Tuesday, August 29, 2017

کیا اللہ تعالی عرفہ کے دن آسمان دنیا پرنزول کرتا ہے؟

کیا اللہ تعالی عرفہ کے دن آسمان دنیا پرنزول کرتا ہے؟

مقبول احمد سلفی
اسلامک دعوہ سنٹرشمال طائف(مسرہ)

یوم عرفہ کی بڑی فضیلت وخصوصیت آئی ہےکیونکہ اس دن حجاج میدان عرفات میں وقوف کرتے ہیں  ، اس منظر پہ اللہ تعالی فرشتوں کے درمیان فخرکرتا ہے ،اسی لئے نبی ﷺ نے فرمایا ہے : الحج عرفہ یعنی اصل حج تو عرفہ ہی ہے ۔ (صحیح النسائی :3016)۔ غیر حجاج کے لئے اس دن کا روزہ مشروع ہے جوکہ دوسال کے گناہوں کا کفارہ ہے۔ مگرلوگوں میں جویہ بات مشہور ہے کہ اللہ تعالی عرفہ کے دن آسمان دنیاپر نزول کرتا ہے یہ ثابت نہیں ہے۔  اس تعلق سے مجمع الزوائد ، ابن حبان،الترغیب والترھیب اور ابن خزیمہ وغیرہ میں ایک روایت  موجود ہے کہ اللہ تعالی یوم عرفہ کو آسمان دنیا پر نزول کرتا ہے مگر وہ روایت سندا ًضعیف ہے ۔ روایت اس طرح سے ہے ۔  
ما من أيامٍ عند اللهِ أفضلُ من عشرِ ذي الحجةِ قال : فقال رجلٌ : يا رسولَ اللهِ ! هن أفضلُ أم عدَّتُهنَّ جهادًا في سبيلِ اللهِ قال : هنَّ أفضلُ من عِدَّتهنَّ جهادًا في سبيلِ اللهِ وما من يومٍ أفضلُ عند اللهِ من يومِ عرفةَ ، ينزل اللهُ تبارك وتعالى إلى السماءِ الدنيا ، فيباهى بأهل الأرضِ أهلَ السماءِ ، فيقول : انظُروا إلى عبادي جاءوني شُعْثًا غُبْرًا ضاحين ، جاؤا من كلِّ فجٍّ عميقٍ ، يرجون رحمَتي ، ولم يرَوا عذابي ، فلم يُرَ يومٌ أكثرَ عتيقًا من النَّارِ من يومِ عرفةَ(ضعيف الترغيب:738)
ترجمہ: اللہ کے نزدیک عشرہ ذی الحجہ سے افضل کوئی دن نہیں ہے ،راوی نے کہا کہ ایک آدمی نے سوال کیا اسے اللہ کے رسول ! یہ دن افضل ہیں یا اللہ کے راستے میں جہاد کرنا تو آپ ﷺ نے فرمایا: یہ اللہ کے راستے میں جہاد کرنے سے افضل ہے ۔ اور اللہ کے نزدیک عرفہ کے دن سے زیادہ کوئی افضل دن نہیں ہے ۔ اس دن اللہ تعالی آسمان دنیا پر نازل ہوتا ہے پس آسمان والوں کے سامنے  زمین والوں پر فخر کرتے ہوئے کہتا ہے : میرے ان بندوں کو دیکھو میرے پاس گردوغبار سے نمایاں طورپر اٹے ہوئے آئے ۔ دور دراز راستوں سے میری رحمت کی آس لئے ہوئے آئے ۔ ،انہوں نے میرا عذاب نہیں دیکھا۔ عرفہ کے دن سے زیادہ جہنم سے آزاد ہونے والاکوئی دن نہیں دیکھا گیا۔  
شیخ البانی نے ضعیف الترغیب کے علاوہ اسے السلسلۃ الضعیفہ میں 679 کے تحت، صحیح ابن خزیمہ میں 2840، مشکوۃ المصابیح کی تخریج میں 2533 کے تحت ضعیف قرار دیا ہے ۔
ہیثمی نے کہا کہ اس میں محمد بن مروان العقیلی ہے جس کی ابن معین اور ابن حبان نے توثیق کی ہے اور اس کے متعلق کلام بھی ہے ۔ بقیہ رجال صحیح کے رجال ہیں ۔(مجمع الزوائد: 3/256)
ایک روایت میں عرفہ کی شام نزول کرنے کا ذکر آیا ہے ، اس روایت کا ایک ٹکڑا اس طرح سے ہے ۔
ما من أيامٍ أعظمَ عندَ اللهِ من عشرِ ذي الحِجةِ ، إذا كان عشيةُ عرفةَ نزل عزَّ وجلَّ إلى السماءِ الدنيا .
ترجمہ: اللہ کے نزدیک عشرہ ذی الحجہ سے عظیم کوئی دن نہیں ہے ۔ جب عرفہ کی شام ہوتی ہے تو اللہ تعالی آسمان دنیا پر نزول کرتا ہے ۔
یہ روایت منکر ہے ۔ دیکھیں :( الکامل فی ضعفاء الرجال: 9/125)
امام ذہبی نے کہا کہ اس میں یحی بن سلام البصری ہیں جنہیں دارقطنی نے ضعیف کہا ہے اور ابن عدی نے کہا کہ ان کی احادیث ضعف کے ساتھ لکھی جائیں گی۔ (میزان الاعتدال : 4/381)
اسی معنی کی ایک روایت اس طرح مروی ہے ۔
إذا كانَ عشيَّةُ عَرفةَ هَبطَ اللَّهُ عزَّ وجلَّ إلى السَّماءِ الدُّنيا فيطَّلعُ إلى أَهلِ الموقِفِ
ترجمہ: جب عرفہ کی شام ہوتی ہے تو اللہ آسمان دنیا پر اترتا ہے اور اہل موقف کی طرف دیکھتا ہے ۔
اس روایت کو شیخ البانی نے موضوع کہا ہے ۔ (السلسلۃ الضعیفہ :770)،  ابن عساکر نے منکر کہا ہے ۔(تاریخ دمشق : 13/145)، علامہ شوکانی نے باطل کہا ہے ۔(الفوائد المجموعہ :447)
ایک اثر ام سلمہ سے مروی ہے جسے دارقطنی نے اپنی کتاب النزول میں ذکر کیا ہے ۔
حَدَّثَنَا يَزْدَادُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْكَاتِبُ ، ثنا أَبُو سَعِيدٍ الأَشَجُّ ، أنا عُقْبَةُ بْنُ خَالِدٍ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ ، قَالَتْ : " نِعْمَ الْيَوْمُ يَوْمُ يَنْزِلُ اللَّهُ فِيهِ إِلَى السَّمَاءِ الدُّنْيَا ، قَالُوا : يَا أُمَّ الْمُؤْمِنِينَ ، وَأَيُّ يَوْمٍ هُوَ ؟ قَالَتْ : يَوْمُ عَرَفَةَ " .(النزول للدارقطني: 79)
ترجمہ: ام سلمہ سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا سب سے اچھا دن وہ ہے جس دن اللہ تعالی آسمان دنیا پر نزول کرتا ہے ، لوگوں نے پوچھا اے ام المومنین ! وہ کون سا دن ہے ؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ وہ عرفہ کا دن ہے ۔
مجھے اس اثر کے ایک راوی یزداد بن عبدالرحمن کے متعلق جرح وتعدیل نہیں ملی باقی رجال سب ثقہ ہیں اور  اس اثر کی کہیں سے مکمل تائید نہیں ہوتی ہے ،جس کی بنیاد پر اس پر عمل کیا جاسکے اتنی بات تو صحیح ہے کہ عرفہ کا دن بہت اہم ہے مگر آسمان دنیا پر نزول الہی کا ثبوت کسی صحیح حدیث سے نہیں ملتا ہے ۔ صحیح احادیث کی روشنی میں عرفہ کے دن اللہ تعالی فرشتوں کے درمیان  اہل عرفہ پر فخر کرتا ہے ۔
عبداللہ بن عمر رضي اللہ تعالی بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
إنَّ اللهَ تعالى يُباهِي ملائِكتَهُ عشِيَّةَ عرَفةَ بأهلِ عرَفةَ ، يقولُ : انظُروا إلى عبادِي ، أتوْنِي شُعْثًا غُبْرًا(صحيح الجامع:1868)
اللہ تعالی یوم عرفہ کی شام فرشتوں سے میدان عرفات میں وقوف کرنے والوں کےساتھ فخرکرتے ہوئے کہتے ہیں میرے ان بندوں کودیکھو میرے پاس گردوغبار سے اٹے ہوئے آئے ہیں .
رہی یہ بات کہ اللہ تعالی عرفہ کے دن عصر سے مغرب کے وقت میں نزول کرتا ہے سو اس کی کوئی حقیقت نہیں ہے ،اسی طرح ایک بات شیعہ کے یہاں پائی جاتی ہے کہ اللہ تعالی عرفہ کےدن اونٹ پر سوار ہوکر پہلے زوال کے وقت زمین پر نازل ہوتا ہے اس لئے مسلمان شیعہ کی اس بات پہ مطلع رہے اور اس بات سے اسلام کو بری سمجھے ۔
خلاصہ کلام یہ ہوا کہ عرفہ کے دن یا شام اللہ کے نزول کی بابت کوئی صحیح حدیث نہیں ہے اس لئے کوئی مسلمان یوم عرفہ کو اللہ کے نزول کا عقیدہ نہ رکھے ، ہاں جس طرح اللہ تعالی  ہررات کے آخری  تہائی حصے میں آسمان دنیا پر نازل ہوتا ہے اس میں عرفہ کی رات بھی شامل ہے ،دن نہیں شامل ہے ،بس یہی عقیدہ رکھے جیساکہ بخاری شریف میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
يَنْزِلُ ربُّنا تباركَ وتعالى كلَّ ليلةٍ إلى السماءِ الدنيا ، حينَ يَبْقَى ثُلُثُ الليلِ الآخرِ ، يقولُ : من يَدعوني فأَستجيبُ لهُ ، من يَسْأَلُنِي فأُعْطِيهِ ، من يَستغفرني فأَغْفِرُ لهُ .(صحيح البخاري:1145)
ترجمہ: ہمارا پروردگار بلند برکت ہے ہر رات کو اس وقت آسمان دنیا پر آتا ہے جب رات کا آخری تہائی حصہ رہ جاتا ہے۔ وہ کہتا ہے کوئی مجھ سے دعا کرنے والا ہے کہ میں اس کی دعا قبول کروں، کوئی مجھ سے مانگنے والا ہے کہ میں اسے دوں کوئی مجھ سے بخشش طلب کرنے والاہے کہ میں اس کو بخش دوں۔

