسجد اور چاشت کی ایک ساتھ نیت کرکے پڑھ سکتاہے یا سنت الوضوء اور چاشت کی ایک ساتھ نیت کرسکتا ہے۔ اسی طرح سوال میں مذکور سنت الوضوء اور نماز کی سنت ایک ساتھ نیت کرکے پڑھ سکتے ہیں ۔
سوال(3): تلاوت کے لئے وضو کیا تو تحیة الوضو پڑھ کر تلاوت کر سکتے ہیں کیا؟
جواب : ہاں ،بالکل ۔جب بھی ہم وضو کریں تو دو رکعت، سنت الوضو کی نیت سے ادا کرسکتے ہیں ۔ تلاوت کے لئے وضو ضروری نہیں ہے بلکہ افضل ہے ، اگر آپ نے تلاوت کے لئے وضو کیا اوروضو کی دو رکعت ادا کرنا چاہتے ہیں تو ادا کرلیں پھر تلاوت کریں ۔
سوال(4): کیا ایک ہی دفعہ قرآن پاک پڑھ کر 14 سجدے ایک ساتھ کر سکتے ہیں؟
جواب : سجدہ تلاوت اسی وقت کرنا ہے جب آیت سجدہ کی تلاوت کی جائے ، وقت گزرنے کے بعد سجدہ تلاوت نہیں ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ قرآن میں موجود آیات سجدہ کی تلاوت ایک ساتھ کرنا غلط ہے ، اپنے اپنے وقت پریعنی آیت سجدہ پر سجدہ کرنا ہے ۔ ساتھ ساتھ یہ معلوم رہے کہ سجدہ کی آیات چودہ نہیں پندرہ ہیں ، اس موضوع پہ مستقل میرا مضمون میرے بلاگ میں موجود ہے۔
سوال(5): کیا لیلة القدر مغرب سے شروع ہونے سے لے کر پوری فجر تک ہے یا سورج نکلنے تک وقت رہتا ہے ؟
جواب : لیل عربی میں رات کو کہتے ہیں جس کا اطلاق سورج ڈوبنے سے لیکر طلوع فجر تک ہوتا ہے۔ سورہ القدر میں اللہ نے شب قدر کے متعلق فرمایا ہے کہ یہ رات سلامتی والی ہے اور طلوع فجر تک رہتی ہے اس لئے شب قدر کے واسطے اجتہاد غروب شمس سے طلوع فجر کے درمیان ہونا چاہئے ۔
سوال(6): کیا ہم دعا کے شروع میں سورة فاتحہ اس بنا پر پڑھ سکتے ہیں کہ اس میں الله تعالی کی تعریف بھی ہے اور ہمارے لئے دعا بھی ہے؟
جواب : نہیں پڑھ سکتے ہیں کیونکہ ہمیں رسول اللہ ﷺ نے اس کی تعلیم نہیں دی ہے ۔
سوال(7): وصیت کرنے کا حکم دیا گیا ہے تو یہ ہرمسلمان کے لئے لازمی ہے؟
جواب : وصیت کا حکم احکام شرعیہ کی طرح پانچ احوال پر منحصر ہے ۔ اگر آدمی کے ذمہ بندوں کے حقوق ہیں مثلا قرض، امانت، ہڑپا ہوا مال ، چوری کی ہوئی چیز، زکوۃ وکفارہ وغیرہ تو ان حقوق کی وصیت کرنا واجب ہے ۔ اعزاء واقرباء(وارث کے علاوہ) کے لئے وصیت کرنا مستحب ہے مثلا کسی مسکین رشتہ دار یا نیکی کے کاموں کی وصیت کرنا ۔اللہ کی معصیت میں وصیت کرنا حرا م ہے جیسے کوئی بیٹے کو ڈاکو بننے کی وصیت کرے یااپنے مال سے اپنی قبر پہ مزارتعمیر کرنے کا حکم دے۔ وارث محتاج ہوتو فقیر کے لئےمال کی وصیت کرنا مکروہ ہے ۔ مالدار آدمی، مالدا ر رشتہ دار یا اجنبی کے لئے وصیت کرے مباح کے درجے میں ہے ۔ (ماخوذازوصیت کے مختصراحکام ، شیخ مقبول احمد سلفی)
سوال (8): کیا تراویح اور تہجد الگ الگ ہے ، ہمارے کچھ احناف رشتہ داروں کا کہنا ہے؟
جواب : جواب : یہ دونوں ایک ہی نمازیں ہیں جو کہ حدیث  عائشہ میں مذکور ہے کہ رمضان یا غیر رمضان میں آپ کا قیام آٹھ رکعت کا ہوا کرتا تھا۔اگر یہ تہجد کی نماز مان لی جائے تو پھر یہ ماننا پڑے گا کہ آپ ﷺ نے رمضان میں دوبارہ تراویح الگ سے پڑھی جس کی کوئی دلیل نہیں ۔
یہ حدیث میں بڑی ٹھوس دلیل ہے من قام رمضان ۔۔۔۔الخ اس کا ترجمہ کیا کرتے ہیں جو رمضان میں تراویح پڑھے یا قیام اللیل کرے؟ ۔ اگر رمضان میں عشاء کے بعد پڑھی جانے والی تراویح کو تہجد اور قیام اللیل نہیں کہیں گے تو سابقہ گناہوں کی معافی کا اجر کس کو ملے گا اور کیوں؟ یہاں یہ بھی معلوم رہے کہ نبی نے تہجد کی نماز عشاء کے بعد، درمیانی رات اور آخری پہر تمام اوقات میں پڑھی ہے اس لئے رمضان میں لوگوں کی آسانی کے لئے عشاء کے فورا بعد قیام کرنے پہ اعتراض نہیں کیا جا سکتا ہے، نہ ہی قیام اللیل سے خارج کیا جا سکتا ہے۔ مشہور حنفی عالم مولانا انور شاہ کشمیری نے بھی تہجد اور تراویح کو ایک ہی نماز تسلیم کیا ہے ۔ (دیکھیں:عرف الشذی :309)
سوال (9): کیا مردوں کو ٹخنہ نہ ڈھکنے میں کوئی گناہ ہے ؟
جواب : مردوں کو ٹخنہ سے نیچے کپڑا لٹکانے سے منع کیا گیا ہے کیونکہ یہ تکبر کی علامت ہے اس لئے اگر کوئی مرد اپنا کپڑا ٹخنہ سے نیچے لٹکاتا ہے تو گناہ ملے گا ۔ ہاں موزہ سے ٹخنہ ڈھکتا ہے تو کوئی بات نہیں ہے۔
سوال(10): کچھ لوگ سنت سمجھ کر سجدہ تلاوت نہیں کرتے اور کچھ کرتے بھی ہیں تو زمین پر نہیں کرتے بلکہ مصحف پرکرتے ہیں اس بارے میں آپ کیا کہتے ہیں؟
جواب : یہ بات صحیح ہے کہ سجدہ تلاوت واجب نہیں ہے اس لئے کوئی اسے چھوڑ دے تو کوئی گناہ نہیں ہے ، رسول اللہ سے بھی آیت سجدہ پر سجدہ نہ کرنا ثابت ہے اور اگر سجدہ تلاوت کرے تو صرف زمین پر سجدہ کرے ،مصحف پر سر جھکا لینے سے سجدہ نہیں ہوگا۔
سوال(11): حمیم کا اصل معنی کیا ہے ، ہم نے قرآن میں بعض جگہ دوست، بعض جگہ پانی اور بعض جگہ کھولتا پانی متعدد معنی دیکھا ہے ؟
جواب :  یہ ذو معنی لفظ ہے یعنی اس کے کئی معانی ہیں ،اس لئے قرآن میں یہ مختلف معانی کے طور پر استعمال ہوا ہے۔ عربی زبان کی بڑی خاصیت ہے کہ کتنے ا لفاظ اپنے اندر کئی معانی رکھتے ہیں ، کہاں پر لفظ کا کون سا معنی ہوگا سیاق وسباق سے طے کیا جاتا ہے۔
سوال (12): استعمال کے زیورات پہ زکوۃ ہے کہ نہیں اس کی دلیل وضاحت دلیل سے کریں ؟
جواب :  سونے چاندی کے زیورات پہ زکوۃ ہے کہ نہیں اس سلسلے میں شدیدعلمی  اختلاف ہے، اس مسئلے میں میں ان علماء کے ساتھ ہوں جو استعمال کے زیورات میں زکوۃ نکالنے کے قائل ہیں ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بعض قرآنی آیات اور احادیث کے عموم سے معلوم ہوتا ہے کہ سونا یا چاندی کسی شکل میں ہو اگر نصاب تک پہنچ جائے تو زکوۃ  ہے ،نیز صراحت کے ساتھ زیور پہ زکوۃ نکالنے کی حدیث بھی پائی جاتی ہے ۔ ابوداؤد(ح:1563) میں حسن درجے کی روایت ہے ، ایک خاتون رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں آئیں ۔ ان کے ساتھ ان کی بیٹی بھی تھی اور بیٹی کے ہاتھ میں سونے کے دو موٹے موٹے کنگن تھے۔ آپ ﷺ نے اس خاتون سے پوچھا:(أتُعطينَ زَكاةَ هذا)کیا تم اس کی زکوٰۃ دیتی ہو ؟
