Sunday, January 20, 2019

بنت حوا کے مسائل اور ان کا شرعی حل (نویں قسط)


بنت حوا کے مسائل اور ان کا شرعی حل (نویں قسط)

جوابات ازشیخ مقبول احمد سلفی
اسلامک دعوۃ سنٹر ،شمالی طائف (مسرہ)

سوال(1):تہجد کی نماز میں کون سی دعا پڑھی جائے گی؟
جواب : تہجد کی نماز کے لئے نبی ﷺ سے کوئی خاص دعا وارد نہیں ہے ، یہ رات کی عموما طویل نماز ہے ، اس نماز میں رب سے جو چاہیں مانگیں ،جتنی چاہیں رات کے اندھیرے میں اپنے خالق ومالک کے سامنے آنسو بہائیں ۔ اللہ رات میں بندوں کو خوب نوازتا ہے بلکہ رات میں اپنے بندوں کو پکارتا ہے کہ ہے کوئی مانگنے والا؟ تہجد کی نماز کے لئےدعائے استفتاح کا ثبوت ملتا ہے ، وہ یہ ہے :
«اللهم لك الحمد،‏‏‏‏ أنت نور السموات والأرض ومن فيهن،‏‏‏‏ ولك الحمد أنت قيم السموات والأرض ومن فيهن،‏‏‏‏ ولك الحمد،‏‏‏‏ أنت الحق ووعدك حق،‏‏‏‏ وقولك حق،‏‏‏‏ ولقاؤك حق،‏‏‏‏ والجنة حق،‏‏‏‏ والنار حق،‏‏‏‏ والساعة حق،‏‏‏‏ والنبيون حق،‏‏‏‏ ومحمد حق،‏‏‏‏ اللهم لك أسلمت وعليك توكلت وبك آمنت،‏‏‏‏ وإليك أنبت،‏‏‏‏ وبك خاصمت،‏‏‏‏ وإليك حاكمت،‏‏‏‏ فاغفر لي ما قدمت وما أخرت،‏‏‏‏ وما أسررت،‏‏‏‏ وما أعلنت،‏‏‏‏ أنت المقدم وأنت المؤخر لا إله إلا أنت»
ترجمہ:اے اللہ! تیرے ہی لیے تمام تعریفیں ہیں تو آسمان و زمین اور ان میں موجود تمام چیزوں کا نور ہے، تیرے ہی لیے تمام تعریفیں ہیں تو آسمان اور زمین اور ان میں موجود تمام چیزوں کا قائم رکھنے والا ہے اور تیرے ہی لیے تمام تعریفیں ہیں، تو حق ہے، تیرا وعدہ حق ہے، تیرا قول حق ہے، تجھ سے ملنا حق ہے، جنت حق ہے، دوزخ حق ہے، قیامت حق ہے، انبیاء حق ہیں اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حق ہیں۔ اے اللہ! تیرے سپرد کیا، تجھ پر بھروسہ کیا، تجھ پر ایمان لایا، تیری طرف رجوع کیا، دشمنوں کا معاملہ تیرے سپرد کیا، فیصلہ تیرے سپرد کیا، پس میری اگلی پچھلی خطائیں معاف کر۔ وہ بھی جو میں نے چھپ کر کی ہیں اور وہ بھی جو کھل کر کی ہیں تو ہی سب سے پہلے ہے اور تو ہی سب سے بعد میں ہے، صرف تو ہی معبود ہے اور تیرے سوا کوئی معبود نہیں۔
 اس دعاکے متعلق بخاری میں مذکور ہے : حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا:
كان النبيُّ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم إذا قام منَ الليلِ يتهَجَّدُ قال : اللهمَّ لك الحمدُ،،،،،(صحيح البخاري:1120)
ترجمہ: نبی ﷺ جب رات کے وقت تہجد پڑھنے کے لیے کھڑے ہوتے تو یہ دعا پڑھتے:اللهم لك الحمدُ,,,,,
صحیح بخاری میں دوسری جگہ یہ الفاظ ہیں :كان النبيُّ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم يدعو من الليلِ : ( اللهم لك الحمدُ,,,,,(صحيح البخاري:7385)
اس کا معنی بھی قریب قریب ہے کہ نبی ﷺ رات میں یہ دعا پڑھتے :اللهم لك الحمدُ,,,,,
