Sunday, February 12, 2017

حضرت عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہما کی پتلی پنڈلیاں

حضرت عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہما کی پتلی پنڈلیاں

مقبول احمد سلفی
داعی مرکزالدعوۃ والارشاد(طائف)

مد
ٍ     


حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما بڑے جلیل القدر صحابی ہیں ، صحیح احادیث میں آپ کے متعلق بڑے فضائل بیان کئے گئے ہیں ۔ نبی ﷺ نے صحابہ کو حکم دیا تھا کہ قرآن چار آدمیوں سے پڑھو ان میں سب سے پہلے آپ کا ہی نام لیا تھا اور ایک مرتبہ بطور خاص آپ ﷺ نے کہا کہ اے ابن مسعود مجھے قرآن پڑھ کر سناؤتو انہوں نے سورہ نساء تلاوت کرکے سنائی ۔ ابن مسعودؓ کے فضائل میں آپ کی پنڈلی مبارک کی فضیلت بھی واردہے ۔ مسنداحمد کی روایت ہے ۔
عَنِ ابنِ مسعودٍ ، أنَّهُ كانَ يجتَني سواكًا منَ الأراكِ ، وَكانَ دَقيقَ السَّاقينِ ، فجَعَلتِ الرِّيحُ تَكْفؤُهُ ، فضَحِكَ القومُ منهُ ، فقالَ رسولُ اللَّهِ صلَّى اللَّهُ عليهِ وسلَّمَ : مِمَّ تضحَكونَ ؟ قالوا : يا نبيَّ اللَّهِ ، مِن دقَّةِ ساقيهِ ، فقالَ : والَّذي نَفسي بيدِهِ ، لَهُما أثقلُ في الميزانِ مِن أُحُدٍ(مسند أحمد:6/39)
ترجمہ: ابن مسعود‏ؓؓؓؓؓرضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ وہ پیلو(مسواک کے درخت) پر مسواک توڑنے چڑھے اور وہ پتلی پنڈلیوں والے تھے تو ہوا انہیں ادھر ادھر جھکانے لگی ، اس پر قوم (صحابہ) ہنسنے لگے ۔ رسول اللہ ﷺ نے پوچھا تم لوگ کس لئے ہنس رہے ہو؟ تو انہوں نے جواب دیااے اللہ کے نبی ! ان کی پنڈلیوں کی باریکی کی وجہ سے ۔ آپ ﷺ نے فرمایا: قسم ہے اس ذات کی جس کے قبصے میں میری جان ہے ، یہ دونوں پنڈلیاں میزان میں احد پہاڑ سے بھی زیادہ وزنی ہیں ۔
روایت کا حکم : یہ روایت مسند احمد کے علاوہ مجمع الزوائد وغیرہ میں متعدد طرق  سے مروی ہے ۔ احمد شاکر نے مسند احمد کی تحقیق میں اس کی سند کو صحیح کہا ہے ۔ہیثمی نے قرہ بن ایاس مزنی کے طریق سے بیان کردہ رجال کو صحیح کے رجال قرار دیا ہے ۔(مجمع الزوائد: 9/292) شیخ البانی ؒ نے اس کی سند کو حسن درجے کا بتلایا ہے ۔( ارواء الغلیل : 1/104) علامہ ابن کثیرؒ نے بھی اس کی سند کو جید وقوی کہا ہے ۔(البدایہ والنہایہ : 2/29) خلاصہ یہ ہواکہ یہ روایت قابل استدلال ہے ۔
روایت سے مستنبط اہم  مسائل
(1) مسواک سے دانت ومنہ صاف کرنا چاہے اس کے لئے درخت پرہی کیوں نہ  چڑھنا پڑے  اور مشقت کیوں نہ اٹھانی پڑے کیونکہ دوسری احادیث میں مسواک کی فضیلت بیان کی گئی ہے ۔
(2) مسواک کے لئے پیلو کی لکڑی استعمال کرنا مستحب ہے ، اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم دوسرے مسواک یا دوسری چیزوں سے دانت ومنہ نہیں صاف کرسکتے ہیں۔
(3) انسان کے موٹا ہونے سے اس کی فضیلت ظاہر نہیں ہوتی ہے ۔ بخاری کی روایت ہے ،نبی ﷺ کا فرمان ہے :