اس نے کہا ، نہیں ۔ آپ ﷺ نے فرمایا:(أيسرُّكِ أن يسوِّرَكِ اللَّهُ بهما يومَ القيامةِ سوارينِ من نارٍ)کیا تمہیں یہ بات اچھی لگتی ہے کہ قیامت کے روز اللہ تمہیں ان کے بدلے آگ کے دو کنگن پہنائے ؟
چنانچہ اس عورت نے ان کو اتارا اور نبی کریم ﷺ کے سامنے ڈال دیا اور کہنے لگی ، یہ اللہ اور اس کے رسول کے لئے ہیں۔
سوال(13): ہماری  ایک جاننے والی خاتون ہیں ، وہ زیارت کے ویزا پر  اپنے بیٹے کے پاس جدہ آئی ہیں،  انہیں اب عمرہ کرنا ہے ،سوال یہ ہے کہ وہ عمرہ کی نیت کے لئے میقات پہ جائے گی یا بیٹے کا گھر ہی میقات بن سکتی ہے ؟
جواب : پہلے ایک بات یہ سمجھ لیں کہ زیارت کے ویزا سے نیت عمرہ کرنے کی ہو تو اپنے ملک سے سفر کرتے ہوئے میقات سے گزرتے وقت عمرہ کی نیت کرنی ہوگی ورنہ میقات تجاوز کرکے اندرون میقات سے احرام باندھ کر عمرہ کرنے پر دم لازم آئے گا۔ ہاں اگر زیارت کی نیت ملاقات کے ساتھ یہ ہو کہ اگر میسر ہوا تو عمرہ کرے گی ورنہ نہیں ۔ اور عمرہ میسر ہوجائے تو جدہ میں جہاں بھی رہائش پذیر ہو وہیں سے عمرہ کا احرام باندھے گی ۔
سوال(14): مجھے موت کی سختیوں سے بچنے کی کوئی دعا بتادیں ۔
جواب : سب سے پہلے ضروری یہ ہے کہ ہم اپنی زندگی میں نیک کام کریں ، برائی سے بچیں،اللہ تعالی سے اچھی موت طلب کریں اور بری موت سے پناہ طلب کریں ۔نبی ﷺ کا فرمان ہے : إذا أرادَ اللهُ بعبدٍ خيرًا استعملَه ، فقيل : كيف يستعملُه يا رسولَ اللهِ ؟ قال : يوفِّقُه لعمَلٍ صالحٍ قبلَ الموتِ(صحيح الترمذي:2142)
ترجمہ: جب اللہ تعالیٰ کسی بندے کے ساتھ بھلائی کا ارادہ کرتا ہے تو اسے کام پر لگاتا ہے،عرض کیا گیا: اللہ کے رسول! کیسے کام پر لگاتا ہے؟ آپ نے فرمایا:موت سے پہلے اسے عمل صالح کی توفیق دیتا ہے۔
اس لئے ہم اعمال صالحہ کے ذریعہ پہلے اللہ کا پسندیدہ بندہ بنیں تاکہ موت کے وقت وہ ہمیں عمل صالح کی توفیق دے ۔ جب موت کا وقت قریب ہو تو کثرت سے لاالہ الا اللہ محمد رسول اللہ پڑھنا چاہئے، مرنے والے کی زبان سے کلمہ نہ  نکلنے تو پاس والوں کو آہستہ آہستہ کلمہ پڑھنا چاہئے تاکہ اس کی زبان پر کلمہ جاری ہوجائے ،حدیث ہے کہ جس کی زبان سے آخری کلمہ لاالہ الااللہ نکلے وہ جنت میں داخل ہوگا ۔
سوال(15): میرے والد نے اپنی بیٹیوں کی شادی کے واسطے پلاٹ خریدا ہے جسے شادی کے وقت فروخت کیا جائے گا کیا اس پہ زکوۃ دینی ہوگی ؟
جواب : اگر کسی زمین کو بیچنے کی نیت کرلی جائے تو اس کی حیثیت  سامان تجارت کی ہوجاتی ہے ، اس وجہ سے فروخت کرنے کی غرض سے رکھی ہوئی زمین پر زکوۃ دینی ہوگی چاہے شادی کے لئے فروخت کرنی ہو یا کسی اور کام سے ۔
مکمل تحریر >>

Wednesday, May 22, 2019

بنت حوا کے مسائل اور ان کا حل ۔ (قسط :۱۳)


بنت حوا کے مسائل اور ان کا حل ۔ (قسط :۱۳)

جواب ازشیخ مقبول احمد سلفی طائف

سوال {۱}۔ اگر کوئی غریب عورت روزہ نہ رکھ سکے اور فدیہ دینے کی طاقت نہ رکھتی ہو اس کا کیا حکم ہے ؟
جواب : اللہ کی طرف سے روزہ تمام مسلمانوں پر فرض ہے خواہ وہ غریب ہو یا امیر لیکن مالی معاملات میں فقراء ومساکین کے احکام امیروں جیسے نہیں ہیں ۔ اگر کوئی غریب عورت بڑھاپے کی وجہ سے روزہ نہیں رکھ سکتی تو اس پر فدیہ دینا لازم نہیں ہے کیونکہ وہ غریب ہے جس طرح اس کے ذمہ صدقۃ الفطر نہیں ہے ، وہ تو خود دوسرے کے فدیوں اور صدقہ کی مستحق ہے ۔ اللہ نے کسی بندہ کو اس کی طاقت سے زیادہ مکلف نہیں کیا ہے ۔
سوال{۲{۔ رقیہ کی آیات پڑھ کر لوگ پیسے لیتے ہیں کیا یہ جائز ہے ؟
جواب : دم کرنے پہ عطیہ لینا جائز ہے جیساکہ صحیح بخاری میں موجود ہے کہ ایک صحابی نے عرب کے ایک قبیلہ کے سردار کو سورہ فاتحہ کے ذریعہ دم کیا تو قبیلہ والے نے تیس بکریاں دی ۔ اس لئے دم کرنے پہ عطیہ یا اجرت لینے میں حرج نہیں ہے مگر آج کل کچھ لوگ شرعی دم کے نام پر لوگوں کو لوٹ رہے ہیں بلکہ کچھ نوجوان لڑکوں نے خصوصا عورتوں کو لوٹنااپناپیشہ بنا رکھا ہے کیونکہ یہ ان کی باتوں میں آجاتی ہیں، یہ بات اپنے تجربے کی بنیاد پر کہہ رہاہوں۔ اس معاملے میں دم کرنے والوں کو اللہ سے ڈرنا چاہئے اور اس بات کی فکر کرنی چاہئے کہ دم کرنا اگر تجارت محض ہوجائے تو قرات میں تاثیر کیسے پیدا ہوگی ؟ عوام کو بھی چاہئے کہ اولا خود سے دم کرے اور دوسروں سے دم کرانے کی ضرورت ہوتو نیک وصالح آدمی سے دم کرائے ۔
سوال{۳}۔ کیا یہ حدیث صحیح ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں میری ماں زندہ ہوتی، میں نماز میں اللہ کے حضورکھڑا ہوتا ، ماں آواز دیتی اور میں نماز چھوڑ کر دوڑ کر ماں کے پاس چلا جاتا اور دنیا والوں کو بتاتا کہ ماں کی عظمت کیا ہوتی ہے ؟
جواب :ماں کی فضیلت میں بیان کیا جانے والا یہ واقعہ صحیح نہیں ہے، اس قسم کی کئی احادیث بیان کی جاتی ہیں مگر کوئی بھی صحیح نہیں ہیں ، بعض احادیث میں عشاء کی نماز کا ذکر ہے ۔ کسی بھی صحیح حدیث سے یہ بات ثابت نہیں ہے کہ ماں یا باپ کے بلانے پر فرض نماز توڑ دی جائے ۔ ہاں نفل نماز ہو تو توڑی جاسکتی ہے جیساکہ صحیح بخاری وصحیح مسلم میں موجود واقعہ جریج سے معلوم ہوتا ہے۔ ضرورت کے تخت مثلا موذی جانور آجائے ، آگ لگ جائے تو فرض نماز بھی توڑی جاسکتی ہے محض کسی کے بلاوے پر نہیں۔
سوال{۴}۔ عورت گھر میں نماز پڑھتی رہتی ہے کبھی کوئی دروازے پہ آجاتا ہے ایسے میں نماز توڑ سکتی ہے ؟
جواب : عورت گھر میں نماز پڑھتی رہے اور کوئی دروازے پہ آجائے تو اس کے لئے نماز نہیں توڑی جائے گی ،یہ آنے والے کی ذمہ داری ہے کہ گھر کے دوسرے افراد سے پوچھ لے ۔ ہاں ایک عمل یہ انجام دیا جاسکتا ہے کہ تلاوت کی تھوڑی آواز اونچی کردے یا تکبیر زور سے پڑھ دے تاکہ آنے والے کو نماز میں ہونے کا اندازہ ہوسکے۔
سوال{۵}۔ عورت گھر میں اعتکاف کر سکتی ہے ؟
