Friday, June 2, 2017

رمضان کے بعد ہماری عملی زندگی

رمضان کے بعد ہماری عملی زندگی
مقبول احمدسلفی
ایک مقدس ،پربہاراورنیکیوں سے لبریزمہینہ جیسے لگا پل بھرمیں ہم سے رخصت ہوگیا ۔اس عظیم الاجرمہینے سے اجتہاد کرنے والا حسب جہدوتوفیق نیکیوں سے اپنا دامن بھرتارہا۔ اب وہ دن نہیں رہے کہ نیکیاں لوٹ سکیں، وہ لمحے رخصت ہوگئے جورب کو بیحد عزیزتھے۔مگریاد رکھیں اللہ تعالی کا کرم عام ہے وہ کبھی سخاوت وکرم کا دروازہ بند نہیں کرتا۔ مانگنے والے ہمیشہ پاتے رہیں گے، التجاکرنے والے سدا امیدبرآ ہوتےرہیں گے ۔ یہاں ہمیں سوچنا یہ ہے کہ جب واقعی رب کریم ہے ، اس کا کرم عام ہے، اس پر ہمارا ایمان ہے تو پھراس کے فیض عام سے کیسے ہمیشہ لطف اندوزہواجائے؟
ہمیں یاد ہے کہ استقبال رمضان کے لئے ہم نےایک بہترین لائحہ عمل مرتب کیاتھا۔ وہی لائحہ عمل بعدِرمضان بھی مرتب کرنے کی ضرورت ہے تاکہ زندگی کے اوقات آئین اسلام کے مطابق گذرتے رہیں ۔ دراصل زندگی میں وہی لوگ ناکام ہوتے ہیں جن کا کوئی لائحہ عمل نہیں ہوتا۔ اسلام کا آئین ہمیں صبح سے شام تک اور رات سے دن تک چوبیس گھنٹے کا ایک دستور دیتا ہے جس کے مطابق بندہ صبح صادق میں ہی بیدار ہوکررب کی بندگی وذکر کرکے توکل واعتماد کے ساتھ کسب معاش کے لئے اللہ کی زمین میں پھیل جاتاہے پھر مقدر کی روزی لیکر واپس ہوجاتاہے ۔ سونے سے پہلے بھی رب کی بندگی بجالاتاہے اور اٹھ کر بھی پہلے رب کی بندگی کرتاہے پھر زندگی کے لئے سوچتاہے ۔ یہ شب وروز کی اسلامی طرززندگی انسان کو رب کی رضامندی کے ساتھ دنیا کی خیروبھلائی سے بھی پوری طرح لطف اندوزہونے کا موقع میسر کرتاہے ۔
رمضان ہمارے لئے انعام الہی بن کرآیاتھا، وہ اب دوبارہ نصیب ہوپائے گا نہیں کہ یہ رب کی توفیق پہ منحصر ہے لیکن رب کے فرمان میں لکھاہے، اس کی نعمت ملنے پہ شکرگذاری سے وہ نعمت دوبارہ مل سکتی ہے۔
وَإِذْ تَأَذَّنَ رَبُّكُمْ لَئِن شَكَرْتُمْ لَأَزِيدَنَّكُمْ ۖ وَلَئِن كَفَرْتُمْ إِنَّ عَذَابِي لَشَدِيدٌ (ابراہیم: ۷)
ترجمہ: اور یاد رکھو، تمہارے رب نے خبردار کر دیا تھا کہ اگر شکر گزار بنو گے تو میں تم کو اور زیادہ نوازوں گا اور اگر کفران نعمت کرو گے تو میری سزا بہت سخت ہے۔
یہ حق بھی ہے کہ نعمت پہ شکرگذاری کریں ورنہ ناقدری سے کفران نعمت کا شکار ہوجائیں گے اور اللہ کی پکڑ کے ساتھ زوال نعمت کے سزاوار ٹھہریں گے ۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
فَاذْكُرُونِي أَذْكُرْكُمْ وَاشْكُرُوا لِي وَلَا تَكْفُرُونِ (البقرہ: ۱۵۲)
ترجمہ: لہٰذا تم مجھے یاد رکھو، میں تمہیں یاد رکھوں گا اور میرا شکر ادا کرو، کفران نعمت نہ کرو ۔
نیز فرمان الہی ہے:
مَّا يَفْعَلُ اللَّهُ بِعَذَابِكُمْ إِن شَكَرْتُمْ وَآمَنتُمْ ۚ وَكَانَ اللَّهُ شَاكِرًا عَلِيمًا (النساء:147)
