آپ کے سوالات اور ان کے مختصر جواب
(1)سوال :کیا وضو اور استنجا کا برتن الگ الگ ہونا ضروری ہے برائی
مہربانی وضاحت فرماے ۔۔
جواب : ایک ہی برتن سے وضو بھی کرسکتے ہیں اور اسی سے استنجا بھی
کرسکتے ہیں ۔ لیکن اگر کوئی استنجا کے لئے الگ برتن رکھتا ہے تو اچھی بات ہے ۔
(2) سوال : نمازی سجدہ جاتے وقت پہلے زمین پر پیر رکھے یا ہاتھ ؟
جواب : دونوں طرح کی روایات ملتی ہیں ، لہذا دونوں پہ عمل کرنے میں
کوئی حرج نہیں۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ الفتاوى (22/449) میں فرماتے ہیں:
أما الصلاة بكليهما فجائزة باتفاق العلماء . إن شاء المصلي يضع
ركبتيه قبل يديه ، وإن شاء وضع يديه ثم ركبتيه وصلاته صحيحة في الحالتين باتفاق
العلماء ولكن تنازعوا في الأفضل . انتهى.
دونوں طرح نماز جائز ہے، چاہے تو پہلے گھٹنے رکھے اور چاہے تو پہلے
ہاتھ رکھے، نماز دونوں حالتوں میں صحیح ہے، اس پر علماء کا اتفاق ہے، اختلاف صرف
افضلیت میں ہے۔
(3)سوال :سجدہ سے اٹھتے وقت پیر کا سھارا لے یا ھاتھ؟
جواب : اٹھنے میں زمین کا سہارا لیکر اٹھے ۔ ایوب کہتے ہیں میں نے
ابوقلابہ سے کہا ان(مالک بن حویرث)کی نماز کی کیا حالت تھی۔ ابوقلابہ کہنے لگے
ہمارے شیخ عمرو بن سلمہ کی نماز کی طرح ایوب سنتے ہیں وہ شیخ تکبیر مکمل کرتے اور
جب دوسرے سجدہ سے سر اٹھاتے تو بیٹھتے اور زمین پر(ہاتھوں کی) ٹیک لگاتے پھر کھڑے
ہوتے۔‘‘(صحیح بخاری:۸۲۴)
(4) سوال : دو رکعت والی نماز میں قعدہ میں بائیں پیر پر بیٹھے یا
سرین کے بل راجح مدلل جواب مطلوب ھے وجزاکم اللہ خیرا
جواب : چونکہ رسول اﷲﷺ سے ثلاثی اور رباعی سے کم رکعتوں والی نماز
کے علاوہ کسی میں تورک کرنا ثابت نہیں، جبکہ محدث البانیؒ کے ہاں رسول اﷲﷺ کا دو
رکعتوں والی نماز، جس میں سلام پھیرا جائے، میں افتراش کرنا ثابت ہے، ان کے الفاظ
ہیں:
’’فھذا نص في أن الافتراش إنما کان في الرکعتین والظاھر أن الصلاۃ
کانت ثنائیۃ ولعلھا صلاۃ الصبح.‘‘
’’حضرت وائل بن حجرt کی حدیث اس موقف میں نص ہے کہ ثنائی رکعتوں
والی نماز کے تشہد میں افتراش ہوگا، کیونکہ حضرت وائلt کی حدیث سے ثابت ہوتا ہے
کہ وہ دو رکعتوں والی نماز اور شاید نمازِ فجر تھی۔‘‘ (صفۃ صلاۃ النبي: ۳/
۴۸۹ و تمام المنۃ، ص: ۳۲۲)
مزید حضرت عائشہ کی حدیث (مسلم: ۸۹۴) کے بارے میں بھی
فرمایا:
’’گویا یہ حدیث اس میں نص ہے کہ دو رکعتوں والی نماز کے تشہد میں
افتراش ہوگا۔‘‘ (صفۃ صلاۃ النبيﷺ: ۳/ ۳۸۹)
نیز فرمایا:
’’حضرت ابن عمر کی حدیث بھی حضرت وائل اور حضرت عائشہ کی حدیث کی
تائید کرتی ہے۔‘‘ (تمام المنۃ، ص: ۳۲۲)
مولانا امین اﷲ پشاوری نے بھی حضرت وائلt کی حدیث سے یہی استدلال
کیا ہے اور علامہ البانی کی موافقت کی ہے۔ (فتاوی الدین الخالص: ۴/
۰۴۳)
(5)سوال: کیا سجدہ کی حالت میں دونوں پیر کو ملانا ضروری ھے یا دور
رھنے میں کوئی حرج نھیں ھے؟
جواب : بہتر نہ ملانا ہے کیونکہ آپ ﷺ سے عام نمازوں کی کیفیت کے
متعلق یہ وارد نہیں ہے کہ آپ دونوں پیر سجدے کی حالت میں ملاتے تھے جبکہ صحابہ
کرام آپ کی نماز کی ساری کیفیات دیکھتے اور اسے نقل کرتے ۔ اس لئے قدم نہیں ملانا
بہتر ہے اور اگر کبھی کبھار مل جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں ۔
(6)سوال :میت کی طرف سے کسی دوسرے کے عقیقہ میں رقم دیناکیسا ہے؟
جواب : عقیقہ کرنا بچے کے سرپرست کے ذمہ ہے ۔ میت کی طرف سے رقم ان
کاموں میں صرف کیا جائے جن کا ثبوت ہے مثلا فقراء و مساکین کو دیا جائے ۔وغیرہ
(7) سوال:امام صاحب مغرب کی نماز میں دو رکعت کے بعد بہت دیر تک
بیٹهے رہے. مقتدی کے سبحان اللہ کہنے پر تیسری رکعت مکمل کیا.
کیا امام ایسی صورت میں سجدہ سہو کرےگا.؟
قرآن و حدیث کی روشنی شکریہ کا موقع دیں اور عند اللہ ماجور ہوں.
عبد اللہ فرحان.
جواب :ایسی حالت میں امام سجدہ سہو کرے ۔
واللہ اعلم بالصواب
مقبول احمد سلفی
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کوئی تبصرہ کرنا چاہتے ہیں تو مثبت انداز میں تبصرہ کر سکتے ہیں۔
اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