جواب : جس طرح مرد کے لئے اعتکاف مسنون ہے اسی طرح عورت کے لئے بھی اعتکاف مشروع ہے ۔ اور یہ بھی واضح رہے کہ اعتکاف کی جگہ صرف مسجد ہے۔ اگر عورت اعتکاف کرے تو اسے بھی مسجد میں ہی اعتکاف کرنا ہوگا خواہ جامع مسجد ہو یا غیر جامع ۔ صرف جامع مسجد میں اعتکاف والی روایت (لاَ اعْتِكَافَ إِلاَّ فِى مَسْجِدٍجَامِعٍ) پر کلام ہے ۔ اگر جامع مسجد میں اعتکاف کرے تو زیادہ بہترہے تاکہ نماز جمعہ کے لئے نکلنے کی ضرورت نہ پڑے ۔
سوال{۶}۔ اگر کسی محلے میں عورتوں کے لئے اعتکاف کی مسجد نہ ہو اور وہ اعتکاف کرنا چاہتی ہو تو کیا کرے ؟
جواب : اللہ نے عورتوں کو عزت بخشی، گھر میں لزوم اختیار کرنے کاحکم دیا تاکہ دین وآبرومحفوظ رہے ، مسجد میں عورت نماز پڑھ سکتی ہے مگر اسلام نے اس بات کو عورتوں کے لئے مردوں کی طرح لازم نہیں قرار دیا۔ اسلام کی اس حکیمانہ تعلیم میں بڑے فوائد ہیں ۔عورتوں کے لئے اگر کہیں محلے میں اعتکاف کی جگہ مخصوص نہ ہو تو اعتکاف نہ کرے ، یہی حل ہے اور ان شاء اللہ نیت کا ثواب اللہ کی طرف سے ملے گا۔ ساتھ ہی محلے کی عورتیں پیسہ لگاکر یا مرد ذمہ داروں کو کہہ کر الگ انتظام کرواسکیں تو اچھی بات ہے ۔کتنے سارے مسلمان حج وعمرہ کی تمنا کرتے ہیں مگر سب کی تمنا پوری نہیں ہوتی، ہمیں اللہ سے ہمیشہ نیکی کی توفیق طلب کرنی چاہئے ۔
سوال{۷}۔ اگر روزہ کی حالت میں منہ بھر کر قے آجائے تو کیا روزہ ٹوٹ جاتا ہے ؟
جواب : قے تھوڑا ہو یا منہ بھر کر ،اگر آپ خود آیا ہے تو اس سے روزہ نہیں ٹوٹے گا لیکن قصدا قے کیا جائے تو روزہ ٹوٹ جائے گا۔
سوال{۸}۔ کیا یہ حدیث صحیح ہے ، ان للصائم عندفطرہ لدعوۃ ماترد{ابن ماجہ :۱۷۷۵} یعنی افطار کے وقت روزہ دار کی دعا رد نہیں کی جاتی ہے ؟
جواب : اس حدیث کو شیخ البانی نے ضعیف کہا ہے ، شیخ نے اس دعا کو صحیح کہا ہے :
ثلاثُ دَعَواتٍ مُستجاباتٍ : دعوةُ الصائِمِ ، ودعوةُ المظلُومِ ، ودعوةُ المسافِرِ( صحيح الجامع:3030)
ترجمہ: تین قسم کی دعائیں قبول کرلی جاتی ہیں ، روزہ دار کی دعا، مظلوم کی دعا اور مسافر کی دعا۔
سوال{۹}۔ گھر میں کام کرتے وقت موبائل سے تقریر یا تلاوت سننا کیسا ہے ، کبھی اٹیج باتھ روم میں کپڑے دھوتے وقت موبائل وہاں رکھ کر یا بلوتوتھ سے تلاوت وتقریر سن سکتی ہوں اور نبی کا نام آنے پر درود پڑھ سکتی ہوں ؟
جواب : گھر میں کام کرتے وقت تلاوت سننے میں حرج نہیں ہے جبکہ تلاوت سنی جائے اور وہاں شور شرابہ نہ ہو البتہ اٹیچ باتھ روم میں موبائل لے جاکر یا بلوتوتھ سے تلاوت یا قرآن سننا جائز نہیں ہےاور نہ ہی وہاں درود پڑھنا اور اللہ کا نام لینا جائز ہے ۔گھر میں تلاوت وتقریر لگی ہو اور آواز باتھ روم میں جائے تو مضائقہ نہیں ہے ۔
سوال{۱۰}۔ کیا عورت نماز جمعہ اور تراویح کے لئے مسجد جا سکتی ہے اور کیا محرم کا ساتھ ہونا بھی ضروری ہے اس سلسلے میں صحابیات کا کیا عمل تھا؟
جواب : نبی ﷺ کا فرمان ہے : لَا تَمْنَعُوا إِمَاءَ اللَّهِ مَسَاجِدَ اللَّہ (صحیح بخاری:900 /صحیح مسلم:442)
ترجمہ: اللہ کی بندیوں کو اللہ کی مسجدوں سے نہ روکو۔
یہ حدیث دلیل ہے کہ عورتیں مسجد میں جاکر جمعہ ، تراویح حتی کہ پنج وقتہ نمازیں پڑھ سکتی ہیں اور عہد رسول سے آج تک رسول کی مسجد (مسجدنبوی) میں خواتین پنج وقتہ نمازیں، جمعہ اور تراویح میں شامل ہوتی آرہی ہیں ۔ صحیح مسلم میں ہے کہ صحابیہ ام ہشام رضی اللہ عنہاجمعہ کی نماز میں شریک ہوتی تھیں ، جمعہ میں شرکت کی وجہ سے خطبہ نبوی میں پڑھی جانے والی سورت ق انہیں حفظ ہوگئی۔ مسجد جانے کے لئے عورت کو محرم کی ضرورت نہیں ہے ،محرم کی شرط سفر کے لئے ہے ۔
سوال{۱۱}۔ کچھ سال پہلے ہم نے ایک عمرہ کیا پھر مدینہ گئے ، مدینہ سے مکہ دوبارہ جاتے وقت وہاں سے احرام نہیں باندھا بلکہ مکہ کی قریبی میقات  طائف سے احرام باندھ کر عمرہ کیا، کیا اس پہ کوئی دم وغیرہ ہے ؟
جواب : اس کی دو صورتیں ہیں ، اگر طائف کسی غرض سے آئے تھے پھر یہاں سے عمرہ کا ارادہ ہوا اور احرام باندھ کر عمرہ کیا تو کوئی حرج نہیں ہے لیکن اگر عمرہ کی نیت مدینہ سے ہی تھی اور اس میقات کو تجاوز کرگئے حتی کہ طائف آکر احرام باندھا تو ایسی صورت میں میقات تجاوز کرنے پر دم دینا واجب ہے کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے ہر سمت والوں کے لئے میقات متعین کردی ہے ، وہ اسی میقات سے احرام باندھ کر آئیں گے ۔ بعض اہل علم کہتے ہیں کہ اگر کسی کا گزر دو میقات سے ہو تو پہلی چھوڑ کر دوسری میقات پہ احرام باندھنے میں حرج نہیں ہے مگر جمہور کے نزدیک دم ہے اور یہ دلیل سے قریب ہے۔
سوال{۱۲}۔ ایک بہن کا سوال ہے کہ میت کو کلمہ پڑھ کر بخشنا کیسا ہے یا میت خواب میں کلمہ پڑھ کر بخشنے کا حکم دے تو کیا کرنا چاہئے ؟
جواب : میت کو کلمہ پڑھ کر نہیں بخشا جائے گا اور نہ ہی اس قسم کے کسی خواب پہ عمل کیا جائے گا۔ میت کو جن طریقوں سے ایصال ثواب کرنا کتاب وسنت سے ثابت ہے بس انہیں طریقوں سے ایصال ثواب کیا جائے گا۔کلمہ پڑھ کر میت کو بخشنا قرآن وحدیث سے ثابت نہیں ہے اس لئے اس طریقہ سے میت کو نہیں بخشا جائے گا۔
سوال{۱۳}۔ غم والم دور کرنے کے لئے آیات سکینہ کے نام سے چند آیات مشہور ہیں کیا ان آیات کا پڑھنا درست ہے؟
جواب : مکمل قرآن غم والم دور کرنے کا ذریعہ ہے ، کسی ایک آیت یا چند آیات  کو اپنی طرف سے پریشانی دور کرنے کے لئے خاص کرنا غلط ہے ، آیات سکینہ نام سے بھی قرآن وحدیث میں دلیل نہیں ملتی اس وجہ سے ان آیات کو غم دور کرنےکے لئے مخصوص کرنا اور پورے قرآن سے مستغنی ہوجانا صحیح نہیں ہے ۔
سوال{۱۴}۔ ہیوی ڈپازٹ پہ روم کرایہ پر لینا جائز ہے ؟
جواب : ہیوی ڈپازٹ پہ روم کرایہ پر لینا جائز نہیں ہے ،ڈپازٹ ایک قسم کی ضمانت ہے اور یہ ضمانتی رقم سماج میں رائج رقم کے حساب سے ہونا چاہئے۔
سوال{۱۵}۔ عصری تعلیم کے لئے طالبات کو زکوۃ دینا جائز ہے ؟
