Saturday, May 28, 2016

حدیث "إذا انتصف شعبان فلا تصوموا" کی تحقیق

حدیث "إذا انتصف شعبان فلا تصوموا" کی تحقیق
=================
مقبول احمد سلفی

امام ترمذي رحمه الله (المتوفى279)نے کہا:
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ العَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ العَلَاءِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِذَا بَقِيَ نِصْف ٌمِنْ شَعْبَانَ فَلَا تَصُومُوا»
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب آدھا شعبان رہ جائے تو روزہ نہ رکھو(سنن الترمذي : 738)
ترمذی شریف کی اس روایت " إِذَا بَقِيَ نِصْف ٌمِنْ شَعْبَانَ فَلَا تَصُومُوا" پر جہاں بعض محدثین نے صحت کا حکم لگایا ہے وہیں ان محدثین سے بھی بڑھ کر علم والے محدثین نے ضعف کا بھی حکم لگایا ہے جن میں عبدالرحمن بن مهدي، أحمد، ابن معين، أبو زرعة، اثرم،ابن الجوزي، ذهبي ،ابن رجب، بیہقی اور طحاوی رحمۃ اللہ علیہم اجمعین ہیں۔
حدیث کے ضعیف ( منکر) ہونے کی  تین علتیں ہیں ۔
(1) پہلی علت : علاء کا تفرد ہے ۔اس علت کی طرف ترمذی، ابوداؤد اور نسائی نے بھی اشارہ کیا ہے ۔ بعض محدثین نے کہا کہ یہ روایت مسلم کی شرط پہ ہے مگر ہم دیکھتے ہیں کہ امام مسلم نے ان کی کئی روایات لی ہیں مگر تفرد کی وجہ سے اس روایت کو صحیح مسلم میں جگہ نہیں دی ۔
٭ترمذی ؒنے کہا "حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ هَذَا الوَجْهِ عَلَى هَذَا اللَّفْظِ" کہ ابوھریرہ کی حدیث حسن صحیح ہے ، ہم اسے انہیں الفاظ کے ساتھ صرف اسی طریق سے جانتے ہیں ۔ (سنن الترمذی 3/106)
٭ابوداؤد ؒنے کہا "وَلَمْ يَجِئ بِهِ غَيرُ العَلَاءِ عَنْ أَبِيْه" کہ علاء عن ابیہ کے علاوہ دوسرے طریق سے نہیں آئی ہے۔ (سنن ابوداؤد 1/713)
٭نسائی ؒنے کہا "لَا نَعْلَمُ أَحَدًا رَوَى هَذَا الْحَدِيثَ غَيْرَ الْعَلَاءِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ" کہ ہم کسی کو نہیں جانتے کہ اس حدیث کو علاء بن عبدالرحمن کے علاوہ طریق سے روایت کیا ہو۔ (السنن الکبری 3/254)

(2) دوسری علت : یہ حدیث صحیح احادیث کے معارض ہے بلکہ صحیحین میں موجود حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت کے معارض ہے۔ آپ فرماتی ہیں۔
لَمْ يَكُنِ النَّبيُّ صلى الله عليه وسلم يَصُومُ شَهْرًا أَكْثَرَ مِنْ شَعْبَانَ، فَإِنَّهُ كَانَ يَصُومُ شَعْبَانَ كُلَّهُ.(متفق عليه )
کہ نبی ﷺ شعبان سے زیادہ کسی مہینے میں روزہ نہیں رکھا کرتے تھے ، آپ ﷺ شعبان کے مہینے کا تقریبا پورا روزہ رکھا کرتے تھے ۔
اس تعارض کو ان محدثین نے دفع کرنے کی کوشش کی ہے جنہوں نے ترمذی کی مذکورہ بالا روایت کو صحیح قرار دیا ہے ۔

(3) تیسری علت : گوکہ بعض محدثین نے علاء بن عبدالرحمن کی توثیق کی ہے مگر وہ مطلقا ثقہ نہیں ہیں۔ان سے وہم سرزد ہوجاتا ہے اس وجہ سے وہ متکلم فیہ ہیں۔
ابن معین ؒنے حرج کرتے ہوئے کہا "ليس حديثه بحجة" یعنی ان کی حدیث قابل حجت نہیں ہے ۔ [التهذيب :346/3].
حافظ ابن حجرؒنے تقریب میں کہا "صَدُوقٌ لَهُ أَوْهَامْ" کہ صدوق ہیں مگر ان کے پاس اوہام بھی ہیں۔
منذری ؒنے  ابوداؤد والی روایت پہ تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ امام احمد نے جو علاء بن عبدالرحمن کی جہت سے منکر کا حکم لگایا ہے اس میں اس بات کا احتمال ہے کہ علاء کے متعلق اس فن کے علماء نے کلام کیا ہے۔ اس حدیث میں ان سے تفرد واقع ہوا ہے ۔ (مختصر سنن أبي داود (224/3)  مطبوع مع تهذيب السنن