مکمل تحریر >>

Sunday, August 20, 2017

حدود حرم میں پڑھی جانے والی نماز کاثواب ایک لاکھ ہے

حدود حرم میں پڑھی جانے والی نماز کاثواب ایک لاکھ ہے

مقبول احمد سلفی
اسلامک دعوۃ سنٹر، شمالی طائف(سعودی)

ہرسال حج کے موقع سے یہ بحث جھڑ جاتی ہے کہ مسجد حرام میں نماز پڑھنے کا ایک لاکھ ثواب کیا حدود حرم میں پڑھی جانے والی ہرنماز کے لئے ہے یاصرف مسجدحرام کے ساتھ ہی حاص ہے ؟ عموما یہ بحث اس وجہ سے جھڑتی ہے کہ آفاق سے آئے سبھی حجاج مکہ میں قیام کے دوران مسجد حرام میں ہی پنج وقتہ نمازیں ادا کرنے کی کوشش کرتے ہیں مگر چند اسباب کی وجہ سے سبھی حاجیوں کو پنج وقتہ نمازیں مسجد حرام  میں ادا کرنے کا موقع نہیں ملتا۔مثلا
٭ ضعیفی کی وجہ سے ہرنماز کے وقت آمدورفت کرنا مشکل ہے۔
٭ رہائش مسجدحرام سے دور ہونے کے سبب آمدورفت کی دقت ہے۔
٭ مسجد حرام میں نفلی  طواف اور عبادت وتلاوت کی کثرت سے تھک جانے کی وجہ سے آرام چاہئے اس وجہ سے مسجد حرام کی ہر نماز میں شامل ہونا باعث مشقت ہے ۔
٭ سواری کی عدم سہولت ، راستے کی عدم معلومات یا ضعیفی میں تعاون کرنے والا نہ ملنے کے سبب دشواری کا سامنا ہے ۔
٭ بعض لوگ بھیڑ کی وجہ سےمسجد حرام کی ہرنماز میں شامل نہیں ہوپاتے۔
٭ بعض حجاج یہ سوچتے ہیں کہ دنیا کے کونے کونے سے حجاج مکہ میں پہنچے ہیں اس لئے سب کو مسجد حرام میں نماز پڑھنے کا حق ہے ،یہ سوچ کر دوسروں کے لئے وسعت دیتے ہیں اور ان کے لئے تنگی کا سبب نہیں بنتے ۔  
ان وجوہات کی بناپرسبھی حجاج مسجدحرام کی ہرنمازمیں شامل نہیں ہوپاتے ، اس وجہ سے یہ حجاج اہل مکہ اور اپنے جاننے والے علماء سے رابطہ کرتے ہیں کہ اگر ہم مسجد حرام میں کوئی نماز نہیں پڑھ سکتے ہیں تو کیا اپنی رہائش کے قریب مسجد میں اس  نماز کوادا کرلیں  ؟ اور کیا ہمیں اس مسجد میں نماز پڑھنے کا ثواب ایک لاکھ کے برابر ملے گا؟۔
یہ ایک اختلافی مسئلہ ہے ، اس میں علماء کی کئی رائیں ہیں ان میں دواہم  ہیں ۔ بعض علماء کہتے ہیں کہ ایک لاکھ کا ثواب مسجد حرام کے ساتھ ہی خاص ہے اور بعض کہتے ہیں کہ حدود حرم میں موجود کسی مسجد میں نماز پڑھنے سے ایک لاکھ ثواب ملے گاکیونکہ یہ خصوصیت مسجد حرام کے ساتھ خاص نہیں ہے بلکہ حدود حرم کی تمام مساجد کے لئے عام ہے ۔اس کے قائلین میں جمہور حنفیہ،مالکیہ اور شافعیہ ،حافظ ابن حجرؒ، علامہ ابن القیم ؒ، ابن حزمؒ،امام نوویؒ،عطاء بن ابی رباحؒ، حسن بصریؒ، شیخ ابن بازؒ اور شیخ صالح فوزان ؒ وغیرہم ہیں ۔  
جب دلائل کا جائزہ لیا جاتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ حدود حرم میں واقع تمام مساجدمیں ہرنماز کاثواب ایک لاکھ کے برابر ہے ۔ نبی ﷺ کا فرمان ہے :
صلاةٌ في مسجِدي أفضلُ من ألفِ صلاةٍ فيما سواهُ إلَّا المسجدَ الحرامَ وصلاةٌ في المسجدِ الحرامِ أفضلُ من مائةِ ألفِ صلاةٍ فيما سواهُ(صحيح ابن ماجه:1163)
ترجمہ:میری مسجد میں نماز مسجد حرام کے سوا کسی بھی مسجد کی ہزاروں نمازوں سے افضل ہے۔ اور مسجد حرام میں ایک نماز پڑھنا کسی دوسری مسجد کی ایک لاکھ نمازوں سے افضل ہے۔
اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ مسجد حرام میں ایک نماز کا ثواب ایک لاکھ نماز کے برابر ہے ۔ مسجد حرام کا نام حرم میں واقع ہونے کی وجہ ہے تو حرم میں جتنی مساجد ہیں معنوی طور پر ان سب پر مسجد حرام کا اطلاق ہوگا کیونکہ وہ سب حدود حرم میں واقع ہیں ۔
بخاری شریف کی حدیث ہے :
عن النبي صلى الله عليه وسلم قال لا تشد الرحال إلا إلى ثلاثة مساجد المسجد الحرام ومسجد الرسول صلى الله عليه وسلم ومسجد الأقصى(صحيح البخاري : 1189)
ترجمہ: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تین مسجدوں کے سوا اور کسی کے لئے سفر نہ کیا جائے۔ایک مسجد حرام، دوسرے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد اور تیسرے مسجد اقصیٰ ۔
 اس حدیث کے تحت حافظ ابن حجر ؒ نے فتح الباری میں لکھا ہےکہ یہاں المسجدالحرام سے مراد پورا حرم ہے ۔ اور اس کی تائید میں عطاء کے طریق سے طیالسی کی روایت ذکر کی ہےکہ ان سے پوچھا گیا کہ یہ فضیلت صرف اسی مسجد کے ساتھ خاص ہے یا پورے حرم کے لئے ؟ انہوں نے جواب دیا کہ پورے حرم کے لئے کیونکہ یہ سب مساجدہیں ۔ (فتح الباری ، کتاب فضل الصلوٰۃ فی مسجد مکۃ و المدینۃ)
یہی وجہ ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس مذکورہ حدیث کو فضل الصلاۃ فی مسجدمکہ کے تحت ذکر کیا ہے  یعنی مکہ کی مسجدمیں نماز کی فضیلت ۔
اسی طرح اللہ تعالی کا فرمان ہے : سُبْحَانَ الَّذِي أَسْرَىٰ بِعَبْدِهِ لَيْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَى الْمَسْجِدِ الْأَقْصَى الَّذِي بَارَكْنَا حَوْلَهُ لِنُرِيَهُ مِنْ آيَاتِنَا ۚ إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ (الاسراء:1)
ترجمہ: پاک ہے وہ اللہ تعالٰی جو اپنے بندے کو رات ہی رات میں مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک لے گیا جس کے آس پاس ہم نے برکت دے رکھی ہے اس لئے کہ ہم اسے اپنی قدرت کے بعض نمونے دکھائیں یقیناً اللہ تعالٰی ہی خوب سننے دیکھنے والا ہے ۔
یہ بہت معروف واقعہ ہے کہ اسراء کا واقعہ ام ہانی کے گھر سے شروع ہوا تھا اور یہاں آیت کریمہ میں اللہ تعالی نے ام ہانی کے گھر کو مسجد حرام سے تعبیر کیا ہے کیونکہ یہ گھر حرم کے حدود میں واقع تھا۔ ابن  المفلح  حنبلی نے لکھا ہے کہ ابن الجوزی نے ذکر کیا ہے کہ اکثر مفسرین کے نزدیک اسراء ام ہانی کے گھر سے ہوا تھا،اس بنیاد پر المسجد الحرام کا معنی ہوگا کہ سارا حرم مسجد ہے ۔ (الفروع لابن مفلح)
اسی طرح اللہ تعالی کا یہ فرمان :
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّمَا الْمُشْرِكُونَ نَجَسٌ فَلَا يَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ بَعْدَ عَامِهِمْ هَٰذَا ۚ وَإِنْ خِفْتُمْ عَيْلَةً فَسَوْفَ يُغْنِيكُمُ اللَّهُ مِن فَضْلِهِ إِن شَاءَ ۚ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ حَكِيمٌ (التوبة:28)
ترجمہ: اے ایمان والو! بیشک مشرک بالکل ہی ناپاک ہیں وہ اس سال کے بعد مسجد حرام کے پاس بھی نہ پھٹکنے پائیں اگر تمہیں مفلسی کا خوف ہے تو اللہ تمہیں دولت مند کر دے گا اپنے فضل سے اگر چاہے اللہ علم و حکمت والا ہے ۔  
یہاں بھی مسجد حرام سے پورا حدود حرم مراد ہے اس لئے آج بھی کسی مشرک کو حدود حرم میں داخل ہونے کی اجازت نہیں ہے کیونکہ یہ حدود پاک ہیں اور مشرک نجس۔ابن حزم ؒ نے بلا اختلاف یہ بات ذکر کی ہے کہ اس آیت میں مسجد حرام سے مقصود پورا حرم ہے نہ کی صرف مسجد۔ (المحلی:4/243)
اسی طرح اللہ کا یہ فرمان بھی دلیل ہے :
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَقْتُلُوا الصَّيْدَ وَأَنتُمْ حُرُمٌ ۚ وَمَن قَتَلَهُ مِنكُم مُّتَعَمِّدًا فَجَزَاءٌ مِّثْلُ مَا قَتَلَ مِنَ النَّعَمِ يَحْكُمُ بِهِ ذَوَا عَدْلٍ مِّنكُمْ هَدْيًا بَالِغَ الْكَعْبَةِ أَوْ كَفَّارَةٌ طَعَامُ مَسَاكِينَ أَوْ عَدْلُ ذَٰلِكَ صِيَامًا لِّيَذُوقَ وَبَالَ أَمْرِهِ ۗ(المائدة: 95)
ترجمہ: اے ایمان والو! (وحشی) شکار کو قتل مت کرو جب کہ تم حالت احرام میں ہو اور جو شخص تم میں سے اس کو جان بوجھ کر قتل کرے گا تو اس پر فدیہ واجب ہوگا جو کہ مساوی ہوگا اس جانور کے جس کو اس نے قتل کیا ہے جس کا فیصلہ تم میں سے دو معتبر شخص کر دیں خواہ وہ فدیہ خاص چوپایوں میں سے ہو جو نیاز کے طور پر کعبہ تک پہنچایا جائے اور خواہ کفارہ مساکین کو دے دیا جائے اور خواہ اس کے برابر روزے رکھ لئے جائیں تاکہ اپنے کئے کی شامت کا مزہ چکھے۔
فدیہ کے متعلق فتح القدیر اور احسن البیان میں ہے کہ یہ فدیہ ،جانور یا اس کی قیمت کعبہ پہنچائی جائے گی اور کعبہ سے مراد حرم ہے یعنی ان کی تقسیم حرم مکہ کی حدود میں رہنے والے مساکین پر ہوگی ۔