جواب : شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ طالب علم دنیاوی تعلیم کے لئے متفرغ ہو تو اسے زکوۃ کی رقم نہیں دی جاسکتی ہے کیونکہ ہم اس سے کہیں گے کہ تم دنیا کے لئے عمل کررہے ہو ،ممکن ہے کہ نوکری پاکر دنیا کمانے میں لگ جاؤ،اس لئے ہم تمہیں زکوۃ نہیں دیں گے ۔ شیخ کی اس بات پہ اضافہ کرتے ہوئے میں عرض کرنا چاہتا ہوں کہ اگر کوئی مسکین طالبہ یاطالب مباح دنیاوی علوم کے ذریعہ مسلمانوں کو فائدہ پہنچاناچاہتی ہو/چاہتا ہوتو اسے زکوۃ دی جاسکتی ہے۔
سوال{۱۶}۔ کیا زکوۃ کے پیسوں سے بچوں کو حافظ بنایا سکتا ہے اور کیا معلمات کی تنخواہ زکوۃ کی رقم سے دی جاسکتی ہے؟
جواب : غریبوں کے بچوں کی دینی تعلیم پر زکوۃ خرچ کی جاسکتی ہے اور اسی طرح وہ معلمات جن کا شمار فقراء ومساکین میں ہوتا ہو ان کو بھی زکوۃ سےتنخواہ دے سکتے ہیں ۔
سوال{۱۷}۔ کیا حالت حمل میں طلاق واقع ہوجاتی ہے ؟
جواب : حالت حمل میں دی گئی طلاق واقع ہوجاتی ہے ، اس کی دلیل حضرت ابن عمر ؓ سے مروی وہ روایت ہے جس میں مذکور ہے کہ انہوں نے اپنی بیوی کو حیض کی حالت میں طلاق دے دی تھی۔یہ بات نبیﷺ کے سامنے ذکر ہوئی تو آپ نے فرمایا:
مُرْه فلْيُراجِعْها ، ثم لْيُطَلِّقْها وهي طاهرٌ – أو حاملٌ -(صحيح النسائي:3397)
ترجمہ:اسے کہو کہ اس سے رجوع کرے‘ پھر طہر یا حمل کی حالت میں اسے طلاق دے۔
سوال{۱۸}۔ ایک شخص امریکہ میں رہتا ہے اسے ڈالر میں کتنا فطرہ دینا ہوگا؟
جواب : فطرانہ ایک آدمی کی طرف سے تقریبا ڈھائی کلو اناج ہوتا ہے اور ہمیں سنت کی پیروی کرتے ہوئے اناج سے ہی فطرانہ ادا کرنا چاہئے لیکن اگر کسی مسکین کو پیسے کی سخت ضرورت ہو تو اسے ڈھائی کلو اناج کے حساب سے نقد روپیہ دیا جاسکتا ہے ۔ حساب بہت آسان ہے ، امریکہ میں بطور غذا استعمال ہونے والے  ڈھائی کلو اناج کی قیمت کتنی ہوگی آسانی سے حساب جوڑ سکتے ہیں ۔ جہاں کہیں کوئی عالم فطرہ کی ایک مخصوص رقم رائج کردیتے ہیں وہ سنت کی صریح خلاف ورزی ہے ۔ قیمت تو بطور ضرورت ہے اور اناج کی مختلف اقسام ہیں ،کوئی کسی اناج کے حساب سے دے ، کوئی کسی اناج سے دے ۔
سوال{۱۹}۔ ایک عورت کا پچھلے سال کا روزہ باقی ہے وہ گردے کی مریضہ ہے اور اپنے روزہ کا فدیہ آٹا سے دینا چاہتی ہے مگر اسے خریدکر لانے والا اس کا سسر ہے یعنی وہ مشترکہ سامان ہوتا ہے۔کیا وہ اس سے فدیہ دے سکتی ہے یا اپنے ذاتی پیسے سے خریدکر دینا ہے ؟
جواب : گردے کی مریضہ اگر روزہ نہ رکھ سکے یا پہلے والا روزہ قضا کرنے کی طاقت نہ رکھ سکے تو اپنے ہر روزہ کے بدلے ایک مسکین کو فدیہ دے دے ، فدیہ میں آٹا بھی دے سکتی ہے ، اگر سسر کی طرف سے ممانعت نہیں ہے تو مشترکہ غذا میں سے دینے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔
سوال{۲۰}۔ کیا یہ بات صحیح ہے کہ رمضان میں نئے کپڑے پہننے کا کوئی حساب نہیں ہوتا ہے؟
جواب : ایسی بات کی کوئی حقیقت نہیں ہے ۔
سوال{۲۱}۔ کیا لڑکی جماعت میں نکل سکتی ہے ؟
جواب : شاید آپ کی مراد تبلیغی جماعت میں نکلنا ہے ۔ تو میرا یہ عرض کرنا ہے کہ تبلیغی جماعت کی جومروجہ شکل ہے اس میں مردوں کو بھی جاناجائز نہیں ہے ۔عورت کا معاملہ تو اور بھی نازک اور سنگین ہے ۔ اللہ نے اسے اپنے گھروں میں ٹھہرنے کا حکم دیا ہے ۔ عورتوں کو تبلیغ کرنے کی ممانعت نہیں ہے مگر مروجہ تبلیغی جماعت کی شکل میں دعوت کا کام کرنا بدعت والا کام ہےکیونکہ اس کی نظیر کتاب وسنت سے نہیں ملتی ۔ کتنی تعجب کی بات ہے کہ تبلیغ والے عورتوں کا مسجد جانا فتنہ قرار دیتے ہیں اور تبلیغ کے نام پہ گاؤں گاؤں بڑے شوق سے گھماتے اورباعث اجر وثواب سمجھتے ہیں ۔
سوال{۲۲}۔ "اللھم مغفرتک اوسع من ذنوبی ورحمتک ارجی عندی من عملی "(اے اللہ تیری مغفرت میرے گناہوں سے زیادہ وسعت والی ہے اور مجھے اپنے عمل سے زیادہ تیری رحمت کی امید ہے) کیا اس دعا کو تین دفعہ پڑھنے سے سارے گناہ معاف ہوجاتے ہیں ؟
جواب : اسے امام حاکم اور بیہقی نے روایت ہے اور شیخ البانی نے اسے ضعیف کہا ہے ۔ (ضعيف الترغيب:1007)
سوال{۲۳}۔ اس نیت سے ڈالر رکھنا کہ اس کی قیمت بڑھے گی تو بیچیں گے حرام ہے ؟
جواب : معمر بن عبداللہ بن نضلہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
لا يَحْتَكِرُ إلَّا خاطئٌ( صحيح مسلم:1605)
ترجمہ: گنہگار ہی احتکار (ذخیرہ اندوزی) کرتاہے یعنی مال روک کر رکھنے والا گنہگار ہے ۔
یہ حدیث ہمیں بتلاتی ہے کہ ایسا کوئی سامان جس کی لوگوں کو ضرورت ہو اسے روک کر رکھنا اور اس کی قیمت منگنی ہونے پر بیچنا جائز نہیں ہے ۔ڈالر کا بھی حکم یہی ہے ۔ یہ لوگوں کی ضرورت اور گردش کی چیز ہے ،اسے مہنگے داموں پر بیچنے کے لئے روک کر رکھنے والا گنہگار ہوگا۔
سوال{۲۴}۔ کیا ہم فرض یا نوافل کے سجدوں میں تسبیحات پڑھنے کے بعد مسنون یا قرآنی دعائیں پڑھ سکتے ہیں ؟
جواب : فرض ونوافل کے سجدوں میں تسبیحات پڑھنے کے بعد دیگر ماثورہ دعائیں اورقرآنی دعائیں پڑھنے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔ سجد ے میں آدمی اپنے خالق سے بہت قریب سے ہوتا ہے اس حالت میں کثرت سے دعا کرنی چاہئے اور ہمارے رسول نے اس بات کی تعلیم بھی دی ہے ۔

مکمل تحریر >>

Wednesday, May 1, 2019

مسلم خواتین کے سر کے بال کے احکام


مسلم خواتین کے سر کے بال کے احکام

تحریر: مقبول احمد سلفی
اسلامک دعوۃ سنٹر، شمالی طائف -مسرہ-سعودی عرب

اللہ رب العزت نے عورت کی تخلیق کرکے کائنات کا حسن دوبالا کردیا ہے ، ہے تو یہ صنف نازک مگر کائنات کی بڑی حسین چیز ہے۔جب ایک مرد نکاح کے ذریعہ عورت کے ساتھ اپنی زندگی شروع کرتا ہے تو پھر اللہ کی مہربانی کے ساتھ بیوی کی رفاقت اس کے  مسائل حیات کے لئے کافی ہوجاتی ہے ۔ دونوں مل کراچھا گھر، اچھاسماج اور اچھی دنیا بنالیتے ہیں ۔ نہ صرف مردوں کو عورت کی ضرورت ہے بلکہ عورتوں کی بھی مردوں کی شدید ضرورت ہےتاہم عورتوں کی بنسبت مردو ں میں اشتیاق زیادہ پایا جاتا ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ نے عورت کو حسین خلقت اور پرکشش وصف سے نوازا ہے ۔ اسلام اپنے تمام اصولوں میں پاکیزگی اختیار کرتا ہے ، عورت جو اپنے آپ میں صنف مخالف کے لئے پرکشش ہے اسے محارم کے علاوہ تمام اجنبی مردوں سے پردہ اختیار کرنے کا حکم دیا ہےحتی سر کے بال بھی چھپانے کا حکم دیتا ہے ، اس کی نماز بھی ننگے سر جائز نہیں ہے ۔ عورت کا مکمل وجود پردہ ہے اس وجہ سے سر سے لیکر پیرتک دبیز کپڑے سے اپنے اعضائے بدن چھپانے کا حکم دیا گیاہے ۔زیرنظر مضمون میں عورت کے سر کے بال کے احکام بتائے جائیں گے تاکہ مسلم خواتین کو ان باتوں کی شرعی حیثیت معلوم ہوسکے ۔