ترجمہ: آخر اللہ کو کیا پڑی ہے کہ تمہیں خواہ مخواہ سزا دے اگر تم شکر گزار بندے بنے رہو
اور ایمان کی روش پر چلو اللہ بڑا قدر دان ہے اور سب کے حال سے واقف ہے۔
شکرگذاری یہ ہے کہ ہم رب کی حمدوثنا بیان کریں ، اس کی نعمت کی قدردانی اور عظمت کا احساس ہمیشہ دل میں بسائے رکھیں اور جو جو نعمتیں میسرہوئیں سب کے بدلے رب کا گن گاتے پھریں۔ شکر گذاری کا سب سے اہم درجہ ہمیشہ اللہ کا ذکر کرتے رہنا ہےجس کا ذکر اللہ تعالی نے اس آیت میں کیا ہے ۔
الَّذِينَ آمَنُواْ وَتَطْمَئِنُّ قُلُوبُهُم بِذِكْرِ اللَّهِ أَلاَ بِذِكْرِ اللَّهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ(الرعد:28)
ترجمہ: جولوگ ایمان لائے ان کے دل اللہ کے ذکر سے اطمینان حاصل کرتے ہیں ، یاد رکھو اللہ کے ذکر سے دلوں کوتسلی حاصل ہوتی ہے۔
اللہ کے ذکر سے مراد اس کی توحید کا بیان ہے جس سے مشرکوں کے دلوں میں انقباض پیدا ہوجاتا ہے ، یا اس کی عبادت ، تلاوت قرآن ، نوافل اور دعاومناجات ہے جواہل ایمان کے دلوں کی خوراک ہے یا اس کے احکام وفرامین کی اطاعت وبجاآوری ہے جس کے بغیر اہل ایمان وتقوی بے قرار رہتے ہیں۔ (تفسیراحسن البیان)
اور اللہ کا ذکر ہی سب سے بڑا ہے ۔
اتْلُ مَا أُوحِيَ إِلَيْكَ مِنَ الْكِتَابِ وَأَقِمِ الصَّلَاةَ إِنَّ الصَّلَاةَ تَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ وَلَذِكْرُ اللَّهِ أَكْبَرُ وَاللَّهُ يَعْلَمُ مَا تَصْنَعُونَ(العنكبوت:45 ).
ترجمہ: جوکتاب اللہ کی طرف وحی کی گئی ہے اسے پڑھئے اور نماز قائم کریں ۔یقینا نماز بے
حیائی اور برائی سے روکتی ہے ، بے شک اللہ کا ذکر بہت بڑی چیز ہے ، تم جو کچھ کررہے ہواس
سے اللہ خبردارہے ۔
رمضان المبارک کا لائحہ عمل ہمیں اچھی طرح معلوم ہی ہے اسے بس دوام بخشنا ہے ۔وہی نماز، اسی طرح نفلی روزے(شش عیدی روزے،عشرہ ذی الحجہ کے روزے،صوم عرفہ، عاشورائے محرم ،ایام بیض، سومواراورجمعرات کے روزے) ،قیام اللیل، دعاومناجات،تسبیح وتہلیل،صدقہ وخیرات،تلاوت وتدبرقرآن، دروس وبیانات کی سماعت ، احکام ومسائل کی معرفت اور طاعت وبھلائی پہ محنت ومشقت مسلسل ہوتے رہنا چاہئے ۔ ان چیزوں پہ جم جانے اور تسلسل کے ساتھ قائم رہنے کا نام استقامت ہے ۔
اپنے لائحہ عمل میں استقامت لے آئیں گے تو رمضان کے فیوض وبرکات سال بھر ملتے رہیں گے ۔ استقامت ہی ایمان والوں سے مطلوب ہے ۔ اللہ جل جلالہ کا فرمان ہے:
فَاسْتَقِمْ كَمَا أُمِرْتَ [هود: 112]
ترجمہ: پس اے محمد!تم اور تمہارے وہ ساتھی جو (کفر و بغاوت سے ایمان و طاعت کی طرف) پلٹ آئے ہیں، ٹھیک ٹھیک راہ راست پر ثابت قدم رہو۔
دوسری جگہ ارشادالہی ہے:
فَاسْتَقِيمُوا إِلَيْهِ وَاسْتَغْفِرُوهُ [فصلت: 6]
ترجمہ:تم سیدھے اُسی کا رخ اختیار کرو اور اسی سے استغفار کرو۔
