Tuesday, January 3, 2017

ہول سیل اور ریٹیل میں فرق کا حکم

ہول سیل اور ریٹیل میں فرق کا حکم
================
ہول سیل اور ریٹیل میں فرق دیکھنے سے حکم واضح ہوجائے گا۔
ہول سیل کہتے ہیں ایک بڑاتاجر دوسرے چھوٹے تاجر کو سامان کا بڑا حصہ(تھوک مال) فروخت کرے اور ریٹیل ہوتا ہے کم سامان خریدار کو بیچنا یعنی خردہ کی شکل میں بیچنا۔ ہول سیل والا عام خریدار کو بھی جملہ حساب سے مال بیچتا ہے ۔
اب یہاں ایک سوال یہ ہے کہ کیا ہوسیل اور ریٹیل میں شرعی اعتبار سے کوئی قباحت ہے ؟
اس کا جواب یہ ہے کہ ان دونوں میں شرعا کوئی قباحت نہیں ہے کیونکہ یہ دو الگ الگ تجارتیں ہیں۔ ایک آدمی زیادہ سامان کچھ کم قیمت پر فروخت کرتا ہے تاکہ فروخت کرنے والا کچھ نفع لے کر اسی سامان کو خردہ کی شکل میں بیچ سکے ۔ اور ریٹیلر ،ہول سیلر سے مال لیکربازاری قیمت کے حساب سے بیچتا ہے ۔
ہاں اگر کوئی ایک ہی سامان کی دو الگ الگ قیمت لگاکر بیچتا ہے مثلا نقد میں اتنا اور ادھار میں اتنا تو پھر اس تجارت سے نبی ﷺ نے منع کیا ہے ۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا:
من باعَ بيعتينِ في بيعةٍ فلَهُ أوْكسُهما ، أوِ الرِّبا(صحيح أبي داود:3461)
ترجمہ: جس نے ایک چیز کی دو قیمتیں لگائیں اسکے لئے کم قیمت لینا جائز ہے اور اگر زائد لیا توسود ہے۔
ساتھ ہی ایک بات جان لینا چاہئے کہ کبھی کبھی بازار میں سامان کی قیمت بڑھ جاتی یا کبھی کبھی کم ہوجاتی ہے تواس سے بھی کوئی حرج نہیں ۔ حالات وظروف کے تئیں ایسا ہوتا ، کبھی بازار میں کسی سامان کی قلت ہوجاتی ہے تو اس کی قیمت بڑھ جاتی ہے اور کسی چیز کی طلب کم ہوجاتی ہے تواس کی قیمت گرنے لگتی ہے ۔ سیل اور دسکاؤنٹ وغیرہ اسی قبیل سے ہے ۔
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ لوگوں نے کہا :
يا رسولَ اللَّهِ ، غلا السِّعرُ فسعِّر لَنا ، فقالَ رسولُ اللَّهِ صلَّى اللَّهُ علَيهِ وسلَّمَ : إنَّ اللَّهَ هوَ المسعِّرُ القابضُ الباسطُ الرَّازقُ ، وإنِّي لأرجو أن ألقى اللَّهَ وليسَ أحدٌ منكم يطالبُني بمظلمةٍ في دمٍ ولا مالٍ (صحيح أبي داود:3451)
ترجمہ: اے اللہ کے رسول ! نرخ بہت بڑھ گئے ہیں ، لہٰذا آپ نرخ مقرر فرما دیں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : بلاشبہ اللہ عزوجل ہی نرخ مقرر کرنے والا ہے ، وہی تنگی کرنے والا ، وسعت دینے والا ، روزی رساں ہے ۔ اور مجھے یقین ہے کہ میں اللہ سے اس حال میں ملوں گا کہ تم میں سے کوئی بھی مجھ پر کسی خون یا مال کے معاملے میں کوئی مطالبہ نہ رکھتا ہو گا ۔
البتہ کوئی جان بوجھ کر مال چھپاکر رکھے اور نرخ چڑھنے کا انتظار کرے اور پھر زیادہ قیمت پر فروخت کرے تو یہ جائز نہیں ہے ۔
معمر بن عبداللہ بن نضلہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
لا يَحْتَكِرُ إلَّا خاطئٌ( صحيح مسلم:1605)
ترجمہ: گنہگار ہی احتکار (ذخیرہ اندوزی) کرتاہے یعنی مال روک کر رکھنے والا گنہگار ہے ۔
واللہ اعلم
کتبہ
مقبول احمد سلفی




2 comments:

MAQUBOOL AHMAD SALAFI نے لکھا ہے کہ

شیخ آپ نے جہاں تک ہول سیل اور ریٹیل کی وضاحت کی تو بات سمجھ میں آتی ہےلیکن اگر اسی دوکان پہ مثال کے طور پہ اگر ایک پورا بنڈل لینے پہ سستا فروخت کیا جاتا ہے لیکن اگر وہی سامان بنڈل کھول کے دیا جاتا ہے تو اس کی قیمت کچھ بڑھا کے دی جاتی ہے دوسری چیز یہ کہ نقد اور ادھار میں فرق والا معاملہ کچھ روز پہلے میں آپ سے اس بارے میں سوال کیا تو آپ نے جواب میں فرما کہ اگر کچھ قیمت بڑھا کر دی جائے تو جائز ہےلیکن آپ نے آج حدیث سے ثابت کیا کہ کم قیمت لینا جائز ہے۔
جلد ہی کی بات ہے کہ شیخ معراج ربانی صاحب سے میں نے اسی سلسلے میں سوال کیا تو جواب میں انہوں نے کہا کہ ادھار میں زیادہ قیمت لینا جائز ہے ۔کچھ لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ اللہ کے نبی کی حدیث کے مقابلے میں کسی کا قول قابل قبول نہیں ,میں جہاں تک سمجھتا ہوں کہ میں اپنے مقابلے میں لوگوں کی بات پر اعتبار کروں کیونکہ ان کا مطالعہ مجھ سے کہیں زیادہ ہے اور وہ اس میں دن و رات لگے رہتے ہیں لہذا مجھ سے زیادہ ان کے پاس علم ہے ۔
رہی بات کسی کے اوپر بلادلیل یقین کرلینا تو مجھے نہیں لگتا کہ شیخ مقبول صاحب یا معراج ربانی صاحب کی باتوں پہ یقین نہ کروں کیونکہ یہ ایک سلفی عالم ہیں اور ان لوگوں کا تعلق ایسے میدان سے ہے جہاںوہ شریعت کے پابند ہیں۔
شیخ توجہ فرمائیں
جزاکم اللہ خیراً
قاسم عزیز-مئوناتھ بھنجن یوپی -انڈیا

MAQUBOOL AHMAD SALAFI نے لکھا ہے کہ

اولاً: اس مضمون میں تھوک اور خردہ فروشی کے جواز کا ذکر ہے ، اگر ایک ہی دوکان میں تھوک بھی ہے اور خردہ فروشی بھی ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں اور میں نے اس صورت کے عدم جواز کا ذکر نہیں ہے ۔ اس طرح قیمت میں فرق ہونے سے کوئی حرج نہیں ۔
ثانیاً: نقدوادھار بیع سے متعلق شروع سے ہی میرا یہی موقف ہے کہ ایک دوکاندار ایک چیز میں نقد میں کم اور ادھار میں زیادہ کرکے بیچتا ہے ، حدیث کی روشنی میں یہ ممنوعہ صورت ہے جس میں ایک چیز کی دو بیع سے منع کیا گیا ہے ، جبکہ بعض علماء اسے جائز قرار دیتے ہیں جب قیمت معلوم وطے ہو۔ ہاں کوئی ایک سامان دس روپئے میں بیچے ، وہی سامان کوئی دوسرا دوکاندار پندرہ روپئے میں بیچتا ہے یہ اور شکل ہے ۔
ثالثاً: ہم سب کو معلوم ہے کہ بہت سارے فروعی مسائل میں علماء کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے جیساکہ نقد وادھاربیع میں ، علماء اپنے اپنے علم کی روشنی میں دلائل پہ غوروفکر کرکے اپنا موقف پیش کرتے ہیں ،ہمارا نظریہ یہ ہو کہ جن کے موقف پہ دلائل کی روشنی میں اطمینان ہوجائے اس پہ عمل کریں ۔ میں جو بھی مسائل کا حل پیش کرتا ہے ، ان میں اصل یہی ہے کہ عموماوہ کسی عالم کا ہی موقف ہوتا ہے جو میری نظر میں قوی لگتا ہے، الگ سے کوئی دوسرا موقف نہیں اختیار کرتا ہوں الا یہ کہ کہیں اس کی گنجائش ہو، نیز اس موقف کو دلائل سے مزین کرتاہوں کیونکہ دین میں دلیل کی ہی پیروی کی جائے گی ۔ اس لئے آپ یہ نہ دیکھیں کہ کس نے کیا کہا بلکہ یہ دیکھیں کہ کس دلیل سے یہ بات کی جارہی ہے ؟
رابعاً:ساتھ ہی یہ دھیان رہے کہ دین فہمی میں منہج سلف کو ہی اختیار کرنا محض عقلی قیاس آرائیاں نہیں کرنی ہیں ۔
آپ کا بھائی /مقبول احمد سلفی

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کوئی تبصرہ کرنا چاہتے ہیں تو مثبت انداز میں تبصرہ کر سکتے ہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