سر کے بال کی حفاظت کرنا، اس میں کنگھا کرنااورتیل لگانا:
اولا یہاں معلوم ہونا چاہئے کہ مردوں کے لئے روزانہ کنگھا کرنا منع ہے لیکن عورتوں کے بال گھنے اورلمبے ہوتے ہیں اس لئے عورتوں کے لئے حسب ضرورت کنگھا کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے بلکہ شادی شدہ خواتین کو اپنے شوہر کے لئے با ل سنوارنا چاہئے، تیل ، کنگھا اور زینت کی اشیاء استعمال کرنا چاہئے۔ ہاں اتنا ضرور دھیان دے کہ بالوں کو سجانے سنوارنے اور تیل کنگھا کرنے میں زیادہ اوقات نہ ضائع کرےاور نہ ہی مال میں اسراف کرے جیساکہ بہت ساری خواتین کو دیکھا جاتا ہے کہ بال دھونے میں مبالغہ، دھوپ میں سکھانے میں مبالغہ اور اس کو سجانے سنوارنے میں مبالغہ آرائی سے کام لیتی ہیں گویا دن کا بلکہ رات کا بھی اکثر حصہ بالوں کی زینت اور حفاظت پہ صرف کیا جاتا ہے ۔ اسی طرح بالوں میں خوشبو یا خوشبودار تیل لگاکر باہر نہ نکلے ، خوشبو کا استعما ل گھر تک ہی محدود رکھے ۔
دن ورات کے کسی حصے میں روزانہ عورت بالوں میں کنگھا کرسکتی ہے حتی کہ حیض ونفاس اور جنابت کی حالت میں بھی البتہ عیدالاضحی کی مناسبت سےجو قربانی کا ارادہ رکھے وہ ان دنوں آرام سے اور نرمی کے ساتھ کنگھا کرے۔ حالت احرام میں کنگھی کرنے کی ممانعت نہیں آئی ہے لیکن چونکہ بال کاٹنا یا توڑنا احرام کی حالت میں منع ہے اس وجہ سے کنگھی نہیں کرنا چاہئے اور جسے کنگھی کرنے سے بال ٹوٹنے کا یقین ہو تو اس کو ہرحال میں کنگھی نہیں کرنا چاہئے ۔ عدت میں زینت اختیار کرنا منع ہے اس وجہ سے عورت عدت میں کنگھا نہ کرے اور نہ ہی زینت کی کوئی چیز بال میں استعمال کرے ۔
عورتوں کے لئےبال رکھنے اور مانگ نکالنے کا طریقہ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مانگ درمیان سر میں ہوتی تھی ، ام المؤمنین سیدہ عائشہ ؓبیان کرتی ہیں :
كنتُ إذا أردتُ أن أَفرُقَ رأسَ رسولِ اللَّهِ صلَّى اللَّهُ علَيهِ وسلَّمَ ، صدَعتُ الفرقَ من يافوخِهِ وأرسلُ ناصيتَهُ بينَ عَينيهِ(صحيح أبي داود:4189)
ترجمہ: میں جب رسول اللہ ﷺ کے بالوں میں مانگ نکالنے لگتی تو آپ ﷺ کے سر کے بیچوں بیچ سے نکالتی اور آپ ﷺ کی پیشانی کے بالوں کو آپ کی آنکھوں کے سامنے لٹکاتی یعنی پھر انہیں آدھو آدھ کر دیتی ۔
مانگ کے معاملہ میں عورت ومرد دونوں برابر ہیں یعنی رسول اللہ کا اسوہ اپناتے ہوئے درمیان سر سے مانگ نکالیں ،ٹیڑھی مانگ نکالنااسوہ رسول کے خلاف اور کفار ومشرکین کی مشابہت ہے اس لئے کوئی مسلمان عورت ٹیڑھی مانگ نہ نکالے نہ دائیں جانب سے اور نہ ہی بائیں جانب سے ۔ ہاں بغیر مانگ نکالے بالوں کو دائیں یا بائیں جانب جھکالےتو اس میں کوئی حرج نہیں ہے ۔ اسی طرح کندھے پر بال لٹکانےیا چوٹیاں بناکر یا بغیر چوٹیوں کے پیٹھ پر لٹکانے میں بھی کوئی حرج نہیں ہے ۔ اس میں بھی کوئی حرج نہیں ہے کہ سر کے پیچھے بالوں کو جمع کرکے اوپری حصے پر ریبن باندھ لے اور بالوں کے نچھلے حصے کو پیٹھ پیچھے کی طرف چھوڑ دے ۔
بالوں کی چوٹی اور وضو وغسل
عورتوں کے لئے بالوں کی چوٹی بنانے میں کوئی حرج نہیں ہے ، عہد رسول میں خواتین بالوں میں چیوٹیاں بنایا کرتی تھیں ، ام سلمہؓ سے روایت ہے انہوں نے بیان کیا:
قُلتُ: يا رَسولَ اللهِ، إنِّي امْرَأَةٌ أشُدُّ ضَفْرَ رَأْسِي فأنْقُضُهُ لِغُسْلِ الجَنَابَةِ؟ قالَ: لَا. إنَّما يَكْفِيكِ أنْ تَحْثِي علَى رَأْسِكِ ثَلَاثَ حَثَيَاتٍ ثُمَّ تُفِيضِينَ عَلَيْكِ المَاءَ فَتَطْهُرِينَ(صحيح مسلم:330)
ترجمہ:میں نے عرض کی :اے اللہ کے رسول ! میں ایک ایسی عورت ہوں کہ کس کر سر کے بالوں کی چوٹی بناتی ہوں تو کیا غسل جنابت کے لیے اس کو کھولوں؟آپ نے فرمایا:نہیں ، تمہیں بس اتنا ہی کافی ہے کہ اپنے سر پر تین چلو پانی ڈالو ، پھر اپنے آپ پر پانی بہا لو تم پاک ہو جاؤ گی۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ عورتوں کے لئے چوٹی بنانےمیں کوئی حرج نہیں ہے ، عورت چوٹی کی حالت میں نماز کی ادائیگی بھی کر سکتی ہے ۔ نماز کے لئے وضو کرتے وقت چوٹی کھولنے کی بھی ضرورت نہیں ہے بال کے اوپر سے مسح کرلے اور غسل جنابت میں بھی چوٹی کھولنے کی ضرورت نہیں ہےجیساکہ اسی حدیث سے واضح ہے ، غسل جنابت میں سر پہ تین لپ پانی ڈال لے یہ کافی ہے ۔ حیض اور نفاس کے غسل میں چوٹی کھولنے کے متعلق اختلاف پایا ہے بعض نے کھولنا واجب قرا ر دیا ہے ۔ ان کی دلیل وہ حدیث ہے جس میں دوران حج حیض سے پاک ہونے پر سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا تھا:انقُضي شَعرَك واغتسِلي قالَ عليٌّ في حديثِه انقُضي رأسَك(صحيح ابن ماجه:530)
ترجمہ:اپنے بال کھول دو اور غسل کرو۔علی بن محمد کی روایت میں ہے"اپنا سر کھول دو"۔
جنہوں نے غیرواجب کہا ہے وہ اس کا یہ جواب دیتے ہیں کہ یہ حج کے ساتھ خاص ہے اور بعض دوسری روایات مثلا طبرانی میں صراحت کے ساتھ مذکورہے کہ حیض میں چوٹی کھولنا ہے اور جنابت میں محض سر پہ پانی بہانا ہے چوٹی نہیں کھولنا ہے ، اس روایت کو شیخ البانی نے ضعیف کہا ہے۔ (السلسلة الضعيفة:937)
اس مسئلہ میں دلائل کی روشنی میں قوی مسلک یہ ہے کہ غسل جنابت ، غسل حیض اور غسل نفاس میں چوٹی کھولنا ضروری نہیں ہے ،تین لپ پانی ڈالنا ہی کافی ہے تاہم سر پہ پانی انڈیلتے وقت اس بات کا خیال کیا جائے کہ بالوں کی جڑوں میں پانی پہنچ جائے ۔