اس وقت زمانہ نہایت پرفتن ہے ، ایمان والوں کو اپنا ایمان بچانا اور سنت کے مطابق زندگی
گذارنا بہت دشوار ہوگیاہے ۔ صبح میں مومن شام میں کافر ایسامنظر برپاہوگیاہے۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
بَادِرُوا بِالْأَعْمَالِ فِتَنًا كَقِطَعِ اللَّيْلِ الْمُظْلِمِ يُصْبِحُ الرَّجُلُ مُؤْمِنًا وَيُمْسِي كَافِرًا أَوْ يُمْسِي مُؤْمِنًا وَيُصْبِحُ كَافِرًا يَبِيعُ دِينَهُ بِعَرَضٍ مِنْ الدُّنْيَا . ( صحيح مسلم:118)
ترجمہ: نیک اعمال کرنے میں جلدی کیا کرو۔ فتنے رات کی تہہ در تہہ تاریکی کی طرح امڈتے چلے آئیں گے۔کئی مومن بھی صبح کے وقت ایمان کی حالت میں ہوں گے اور شام کفر کے عالم میں کریں گے۔ دنیا کی حقیر متاع کے لیے دین کا سودا کرلیں گے۔
ایسے حالات میں دین پہ استقامت ہی ہمارے ایمان کو شروفساد اور فتنہ زمانہ سے محفوظ کرسکتاہے ۔ مجھے نبی ﷺ کا ایک فرمان یاد آرہاہے ۔
عن سفيان بن عبد الله رضي الله عنه ، قال : قلت : يا رسول الله ، قل لي في الإسلام قولا لا أسأل عنه أحدا غيرك ، قال : قل آمنت بالله ، ثم استقم (رواه مسلم ح :38).
ترجمہ: سفیان بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں سے کہا اے اللہ کے رسولﷺ ! مجھے اسلام کی ایک ایسی بات بتلائیں کہ پھرآپ کے بعد کسی سے اس کے متعلق سوال نہ کروں۔تو آپ ﷺ نے فرمایا: کہو میرا رب اللہ ہے اور اسی پر قائم رہو۔
اگرواقعی ہم استقامت کی راہ اختیار کریں گے تو اللہ تعالی اس کے بدلے ہمیں جنت نصیب کرے گا۔
إِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللَّهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلَائِكَةُ أَلَّا تَخَافُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَأَبْشِرُوا بِالْجَنَّةِ الَّتِي كُنتُمْ تُوعَدُونَ ﴿فصلت: 30﴾
ترجمہ: (واقعی) جن لوگوں نے کہا کہ ہمارا پروردگار اللہ ہے پھر اسی پر قائم رہے ان کے پاس فرشتے (یہ کہتے ہوئے آتے ہیں کہ تم کچھ بھی اندیشہ اور غم نہ کرو (بلکہ) اس جنت کی بشارت سن لو جس کا تم وعده دیئے گئے ہو۔
استقامت سے ہمیں خودبخود برائی سے چھٹکارا ملے گا۔ شیطان ہم سے دور بھاگےگا ،کبھی اس کے بہکاوے کا شکار نہیں ہوں گے ، اوصاف رذیلہ (غیبت،دھوکہ،عیاری،بدقماشی،بے ایمانی وغیرہ) سے نجات ملے گی ، ظلم وبغاوت سے دل میں تنفر پیداہوگا۔

اللہ تعالی سے دعاہے رمضان المبارک کے فیوض وبرکات سے ہمارا دامن بھردے ،سابقہ تمام گناہوں سے پاک کردے، دنیا وآخرت کی بھلائیوں سے مالامال کردے اور ہمیشہ ہمیں دین پر استقامت نصیب فرمائے ۔ آمین


0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کوئی تبصرہ کرنا چاہتے ہیں تو مثبت انداز میں تبصرہ کر سکتے ہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