صحیح ابن خزیمہ میں ابن عباس رضی اللہ عنہما سے ہی مذکور ہے :كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا قام للتهجد قال بعد ما يكبر : اللهم لك الحمد،،،(صحیح ابن خزیمۃ:1152)
ترجمہ: رسول اللہ ﷺ جب تجہد کی نماز کے لئے کھڑے ہوتے تو تکبیر کے بعد کہتے:اللهم لك الحمد،،،
اس پہ امام ابن خزیمہ نے باب باندھا ہے :((باب ذكر الدليل على أن النبي إنما كان يحمد بهذا التحميد ويدعو بهذا الدعاء لافتتاح صلاة الليل بعد التكبير لا قبل))
ترجمہ: اس بات کے ذکر میں کہ نبی ﷺ تکبیر کے بعد ، نہ کہ اس سے پہلے اس حمد اوردعا کے ساتھ تہجد کی نماز کا افتتاح کرتے ۔
اب بات واضح ہوگئی کہ نبی ﷺ تہجد کی نماز شروع کرتے تو دعائے استفتاح کے طور پر مذکورہ ثنا کے ذریعہ اللہ سے دعا کرتے ، اگر کوئی اس کے علاوہ بھی ثنا پڑھتاہے تو کوئی حرج نہیں ہے ۔
سوال(2):گھر میں جمع ہوکر عورتیں نماز جنازہ جماعت سے ادا کر سکتی ہیں ؟
جواب : عورتیں بھی میت کا جنازہ پڑھ سکتی ہیں ۔ حضرت ابوسلمی بن عبدالرحمن روایت کرتے ہیں کہ جب سعد بن وقاص رضی اللہ عنہ کا انتقال ہوا تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: ادخُلوا به المسجدِ حتى أصليَ عليه(صحيح مسلم:973)
ترجمہ: سعد کا جنازہ مسجد میں لاؤ تاکہ میں بھی نماز جنازہ ادا کرسکوں ۔
عورتوں کی افضل نماز تو گھر میں ہی ہے ، اس لحاظ سے عورتیں میت کے غسل اور کفن کے بعد جمع ہوکر جماعت سے میت کی نماز جنازہ گھر ہی میں پڑھ لے تو کوئی حرج نہیں اور وہ مردوں کے ساتھ مسجد میں ادا کرنا چاہے تو بھی کوئی حرج نہیں ہے جیساکہ اوپر والی حدیث عائشہ گزری جس سے مسجد میں عورت کا نماز جنازہ پڑھنا ثابت ہوتا ہے۔
اس بارے میں شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ سے سوال کیا گیا کہ کیا عورتوں کے لئے جائز ہے کہ گھر کی ساری عورتیں جمع ہوکر گھر ہی میں میت کی نماز جنازہ پڑھ لے؟
توشیخ رحمہ اللہ نے جواب کہ کوئی حرج نہیں عورتیں نماز جنازہ مردوں کے ساتھ مسجد میں ادا کرے یا جنازہ والے گھر میں ادا کرلے کیونکہ عورتوں کو نماز جنازہ پڑھنے سے منع نہیں کیا گیا بلکہ قبروں کی زیارت کرنے سے منع کیا گیا ہے ۔ (مجموع فتاوى ابن عثيمين:17/157)
سوال(3):عورت کے سجدہ کا طریقہ کیا ہے ؟
جواب :عورت اور مرد کی نماز یعنی قیام ، رکوع اور سجود  وغیرہ میں کوئی فرق نہیں ہے ۔ رسول اللہ ﷺ نے مردوعورت دونوں کے متعلق حکم فرمایا کہ تم لوگ اسی طرح نماز پڑھو جس طرح مجھے نماز پڑھتے ہوئے دیکھتے ہواور سجدہ کرنے کا جو طریقہ ہمیں رسول نے بتلایا ہے اس میں مردوعورت کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے ۔ احناف کے یہاں عورتوں کے سجدہ میں بازو بند اور پیٹ کو رانوں سے لگایا جاتا ہے ۔ اس بات کی کوئی دلیل نہیں سوائے اقوال رجال کے ۔ سجدہ آٹھ اعضاء پر کئے جائیں ، ناک زمین سے سٹی ہو، بازو اپنے پہلوؤں سے الگ اور ہاتھ کندھے کے برابر زمین پر ہوحتی کہ سجدہ میں آپ کے بغل کی سفیدی ظاہر ہوتی، بازؤں کے درمیان سے ایک بکری گزرنے کی جگہ ہوتی ۔ سجدہ کی حالت میں کتے کی طرح بازو بچھانے سے منع کیا گیا ہے ۔ سجدہ کی یہی کیفیت مردوں کے لئے ہے اور یہی کیفیت عورتوں کے لئے ہے ۔ جو لوگ عورتوں کے لئے زیادہ پردہ کی بات کرتے ہوئے کتے کی طرح بازو بچھانے کا حکم دیتے ہیں وہ حدیث کی مخالفت کرتے ہیں اور وہ سن لیں کہ پردے کا جوحکم رسول اللہ ﷺ بتلاگئے وہی مومنہ کے لئے مناسب ہے ۔دوسری بات یہ ہے کہ عورتوں کا جو اسلامى لباس ہے اس میں بدن کا کوئی عضو نمایاں نہیں ہوگا خواہ نماز ہو یا غیرنماز ، اسی طرح تیسری بات یہ ہے کہ عورتوں کی افضل نماز اس کے گھر میں ہے جس میں سب سے زیادہ پردہ ہے اور مردوں کے ساتھ سب سے پچھلی صف ہے ۔ اسلام کی یہ تعلیمات عورتوں کے حق میں کافی وافی ہیں ۔
سوال(4):بیوی وفات پاجائے اور شوہر نے مہر ادا نہ کیا ہو تو کیا کرے یا شوہر وفات پاجائے اس حال میں کہ اس نے بیوی کا مہر ادا نہیں کیا ہے تو مہر کی ادائیگی کیا صورت ہوگی ؟
جواب: بیوی کی وفات ہوجائے اس حال میں کہ شوہر نے مہر ادا نہیں کیا تھا تو وہ وارثین کا حق ہے ،مرد سے مہر کا مطالبہ کرکے میت کے وارثین میں تقسیم کردیا جائے اور اگر شوہر وفات پاجائے اس حال میں کہ اس نے مہر ادا نہیں کیا تھا تو میت کے ترکہ میں سے بیوی اپنا مہر پہلے وصول کرلے پھر بقیہ ترکہ وارثین میں تقسیم ہوگا۔
سوال(5):اگر کوئی عورت اکسڈنٹ میں وفات پاجائے تو اسے شہید کہا جائے گا؟
جواب : اکسڈنٹ میں قتل ہونے والا ڈوب کر مرنے والے اور ملبے میں دب کر مرنے والے کی طرح ہے اور رسول اللہ ﷺ نے ڈوب کرمرنے والے اور ملبے میں دب کر مرنے والے کو شہید کہا ہے ، اس وجہ سے اکسڈنٹ میں قتل ہونے والے کو بھی بالیقین نہیں تو ان شاء اللہ کے ساتھ شہید کہہ سکتے ہیں ۔ شیخ ابن باز اور شیخ ابن عثیمین رحمہما اللہ نے اکسڈنٹ میں مرنے والے کو شہید کہا ہے۔
سوال(6):اگر کسی نے یہ منت مانی کہ وہ جب بھی مکہ جائے گا اپنی ماں کے نام سے عمرہ کرے گا؟ یہ نذر ماننا صحیح ہے اور اگر یہ نذر صحیح ہے تو اس کے سامنے بڑی مشکل ہے کہ ایسی نذر ہمیشہ کیسے پوری کرے ؟
جواب : نذر ماننے سے کوئی بھلائی نہیں ملتی پھر بھی کسی نے ایسی نذر مان لی جس میں معصیت نہیں ہے تو اس کا پورا کرنا واجب ہے ۔ سوال میں مذکور ماں کے نام سے مسلسل عمرہ کرنا صحیح نہیں ہے ، میت کی طرف سے ایک عمرہ کرنا کافی ہے ،زندہ شخص خود نیکیوں کا محتاج ہے وہ اپنے لئے باربار عمرہ کرے اور اپنی ماں طرف سے نذر کا ایک عمرہ کرکے آئندہ کثرت سے فقط استغفار کرے اور مشکل نذر مان لینے کی وجہ سے قسم کا کفارہ ادا کردے۔ نبی ﷺ کا فرمان ہے :كفارةُ النذرِ كفارةُ اليمينِ(صحيح مسلم:1645)