یہاں ایک مسئلہ عورت کے غسل جنازہ سے متعلق بھی جان لیا جائے کہ اگر عورت کی وفات ہوجائے اور اسے غسل دیا جائے تو اس کے بالوں کی تین چوٹیاں بناکر پیچھے ڈال دی جائیں ۔ ام عطیہ رضی اللہ عنہا نبی ﷺ کی ایک صاحبزادی کی وفات پر ان کے غسل سے متعلق ایک حدیث بیان کرتی ہیں اس حدیث کے آخری الفاظ ہیں : فَضَفَرْنَا شَعَرَهَا ثَلَاثَةَ قُرُونٍ وَأَلْقَيْنَاهَا خَلْفَهَا(صحيح البخاري: 1276)
ترجمہ: ہم نے ان کے بال گوندھ کر تین چوٹیاں بنائیں اور انھیں پیٹھ کے پیچھے ڈال دیا۔
وضو میں عورت کے سر کا مسح
عورت ومرد کے مسح میں کوئی فرق نہیں ہے ، اللہ تعالی کا فرمان ہے :"وَامْسَحُوا بِرُءُوسِكُمْ" یعنی اپنے سروں کا مسح کرو ۔ یہ فرمان مردوعورت دونوں کو شامل ہے ۔ نبی نے ہمیں مسح کا طریقہ یہ بتلایا کہ تر ہاتھوں کو سر کے اگلے حصے پر پھیرتے ہوئے گدی تک لے جائیں اور پھر واپس آگے کی طرف لے آئیں اور شہادت کی انگلی سے کان کا اندرونی حصہ اور انگوٹھے سے بیرونی حصہ مسح کریں ۔
عورت کو اپنا بال ننگا کرنے کی ضرورت نہیں ہے اور نہ ہی چوٹی ہو تو کھولنے کی ضرورت ہے ۔ دوپٹے کے اندر سے بالوں پر ہاتھ پھیرلیں اور اجنبی مرد آس پاس نہ ہو تو سر ننگا ہونے اور بال بکھرنے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔
عورت وضو کرتے ہوئے اپنے دوپٹے پہ مسح کرسکتی ہے جب ڈھنڈک کی وجہ سے یا بغیر ڈھنڈک کے سر کو دوپٹے سے مضبوطی کے ساتھ باندھ رکھی ہو کیونکہ اس کے اتارنے میں مشقت و پریشانی ہے۔ اسی طرح اگر سر پہ مہندی کا لیپ لگائی ہو تو اس پہ بھی مسح کرسکتی ہے ۔
جوڑے بنانااور جوڑے میں نماز پڑھنا
صحیح مسلم(2128) میں جہنمی عورتوں کی ایک صفت بتلائی گئی ہے: رُؤُوسُهُنَّ كَأَسْنِمَةِ البُخْتِ المائِلَةِ یعنی ان کے سربختی اونٹ کی کوہان کی طرح ایک طرف جھکے ہوئے ہوں گے ۔ محدثین نے اس کے کئی معانی بیان کئے ہیں ان میں ایک معنی امام نووی نے قاضی کی طرف منسوب کرکے یہ بھی بیان کیا ہے کہ بال اکٹھا کرکے درمیانی سر کے اوپر جمع کرلینا جو بختی اونٹ کی کوہاں کی طرح معلوم ہوتا ہے۔ اس طرح مسلمان عورت کے بالوں کا جوڑا بنانا جائز نہیں ہے ۔
اگر کسی عورت نے لاعلمی میں اس حالت میں نماز پڑھ لی بشرطیکہ بال ڈھکے ہوئے تھے تو اس کی نماز صحیح ہے، دہرانے کی ضرورت نہیں ہے تاہم یہ عمل نہ نماز میں درست ہے اور نہ ہی نماز کے باہر لہذا ہمیشہ کے لئے اس عمل سے باز رہے ۔
عورت کا اپنے محرموں کے سامنے کھلے سر آنا کیسا ہے ؟
عورت اپنے محرم کے سامنے جس طرح چہرہ کھول سکتی ہے اسی طرح اپنے بال بھی ظاہر کرسکتی ہے اس لئے اپنے محرموں کے سامنے کھلے سر آنے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔ اللہ کا فرمان ہے : وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا لِبُعُولَتِهِنَّ أَوْ آبَائِهِنَّ أَوْ آبَاءِ بُعُولَتِهِنَّ أَوْ أَبْنَائِهِنَّ أَوْ أَبْنَاءِ بُعُولَتِهِنَّ أَوْ إِخْوَانِهِنَّ أَوْ بَنِي إِخْوَانِهِنَّ أَوْ بَنِي أَخَوَاتِهِنَّ(النور:31)
ترجمہ: اور اپنی آرائش کو کسی کے سامنے ظاہر نہ کریں سوائے اپنے خاوندوں کے یا اپنے والد کے یا اپنے خسر کے یا اپنے لڑکوں کے یا اپنے خاوند کے لڑکوں کے یا اپنے بھائیوں کے یا اپنے بھتیجوں کے یا اپنے بھانجوں کے ۔
اس آیت کی روشنی میں عورت اپنے محارم کے سامنے اپنے ہاتھ ، پیر ، سر، بال اور گردن کھلا رکھ سکتی ہے ، اس لئے اپنے محارم کے سامنے کھلے سر یا کھلے بال آسکتی ہے۔
مسلم عورت کا کافر عورت کے سامنے ننگے سر اورننگے چہرہ آنے کے سلسلے میں اختلاف ہے شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میرا میلان اس جانب ہے کہ اگر فتنہ نہ ہوتوعورت عورت کے درمیان فرق نہیں ہے خواہ مسلمہ ہو یا کافرہ لیکن اگر فتنے کا خوف ہومثلا وہ عورت رشتہ دار مردوں کے پاس عورت کاوصف بیان کرے تواس وقت فتنہ سے بچنا ضروری ہےاوراس صورت میں دوسری عورت کے سامنےاپنے بدن کا کچھ بھی حصہ ظاہر نہیں کرے گی نہ پیر،نہ بال خواہ عورت مسلمہ ہو یا غیرمسلمہ(فتاوی المراۃص:172)
ننگے سر یاباریک دوپٹہ میں نماز
ہمیں پہلے اس بات کو جان لینی چاہئے کہ نماز اہم ترین عبادت ہے جو رب کے سامنے ادا کی جاتی ہے ، اس لئے نماز میں عورتوں کو چاہئے کہ ستر کا مکمل خیال کرے۔ابن ابی شیبہ کی روایت ہے جسے شیخ البانی رحمہ اللہ نے صحیح قرار دیا ہے ۔
قال ابنُ عمرَ إذا صلت المرأةُ فلتصلِّ في ثيابِها كلِّها : الدرعِ والخمارِ والملحفةِ(تمام المنة:162)
ترجمہ: ابن عمر رضی اللہ عنہا نے فرمایا: جب عورت نماز پڑھے تو مکمل لباس میں نماز پڑھے یعنی قمیص ، دوپٹہ اور قمیص کے اوپر چادر۔
عورت کا یہ لباس سلف کے یہاں معروف ہے اس لئے بحالت نماز جہاں عورت کو ہاتھ ، پیر اور مکمل جسم چھپانا ہے(سوائے چہرے کے لیکن اجانب ہوں تو چہرہ بھی واجب السترہے) وہیں سر کے بالوں کو بھی دوپٹے سے اچھی طرح سے ڈھانکنا ہے ۔ نبی ﷺ کا فرمان ہے : لا يقبَلُ اللَّهُ صَلاةَ حائضٍ إلَّا بخِمارٍ(صحيح أبي داود:641)
ترجمہ:اللہ تعالی حائضہ یعنی (بالغ عورت) کی نماز دوپٹہ کے بغیر قبول نہیں فرماتا۔
اس حدیث کو امام ابوداؤد نے " المرأۃ لا تصلی بغیر خمار" کہ عورت بغیر دوپٹہ نماز نہیں پڑھے اس باب کے تحت ذکر کیا ہے ۔
معلوم یہ ہوا کہ نماز میں عورت کو اپنے سروں کو ڈھانپنا ہے اور لباس بھی عورت کا ایسا دبیز ہوکہ اعضا ء کی مکمل ستر پوشی ہورہی ہو ، اس لئے نماز ہو یا غیر نماز عورت کا باریک لباس لگانا جس سے اعضائے بدن کے خدوخال نمایاں ہوں جائز نہیں ہے ۔ نماز میں بھی ایسا کوئی لباس نہ لگائے جس سے ہاتھ ،قدم، پنڈلی،جسم کا کوئی حصہ یا سر کا بال نظر آرہاہو۔
