نماز وتر اور
اس کے مسائل
مقبول احمدسلفی
مقبول احمدسلفی
٭ وتر کی فضیلت :
عبادت قرب الہی کا
ذریعہ ہے اور وترعبادتوں میں سے قرب الہی کا عظیم ذریعہ ہے ۔ یہ ایک مستقل
نماز ہے جو رات میں
عشاء اور فجر کے درمیان ادا
کی جاتی ہے۔ اس کی فضیلت میں متعدد احادیث ملتی ہیں۔ مثلا
عَنْ جَابِرٍ رَضِيَ اللهُ
عَنهُ قالَ: قالَ رَسُولُ الله صلى الله عليه وسلم: مَنْ خَافَ أنْ لا يَقُومَ
مِنْ آخِرِ اللَّيْلِ فَلْيُوتِرْ أوَّلَهُ، وَمَنْ طَمِعَ أنْ يَقُومَ آخِرَهُ
فَلْيُوتِرْ آخِرَ اللَّيْلِ، فَإِنَّ صَلاةَ آخِرِ اللَّيْلِ مَشْهُودَةٌ،
وَذَلِكَ أفْضَلُ. (صحيح مسلم:755)
ترجمہ : نبی کریم صلی اللہ
علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص آخر رات میں نہ اٹھ سکے تو وہ اول شب وتر پڑھ لے اور
جو آخر رات اٹھ سکے وہ آخر رات وتر پڑھے کیونکہ آخر رات کی نماز افضل ہے۔
وإنَّ اللهَ وِترٌ يحبُّ
الوِترَ(صحيح مسلم:2677)
ترجمہ:اور اللہ وتر ہے اور
وتر کو پسند کرتا ہے۔
٭ وتر کی نمازکاحکم:
یہ نماز حنفیہ کے نزدیک واجب
ہے جبکہ صحیح بات یہ ہے کہ سنت مؤکدہ ہے ۔ دلیل :
عن عليٍّ قالَ : الوِترُ
ليسَ بِحَتمٍ كَهيئةِ الصَّلاةِ المَكتوبةِ ، ولَكن سنَّةٌ سنَّها رسولُ اللَّهِ
صلَّى اللَّهُ عليهِ وسلَّمَ( صحيح الترمذي:454)
ترجمہ: وتر فرضی نماز کی طرح
حتمی (واجب) نہیں ہے بلکہ یہ تو سنت ہے جسے رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے جاری
فرمایا تھا۔
٭ وتر کی نماز کا وقت:
اس کا وقت عشاء کی نماز کے
بعد سے لیکر فجر کی نماز تک ہے ۔ دلیل :
إنَّ اللهَ زادَكم صلاةً ، و
هي الوترُ ، فصلوها بين صلاةِ العشاءِ إلى صلاةِ الفجرِ( السلسلة الصحيحة:108)
ترجمہ: نبی ﷺ نے فرمایا: بے
شک اللہ تعالی نے تمہارے اوپر ایک نماز زیادہ کی ہے جس کا نام وتر ہے ۔ اس وتر کو
نماز عشاء اور فجر کی نماز کے درمیان پڑھو۔
٭ وتر کا افضل وقت :
اس نماز کو تاخیر سے ادا
کرنا زیادہ افضل ہے جس کو جاگنے پہ اعتماد ہو۔
عَنْ جَابِرٍ رَضِيَ اللهُ
عَنهُ قالَ: قالَ رَسُولُ الله صلى الله عليه وسلم: «مَنْ خَافَ أنْ لا يَقُومَ
مِنْ آخِرِ اللَّيْلِ فَلْيُوتِرْ أوَّلَهُ، وَمَنْ طَمِعَ أنْ يَقُومَ آخِرَهُ
فَلْيُوتِرْ آخِرَ اللَّيْلِ، فَإِنَّ صَلاةَ آخِرِ اللَّيْلِ مَشْهُودَةٌ،
وَذَلِكَ أفْضَلُ». (صحيح مسلم:755)
ترجمہ : نبی کریم صلی اللہ
علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص آخر رات میں نہ اٹھ سکے تو وہ اول شب وتر پڑھ لے اور
جو آخر رات اٹھ سکے وہ آخر رات وتر پڑھے کیونکہ آخر رات کی نماز
افضل ہے۔
٭ وترکی رکعات :
