عیدسے متعلق سوالوں کے جواب
السلام علیکم و رحمۃ
اللہ و برکاتہ
امید کہ آپ سب مشائخ
حضرات اللہ کے فضل و کرم سے بخیر و عافیت سے ہوں گے،عید کے دن کے تعلق سے کچھ
سوالات ہیں برائے مہربانی دلائل کی روشنی میں جواب دیکر شکریہ کا موقع مرحمت
فرمائیں گے۔
(1) کیا ہر تکبیر کے
ساتھ رفع الیدین کرنا چاہئے یا نہیں؟
(2) سبح اسم ربک الاعلی
جب امام پڑھتا ہے تو مقتدی بھی کچھ کلمہ پڑھتے ہیں کیا ایسا کچھ پڑھنا چاہئے؟
(3) سورہ غاشیہ کی آخری
آیت جب امام پڑھتا ہے تو مقتدی بھی "اللهم حاسبنی حسابا یسیرا "پڑھتے
ہیں کیا یہ درست ہے؟
(4) کیا عید گاہ میں
پکّا یا کچّا ممبر کی کوئی گنجائش ہے؟
(5) کیا عید کے دن گلے
ملنا نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم یا صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین سے ثابت ہے؟
(6) تکبیریں جو کہ چاند
دیکھنے کے بعد سے نماز ادا کرنے تک پڑھتے ہیں کیا نماز کے بعد بھی پڑھنی چاہیے؟
(7) ایک امام جو خود
ایک نماز پڑھا چکا ہو دوسرے عالم کے ہوتے ہوئے کیا دوبارہ امامت کرا سکتا ہے یعنی
ایک ہی امام دو مرتبہ جماعت کرایاکیااس طرح درست ہے؟
دراصل مجھے ایک نئی جگہ
نماز پڑھنے کا موقع ملا جو میں نے زندگی میں کبھی نہیں دیکھا تھا وہ سب وہاں دیکھا
اور یہ سوالات میرے ذہن میں آئے برائے مہربانی جواب ضرور دیں اور عنداللہ ماجور
ہوں۔
سائل : اشرف نذیر،
جامتاڑا۔جھارکھنڈ(ممبر اسلامیات گروپ واٹس ایپ)
وعلیکم السلام ورحمۃ
اللہ وبرکاتہ
الحمدللہ:
آپ کے تمام سوالوں کے
جواب بالترتیب مندرجہ ذیل ہیں ۔
جواب (1) : عیدین کی زائد
تکبیرات پہ رفع یدین کرنا رسول اللہ ﷺ کی سنت ہے ۔ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ
اپنی مسند میں بیان کرتے ہیں ۔
ويرفعُهما في كلِّ
تَكبيرةٍ يُكبِّرُها قبلَ الرُّكوعِ حتَّى تنقضيَ صلاتُهُ(صحيح أبي داود:722)
ترجمہ: آپ ہر رکعت میں
رکوع سے پہلے ہر تکبیر میں رفع یدین کرتے، یہاں تک کہ آپ کی نماز پوری ہوجاتی۔
یہ حدیث دلیل ہے کہ آپ
ﷺ رکوع سے پہلے تمام تکبیر پر دونوں ہاتھ اٹھایا کرتے تھے ۔ اس کو مندرجہ ذیل
روایت سے بھی تقویت ملتی ہے۔
عن وائل بن حُجْر
قال:رأيتُ رسول الله - صلَّى الله عليه وسلَّم - يرفع يدَيْه مع التكبير۔(رواه
أحمد :4/ 316 والطيالسي :1021والدَّارِمي :1/ 285).
ترجمہ: وائل بن حجر سے
روایت ہے انہوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو تمام تکبیرات پر رفع یدین کرتے
ہوئے دیکھا۔
حکم : اس کی سند کو شیخ
البانی نے حسن کہا ہے۔(إرواء الغليل:3/113)
جواب (2): سَبِّحِ
اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى(سورہ الاعلی:1)
اس کے جواب میں
"سبحان ربی الاعلی "کہنے کی دلیل ملتی ہے،روایت دیکھیں :
أنَّ النَّبيَّ صلَّى
اللَّهُ عليْهِ وسلَّمَ كانَ إذا قرأَ سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى قالَ
سبحانَ ربِّيَ الأعلى۔
ترجمہ: نبی ﷺ جب
"سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى" کی تلاوت کرتے تو آپ کہتے
"سبحانَ ربِّيَ الأعلى"۔
اس کو شیخ البانی نے
صحیح قرار دیا ہے ۔ (صحیح ابوداؤد: 883)
گوکہ یہ روایت صحیح ہے
مگر سورہ فاتحہ کے آخر میں آمین کہنےکے سوا مقتدی کے لئے فرض نماز میں قرآن کی کسی
آیت کا جواب دینا ثابت نہیں ہے۔ جن بعض صحیح روایات سے قرآن کی بعض آیات کا جواب
دینا ثابت ہے وہ سب امام کے لئے ہے۔ہاں نفل نماز میں امام یا مقتدی بھی قرآنی آیات
کا جواب دے سکتا ہے جيساکہ نبی ﷺ سے ثابت ہے لیکن فرض نماز میں ایسا کرنا صحیح
نہیں کیونکہ فرض نماز میں اگرآپ ﷺ قرآنی آیات کا جواب دیتے تو صحابہ کرام سے حرف
حرف وہ باتیں منقول ہوتیں مگرایسا نہیں ہے ۔
جواب (3): سورہ غاشیہ