إنه ليأتي الرجلُ العظيمُ السمينُ يومَ القيامةِ ، لا يزنُ عند الله جناحَ بعوضةٍ . وقال : اقرؤوا إن شئتم : { فَلَا نُقِيمُ لَهُمْ يَوْمَ القِيَامَةِ وَزْنًا }( صحيح البخاري:4729)
ترجمہ: بلا شبہ قیامت کے دن ایک بہت بھاری بھر کم موٹا تازہ شخص آئے گا لیکن وہ اللہ کے نزدیک مچھر کے پر کے برابر بھی کوئی قدر نہیں رکھے گا اور فرمایا کہ پڑھو ۔ ” فلا نقیم لھم یوم القیمۃ وزنا “ ( قیامت کے دن ہم ان کا کوئی وزن نہ کریں گے ۔ ) ۔
(4) انسان کی کسی فطری کمزوری  یا فطری نقص کی بنیاد پر ہنسنا اللہ کی تخلیق پر ہنسنا ہے ۔ اللہ تعالی کسی کا جسم نہیں دیکھتا بلکہ اس کا دل دیکھتا ہے ۔نبی ﷺ کا فرمان ہے : إنَّ اللَّهَ لا ينظرُ إلى أجسادِكُم ، ولا إلى صورِكُم ، ولَكِن ينظرُ إلى قلوبِكُم(صحيح مسلم:2564)
ترجمہ: بے شک اللہ تمہارے جسموں اور صورتوں کو نہیں دیکھتا بلکہ تمہارے دلوں (سیرت)کو دیکھتا ہے۔
(5) اس حدیث سے ابن مسعود رضی اللہ عنہما کی فضیلت ثابت ہوتی ہے ، گوکہ انسان کی نظر میں کمزور پنڈلی والے تھے جسے عیب سمجھاجاتا ہے مگر ایمان وعمل کی وجہ سے آپ کی یہ پنڈلی قیامت کے دن  قیراط سے بڑھ کر ہے ۔
(6) اگر کوئی انسان کسی دوسرے انسان کی تضحیک کرے تو ہمارا فرض ہے کہ اسے حکمت وبصیرت کے ساتھ تنبیہ کریں جیساکہ نبی ﷺ نے  فضیلت ساق (پنڈلی)بیان کرکے ہنسنے کی وجہ ہی ختم کردی ہے ۔ اس طرح  ہم بھی اگرکوئی اندھے پر ہنسے یا کالے پر ہنسے تونابینا صحابی عبداللہ ابن مکتوم رضی اللہ عنہ اور کالے صحابی بلال حبشی رضی اللہ عنہ کی مثال بیان کرکے ایمان وعمل کی فضیلت بیان کریں ۔ اللہ کا فرمان ہے : يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَاكُم مِّن ذَكَرٍ وَأُنثَىٰ وَجَعَلْنَاكُمْ شُعُوبًا وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا ۚ إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِندَ اللَّهِ أَتْقَاكُمْ ۚ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ خَبِيرٌ (الحجرات : 13)
ترجمہ: اے لوگو! ہم نے تم سب کو ایک ہی مرد وعورت سے پیدا کیا ہے اور اس لئے کہ تم آپس میں ایک دوسرے کو پہچانو ، کنبے اور قبیلے بنادئے ہیں ،اللہ کے نزدیک تم سب میں باعزت وہ ہے جو سب سے زیادہ ڈرنے والا ہے ۔ یقین مانوکہ اللہ دانا اور باخبر ہے ۔
اس آیت سے پتہ چلا کہ برتری کا معیار ذات وقبیلہ ، حسب ونسب ، مال وقوت یا جسم وخوبصورتی نہیں بلکہ تقوی ہے ، جو اللہ سے جس قدر ڈرنے والا اور اس کے احکام پر چلنے والا ہوگا وہ اللہ کے نزدیک اتنا ہی باعزت اور مقرب ہوگا۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کوئی تبصرہ کرنا چاہتے ہیں تو مثبت انداز میں تبصرہ کر سکتے ہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