وتر کی کم از کم ایک رکعت ہے
اور نبی ﷺ سے گیارہ رکعات تک پڑھنا ثابت ہے ۔ جو لوگ ایک رکعت وترکا انکار کرتے
ہیںوہ سنت کا انکار کرتے ہیں ۔
ایک رکعت پڑھنے کے بہت سے
دلائل ہیں انمیں سے چنددیکھیں:
الوترُ ركعةٌ من آخرِ
الليلِ(صحيح مسلم:752)
ترجمہ: نبی کریم صلی اللہ
علیہ وسلم نے فرمایا: وتر ایک رکعت ہے رات کے آخری حصہ میں سے۔
الوِترُ حقٌّ ، فمن أحبَّ
أنْ يوترَ بخَمسِ ركعاتٍ ، فليفعلْ ، ومن أحبَّ أنْ يوترَ بثلاثٍ ، فليفعلْ ومن
أحبَّ أنْ يوترَ بواحدةٍ ، فليفعلْ .(صحيح النسائي:1711)
ترجمہ: ‘رسول اللہ صلی اللہ
علیہ وسلم نے فرمایا: وتر ہر مسلمان پر حق ہے پس جسکی مرضی ہو پانچ وتر پڑھے اور
جس کی مرضی ہو تین وتر پڑھے اور جس کی مرضی ہو ایک وتر پڑھے۔
کئی صحابہ کرام سے بھی ایک
رکعت پڑھنے کا ثبوت ملتا ہے ، ان میں ابوموسی اشعری رضی اللہ عنہ، عبداللہ بن عمر
رضی اللہ عنہما،امیر معاویہ رضی اللہ عنہ ،سعد ابن ابی وقاص رضی اللہ عنہ اورعثمان
رضی اللہ عنہ۔
گیارہ رکعت پڑھنے کی دلیل :
كان رسولُ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ يصلِّي فيما بين أن يفرغَ من صلاةِ
العشاءِ ( وهي التي يدعو الناسُ العتمَةَ ) إلى الفجرِ ، إحدى عشرةَ ركعةً .
يسلِّمُ بين كلِّ
ركعتَينِ . ويوتر بواحدةٍ
.(صحيح مسلم:736)
ترجمہ : رسول اللہ ﷺ عشاء کی
نماز سے فارغ ہونے کے بعد صبح تک گیارہ رکعات پڑھتے تھے اور اسی نماز کو لوگ عتمہ
بھی کہتے تھے، آپ ہر دو رکعات پر سلام پھیرتے تھے اور ایک وتر پڑھتے تھے۔
رات کی نماز دودو رکعت ہے
اگر کسی کو طاقت ہو تو جتنا چاہے دو دو کرکے پڑھ سکتا ہے ، آخر میں ایک وتر پڑھ
لے۔
صلاةُ الليلِ مثنى مثنى ،
فإذا خشي أحدُكم الصبحَ صلى ركعةً واحدةً ، توتِرُ له ما قد صلى.(صحيح البخاري:990
و صحيح مسلم:749)
ترجمہ : رات کی نماز دو دو
رکعت ہے، اور اگر تم میں کسی کو صبح ہوجانے کا اندیشہ ہو، اور وہ ایک رکعت پڑھ لے،
تو یہ اس کی پڑھی ہوئی نماز کے لئے وتر ہوجائیگی۔
تین رکعت وتر پڑھنے کا طریقہ :
اس کے دو طریقے ہیں ۔
پہلا طریقہ : تین رکعت
ایک تشہد سے پڑھے ۔ دلیل :الوِترُ حقٌّ ، فمن أحبَّ أنْ يوترَ بخَمسِ ركعاتٍ ،
فليفعلْ ، ومن أحبَّ أنْ يوترَ بثلاثٍ ، فليفعلْ ومن أحبَّ أنْ يوترَ بواحدةٍ ،
فليفعلْ .(صحيح النسائي:1711)
ترجمہ: ‘رسول اللہ صلی اللہ
علیہ وسلم نے فرمایا: وتر ہر مسلمان پر حق ہے پس جسکی مرضی ہو پانچ وتر پڑھے اور
جس کی مرضی ہو تین وتر پڑھے اور جس کی مرضی ہو ایک وتر پڑھے۔
مسلسل تین رکعت ادا کرے یعنی
دو رکعت پہ تشہد کے لئے نہ بیٹھے ۔ دلیل : لا توتِروا بثلاثٍ ولا تُشبِّهوا
الوِترَ بثلاثٍ(عون المعبود)