مسند احمد میں ایک روایت ہے کہ نبی ﷺحدیبیہ میں حل (حدود حرم سے باہر) کے مقام پر رہائش پذیر تھے لیکن جب نماز پڑھناہوتا تو آپ حدود حرم میں آجاتے ۔(مسند احمد: 4/326، ابن ابی شیبہ ص: 274،275)
 اصل میں حدیبیہ کا کچھ حصہ حل ہے اور کچھ حصہ حرم ۔ اس حدیث سے بھی واضح اشارہ ملتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ حرم کی فضیلت حاصل کرنے کے لئے حل سے حرم میں آجاتے اور پھر نماز ادا کرتے تھے ۔ ابن القیم ؒ نے مسند احمد کی اس  روایت کے متعلق لکھا ہے کہ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ مکہ میں نماز کی زیادتی کا ثواب پورے حرم کو شامل ہے یہ اس مسجد کے ساتھ خاص نہیں ہے جو طواف کی جگہ ہے ۔ (زادالمعاد:3/303)
کئی صحابہ کرام بھی نبی ﷺ کی طرح حرم کے حدودمیں نماز پڑھنے کا اہتمام کرتے تھے جیساکہ عبداللہ بن عمروبن عاص رضی اللہ عنہ کی رہائش عرفہ میں حل میں ہوتی اور آپ کا مصلی حرم کے حدود میں ہوتا ، پوچھاکہ اس کی وجہ کیا ہے تو انہوں نے کہا اس میں عمل کرنا افضل ہے اور گناہ بھی عظیم ہے۔ (مصنف عبدالرزاق، كتاب الحج، باب الخطيئة في الحرم:5/ 27: 8870)
حرم میں اجر کی زیادتی پہ شیخ عبداللطیف بن عوض قرنی کا"الحرم المکی ومضاعفۃ الاجر فیہ" کے نام سے عربی میں  ایک مقالہ ہے ۔ اس میں انہوں نے ذکر کیا ہے کہ قرآن میں پندرہ مقامات پہ مسجد حرام کا ذکر ہے اور ابن القیم ؒ کے حوالہ سے لکھا ہے کہ مسجد حرام سے اللہ کی کتاب میں تین مراد ہیں ۔ ایک نفس البیت، دوسری وہ مسجد جو اس کے اردگرد ہے اور تیسری مراد پورا حدود حرم ہے ۔ (احکام اھل الذمہ : 1/189) امام نووی ؒ نے چوتھی مراد مکہ لیا ہے ۔ (المجموع شرح المھذب : 3/189)
شیخ عبداللطیف نے تیسری مراد کے ماننے والوں میں احناف بحوالہ (بدائع الصنائع 2/301)،مالکیہ بحوالہ (الجامع لأحكام القرآن للقرطبي 3/1275)، شافعیہ بحوالہ (مغني المحتاج 6/67)، شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ بحوالہ (الفتاوى 22/207)، ابن القیم ؒ بحوالہ (زاد المعاد 3/303)، اور شیخ ابن باز بحوالہ (مجموع فتاوى ومقالات 17/198) ذکر کیا ہے ۔
ان سطور بالا کا ماحصل یہ ہے کہ حدود حرم کی کسی مسجد میں نماز پڑھنے کا ثواب کعبہ کے گرد نماز پڑھنے کے برابر ہے سوائے مسجد نبوی کے کہ اس کا ثواب اسی مسجد کے ساتھ خاص ہے جسے رسول اللہ ﷺ نے اپنے ہاتھوں سے بنایاہے اور اس کی فضیلت اس مسجد کے ساتھ لفظ ھذا(یعنی میری یہ مسجد)کے ذریعہ خاص کردی ہے ۔
محمد بن عبدالرحمن مبارک پوری رحمہ اللہ نے مسجد نبوی میں نماز کے اجر والی حدیث کی شرح کرتے ہوئے لکھتے ہیں ۔
قوله : ( صلاة في مسجدي هذا ) قال النووي : ينبغي أن يحرص المصلي على الصلاة في الموضع الذي كان في زمانه صلى الله عليه وسلم دون ما زيد فيه بعده ; لأن التضعيف إنما ورد في مسجده ، وقد أكده بقوله ( هذا ) بخلاف مسجد مكة فإنه يشمل جميع مكة بل صح أنه يعم جميع الحرم كذا ذكره الحافظ في الفتح وسكت عنه۔ (سنن الترمذی، كتاب الصلاة،باب ما جاء في أي المساجد أفضل ص:237)
ترجمہ: نبی ﷺ کا فرمان"صلاۃ فی مسجدی ھذا" ،اس کے متعلق امام نووی ؒ نے کہا کہ نمازیوں کو اس بات کا حریص ہونا چاہئے کہ وہ اسی جگہ نماز ادا کرے جو نبی ﷺ کے زمانے میں تھی نہ کہ اس جگہ جو بعد میں بڑھائی گئی ہے  ، اس لئے کہ اجر میں زیادتی کا ثواب اسی مسجد کے ساتھ خاص ہے جس کی تائید لفظ ھذا سے ہوتی ہے ۔ برخلاف  مکہ کی مسجد کے کہ اس میں پورا مکہ داخل ہے بلکہ صحیح یہی ہے کہ یہ پورے حرم کو عام ہے ،اس طرح حافظ ابن حجرؒ نے فتح الباری میں ذکر کیا ہے اور اس پہ سکوت اختیار کیا ہے ۔
شیخ صالح فوزانؒ سے سوال کیا گیا کہ کیا مکہ کے حدود حرم میں نماز کا ثواب مسجد حرام میں نماز پڑھنے کے برابر ہے ؟ تو شیخ نے جواب دیا کہ ہاں مسجد حرام میں نماز پڑھنے کے برابر ہے کیونکہ مسجدحرام  ان تمام کو شامل ہے جو حدود حرم میں  ہے اور حدود کے اندر داخل تمام مسجد ہیں ۔ (ویب سائٹ شیخ صالح فوزان)شیخ نے ایک دوسرے فتوی میں ذکر کیا ہے کہ ایک عورت اگر مکہ میں اپنے گھر میں نماز پڑھتی ہے تو اسے اضافی ثواب ملے گا البتہ مدینہ میں اضافی ثواب صرف مسجد نبوی کے ساتھ مخصوص ہے ۔
شیخ ابن باز رحمہ اللہ کا بھی واضح فتوی ہے کہ ایک لاکھ کا ثواب مکہ کے تمام حدود حرم کو شامل ہے ، یہی فتوی سعودی کے لجنہ دائمہ کا بھی ہے جس کی کمیٹی میں شیخ ابن باز کے علاوہ بکرابوزید، عبدالعزیز آل شیخ ، صالح فوزان اور عبداللہ بن غدیان ہیں ۔
بات واضح ہوگئی کہ حرم میں داخل تمام مساجد میں نماز کا ثواب ایک لاکھ کے برابر ہے لیکن یہ دھیان رہے کہ بیت اللہ کے شرف کی وجہ سے افضلیت اسی مسجد حرام کو ہے اس لئے آدمی حریص ہو کہ مسجد حرام میں جاکر نماز ادا کرے لیکن اگر وہاں نماز ادا کرنے سے قاصر ہو تو حدود حرم میں داخل کسی بھی مسجد میں نماز ادا کرلے ،ان شاء اللہ مسجد حرام میں نماز پڑھنے کا ثواب ملے گابلکہ اگر مسجد حرام میں کبھی زیادہ ازدحام ہو تو دوسروں کو موقع دیں اور آپ حدود حرم میں واقع کسی مسجد میں نماز ادا کرلیں گرپہلے آپ نے باربار مسجد حرام میں نماز ادا کی ہو۔
مکمل تحریر >>