کے آخر میں" اللهم حاسبني حساباً يسيراً "پڑھنے سےمتعلق کوئی روایت نبی
ﷺ سےمجھے نہیں ملی ، ایک روایت اس طرح آتی ہے :
سیدہ عائشہ رضى الله
عنها فرماتی ہیں :كان النبي، صلى الله عليه وسلم ، يقول في بعض صلاته: "اللهم
حاسبني حساباً يسيراً".فقالت عائشة رضي الله عنها:ما الحساب اليسير؟قال:أن
ينظر في كتابه فيتجاوز عنه (رواه أحمد وقال الألباني : إسناده جيد)
ترجمہ : نبی کریمﷺ اپنی
بعض نمازوں میں"اللهم حاسبني حساباً يسيرا" پڑھا کرتے تھے۔سیدہ عائشہ نے
دریافت کیا کہ آسان حساب سے کیا مراد ہے؟ تو آپ نے فرمایا:اللہ اعمال نامہ کو
دیکھے اور بندے سے درگزر کردے۔
اس حدیث سے بس یہ ثابت
ہوتا ہے کہ یہ ایک دعا ہے جسے نبی ﷺ اپنی بعض نمازوں میں پڑھا کرتےتھے، اسے سورہ
غاشیہ یا اس کی آخری آیت" إن إلينا إيابهم، ثم إن علينا حسابهم"سے خاص
کرنا صحیح نہیں ہے ۔
جواب (4): شیخ ابن
عثیمین رحمہ اللہ سے پوچھا گیا کہ عید کی نماز میں امام کے لئے منبر پر خطاب کرنا
مسنون ہے؟
تو شیخ نے جواب دیا کہ
کچھ علمائے کرام اس بات کے قائل ہیں کہ یہ سنت ہے وہ اس وجہ سے کہ جابر رضی اللہ
عنہ کی حدیث میں ہے : نبی ﷺ نے لوگوں کو عید کے دن خطاب کیا اور پھر نیچے اتر کر
خواتین کے پاس گئے۔
اس حدیث کی روشنی میں
ان کا کہنا ہے کہ نیچے اترنے کا عمل کسی اونچی جگہ سے ہی ممکن ہے چنانچہ اسی پر
عمل جاری و ساری ہے۔
دیگرعلماء کہتے ہیں کہ
عید گاہ میں منبر نہ لیکر جانا زیادہ بہتر ہے مگر عید گاہ میں منبر لے جانے یا نہ
لے جانے ہر دو صورت کی گنجائش ہے ان شاء اللہ۔
(مجموع فتاوى ورسائل
ابن عثيمين:16 /350) .
جواب (5): شيخ ابن
عثیمین رحمہ اللہ سے دريافت كيا گيا:نماز عيد كے بعد مصافحہ اور معانقہ كرنے كا
حكم كيا ہے ؟
توانہوں نے جواب دیا:ان
اشياء ميں كوئى حرج نہيں، كيونكہ لوگ اسے بطور عبادت اور اللہ تعالى كا قرب سمجھ
كر نہيں كرتے، بلكہ لوگ يہ بطور عادت اور عزت و اكرام اور احترام كرتے ہيں، اور جب
تك شريعت ميں كسى عادت كى ممانعت نہ آئے اس ميں اصل اباحت ہى ہے۔ اھـ(مجموع فتاوى ابن عثيمين
: 16 / 208- 210 )
جواب (6): شب عید یعنی
29 کا چاند دیکھا گیا تو انتیس کی رات یا رمضان کا 30 دن پورا کرکے جب سورج غروب
ہوجائے اس وقت سے عید الفطر کی تکبیر کا وقت شروع ہوجاتا ہے اور جب امام نمازعید
شروع کردے اس سے پہلے ختم ہوجاتا ہے۔
جواب (7): ایک شخص کو
ایک مرتبہ ہی عید کی نماز پڑھنا ہے خواہ وہ امام ہو یا مقتدی ۔ نبی ﷺ کا فرمان ہے
:
لا تصلُّوا صلاةً في
يومٍ مرَّتينِ(صحيح أبي داود:579)
ترجمہ: تم کسی نماز کو
دن میں دو مرتبہ نہ پڑھا کرو۔
نسائی نے کتاب العيدين
، باب الصلاة قبل الإمام يوم العيد میں ذکر کیا ہے:
أنَّ عليًّا استخلَفَ
أبا مَسعودٍ على النَّاسِ فخرجَ يومَ العيدِ ، فقالَ : يا أيُّها النَّاسُ ،
إنَّهُ ليسَ منَ السُّنَّةِ أن يصلِّيَ قبلَ الإمامِ(صحيح النسائي:1560)
ترجمہ: حضرت علی نے ابو
مسعود کو لوگوں پر خلیفہ بنایا، تو آپ عید کے دن باہر آئے اور فرمایا:اے لوگوں:
امام سے پہلے نماز پڑھنا سنت نہیں ہے۔
اس سے معلوم ہوتاہے کہ
علی رضی اللہ عنہ عیدگاہ جاتے وقت ابومسعود رضی اللہ عنہ کو اپنے پیچھے خلیفہ
بنادیا تاکہ وہ لوگوں کو مسجد میں نماز پڑھائیں اور حضرت علی رضي الله عنہ نے ان
لوگوں کو دوبارہ نماز نہیں پڑھائی۔
اس لئے امام کے ہوتے
ہوئے دوسری مرتبہ ایک امام کا نماز عید پڑھنا خلاف سنت ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
کتبہ
مقبول احمد سلفی
مشرف واٹس ایپ گروپ
"اسلامیات"
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کوئی تبصرہ کرنا چاہتے ہیں تو مثبت انداز میں تبصرہ کر سکتے ہیں۔
اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