ترجمہ: نذر کا کفارہ وہی ہے جو قسم کا کفارہ ہے۔
سوال(7):خلع والی کا نقفہ ہے کہ نہیں ؟
جواب : خلع والی عورت کی عدت شوہر کے گھر گزارنا واجب نہیں تاہم چاہے تو گزارسکتی ہے اور خلع کی عدت میں شوہر کے ذمہ نفقہ نہیں ہے ۔ جب فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا کا خلع ہوا تو آپ نے ان سے فرمایا: لا نفَقةَ لَكِ إلَّا أن تَكوني حاملًا (صحيح أبي داود:2290)
ترجمہ: تیرے لیے کوئی خرچہ نہیں الا یہ کہ تو حاملہ ہو ۔
ا س حدیث سے معلوم ہوا کہ خلع والی عورت کے لئے سابقہ شوہر کے ذمہ نفقہ نہیں ہے لیکن اگر وہ حاملہ ہو تو پھر رہائش اور کھانے کا خرچہ شوہر کے ذمہ ہے ۔
سوال(8):ایک مسلم لڑکی کافر لڑکے کے ساتھ شادی کرلیا اور وہ اپنے اسلام پر باقی ہے کیا اسے باپ کے میراث میں سے حصہ ملے گا؟
جواب : مسلم لڑکی کافر کے ساتھ شادی کرکے زندگی گزار رہی ہے گویا وہ اس کے دین پر راضی ہے ورنہ وہ اس کے ساتھ حرام کاری نہیں کرتی اور جو کافر کے دین سے راضی ہو وہ کافر ہے ،اس کے لئے مسلمان کی وراثت میں کوئی حصہ نہیں ہے ۔ نبی ﷺکا فرمان ہے :
لا يرثُ المسلمُ الكافرَ ولا الكافرُ المسلمَ(صحيح البخاري:6764)
ترجمہ: مسلمان کافر کا وارث نہیں ہوتا اور نہ کافر کسی مسلمان ہی کا وارث بنتا ہے۔
سوال(9):ایمو پر میاں بیوی ویڈیو کال کرتے ہوئے ایک دوسرے کی شرمگاہ دیکھ سکتے ہیں جبکہ دونوں کئی مہینوں سے دور ہوں؟
جواب : میاں بیوی کو ایک دوسرے کی شرمگاہ دیکھنا جائز ہے ، یہ اللہ کے فضل واحسان میں سے ہے تاہم ایمو پر ویڈیو کال کرتے ہوئے میاں بیوی کا ایک دوسرے کے سامنے برہنہ ہونا فتنہ وفساد، ضرراور فحاشیت کا سبب بن سکتا ہے ۔
اولا: ایسا ممکن ہے کہ ایمو بنانے والے کے پاس نہ صرف ہماری باتیں رکارڈ ہوتی ہوں بلکہ ویڈیوز بھی رکارڈ ہوتی ہوں ایسی صورت میں یہ کام میاں بیوی کے لئے حرام ہوگا۔
ثانیا: میاں بیوی جب ننگےہوکر ویڈیو کال کررہے ہوں تو ممکن ہے کسی کی نظرپڑجائے یا شہوانی آواز وکیفیت کا ادراک کرنے والا ہوخواہ گھر کے بچے ہی سہی ، اس صورت میں بھی شرعی قباحت ہے ۔
ثالثا:جب میاں بیوی ایک دوسرے سے دور ہوں اور عریاں ہوکر باتیں کریں اور اپنی شہوت کو ابھاریں تو پھر یہ شہوت بدکاری کا سبب بن سکتی ہے ۔ پاس میں میاں بیوی ہوتے تو ایک دوسرے سے جنسی خواہش پوری کر لیتے مگر دور ہونے کی وجہ سے ممکن ہے غلط طریقے سے جنسی خواہش پوری کرنے کی کوشش کی جائے، یہ غلط طریقہ کوئی بھی ہوسکتا ہے فحش ویڈیودیکھنا، مشت زنی کرناحتی کہ زنامیں بھی وقوع کا اندیشہ ہوسکتا ہے ۔ یہ صورت بہت ہی قبیح ہے۔ لہذا میاں بیوی کو ویڈیوکال پہ بات کرتے ہوئےایک دوسرے کی شرمگاہ دیکھنے سے پرہیز کرناچاہئے ۔