Saturday, August 19, 2017

حج وعمرہ میں عورتوں کا قدم ڈھانکنا

حج وعمرہ میں عورتوں کا قدم ڈھانکنا

مقبول احمدسلفی
اسلامک دعوۃ سنٹر، شمالی طائف(سعودی عرب)

عورت کاجسم مکمل ستر میں داخل ہے اس لئے  عورت سر سے لیکر پاؤں تک مکمل جسم کو اجنبی مردوں سے چھپائے گی خواہ حج وعمرہ ہو یا سفر ہو یا کوئی اور جگہ۔ نبی ﷺ کا فرمان ہے : المرأةُ عورةٌ فإذا خرجتِ استشرفَها الشَّيطانُ(صحيح الترمذي:1173)
ترجمہ: عورت (سراپا) پردہ ہے، جب وہ باہر نکلتی ہے تو شیطان اس کو تاکتا ہے۔
احرام کی حالت میں رسول اللہ ﷺ نے عورتوں کو نقاب لگانے اور دستانے استعمال کرنے سے منع کیا ہے جیساکہ فرمان رسول ﷺ ہے :
ولا تَنْتَقِبْ المرأةُ المُحْرِمَةُ ، ولا تَلْبَسْ القُفَّازَينِ .(صحيح البخاري:1838)
ترجمہ: ا حرام کی حالت میں عورتیں نقاب نہ پہنیں اور دستانے بھی نہ استعمال کریں۔
اس حدیث کی روشنی میں عورت حج وعمرہ میں احرام کی حالت میں نقاب اور دستانہ استعمال نہیں کرے گی مگر احرام کی حالت میں بھی اجنبی مردوں سے چہرہ اور ہاتھ کا پردہ کرنا ہے، یہ حکم اپنی جگہ باقی ہے صرف لباس کی شکل یعنی نقاب اور دستانہ منع ہے ، اس لئے نقاب و دستانہ کی جگہ اوڑھنی استعمال کرے گی اور اس سے اپنے چہرے اور دونوں ہاتھوں کا پردہ کرے گی ۔
عورتوں کے پیر ڈھکنے کی دلیل  نبی ﷺ کا یہ فرمان ہے :
مَن جرَّ ثوبَهُ خيلاءَ لم ينظُرِ اللَّهُ إليهِ يومَ القيامةِ ، فقالَت أمُّ سَلمةَ : فَكَيفَ يصنَعُ النِّساءُ بذيولِهِنَّ ؟ قالَ : يُرخينَ شبرًا ، فقالت : إذًا تنكشفَ أقدامُهُنَّ ، قالَ : فيُرخينَهُ ذراعًا ، لا يزِدنَ علَيهِ(صحيح الترمذي:1731)
ترجمہ: جو شخص تکبر سے اپنا کپڑا گھسیٹے گا اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی طرف نہیں دیکھے گا، ام سلمہ نے کہا: عورتیں اپنے دامنوں کاکیاکریں؟ ' آپ نے فرمایا:ایک بالشت لٹکالیں، انہوں نے کہا: تب توان کے قدم کھل جائیں گے، آپ نے فرمایا:ایک ہاتھ لٹکائیں اور اس سے زیادہ نہ لٹکائیں۔
ابن حزمؒ نے ذکر کیا ہے :
عن طائفةٍ من الصحابةِ أنَّ قدمَ المرأةِ عورةٌ(الإعراب عن الحيرة والالتباس:2/854)
ترجمہ: صحابہ کی ایک جماعت سے منقول ہے کہ عورت کا قدم پردہ ہے۔
خلاصہ کلام یہ ہوا کہ عورت جہاں عام حالتوں میں پیر ڈھکے گی اسی طرح حج وعمرہ میں بھی ڈھکے گی ۔

مکمل تحریر >>

Friday, August 18, 2017

وصیت کے مختصر احکام

وصیت کے مختصر احکام
مقبول احمد سلفی
اسلامک دعوۃ سنٹر، شمالی طائف(سعودی عرب)