ترجمہ: تین رکعت وتر نہ پڑھو
اوروترکو(مغرب کی) تین رکعت سے مشابہت نہ کرو ۔
اس حدیث کو صاحب عون المعبود
نے شیخین کی شرط پہ بتلایا ہے ۔ (4/176 )
مغرب کی مشابہت سے دو طریقوں
سے بچا جا سکتا ہے ، ایک یہ کہ تین رکعت اکٹھی پڑھی جائیں،بیچ میں تشہد نہ کیا
جائے دوسرا طریقه یہ ہے کہ دو رکعت الگ پڑھ کر سلام پھیر دیا جائے ، پھر ایک رکعت
الگ پڑھی جائے ۔ اس کی دلیل نیچے ذکر کی جارہی ہے ۔
تین وتر پڑھنے کا دوسرا
طریقہ :
دو رکعت ایک سلام سے پڑھ کر
پھر ایک سلام سے ایک رکعت پڑھی جائے ۔ دلیل :
كان يُوتِرُ بركعةٍ ، و كان
يتكلَّمُ بين الرَّكعتَيْن والرَّكعةِ(السلسلة الصحيحة:2962)
ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ
علیہ وسلم ایک رکعت وتر پڑھتے (آخری ) دو رکعتوں اور ایک رکعت کے درمیان (سلام
پھیر کر ) بات چیت بھی کرتے۔
٭ وتر کی قرات:
نبی ﷺ وتر کی پہلی رکعت میں
"سبح اسم ربك الأعلى " دوسری رکعت میں "قل ياأيها الكافرون"
اورتیسری رکعت میں "قل هو الله أحد" پڑھتے تھے ۔
كانَ رسولُ اللَّهِ يقرأُ في
الوترِ ب سبِّحِ اسمَ ربِّكَ الأعلى وفي الرَّكعةِ الثَّانيةِ ب قل يا أيُّها
الكافرونَ وفي الثَّالثةِ ب قل هوَ اللَّهُ أحدٌ ولا يسلِّمُ إلَّا في آخرِهنَّ
ويقولُ يعني بعدَ التَّسليمِ
سبحانَ الملِك القدُّوسِ
ثلاثًا( صحيح النسائي:1700)
ترجمہ: نبی ﷺ وتر میں"
سبِّحِ اسمَ ربِّكَ الأعلى" دوسری رکعت میں " قل يا أيُّها
الكافرونَ" اور تیسری میں "قل هوَ اللَّهُ أحدٌ" پڑھتے تھے اور سب
سے اخیر میں سلام پھیرتے تھے اور سلام کے بعد تین مرتبہ کہتے "سبحانَ الملِك
القدُّوسِ"۔
٭ دعائے قنوت کا حکم :
قنوت وتر واجب نہیں ، مشروع
ہے ۔ آپ ﷺ کی قنوت وتر کے متعلق وارد ہے ۔
كانَ يوترُ فيَقنُتُ قبلَ
الرُّكوعِ(صحيح ابن ماجه:978)
ترجمہ:رسول اللہﷺ وتر پڑھتے
تو رکوع سے پہلے قنوت کرتے تھے۔
٭دعائے قنوت کے صیغے:
اللَّهمَّ اهدِني فيمن هديتَ
وعافِني فيمن عافيتَ وتولَّني فيمن تولَّيتَ وبارِك لي فيما أعطيتَ وقني شرَّ ما
قضيتَ فإنَّكَ تقضي ولا يُقضى عليكَ وإنَّهُ لا يذلُّ من واليتَ تباركتَ ربَّنا
وتعاليتَ(صحيح الترمذي:464)
٭دعائے قنوت بصیغہ جمع بھی
حدیث میں وارد ہے۔
٭دعائے قنوت میں زیادتی کرنا
بھی جائز ہے۔ علامہ البانی ؒ لکھتے ہیں:
ولا بأس من الزيادة عليه
بلعن الكفرة ومن الصلاة على النبي صلى الله عليه وسلم، والدعاء للمسلمين . (قيام
رمضان للألباني:31)
ترجمہ: دعا میں زیادتی کرنے
میں کوئی حرج نہیں ہے کافروں پہ لعنت، نبی ﷺ پہ درود اور مسلمانوں کے لئے دعا کی
غرض سے ۔
٭ قنوت وتر رکوع سے پہلے اور