رہامسئلہ ضعیف وبیمار عورت کا تو انہیں بھی نماز میں سروں کو ایسے دوپٹے سے چھپائے گی جس سے بال نہ ظاہر ہوں ، یہی حکم نوجوان عورت، مریضہ ، ضعیفہ اور بوڑھی کا بھی ہے البتہ نماز کے باہر عورت اپنے سروں کو تنہائی میں یا اپنے محارم کے سامنے کھلا رکھ سکتی ہے ۔اگر مرض یا ضعف اس قدر شدید ہو کہ نماز میں حجاب کی مکمل پابندی کرنا ناممکن ہو اور کوئی مدد کرنے والا بھی نہ ہو تو جس قدر ہوسکے پابندی کرے ، اللہ تعالی کسی کو طاقت سے زیادہ کا مکلف نہیں بناتا۔
عورتوں کےلئے سرمنڈوانے اور بال کٹوانے کا حکم
مسلمان عورتوں کے لئے سر کے بال مکمل رکھنا واجب ہے اور بلاضرورت اسے مونڈوانا حرام ہے۔اس طرح عورتوں کے لئے سرکے بال بلا ضروت کٹوانا بھی جائز نہیں ہے چاہے شوہر ہی کا حکم کیوں نہ ہو،رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں عورتوں کے بال پورے ہوتے تھے اور چھوٹے بالوں والی عورتیں وصل سے کام لیتی تھیں تو رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے ان پر لعنت بھیجی۔
لعنَ النَّبيُّ صلَّى اللَّهُ علَيهِ وسلَّمَ الواصلةَ والمستَوصلةَ ،والواشمةَ والمستَوشمةَ(صحيح البخاري:5940)
ترجمہ: نبی صلی الله علیہ وسلم نے سر کے قدرتی بالوں میں مصنوعی بال لگانے والیوں پر اور لگوانے والیوں پر اور گودنے والیوں پر اورگدوانے والیوں پر لعنت بھیجی ہے۔
تو عورتوں کے لئے بال رکھنا اور نہ کٹانا رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے فرمان سے ثابت ہے۔
لہذا عورتوں کابلاضرورت سرمنڈوانا، یا بال کٹوانا جائز نہیں ہے۔ حج و عمرہ میں عورت کا انگلی کے پور کے برابر بال کٹانے کا حکم ہے، اور اگر عورت کوکسی بیماری وغیرہ کی وجہ سے بال کٹانے کی ضرورت پڑجائے تو اس صورت میں جائز ہوگا۔
نبی ﷺ کی ازواج مطہرات کے متعلق مسلم شریف میں ہے ، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں:
وكان أزواجُ النبيِّ -صلى الله عليه وسلم- يَأخذْنَ مِن رؤوسِهنَّ حتى تكونَ كالوَفْرَةِ (صحيح مسلم:320)
ترجمہ: بے شک نبی کریمﷺ کی بیویاں اپنے سروں کے بال کاٹ لیتی تھیں حتیٰ کہ کانوں تک لمبے ہوجاتے۔
اس حدیث کی بناپر بعض علماء نے عورتوں کو بال کٹانے کی رخصت دی ہے حالانکہ یہ حدیث ازواج مطہرات کے ساتھ ہی خاص ہے ، انہوں نے نبی ﷺ کی وفات کے بعد ترک زینت کے طور پرایسا کیاتھا۔ اگر کوئی عورت ضرورتا کٹانا چاہے تو اس کی اجازت ہے مگر فیشن کے طورپریا مغربی تہذیب کی نقالی کی خاطر یا مردوں سے مشابہت اختیار کرنے کی غرض سے عورت کا سرکے بال کٹاناان صورتوں میں حرام ٹھہرے گا۔
بعض غیرشادی شدہ نوجوان لڑکیوں کو دیکھا جاتاہے کہ وہ سر کے اگلے حصے سے کچھ بال کاٹ کر اور اس کی لٹ بناکرچہرے پر گرالیتی ہیں ۔ اس مقدار میں بال کاٹ لینے میں کوئی قباحت نظر نہیں آتی ہے بشرطیکہ فاحشہ کی مشابہت نہ ہو مگر غیرشادی شدہ نوجوان لڑکی کا ایسا کرنا فتنے کا باعث ہے ، ایسی لڑکیاں عموما پردہ بھی نہیں کرتیں۔ ان کے سرپرستوں کا چاہئے کہ اس قسم کا بال رکھنے سے منع کرے ، اس وقت وہ اس انداز میں کس کے لئے زینت کررہی ہے ؟۔ شادی ہوجائے اور شوہر کے واسطے کرے تو الگ بات ہے۔
نومولود بچی کا سرمنڈوانے کا حکم
اس مسئلہ میں اہل علم کے درمیان اختلاف ہے کہ نومولود بچی کا ساتویں دن لڑکا کی طرح بال منڈایا جائے گا یا نہیں ؟ بعض حنابلہ بچیوں کے حق میں حلق (منڈانا) سے منع کرتے ہیں جبکہ امام مالک وامام شافعی کے یہاں لڑکوں کی طرح لڑکیوں کا بھی بال منڈایا جائے گا۔ منع وعدم منع اپنے اپنے انداز استدلال پر منحصر ہے۔ جو منع کرتے ہیں ان کا استدلال یہ ہے کہ احادیث میں خصوصیت کے ساتھ بچیوں کے بال منڈانے کا ذکر نہیں ہے بلکہ غلام کا ذکر ہے جوکہ بچہ(مذکر) پر دلالت کرتا ہے اور بچیوں(مؤنث) کے متعلق بال منڈانے کی ممانعت وارد ہے ۔ عدم منع والے کا استدلال ہے کہ نص عام ہے اس میں جس طرح غلام (لڑکا) داخل ہے اسی طرح جاریہ(لڑکی) بھی داخل ہے۔دلائل کی روشنی میں نومولود بچی کا ساتویں دن جس طرح نام رکھنا اور عقیقہ کرنا مسنون ہے اسی طرح بال منڈانا اور اس کے برابر چاندی صدقہ کرنا بھی مسنون ہے۔ اس پہ تفصیلی مضمون "نومولود بچی کاساتویں دن بال منڈانا" کے عنوان سے میرے بلاگ میں مطالعہ کریں۔
سفید بالوں کو اکھیڑنے کی ممانعت اوراسے بدلنے کا حکم
اولا: یہ بات معلوم ہونا چاہئے کہ سفید بالوں کو اکھیڑنے سے منع کیا گیا ہے اور عورت بھی اس ممانعت میں شامل ہے ، نبی ﷺ کافرمان ہے :
لا تنتِفوا الشَّيبَ ما من مسلِمٍ يشيبُ شيبةً في الإسلامِ إلَّا كانت لَهُ نورًا يومَ القيامةِ إلَّا كتبَ اللَّهُ لَهُ بِها حسنةً وحطَّ عنهُ بِها خطيئةً(صحيح أبي داود:4202)
ترجمہ: سفید بال نہ اکھیڑو،اس لئے کہ جس مسلمان کا کوئی بال حالت اسلام میں سفید ہوا ہو تو وہ اس کے لئے قیامت کے دن نور ہو گا اور اس کے بدلے اللہ تعالیٰ اس کے لیے ایک نیکی لکھے گا اور اس سے ایک گناہ مٹا دے گا۔
ثانیا:یہ معلوم ہونا چاہئے کہ عورت ومرد کے لئے مسنون ہے کہ جب بالوں میں سفیدی ظاہر ہوجائے تو اسے کالے رنگ کے علاوہ دوسرے کسی بھی رنگ سے بدل دے ۔سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ فتح مکہ کے روز ( سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے والد ) ابوقحافہ کو لایا گیا تو ان کے سر اور ڈاڑھی کے بال ثغامہ بوٹی کی مانند سفید تھے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:غيِّروا هذا بشيءٍ ، واجتَنِبوا السَّوادَ(صحيح مسلم:2102)
ترجمہ: انہیں کسی رنگ سے بدل دو اور سیاہی سے بچو ۔
بخاری شریف میں وارد ہے :إن اليهودَ والنصارى لا يصبُغون ، فخالفوهم(صحيح البخاري:3462)
ترجمہ: بے شک یہود ونصاری اپنے بالوں کو نہیں رنگتے ہیں ،تم ان کی مخالفت کرو۔
ان احادیث سے معلوم ہوا کہ ہمیں(مردوعورت) اپنے سفید بالوں میں خضاب لگانا چاہئے اور کالے خضاب سے منع کیا گیا ہے۔
ثالثا: یہ معلوم ہونا چاہئے کہ کالےرنگ کے علاوہ کوئی بھی رنگ مثلا مہندی ، زعفرانی حتی کہ کالامکس (یعنی کالے رنگ میں دوسرا رنگ ملاکر الگ رنگ تیار کرنا) رنگ خضاب کے لئے استعمال کرسکتے ہیں ، خضاب میں صرف خالص کالا رنگ منع ہے۔