وصیت  کیا ہے؟:
میت کا وہ حکم یا کام جسے ا س کی وفات کے بعد کیا جاتا ہے اسے وصیت کہتے ہیں ۔ اللہ کا فرمان ہے :  كُتِبَ عَلَيْكُمْ إِذَا حَضَرَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ إِن تَرَكَ خَيْرًا الْوَصِيَّةُ لِلْوَالِدَيْنِ وَالْأَقْرَبِينَ بِالْمَعْرُوفِ ۖ حَقًّا عَلَى الْمُتَّقِينَ (البقرۃ: 180)
ترجمہ: تم پر فرض کیا جاتا ہے کہ جب تم میں سے کسی کو موت کا وقت آجائے تو اگر وہ کچھ مال چھوڑ جانے والا ہو تو ماں باپ اور رشتہ داروں کے لئے دستور کے مطابق وصیت کرجائے، اللہ سے ڈر نے والوں پر یہ ایک حق ہے ۔
وصیت اور ہبہ میں فرق:
وصیت کا تعلق موت سے ہے اور ہبہ کا تعلق زندگی سے اس لئے وصیت کا نفاذ وفات کے بعد ہوتا ہے اور ہبہ کا زندگی میں ہی، اور ہبہ برابر برابر تقسیم کیا جاتا ہے جبکہ وصیت مختلف ہوسکتی ہے۔
وصیت کی حکمت:
آدمی زندگی بھرمحنت کرتا ہے اور پسینہ بہابہاکر مال جمع کرتا ہے اور جب مرجاتا ہے تو اس کے ورثاء اس مال سے فائدہ اٹھاتے ہیں ، اس لئے آدمی کو چاہئے کہ وفات سے پہلے  ورثاء کو اپنے مال میں سے بھلائی کے کاموں میں صرف کرنے کی وصیت کرجائے ۔ یہ اللہ کا بندوں پر انعام سے کم نہیں کہ اس کی وصیت کے نفاذ سے وفات کے بعد بھی ثواب ملے گا۔ اسی طرح کوئی محتاج رشتہ دار ہوجو ترکہ میں حصہ دار نہیں ہوسکتا اسے کچھ نہ کچھ وصیت کرجائے۔  
وصیت کا حکم:
وصیت کا حکم احکام شرعیہ کی طرح پانچ احوال پر منحصر ہے ۔ اگر آدمی کے ذمہ بندوں کے حقوق ہیں مثلا قرض، امانت، ہڑپا ہوا مال ، چوری کی ہوئی چیز، زکوۃ وکفارہ وغیرہ تو ان حقوق کی وصیت کرنا واجب ہے ۔ اعزاء واقرباء(وارث کے علاوہ) کے لئے وصیت کرنا مستحب ہے مثلا کسی مسکین رشتہ دار یا نیکی کے کاموں کی وصیت کرنا ۔اللہ کی معصیت میں وصیت کرنا حرا م ہے جیسے کوئی بیٹے کو ڈاکو بننے کی وصیت کرے یااپنے مال سے اپنی  قبر پہ مزارتعمیر کرنے کا حکم دے۔ وارث محتاج ہوتو فقیر کے لئےمال کی  وصیت کرنا مکروہ ہے ۔ مالدار آدمی، مالدا ر رشتہ دار یا اجنبی کے لئے وصیت کرے مباح کے درجے میں ہے ۔  
وصیت کب کرے:
آدمی اگر کہیں دوردراز کا سفر کرےمثلاسفر حج وعمرہ یا بغیر سفرکےاگراس کے پاس لوگوں کی امانتیں اور حقوق ہوں تو واجبی طور پروصیت لکھ لے  اور کسی امانت دار کے پاس جمع کردےتاکہ لوگوں کے حقوق ضائع نہ ہوں ۔موت کی کسی کو خبر نہیں۔ نبی ﷺ کا فرمان ہے : ما حقُّ امِرئٍ مسلمٍ ، له شيءُ يُوصي فيه ، يَبِيتُ ليلتين إلا ووصيتُه مكتوبةٌ عندَه.(صحيح البخاري:2738)
ترجمہ: کسی مسلمان کے لئے جن کے پاس وصیت کے قابل کوئی بھی مال ہو درست نہیں کہ دو رات بھی وصیت کو لکھ کر اپنے پاس محفوظ رکھے بغیر گزارے۔
لیکن اگر کسی کا کوئی حق نہ ہو تو اس صورت میں وصیت کرنا ضروری نہیں ہے بلکہ مستحب ہے اور اگر اللہ نے مال سے نوازا ہے تو بہتر ہے کہ نیکی اور بھلائی کے کاموں کی وصیت کرجائے تاکہ وفات کے بعد اس کا ثواب ملے ۔ یاد رہے وصیت ثلث مال سے زیادہ کی نہیں کرسکتا ۔
وصیت لکھنے کا طریقہ:
شیخ ابن باز رحمہ اللہ نے وصیت لکھنے کا طریقہ اس طرح لکھا ہے کہ میں فلاں وصیت کرنے والاوصیت کرتا ہوں اس بات کی گواہی دیتے ہوئے کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود برحق نہیں ،وہ یکتا اور تنہا اور اس کا کوئی شریک نہیں ، محمد ﷺ اس کے بندے اور اس کے رسول ہیں ۔ اور عیسی علیہ السلام اس کے بندے اور اس کے رسول ہیں اوراس کا کلمہ ہیں جسے مریم علیہ السلام کی طرف ڈال دیا تھا اور اس کے پاس کی روح ہیں ۔جنت حق ہے،جہنم حق ہے، قیامت آنے والی ہے اس میں کوئی شک نہیں ہے۔ جو قبروں میں ہے اللہ اسے دوبارہ زندہ کرے گا۔ میں سارے اہل وعیال کو اللہ سے ڈرنے، آپس میں صلح صفائی کرنے،اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرنے،ایک دوسرے کو حق کی اور اس پر صبر کرنے کی وصیت کرتا ہوں ۔ میں ان سب کو ابراہیم علیہ السلام کی طرح وصیت کرتا ہوں جس طرح انہوں نے اپنے بیٹے اور یعقوب کو وصیت کی ۔
يَا بَنِيَّ إِنَّ اللّهَ اصْطَفَى لَكُمُ الدِّينَ فَلاَ تَمُوتُنَّ إَلاَّ وَأَنتُم مُّسْلِمُونَ(البقرۃ: 132)
ترجمہ: ہمارے بچو! اللہ تعالٰی نے تمہارے لئے اس دین کو پسند فرما لیا ، خبردار! تم مسلمان ہی مرنا ۔
پھر تہائی مال یا اس سے کم کی جو چاہے وصیت کرے یا مال معین کی وصیت کرے مگر ثلث مال سے زائد نہ ہو۔ اورپھر مصارف شرعیہ یعنی جہاں خرچ کرنا ہے اسے بیان کرے اور اس کام پر کسی وکیل کا بھی اس میں ذکرکرے ۔ (مجلة البحوث الإسلامية:33/111)
اوراس پر دو عادل گواہ بھی بنالے ۔اللہ کافرمان ہے :
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا شَهَادَةُ بَيْنِكُمْ إِذَا حَضَرَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ حِينَ الْوَصِيَّةِ اثْنَانِ ذَوَا عَدْلٍ مِنْكُمْ أَوْ آخَرَانِ مِنْ غَيْرِكُمْ (المائدة:106)
ترجمہ: اے ایمان والو! تمہارے آپس میں دو شخص کا گواہ ہونا مناسب ہے جبکہ تم میں سے کسی کوموت آنے لگے اور وصیت کرنے کا وقت ہو ،وہ دو شخص ایسے ہوں کہ دیندار ہوں خواہ تم میں سے ہوں یا غیرلوگوں میں سے ۔
وصیت لکھ کر کسی امانتدار کے پاس جمع کردے جواس کی صحیح سے حفاظت کرسکے ۔
وصیت کے شروط:
وصیت کی تین شرطیں ہیں ۔
پہلی شرط :جس مال میں وصیت کی جارہی ہے وہ حلال ہو ورنہ وصیت صحیح نہیں ہوگی۔نبی ﷺ کا فرمان ہے : إنَّ اللهَ طيِّبٌ لا يقبلُ إلا طيِّبًا(صحيح مسلم:1015)
ترجمہ: بے شک اللہ پاک ہے اور پاک چیزوں کو ہی قبول کرتا ہے۔
دوسری شرط: وصیت تہائی مال یا اس سے کم ہو ، اس سے زائد کی وصیت صحیح نہیں الا یہ کہ ورثاء کی اجازت ہو۔نبی ﷺ کا فرمان ہے : عن ابنِ عباسٍ . قال : لو أنَّ الناسَ غضُّوا من الثلثِ إلى الربُعِ ، فإنَّ رسولَ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ قال :الثلثُ . والثلثُ كثيرٌ ۔(صحيح مسلم:1629)
ترجمہ: حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا: کاش لوگ تہائی سے کم کر کے چوتھائی کی وصیت کریں کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:تہائی (تک کی وصیت کرو)، اور تہائی بھی زیادہ ہے۔
تیسری شرط : وصیت وارث کے علاوہ کسی دوسرے فرد کے لئے ہو کیونکہ نبی ﷺ کا فرمان ہے : إنَّ اللَّهَ قد أعطى كلَّ ذي حقٍّ حقَّهُ ألا لا وصيَّةَ لوارِثٍ(صحيح ابن ماجه:2211)
ترجمہ: اللہ تعالیٰ نے ہر حق والے کو اس کا حق دے دیا ہے، لہٰذا وارث کے لیے کوئی وصیت نہیں۔
وصیت کی اقسام:
وصیت دوچیزوں سے متعلق ہوتی ہے ، ایک مال سے متعلق اور دوسری اعمال سے متعلق ۔
مال سے متعلق  ایک وصیت تو یہ ہے کہ آدمی کے اوپر لوگوں کے حقوق ہوں اس کی وصیت کرے مثلاقرض ، امانت وغیرہ ۔مال سے متعلق دوسری وصیت عام ہے وہ کسی غیر وارث کو دینے کے لئےتہائی مال یا اس سے کم کی وصیت کرنا ہےمثلا بیٹے کی موجودگی میں بھائی کوکچھ مال کی وصیت کرنا۔
