Monday, February 6, 2017

اہل شرک رشتہ دار کی شادی وغیرہ میں جانا

اہل شرک رشتہ دار کی شادی وغیرہ میں جانا

السلام علیکم ورحمۃا للہ وبرکاتہ
میرے ساتھ ایک پریشانی ہےشیخ ، برائے کرم میری مدد فرمائیں ۔
بات یہ ہے کہ میرے مامو عملی اعتبار سے مشرک ہیں اور ان کی کمائی بھی حلال نہیں ہے ، شادی بیاہ میں خرافات میں کرنا عام بات ہے ، ہندوانہ رسم ورواج میں ملوث ہے ۔ پریشانی کا باعث یہ ہے کہ میرے مامو کی لڑکی کی شادی تھی چونکہ ان کے معاملات اچھے نہیں ہیں اس لئے جانے سے انکار کردیا ، میری اہلیہ بھی نہیں گئی لیکن میری ماں ،چھوٹا بھائی ، اس کی اہلیہ اور بہن کے گھر والے سب گئے۔ اب مجھے لعن وطعن کیا جارہاہے اور یہ بات کہی جارہی ہے کہ میرے معاملات میں بھی وہ شامل نہیں ہوں گے ۔
آپ سے گزارش ہے کہ قرآن وحدیث کی روشنی میں  اس مسئلے کی وضاحت فرماکر میری پریشانی دور فرمائیں ۔
سائل : جبریل تنویر خان ، کولکاتا –انڈیا
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
الحمد للہ :
اس میں کوئی شک نہیں کہ جو اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرائے وہ مشرک ہوجاتا ہے ۔ قرآن وحدیث سے یہ بات بالکل واضح ہے کہ شرک اکبر کا مرتکب مشرک قرار پائے گا ۔ ایسا شخص اگرکسی مسلمان کا رشتہ دار ہو تو اولا اسے حکمت وبصیرت کے ساتھ  سمجھانے کی بھرپور کوشش کریں تاکہ وہ شرکیہ اعمال سے توبہ کرلے اور اپنے عقائدواعمال درست کرلے ۔ہماری کمی یہ ہے کہ ہم بغیر دعوت واجتہاد کے کسی فاسق وفاجر سے رشتہ منقطع کرلیتے ہیں جبکہ ہونا یہ چاہئے تھاکہ پہلے ہم سمجھانے کی بھرپور کوشش کریں  جس میں جہدمسلسل، خلوص ووفا، الفت ومحبت،ہدیہ وتحفہ  اور حکمت وبصیرت شامل ہو اور ہم یہ جان لیں کہ اسلام نے ہمیں صلہ رحمی کا حکم دیا ہے جو اسے توڑتا ہے تواللہ اس سے اپنا تعلق توڑ لیتا ہے ۔
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: إِنَّ الرَّحِمَ شَجْنَةٌ مِنَ الرَّحْمَنِ، فَقَالَ اللَّهُ: مَنْ وَصَلَكِ وَصَلْتُهُ، وَمَنْ قَطَعَكِ قَطَعْتُهُ (صحيح البخاري: 5988)
ترجمہ: ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: رحم کا تعلق رحمن سے جڑا ہوا ہے پس جو کوئی اس سے اپنے آپ کو جوڑتا ہے اللہ پاک نے فرمایا کہ میں بھی اس کو اپنے سے جوڑ لیتا ہوں اور جو کوئی اسے توڑ تا ہے میں بھی اپنے آپ کو اس سے توڑ لیتا ہوں ۔
 ہماری انتھک کوشش کے باوجودشرک کرنے والے  رشتہ دار  ہماری بات نہ مانے اور اپنے مشرکانہ عقیدہ وعمل کو ہی حق جانے اور اس پر ڈٹا رہے  تو اس سے برات کا اظہار کرنا جائز ہے ۔ برات کا اظہار اس طرح کریں کہ ان کے شرکیہ اور بدعیہ کاموں سے دور رہیں اور ان کے ان کاموں پر کسی قسم کا معاون بننے سے باز رہیں ۔ اور ان کاموں سے بھی پرہیز رہیں جن میں وہ ہندوانہ رسم ورواج انجام دیتے ہیں لیکن جس کام میں شرعا کوئی قباحت نہ ہو تو اس میں شامل ہونے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔
جیساکہ آپ نے ذکر کیا کہ میں   ماموکے یہاں شادی میں نہیں گیا جس کی وجہ سے مجھے وطعن کیا جارہاہے ۔ اگر آپ شادی میں پہلے  سے چلے آرہےکسی ذاتی معاملہ کی وجہ سے  نہیں گئے تو واقعی یہاں آپ بھی قصوروار ہیں لیکن خاص اس وجہ سے نہیں گئے کہ وہ شرک کرنے والا ہے یا شادی میں خرافات اور غیرشرعی امور انجام دینے والا تھا تو پہلے انہیں شرک سے اور خرافات سے باز رہنے کی بھرپور کوشش ونصیحت کی جاتی لیکن پھر بھی باز نہیں آتے تو اس کے خرافاتی فنکشن میں نہ جانا ہی بہتر تھا ۔ اس سبب کوئی لعن وطعن کرے تو صبر کرنا چاہئے ۔
واللہ اعلم
کتبہ

مقبول احمدسلفی 

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کوئی تبصرہ کرنا چاہتے ہیں تو مثبت انداز میں تبصرہ کر سکتے ہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