رابعا: یہ طریقہ بھی درست ہے کہ جتنے بال سفید ہوں اتنے ہی رنگے جائیں یا پھر مکمل سر ہی رنگ لیا جائے یعنی بعض حصے کو رنگنےاور بعض کو چھوڑدینے میں حرج نہیں ہے تاہم اس عمل میں فاحشہ کی نقالی سے بچنا ہے۔
خامسا: آج کل عورتیں بالوں کے رنگنے میں غیروں کی نقالی کرتی ہیں ان میں ایک  یہ رواج پاگیا ہے کہ ایک ہی وقت میں سر کے بال کو مختلف رنگوں سے رنگا جاتاہے ، دراصل یہ فیشن اور فاحشہ عورت کی مشابہت اختیار کرنا ہے۔ اس سے مسلم خواتین کو بچنا ہے ،ہاں اگر مختلف رنگوں کے کسی طریقہ استعمال میں فاحشہ عورت کی مشابہت نہ پائی جاتی ہو تواس طریقہ میں کوئی حرج نہیں ہے مثلا مختلف رنگوں کو ملاکر ایک رنگ تیار کرکے لگانا۔
سادسا: بعض خواتین پوچھتی ہیں کہ ہم نے لاعلمی میں بہت ساری نمازیں کالے خضاب میں پڑھی ہیں ان نمازوں کا کیا ہوگا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ خضاب اپنی جگہ ایک عمل ہے اور نمازاپنی جگہ  ایک دوسراعمل ہے ۔ کالےخضاب میں پڑھی گئی نماز اپنی جگہ درست ہے اسے لوٹانے کی ضرورت نہیں ہے تاہم کالا خضاب لگانے والی عورت اس گناہ سے آئندہ کے لئے سچے دل سے توبہ کرے ۔
بالوں کو سیدھا کرنا یا گھونگھرالا بنوانا
بسا اوقات بعض عورتوں کے بال طبعی طور پر گھونگھرالے ہوتے ہیں ایسے میں بالوں کو سیدھا کرنا ایک ضرورت ہے اس میں کوئی حرج ہی نہیں ہے البتہ بلاضرورت زینت کے مقصد سے سیدھے بال کو گھونگھرالےبنوانا شوہر کے واسطے ہو تو کوئی حرج نہیں ہے لیکن لوگوں کو مائل کرنےاور غیروں کی مشابہت اختیار کرنے کی وجہ سے ہو تو جائزنہیں ہے ۔
بالوں میں بال جوڑنا یا وگ پہننا یا بالوں کی پیوندکاری کرنا
قدرتی بالوں میں مصنوعی بال جوڑنا منع ہے بلکہ ایسا کرنے والی ملعون عورت ہے ، نبی ﷺ فرماتے ہیں :
لَعَنَ اللَّهُ الواصِلَةَ والمُسْتَوْصِلَةَ، والواشِمَةَ والمُسْتَوْشِمَةَ(صحيح البخاري:5937)
ترجمہ:اللہ تعالٰی نے مصنوعی بال جوڑنے والی اور جڑوانے والی نیز سرمہ بھرنے والی اور بھروانے والی دونوں پر لعنت فرمائی ہے۔
اس حدیث کی روشنی میں نہ قدرتی بالوں میں مصنوعی بال جوڑ سکتے ہیں اور نہ ہی مصنوعی بالوں کی وگ پہن سکتے ہیں ۔اگر کسی عورت کا سر گنجا ہوجائے تو اس کے لئے بالوں کی پیوندکاری جائز ہے اورعیب چھپانے کے لئے وگ کا استعمال بھی جائز ہے ، بال ہوتے ہوئے شوقیہ وگ پہننا یا بال جوڑنا منع ہے ۔ اوراگر کسی عورت نے مجبوری میں وگ پہن رکھی ہو تو شیخ محمد بن صالح منجد نے وضو کے وقت اس پہ مسح کرنا جائز نہیں کہا ہے یعنی اسے اتارنا ہوگا۔
ٹوٹے بالوں کو دفن کرنا
عورتیں اکثرسوال کرتی ہیں کہ کیا بالوں کو جو زمین پر گرجائیں انہیں دفن کردینا چاہئے تاکہ لوگ انہیں غلط مقاصد کے لئے استعمال نہ کریں ؟
اس کا جواب یہ ہے کہ بالوں کو دفن کرنے سے متعلق کوئی نص موجود نہیں ہے تاہم بعض اہل علم اسے دفن کرنے کو اچھا خیال کرتے ہیں ۔اگر جادو ٹونا کا اندیشہ ہو جیساکہ آج کل اس کا بڑا رواج ہے تو پھر کسی محفوظ جگہ دفن کردینا چاہئے ۔اجنبی مردوں کی نظر نہ پڑے اس مقصد سے بھی بال زمین میں چھپایا جاسکتا ہے۔اکثرعورتیں توہمات کا شکار ہوتی ہیں اور ہربات کو جناتی اثرات سے منسوب کرتی ہیں ۔ میں ان عورتوں کو پابندی سے نماز ادا کرنے، کثرت سے استغفارپڑھنے اورطہارت واذکار پہ ہمیشگی برتنے کی نصیحت کرتا ہوں ۔ اللہ کی توفیق سے نہ کسی انسان کا جادو آپ پر اثر کرے گا اور نہ ہی کوئی شیطان آپ کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔
دلہن کے بالوں کی سجاوٹ
اس میں ایک مسئلہ تو ہے کہ شادی یا غیرشادی کسی موقع پر اجنبی مرد سے بالوں کی سجاوٹ اور زیبائش وآرائش کرنا حرام ہے ۔ عورتوں والے سیلون میں یا گھر پر عورت کے ذریعہ شادی کے موقع پر بالوں کو دلکش بنانے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ بچنا ان امور سے ہے جن کی ممانعت آئی ہے اور جن ممنوعہ امور کا ذکر اوپر کیا گیا ۔ شادی کے موقع پردلہن کے بالوں کی سجاوٹ کریں مگر فضول خرچی اور کافرہ وفاحشہ عورت کی مشابہت سے بچیں۔
بیوٹی پارلر میں جاب کرنے کا شرعی حکم
بیوٹی پارلر میں غیر شرعی امور سے بچنا بہت مشکل ہے مثلا ابرو تراشنا، سر کے بال چھوٹا کرنا،مصنوعی بال جوڑنا، بلاضرورت عورتوں کی مقامات ستر کو دیکھنامحض زیبائش کے لئے، کسی عورت کا حرام کام گانے بجانےیا شوہر کے علاوہ دوسرے اجنبی مردوں کے لئے سنگار کرنا وغیرہ ۔ ان کے علاوہ کہیں پر مردوں سے اختلاط ہے تو کسی خاتون کو اس نوکری کے لئے تنہا گھر سے باہر آمدرفت کرنی پڑتی ہے۔ ان تمام مفاسد و ناجائز کاموں سے بچ کراور شرعی حدود میں رہ کر اگر کوئی عورت بیوٹی پارلر کا جاب کرسکتی ہے تو پھر کوئی حرج نہیں ہے لیکن اگر غیرشرعی امور سے نہیں بچ سکتی ہے تو اس صورت میں یہ جاب کرنا جائز نہیں ہوگا۔ ایک لفظ میں یہ کہیں کہ بناؤسنگار کا کام فی نفسہ جائز ہے اور اس کا پیشہ اختیار کرکے اس پہ اجرت حاصل کرنا بھی جائز ہے لیکن اس پیشے میں ناجائز کام کرنا پڑے تو وہ کمائی جائز نہیں ہے۔
لیڈی بال کے متعلق غلط فہمیاں
عوام میں لیڈی بال سے متعلق چند غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں ، انہیں ان مقصد سے ذکر کیا جاتا ہے کہ ان باتوں کی کوئی حقیقت نہیں ہے ۔
٭ عورتوں کے لمبے بال قیامت میں پردہ کا باعت بنیں گے ۔
٭اذان کے وقت سر پہ دوپٹہ رکھنا ضروری ہے ۔
٭یہ عام بات ہے کہ ٹوٹی ہوئی کنگھی سے کنگھا کرنے پر گھر میں غریبی آتی ہے ۔
٭عورتوں کا کھڑے کھڑے بال باندھنے سے گھر میں غریبی آتی ہے ۔
٭روزے کی حالت میں بالوں میں مہندی لگانے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے۔
یہ سب غلط باتیں اور افواہیں ہیں ، ان کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔

مکمل تحریر >>