اعمال سے متعلق ایک وصیت مال کے ساتھ معلق ہے یعنی وصیت کرنے والا اپنی وفات کے بعد اللہ کے راستے میں مال خرچ کرنے کی وصیت کرجائے مثلا مسجد بنانے، یتیم خانہ تعمیر کرنے ، جہاد میں پیسہ لگانے ، غیر متعین مسکین وفقراء میں متعین مال تقسیم کرنے کی وصیت کرنا۔ اعمال سے متعلق ایک دوسری وصیت بغیر مال کے ہے ، وہ اس طرح کہ وصیت کرنے والا اپنی اولاد،اعزاء واقرباء کو نمازکی وصیت، تقوی کی وصیت، شرک سے بچنے کی وصیت اور دیگر اعمال صالحہ کی وصیت کرے اور یہ عظیم وصیت ہے۔
سب سے عظیم وصیت :
سب سے عظیم وصیت اللہ کی عبادت کی وصیت کرنا، اس کےساتھ کسی کو شریک کرنے سے ڈرانا ، آپس میں صلح وصفائی سے زندگی گزارنا، نماز کی پابندی کرتے رہنا ، زکوۃ ادا کرنا، مسکینوں کی دیکھ ریکھ کرنا، سنت کے مطابق زندگی گزارنا، بدعات وخرافات سے بچنا، ایمان اور صراط مستقیم پر گامزن رہنا، حق اور صبر کی تلقین کرنا  وغیرہ۔ یہ ایسے اعمال ہیں جن کی وصیت کرنےسے وصیت کرنے والے کو ہمیشہ ثواب ملتا رہے گا اور اس کے بعد لوگ نیکی وبھلائی کی راہ پر چلتے رہیں گے،دنیا بھی اچھی رہے اور آخرت میں بھی بھلا ہوگا۔
اللہ تعالی کا فرمان ہے :
وَلَقَدْ وَصَّيْنَا الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ مِنْ قَبْلِكُمْ وَإِيَّاكُمْ أَنِ اتَّقُوا اللَّهَ وَإِنْ تَكْفُرُوا فَإِنَّ لِلَّهِ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ وَكَانَ اللَّهُ غَنِيًّا حَمِيدًا[النساء:131].
ترجمہ: واقعی ہم نے ان لوگوں کو جو تم سے پہلے کتاب دیئے گئے تھے اور تم کو بھی یہی حکم کیا ہے کہ اللہ سے ڈرتے رہو اور اگر تم کفر کرو تو یاد رکھو کہ اللہ کے لئے ہے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے اور اللہ بہت بے نیاز اور تعریف کیا گیا ہے ۔
اور اللہ کا فرمان ہے:
وَوَصَّيْنَا الْإِنْسَانَ بِوَالِدَيْهِ إِحْسَانًا ۖ حَمَلَتْهُ أُمُّهُ كُرْهًا وَوَضَعَتْهُ كُرْهًا ۖ(الاحقاف : 15)
ترجمہ:اور ہم نے انسان کو اپنے ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک کرنے کا حکم دیا ہے ، اس کی ماں نے اسے تکلیف جھیل کر پیٹ میں رکھا اور تکلیف برداشت کرکے اسے جنا۔
یہاں اللہ کی وصیت بندوں کو حکم دینا ہے۔اورقرآن میں عیسی علیہ السلام کا کلام ہے جب وہ ماں کی گود میں ہی  تھے تو تکلم کئے تھے ۔
وَجَعَلَنِي مُبَارَكًا أَيْنَ مَا كُنتُ وَأَوْصَانِي بِالصَّلَاةِ وَالزَّكَاةِ مَا دُمْتُ حَيًّا (مریم:31)
ترجمہ: اور اس نے مجھے بربرکت کیا جہاں بھی میں ہوں،اور اس نے مجھے نماز اور زکوۃ کا حکم دیا ہے جب تک بھی میں زندہ رہوں ۔
اسی طرح لقمان علیہ السلام اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہوئے کہتے ہیں :
وَإِذْ قَالَ لُقْمَانُ لِابْنِهِ وَهُوَ يَعِظُهُ يَا بُنَيَّ لَا تُشْرِكْ بِاللَّهِ ۖ إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ (لقمان:13)
ترجمہ: اور جب کہ لقمان نے وعظ کرتے ہوئے اپنے لڑکے سے فرمایا کہ میرے پیارے بچے! اللہ کے ساتھ شریک نہ کرنا بےشک شرک بھاری ظلم ہے۔
ابراہیم علیہ السلام اور یعقوب علیہ السلام کی وصیت کا قرآن میں اس طور پر ذکر ہے :
وَوَصَّى بِهَا إِبْرَاهِيمُ بَنِيهِ وَيَعْقُوبُ يَابَنِيَّ إِنَّ اللَّهَ اصْطَفَى لَكُمُ الدِّينَ فَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنْتُمْ مُسْلِمُونَ ، أَمْ كُنْتُمْ شُهَدَاءَ إِذْ حَضَرَ يَعْقُوبَ الْمَوْتُ إِذْ قَالَ لِبَنِيهِ مَا تَعْبُدُونَ مِنْ بَعْدِي قَالُوا نَعْبُدُ إِلَهَكَ وَإِلَهَ آبَائِكَ إِبْرَاهِيمَ وَإِسْمَاعِيلَ وَإِسْحَاقَ إِلَهًا وَاحِدًا وَنَحْنُ لَهُ مُسْلِمُونَ [البقرة:132- 133].
ترجمہ: اس کی وصیت ابراہیم اور یعقوب نے اپنی اولاد کو کی ، کہ ہمارے بچو! اللہ تعالٰی نے تمہارے لئے اس دین کو پسند فرما لیا ، خبردار! تم مسلمان ہی مرنا ۔ کیا ( حضرت ) یعقوب کے انتقال کے وقت تم موجود تھے؟ جب انہوں نے اپنی اولاد کو کہا کہ میرے بعد تم کس کی عبادت کرو گے؟ تو سب نے جواب دیا کہ آپ کے معبود کی اور آپ کے آباؤ اجداد ابراہیم ( علیہ السلام ) اور اسماعیل ( علیہ السلام ) اور اسحاق علیہ السلام کے معبود کی جو معبود ایک ہی ہے اور ہم اُسی کے فرمانبردار رہیں گے ۔
نبی ﷺ نے بھی اپنی امت کے لئے بہت ساری نصیحتیں اور بہت ساری وصیتیں چھوڑی ہیں ، آپ نےزندگی کے آخری لمحات میں قبروں کوسجدہ گاہ بنانے سے منع کیا ہے اور باربار منع کیا،غرغرہ کی حالت میں باربار نمازکی وصیت کی ،اے کاش! امت مسلمہ نبی ﷺ کی  آخری وصیت کا نفاذ کرتی۔ آپ ﷺ کی اہم وصیت میں سے یہ ہے کہ آپ نے امت کو کتاب اللہ پر عمل کرنے کی وصیت کی ۔ بخاری ومسلم میں طلحہ بن مصرف بیان کرتے ہیں انہوں نے کہا کہ میں نے عبد اللہ بن ابی اوفیٰ رضی اللہ عنہ سے سوال کیا:
هل كان النبيُّ صلى الله عليه وسلم أَوْصى ؟ فقال : لا . فقلتُ : كيف كَتَبَ على الناسِ الوصيةَ ، أو أُمِروا بالوصيةِ ؟ قال : أَوْصى بكتابِ اللهِ .(صحيح البخاري:2740)
ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی وصیت کی تھی؟ انہوں نے کہا کہ نہیں۔ اس پر میں نے پوچھا کہ پھر وصیت کس طرح لوگوں پر فرض ہوئی؟ یا ( راوی نے اس طرح بیان کیا ) کہ لوگوں کو وصیت کا حکم کیوں کردیا گیا؟ انہوں نے کہا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو کتاب اللہ پر عمل کرنے کی وصیت کی تھی۔
آج مسلمانوں کی اکثریت شرک وبدعت میں مبتلا ہے ،اگرلوگ قبروں پہ مزار بنانے اور اس پر میلہ ٹھیلہ بنانے سے باز آجائیں اور عمل کرنے کے لئے کتاب اللہ کو دستور بنالیں تو پھر کبھی کوئی مسلمان ہرگزہرگز گمراہ نہیں ہوسکتاجیساکہ نبی ﷺ نے فرمایاہے کہ اگر تم کتاب اللہ اور میری سنت کو پکڑ لو تو کبھی گمراہ نہیں ہوسکتے ۔  
وصیت میں تبدیلی یا منسوخی:
کسی وجہ سے وصیت کرنے والا وصیت بدلناچاہے یا اسے منسوخ کرنا چاہے تو اس کے اختیار میں ہے کہ وہ وصیت میں اپنی مرضی سے ردوبدل کرسکے یا اسے منسوخ کرسکے  تاہم اس میں عدل کارفرماہو۔
وصیت کا نفاذ:
اگر وصیت کی شرطیں پائی جاتی ہیں اور اس میں کوئی شرعی مخالفت نہیں تو میت کی وفات کے بعد اس کے ورثاء پروصیت کا نفاذ واجب ہے جو اس میں کوتاہی کرے یا وصیت کو بدلے یا چھپائے تو وہ بڑا گنہگار ہے ۔ اللہ کا فرمان ہے : فَمَنْ بَدَّلَهُ بَعْدَ مَا سَمِعَهُ فَإِنَّمَا إِثْمُهُ عَلَى الَّذِينَ يُبَدِّلُونَهُ إِنَّ اللَّهَ سَمِيعٌ عَلِيمٌ (البقرة:181)
ترجمہ: پھرجو شخص اسے(وصیت کو) سننے کے بعد بدل دے تواس کا گناہ بدلنے والے پر ہی ہوگا ، واقعی اللہ تعالی سننے والا اور جاننے والا ہے۔
اس آیت کے بعد اللہ تعالی فرماتا ہے : فَمَنْ خَافَ مِن مُّوصٍ جَنَفًا أَوْ إِثْمًا فَأَصْلَحَ بَيْنَهُمْ فَلَا إِثْمَ عَلَيْهِ ۚ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ (البقرۃ: 182)
ترجمہ: ہاں جو شخص وصیت کرنے والے کی جانبداری یا گناہ کی وصیت سے ڈرے پس وہ ان میں آپس میں اصلاح کرادے تو اس پر گناہ نہیں ، اللہ تعالی بخشنے والا مہربان ہے۔