بعد میں دونوں طرح جائز ہے ۔
٭ دعائے قنوت میں ہاتھ
اٹھایا جاسکتا ہے جیسے عام دعاؤں میں اٹھایا جاتا ہے ۔ بعض لوگوں نے کہا کہ احادیث
میں ہاتھ اٹھانے کا ذکر نہیں اس لئے ہاتھ اٹھانا خلاف سنت ہے ۔ یہ بات صحیح نہیں
ہے ۔ متعدد صحابہ اور تابعین سے وتر کی دعا میں ہاتھ اٹھانا ثابت ہے جن میں
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما،عمر رضی اللہ عنہ،ابوہریرہ رضی اللہ عنہ،ابو
قلابہ اور امام مکحولؒ وغیرہم۔
عبدالرحمان مبارک پوری صاحب
لکھتے ہیں کہ ظاہرا دعا کی طرح اس میں بھی ہاتھ اٹھانے کا ثبوت ملتا ہے ۔(تحفة
الأحوذی شرح ترمذی: 1/343)
٭وتر کی نمازاکیلے اور
باجماعت سفروحضردونوں میں ادا کی جاسکتی ہیں جیساکہ سنت سے ثابت ہے ۔
٭ایک رات میں دو وتر:
ایک رات میں ایک مرتبہ ہی
وتر پڑهنا چاہئے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لا وِترانِ في ليلةٍ(صحيح
أبي داود:1439)
کہ ایک رات میں دو بار وتر
پڑھنا جائز نہیں۔
اگر کوئی شخص ایک مرتبہ وتر
پڑھ کے سو جائے اور دوبارہ قیام کرنا چاہے تو کرسکتا ہے مگر
بعد میں وتر نہیں پڑهے
جیساکہ مذکورہ حدیث سے واضح ہے.
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم
نے فرمایا:
اجعلوا آخرَ صلاتِكم بالليلِ
وترًا.(صحيح البخاري:998ِ، صحيح مسلم:751)
یعنی رات کو اپنی آخری نماز
وتر کو بناؤ۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا
یہ فرمان وجوب کے لئے نہیں ہے.
٭ وتر کی قضا :
اگر کبھی نیند کی وجہ سے وتر
کی نماز نہ پڑھ سکے تو جب بیدار ہو وتر پڑھ لے ۔ نبی ﷺ کا فرمان ہے :
من نامَ عن وترِهِ أو نسيَهُ
فليصلِّهِ إذا ذكرَهُ(صحيح أبي داود:1431)
ترجمہ: جو وتر کی نماز سے سو
جائے یا بھول جائے تو جب یاد آئے اسے پڑھ لے ۔
٭ وتر کی نماز چھوڑنا:
وتر اور فجر کی دو سنت بہت
اہم ہیں جنہیں نبی ﷺ نے سفر و حضر میں ہمیشہ پڑھنے کا اہتمام کیا۔اس لئے ہمیں بھی
سدا اس کا اہتمام کرنا چاہئے ۔ کبھی کبھار وتر چھوٹنے کا مسئلہ نہیں ہے کیونکہ یہ
سنت مؤکدہ ہے مگر برابر چھوڑنے والا بہت سے علماء کے نزدیک ناقابل شہادت ہے ۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ
اللہ لکھتے ہیں :
الوتر سنة مؤكدة باتفاق
المسلمين، ومن أصر على تركه فإنه ترد شهادته. (الفتاوی الکبری)
کہ وتر تمام مسلمانوں کے
نزدیک متفقہ طور پر سنت مؤکدہ ہے اور جو متواتر اسے چھوڑتا ہے اس کی گواہی قبول
نہیں کی جائے گی ۔
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کوئی تبصرہ کرنا چاہتے ہیں تو مثبت انداز میں تبصرہ کر سکتے ہیں۔
اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