اب اس روایت کے متعلق محدثین کے بعض اقوال ملاحظہ فرمائیں ۔
 (1) خلیلی ؒنے علاء کے متعلق کہا کہ وہ حدیث  " إذَا كَانَ النِّصْفُ مِنْ شَعْبَان فَلَا تَصُومُوا" میں منفرد ہیں ۔ امام مسلم نے ان کی مشاہیر والی روایات لی ہیں اس شاذ کے علاوہ ۔ (تهذيب التهذيب :8/187)

(2) ابن الجوزیؒ نے اس حدیث کے متعلق کہا کہ امام مسلم نے علاء سے اپنی صحیح میں بہت سی حدیث لی ہیں اور اس کواور اس جیسی مشابہ کو چھوڑ دیا جن میں علاء عن ابیہ سے تفرد ہوا ہے۔ (الموضوعات : 1/33)

(3) حافظ ابن کثیر ؒ کا کہنا ہے کہ جمہور علماء کہتےہيں کہ : نصف شعبان کے بعد نفلی روزے رکھنا جائز ہیں ، اوراس کی نہی میں وارد شدہ حدیث کو انہوں نے ضعیف قرار دیا ہے ، امام احمد اورابن معین کا کہنا ہے کہ یہ منکر ہے ۔بیہقی نے اس باب کی حدیث کو ضعیف کہا ہے اور کہا کہ اس سلسلے میں رخصت ہے کیونکہ علاء سے صحیح حدیث موجود ہے اور اسی طرح اس سے پہلے طحاوی نے بھی کیا ہے۔ (فتح الباری :4/129)

(4) ابن قدامہ رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ امام احمد نے اس حدیث کے بارے میں  کہا ہے کہ یہ حدیث محفوظ نہیں ، ہم نے اس کے بارےمیں عبدالرحمن بن مہدی سے پوچھا توانہوں نے اسے صحیح قرار دیا اورنہ ہی اسے میرے لیےبیان ہی کیا ، بلکہ اس سے بچتے تھے ۔
امام احمد کہتےہیں : علاء ثقہ ہے اس کی احادیث میں سوائے اس حدیث کے انکار نہيں ۔( المغنی)

(5) اثرم نے کہا پوری احادیث اس کے مخالف ہیں۔(لطائف المعارف :142)

(6) ابن رجب نے کہا کہ اس حدیث کی صحت وعمل کے متعلق اختلاف ہے ۔ جنہوں نے تصحیح کی وہ ترمذی، ابن حبان،حاکم،طحاوی اور ابن عبدالبرہیں۔ اور جنہوں نے اس حدیث پر کلام کیا ہے وہ ان لوگوں سے زیادہ بڑے اور علم والے ہیں ۔ ان لوگوں نے حدیث کو منکر کہا ہے ۔ وہ ہیں عبدالرحمن بن مہدی،امام احمد،ابوزرعہ رازی،اثرم ۔ (لطائف المعارف ص: 135)

خلاصہ کلام یہ ہے کہ حدیث "إِذَا انْتَصَفَ شَعْبَانُ فَلاَ تَصُومُوا" منکر ہے اور اول سے آخر شعبان کے اکثر روزے رکھنا مستحب ہے جیساکہ صحیح حدیث سے ثابت ہے ۔
أن عائشةَ رضي الله عنها حدَّثَتْه قالتْ : لم يكنِ النبيُّ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم يصومُ شهرًا أكثرَ من شَعبانَ، فإنه كان يصومُ شعبانَ كلَّه(صحيح البخاري:1970)
ترجمہ: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ نبی ﷺ شعبان سے زیادہ کسی مہینے میں روزہ نہیں رکھا کرتے تھے ، آپ ﷺ شعبان کے مہینے کا تقریبا پورا روزہ رکھا کرتے تھے ۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کوئی تبصرہ کرنا چاہتے ہیں تو مثبت انداز میں تبصرہ کر سکتے ہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