مکمل تحریر >>

Thursday, August 17, 2017

دوران حج وفات پانے والے حاجی کے احکام

دوران حج وفات پانے والے حاجی کے احکام
مقبول احمد سلفی
اسلامک دعوۃ سنٹر طائف

بسااوقات دوران حج حادثہ ہونے یا یونہی فطری طور پر حج کرنے والا اچانک وفات پاجاتا ہے ۔ اس پر اس کے ورثاء بہت غمگین ہوتے ہیں اور اس کا حج ادھورا ہونے کی وجہ سے مزید بےچین ہوجاتے ہیں۔کسی کا دنیا سے جانا اس کے وارثین کے لئے واقعی باعث غم ہے مگر اس پہ رونا نہیں چاہئے اور جس کی موت اللہ کے راستے میں ہو ایسا شخص تو خوش نصیب ہے ۔ ہم سب اللہ تعالی سے دعا کریں کہ یارب ہمیں نیکی کی راہ میں موت دے ۔ یہ حسن خاتمہ کی علامت ہے ، اللہ کی رحمت سے امید کرتے ہوئے ایسی موت پر جنت کی راہ آسان ہوسکتی ہے ۔
یہاں حج کے دوران وفات ہونے سے کئی مسائل ہیں جنہیں جاننا ضروری ہے ۔ سب سے اہم سوال یہ ہے کہ اگر کسی پر حج فرض تھا ، اللہ کی توفیق سے  وہ حج کی ادائیگی کے لئے گھر سے نکل پڑا تھا اور مکہ پہنچ کر حج کی ادائیگی کررہاتھا کہ اسی دوران اس کی وفات ہوگئی تو کیا اس کے ورثاء پروفات پانے والے کے مال سے  اس حج کی قضا واجب ہے ؟ اور اس کے غسل وکفن کا کیا طریقہ ہے ؟
اس کا جواب یہ ہے کہ جو دوران حج وفات پاجائے اس کی بڑی فضیلت ہے ایسے شخص کی طرف سے قضا کا حکم شریعت میں نہیں ملتا۔ اللہ تعالی نے اس کی زندگی میں جتنا عمل کرنا مقدر کیا تھا اتنا کرلیا اور جتنے کی نیت کی تھی اس کا مکمل اجر ملے گا۔ اللہ اپنے بندوں پر بڑا مہربان ہے ۔ بخاری ومسلم میں حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے انہوں نے کہا:
بينَا رجلٌ واقفٌ مع النبيِّ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ بعَرَفَةَ ، إذْ وَقَعَ عن راحلتِهِ فَوَقَصَتْهُ ، أو قال فأَقْعَصَتْهُ ، فقالَ النبيُّ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ : اغْسِلوهُ بماءٍ وسِدْرٍ ، وكَفِّنُوهُ في ثَوْبَيْنِ ، أو قالَ : ثَوْبَيْهِ ، ولا تُحَنِّطُوهُ ، ولا تُخَمِّروا رأسَهُ ، فإنَّ اللهَ يبْعَثُهُ يومَ القيامةِ يُلَبِّي .( صحيح البخاري:1849)
ترجمہ: میدان عرفات میں ایک شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ٹھہرا ہوا تھا کہ اپنی اونٹنی سے گرپڑا اور اس اونٹنی نے اس کی گردن توڑ ڈالی، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پانی اور بیری کے پتوں سے اسے غسل دو اوراحرام ہی کے دو کپڑوں کا کفن دو لیکن خوشبو نہ لگانا نہ اس کا سر چھپانا کیوں کہ اللہ تعالیٰ قیامت میں اسے لبیک کہتے ہوئے اٹھائے گا۔
اس حدیث کی روشنی میں دوران حج وفات پانے والے کو بیری ، پانی اور غیرخوشبو والے صابون سے غسل دیا جائے گااور احرام کے کپڑے میں ہی کفن دیا جائے گا ۔ نہ اس کا بال کاٹاجائے گا، نہ اس کا ناخن کاٹا جائے گا اور نہ ہی اسے خوشبو لگائی جائے گی ۔ محرم کی طرح اس کا سر بھی کھلارہے گا اور کھلے سر، ایک چادر، ایک ازارمیں نماز جنازہ پڑھ کر دفن کردیا جائے گا۔ یہ اس بات کی علامت ہے کہ یہ حاجی ہے ، قیامت میں اسی حالت میں تلبیہ پکارتا ہوا اٹھایا جائے گا۔ ہاں اگر مرنے والی عورت ہو تو  اس کا سر وچہرہ سمیت مکمل بدن ڈھانپا جائے گا ۔اور چونکہ اس حدیث میں یا دیگر کسی حدیث میں دوران حج وفات پانے والے میت کی طرف سے قضا کا حکم نہیں ہے اس لئے اس کی طرف سے قضا کرنا ضروری نہیں ہے ، نہ اسے اتمام کی ضرورت ہے اور نہ کوئی فدیہ یا کفارہ ہے ۔  اگر اللہ نے میت کو مال  کی فراوانی سے نوازا ہے اور اس کے ورثاءمیں سے کوئی  قضا کے طور پر حج کرلے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے بشرطیکہ حج قضا کرنے والا پہلے اپنا حج کرچکا ہو۔
مزید چند مسائل
٭ اگر میت نے وصیت کی تھی کہ اگر میں حج نہ کرسکا تو میری جانب سے میرے ورثاء حج کریں تو پھر میت کے وارث پراس کی طرف سے حج کرنا واجب ہے ۔
٭ جس نے حج کی نیت کی تھی مگر حج کا احرام باندھنے سے پہلے وفات پاگیا تو اس کا حج باقی ہے جسے اس کا وارث ادا کرے گا لیکن نیت کا ثواب اللہ کی طرف سے اسے ملے گا۔
٭ میت کے ذمہ قرض ہو اور وصیت بھی کی ہو تو پہلے قرض ادا کیا جائے گا پھر وصیت کا نفاذ عمل میں آئے گا۔
٭ اسی طرح وہ شخص جسے اللہ نے حج کرنے کی طاقت دی تھی مگرکسی وجہ سے  وہ حج نہ کرسکا، نہ حج کی نیت کرسکااور بغیر حج کے وفات پاگیا تو میت کے ترکہ میں سے کسی دیندار شخص کو پیسہ دے کرحج کرایا جائے گاخواہ حج کی وصیت کی ہو یا نہ کی ہو۔
٭  اگر کوئی میت طاقت نہ ہونے کی وجہ سے زندگی میں حج نہ کرسکا تھا تو اس کی مالدار اولادفوت شدہ  والدین کی طرف سےحج وعمرہ کرسکتے ہیں ۔
٭  دوران حج وفات پانے والے کو شہید کہنے کی صریح دلیل نہیں ملتی مگر یہ حسن خاتمہ کی علامت ہے اور افضل اعمال میں سے ہے اس لئے بڑے اجروثواب کی امید ہے جیساکہ نبی ﷺ کا فرمان اوپر گزرا ہے اور ایک یہ بھی فرمان ہے :
من خرج حاجًّا فمات ؛ كتب اللهُ له أجرَ الحاجِّ إلى يومِ القيامةِ (صحيح الترغيب:1267)
ترجمہ: جو حج کے لئے نکلتا ہے اور وفات پاجاتا ہے تو اللہ اسے قیامت کے دن حج کرنے والے کے بربر ثواب دے گا۔
٭ گوکہ میت کی لاش ایک ملک سے دوسرے میں  منتقل کرکے دفن کی جاسکتی ہے مگر یہاں معاملہ عام میت کا نہیں ہے بلکہ محرم کا ہے جس کا سر کھلا ہوتا ہے ایسے میت کو  دوسرے ملک میں منتقل نہ کرنا بہتر ہے ۔ نبی ﷺ نے شہداء کی لاشیں منتقل نہیں کی ۔
٭ حاجیوں میں ایک رواج عام ہے وہ اپنے گھروں سے کفن لیکر چلتے ہیں کہ کہیں موت آجائے تو اس میں کفن دے دیا جائے ، ایسا کرنے کی کوئی سنت رسول اللہ ﷺ اور آپ کے اصحاب سے منقول نہیں ہے لہذا اس عمل کو چھوڑ دینا چاہئے اور حاجیوں کا کفن تو احرام کا کپڑا ہے ۔
٭ آخری بات حاج وہ ہے جس نے حج کا احرام باندھ لیا مگر جس نے ابھی احرام نہیں باندھا صرف حج کا ارادہ یا  نیت کی ہے تو وہ حاج نہیں ہے مگر اللہ تعالی نیت کا بھی پورا ثواب دیتا ہے ۔