سوال(10):کیا ہم جنات کو دیکھ سکتے ہیں اور حیوانات بھی جنات کو دیکھتے ہیں ؟
جواب: جنات کی تخلیق آگ سے ہوئی ہے اس وجہ سے کوئی انسان اس کو اپنی اصلی خلقت پہ نہیں دیکھ سکتا ہے تاہم جب انسان یا حیوان وغیرہ کی صورت اختیار کرے تو دیکھا جاسکتا ہے جیساکہ  بعض صحابہ نے بھی دیکھا ۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو شیطان نے ہی آیۃ الکرسی کے بارے میں خبر دی ۔ جہاں تک حیوانات کے دیکھنے کا مسئلہ ہے تو اس سلسلے میں بعض احادیث میں کتے ، گدھے اور مرغ کا جنات کو دیکھنے سے متعلق ذکر ملتا ہے۔
سوال(11):میرا ایک پڑوسی ہے اس نے بلی پال رکھا ہے اور اپنی بلی کا نام عائشہ رکھا ہے کیا یہ درست ہے ؟
جواب : بلی ایک حیوان ہے اور عائشہ زوجہ رسول یعنی  محترم انسان کا نام ہے ، اللہ نے انسانوں کو حیوانات پر فوقیت وفضیلت دی ہے اس لئے حیوانات کا نام نیک لوگوں کے ناموں پر رکھنا صحیح نہیں ہے تاہم حیوانات کا بھی مخصوص نام رکھا جاسکتا ہے جیسے رسول اللہ ﷺ کی اونٹنی کانام عضباء تھا۔ (صحیح بخاری:2872)
سوال(12):بدزبان عورت کے شر و بدزبانی سے کیسے بچا جائے جبکہ چوبیس گھنٹے کا واسطہ ہو اور ایسی بدزبان عورت نصیحت و وعظ جذب کرنے سے بھی محروم ہو؟
جواب : منکر کو مٹانے کا رسول اللہ ﷺ نے تین درجہ بتلایا ہے ، اس کے حساب سے پہلا درجہ تو یہ بنتا ہے کہ بدزبان عورت کو اس کی بدزبانی سے باز رکھنے کے لئے کاروائی کی جائے ۔ اگر کاروائی نہیں کرسکتے تو زبان سے حتی المقدور اس سے باز رکھنے کی نصیحت کی جائے اور نصیحت کے لئے جو بھی مناسب اقدام ہوسکتے ہیں کرنا چاہئے مثلا اسلامی محفل میں لے جانا، علماء کی تقریریں سنانا، کتابیں مہیا کرنا اور وعظ ونصیحت کرنا وغیرہ ۔ جب نصیحت بھی بے سود ہو اور بدزبانی سے باز نہ آئے تو آخری مرحلہ اس برے کام کو دل میں برا جاننا ہے۔ ساتھ ہی ایسی عورت کی بدکلامی پہ خاموشی اختیار کرنا ہے، اللہ کا فرمان ہے :وَإِذَا خَاطَبَهُمُ الْجَاهِلُونَ قَالُوا سَلَامًا (الفرقان:63)
ترجمہ: اور جب بے علم لوگ ان سے باتیں کرنے لگتے ہیں تو وہ کہہ دیتے ہیں کہ سلام ہے۔
یہاں سلام کہنے سے مراد ہے جہالت پہ خاموشی اختیار کرنا۔ اسی سورت میں آگے اللہ کا ارشاد ہے :
إِذَا مَرُّوا بِاللَّغْوِ مَرُّوا كِرَامًا (الفرقان:72)
ترجمہ: اور جب کسی لغو چیز پر ان کا گزر ہوتا ہے تو شرافت سے گزر جاتے ہیں ۔
یہاں بھی شرافت سے گزر جانے کا مطلب ہے بدکلامی پہ خاموشی اختیار کرنا اور جو بدکلامی پہ خاموشی اختیار کرلے وہ فتنے سے محفوظ ہوجائے گا۔ رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے :مَن صَمت نَجا(صحيح الترمذي:2501)
ترجمہ: جس نے خاموشی اختیار کی اس نے نجات پالی۔
سوال(13):کیا بیوی اپنے شوہر کا نام لے سکتی ہے ؟
جواب : بیوی اپنے شوہر کا نام لے سکتی ہے ، اولاد کی طرف نسبت کرکےکنیت کے ساتھ بھی پکار سکتی ہے یا شوہر کو محبوب کسی نام سے موسوم کرسکتی ہے ان تمام صورتوں میں کوئی حرج نہیں ہے ۔ یہ شوہر پہ منحصر ہے کہ وه کیا پسند کرتا ہے،اپنے نام سے پکارا جانا یا کسی اور نام سے ؟ شوہر جو پسند کرے بیوی کو اسے اختیار کرنا چاہئے تاکہ شوہر کو بلاتے وقت اسے خوشی محسوس ہواور کسی قسم کی ناگواری کا احساس نہ ہو۔
سوال(14):اگر تین بچے آپریشن سے ہوئے ہوں تو چوتھی بار حمل ہونے پر نس بندی کرانا جائز ہوگا؟
جواب: نس بندی حالات پہ منحصر ہے ، اگر بھروسے مند ڈاکٹرز نس بندی کرانے کا مشورہ دیں تو شوہر کی رضامندی کے ساتھ ہلاکت سے بچنے کے لئےنس بندی کرانا جائز ہوگا۔ نس بندی کے کئی طریقے ہیں ان میں سے سہل طریقہ اپنایا جائے تاکہ آئندہ خطرات ٹل جائیں تو دوبارہ بچے کی پیدائش کا امکان ہواور اگر سرے سے رحم مادر ہی نکالنا پڑجائے تو ضرورت کے تحت یہ عمل بھی جائز ہے۔
سوال(15): اپنے بچے کی نجاست صاف کرتے وقت عورت کا ہاتھ بچے کی شرمگاہ سے لگ جائے تو وضو ٹوٹ جائے گا؟
جواب : ایسی دلیل ملتی ہے کہ بغیر پردے کے شرمگاہ سے ہاتھ چھوجائے تو وضو ٹوٹ جاتا ہے ، نبی ﷺ کا فرمان ہے :
إذا أفضى أحدُكم بيدِه إلى فرجِه و ليس بينه و بينها حجابٌ و لا سِترٌ ، فقد وجب عليه الوضوءُ(صحيح الجامع:362)
ترجمہ: تم میں کسی کا ہاتھ اس کی شرم گاہ کو لگے اور (ہاتھ اور شرم گاہ کے ) درمیان میں کوئی ستر و حجاب نہ ہو یعنی ہاتھ براہ راست شرم گاہ کو مس کرے تو اس پر وضو لازم ہوگیا۔
جو اہل علم ناقض وضو کے لئے شہوت کی قید لگاتے ہیں یا وضو کو محض مستحب کہتے ہیں ان کا موقف اس حدیث کے خلاف ہے ۔ شہوت کی قید کسی حدیث میں نہیں ہے بلکہ محض ستروحجاب کا ذکر ہے اور نص میں وجوب کا لفظ موجود ہوتے ہوئے استحباب کا معنی اخذ کرنا حدیث کے خلاف ہے ۔ اس وجہ سے جو علماء یہ کہتے ہیں کہ چھوٹے بچے کی شرمگاہ کو براہ راست ہاتھ لگنے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے وہ دلیل کے قریب ہے ۔ دائمی فتوی کمیٹی کا یہی جواب ہے کہ براہِ راست شرمگاہ کو ہاتھ لگنے سے وضو ٹوٹ جائے گا، چاہے کسی چھوٹے بچے کی شرمگاہ ہو یا بڑے کی کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے کہ آپ نے فرمایا: (جس شخص نے اپنی شرمگاہ پر ہاتھ لگایا تو وہ وضو کرے)اور اپنی یا کسی کی شرمگاہ دونوں ایک ہی حکم رکھتی ہیں۔ (فتاوى اللجنة الدائمة :5/ 265)

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کوئی تبصرہ کرنا چاہتے ہیں تو مثبت انداز میں تبصرہ کر سکتے ہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