مکمل تحریر >>

Wednesday, August 16, 2017

چاند گرہن کی نماز پہ رضا اکیڈمی کا اعتراض اور اس کا جواب

چاند گرہن کی نماز پہ رضا اکیڈمی کا اعتراض اور اس کا جواب

م ا سلفی /طائف

شدت پسند رضا خوانی تنظیم "رضا اکیڈمی "  کے شکیل احمد سبحانی نے  یہ اعتراض ہے کہ چاند گرہن کی نماز باجماعت  کا ثبوت کہاں ہے ؟ کیا یہ بدعت نہیں ؟
دراصل یہ اعتراض مالیگاؤں کے موتی پورہ مسجد میں چاند گرہن کی نماز باجماعت اعلان کرنے پر ہواہے ۔ معترض نے پہلے اہل حدیثوں کو اردو اور عربی زبان نہ جاننے کا طعنہ دیا ہے اور مثال میں ڈاکٹر ذاکر نائک صاحب کا نا م پیش کیا ہے ۔
میں اعتراض کا جواب ہمدردی  کی خاطر دے رہاہوں نہ کہ مجھے شکیل احمد سبحانی سے کوئی ذاتی رنجش ہے ، میں انہیں جانتا بھی نہیں ۔ زبان کا طعنہ دینا ایسا ہی ہے جیسے کوئی بھکاری مالدار کا کھاکر اسے ہی بھکاری کا طعنہ دے ۔ عربی زبان تو قادریوں اور رضاخوانیوں نے ہم سے سیکھی ہے ، سب کو معلوم ہے بریلوی احمدرضا خان کی پیداوار ہے اور اہل حدیث، رسول اور اصحاب رسول  کے منہج پر رسول اللہ ﷺ کے زمانے سے ہیں ۔ قرآن سمجھنا اور سمجھانا ، حدیث سمجھنا اور سمجھنا اہل حدیث جماعت کا سدا سے طرہ امتیاز رہا ہے ، رائے وقیاس کے پیچھے چلنے والوں اور لوگوں کے اقوال کی تقلید کرنے والوں کا کام نہ قرآن فہمی ، نہ فہم حدیث رہی پھر یہ کیسے اہل حدیث کو عربی زبان کا طعنہ دینے لگے؟ ۔ اور ڈاکٹر ذاکر نائیک صاحب کو اردو کا طعنہ دینے سے پہلے ان کی انگریزی زبان نہیں یاد آئی ، ایک ہندوستانی ہوکر انگریزی زبان میں جنہوں نے ڈاکٹر ولیم کو پانی پلادیا، رضاخوانیوں کی پوری نسل جو گزرچکی سو گزرچکی،جو آنے والی ہے اسلام کے لئے ایسا کارنامہ انجام دینا لوہے کے جنے چبانے کے مترادف ہے ۔ یہ ایک جادو ہی کہیں گے کہ جن کی اصل زبان انگریزی ہو (اصل اس لئے کہ انہوں نے وہی زبان ہی پڑھی اور سیکھی ہے)انہوں نے انگریزی دانوں کے علاوہ اردو اور ہندی طبقہ کو بھی  بطور خاص غیرمسلموں کواپنے علم سے ایسا سیراب کیا کہ اس کی نظیر ہندوستان کی تاریخ میں نہیں ملتی ۔ ان کے سامنے رضاخوانی کا اعلی سے اعلی حضرت ، پہاڑ کے نیچے چونٹی کے مثل ہے۔
نماز کسوف سے متعلق رضاخوانی کا سوال ہے کہ  غیر مقلدین قرآن و حدیث کے احکامات کے مطابق نماز کسوف کا اہتمام کر رہے ہیں
یا اپنے دل دماغ سے ایک بدعت کو جنم دے کر کبھی اسے سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کہہ رہے ہیں اور
کبھی فرض کفایہ قرار دے رہے ہیں ۔۔۔۔۔۔
غیر مقلد علماء و مفتیوں سے میرا مطالبہ ہے کہ وہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی ایسی حدیث پاک پیش کریں جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےچاند گہن لگنے پر جماعت کے ساتھ نماز کسوف پڑھنے کی تعلیم اور تاکید مسلمانوں کو دی ہو ۔۔۔۔۔۔۔
اسی طرح یہ بھی بتائیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ ء پاک میں کتنی مرتبہ چاند گہن واقع ہوا اور حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے کتنی مرتبہ چاند گہن کے وقت کسوف کی نماز جماعت کے ساتھ ادا فرمائی ۔۔۔۔۔۔۔۔ ؟
جواب : نبی ﷺ کے زمانے سے سورج گرہن ہوا اور آپﷺ نے لوگوں کو سورج گرہن کی نماز پڑھائی ہے ۔ بخاری شریف کی حدیث مع سند ومتن دیکھیں :
حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عَوْنٍ قَالَ حَدَّثَنَا خَالِدٌ عَنْ يُونُسَ عَنْ الْحَسَنِ عَنْ أَبِي بَكْرَةَ قَالَ كُنَّا عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَانْكَسَفَتْ الشَّمْسُ فَقَامَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَجُرُّ رِدَاءَهُ حَتَّى دَخَلَ الْمَسْجِدَ فَدَخَلْنَا فَصَلَّى بِنَا رَكْعَتَيْنِ حَتَّى انْجَلَتْ الشَّمْسُ فَقَالَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ لَا يَنْكَسِفَانِ لِمَوْتِ أَحَدٍ فَإِذَا رَأَيْتُمُوهُمَا فَصَلُّوا وَادْعُوا حَتَّى يُكْشَفَ مَا بِكُمْ(صحیح البخاری: 1040)
ترجمہ: ہم سے عمرو بن عون نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے خالد بن عبد اللہ نے یونس سے بیان کیا، ان سے امام حسن بصری نے بیان کیا، ان سے ابو بکرہ نفیع بن حارث رضی اللہ عنہ نے کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر تھے کہ سورج کوگرہن لگنا شروع ہوا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ( اٹھ کر جلدی میں ) چادر گھسیٹتے ہوئے مسجد میں گئے۔ ساتھ ہی ہم بھی گئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں دو رکعت نماز پڑھائی تاآنکہ سورج صاف ہو گیا۔ پھر آپ نے فرمایا کہ سورج اور چاند میں گرہن کسی کی موت وہلاکت سے نہیں لگتا لیکن جب تم گرہن دیکھو تو اس وقت نماز اور دعا کرتے رہو جب تک گرہن کھل نہ جائے۔
معترض کے کئی سوالوں کا جواب اس ایک حدیث میں موجود ہے ۔
نماز کسوف نبی ﷺ کی سنت ہے ، نبی ﷺ کے زمانے میں سورج گرہن ہوا اور آپ ﷺ نے اس کی نماز صحابہ کو جماعت سے پڑھائی اور آپ نے سورج اور چاند گرہن لگنے پہ نماز پڑھنے کا حکم دیا۔یہ حدیث چاند گرہن کے لئے باجماعت نماز پڑھنے پر بھی دلیل ہے یعنی جو حکم سورج گرہن کا ہے وہی حکم چاند گرہن کا بھی ہے کیونکہ آپ ﷺ نے سورج گرہن کی نماز کے ساتھ چاند گرہن کو ملایا ہے اور اسی طرح نماز پڑھنے کا حکم دیا ہے ۔
مجھے حیرت ہے ان لوگوں پر اہل حدیث کا بچہ بچہ اکثر بنیادی مسائل میں  حدیث مصطفی ﷺسے واقف ہے مگر رضا خوانیوں کے بڑے بڑوں کو فاتحہ خوانی ، پیری مریدی ، غیراللہ کے لئے نذرونیاز، قبروں کا طواف ، چراغاں ، قبروں کی تجارت سے کبھی فرصت نہیں ملی کہ حدیث رسول ﷺ کا کچھ علم حاصل کرلیں ۔ نبی ﷺ کے نام  اور آپ پر خودساختہ  درودسے لوگوں کو دھوکہ دینے والے  رضاخوانی اس قدر حدیث رسول ﷺ سے کورے ہوتے ہیں مجھے معلوم نہیں تھا۔
جہاں تک سوال فرض کفایہ کا ہے تو یہ کتب احادیث میں مذکور نماز کسوف  وخسوف سے متعلق احادیث سے  اہل علم کے استدلال پرموقوف ہے یہ مختلف ہوسکتا ہے اس لئے بعض کے نزدیک واجب ، بعض کے نزدیک سنت مؤکدہ اور بعض کے نزدیک فرض کفایہ ہے ۔
ایک اور بات ذہن نشیں کرلیں کہ کسی عمل کے ثبوت کےلئے فعلی حدیث ہونا ہی ضروری نہیں ہے اور نہ ہی اس عمل کا باربار متعدد احادیث سےثابت  ہونا ضروری ہےبلکہ  دلیل کے لئے ایک  صحیح حدیث کافی ہے خواہ قولی ہو یا فعلی ۔ 
مکمل تحریر >>