Saturday, January 30, 2016

دبر میں جماع سے متعلق غلط فہمی کا ازالہ

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ پہ ایک الزام کا جائزہ
==================
عبداللہ چتورگڑی نے اپنی کتاب کے صفحہ 52-53میں صحیح بخاری سے ایک روایت نقل کی اور لکھتا ہے کہ:۔۔۔۔۔۔نسآؤکم حرث لکم ''کی تفسیر عبداللہ بن عمر ؓ نے یہ فرمائی ہے کہ دبرزنی کرنی چاہیے اور یہ معنی ہیں '' انی شئتم'' کا ۔۔۔۔۔۔ (بخاری کتاب التفسیر )
جواب :۔

گمراہ فرقوں کی یہ پہچان ہے کہ وہ آدھی بات نقل کرتے ہیںاور آدھی بات کو چھوڑ دیتے ہیںتاکہ بات اصل معنی اور مطلب سے ہٹ جائے مصنف نے بھی یہی حرکت کی ہے ۔ابن عمررضی اللہ عنہ کا قول اور آیت سے استدلال کچھ اور تھا لیکن مصنف نے اپنی ذہنی خباثت کو محدثین وصحابہ کرام پر فٹ کرنے کی کوشش میں کچھ سے کچھ بنادیا ۔امام بخاری رحمہ اللہ نے یہ حدیث کتاب التفسیر میں اس طرح ذکر کی ہے نزلت فی کذ اوکذا: اس بارے میں نازل ہوئی (مصنف نے مکمل حدیث ذکر نہ کی )جس کی وضاحت اسی باب میں جابر رضی اللہ عنہ کی حدیث سے ہورہی ہے ۔
قارئین کرام اچھی طرح ذہن نشین کرلیجئے کہ دبر زنی کرنے کا موقف منحرف مصنف کا ہوسکتا ہے لیکن ابن عمررضی اللہ عنہ جیسی پاکیزہ شخصیت کا نہیں اور ابن عمررضی اللہ عنہ سے منسوب بات صحیح بخاری میں کہیں نہیں ہے یہ صرف اور صرف بہتان ہے ابن عمررضی اللہ عنہ کا موقف درج ذیل حدیث سے واضح ہورہا ہے :
نافع مولی ابن عمر سے کہا گیا کہ آپ کے بارے میں بہت کہا گیا ہے کہ آپ ابن عمر سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے عورتوں سے دبر زنی کا فتوی دیا ۔ نافع نے کہا یہ لوگ میرے اوپر جھوٹ باندھتے ہیں لیکن میں تمہیں بتاتا ہوں کہ حقیقت کیا ہے ایک دفعہ ابن عمر مصحف سے تلاوت کررہے تھے جب اس آیت پر پہنچے (نِسَآؤُکُمْ حَرْثٌ لَّکُمْ )فرمایا : اے نافع جانتے ہو اس آیت کا کیا معاملہ ہے ؟ ہم اہل قریش اپنی عورتوں کے پیچھے سے آتے تھے (یعنی پیچھے سے لیکن بچہ پیدا کرنے کے مقام ) جب ہم مدینہ آئے اور انصاری عورتوں سے نکاح کیا اور ان سے ایسا چاہا تو انہیں ناگوار گزرا تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی: نِسَآؤُکُمْ حَرْثٌ لَّکُمْ۔
(السنن الکبری للنسائی باب عشرۃ النساء رقم الحدیث 8978)
اگر مصنف امام بخاری رحمہ اللہ کی نقل کردہ حدیث جابرؓ پر غور کرلیتا جس میں وہ فرماتے ہیں کہ' یہود کہا کرتے تھے کہ اگر عورت کے پیچھے سے جماع کریں تو بچہ بھینگا پیدا ہوتاہے '۔ تو کبھی بھی اعتراض کرنے کی ضرورت نہیں پڑتی ۔
غور فرمائیے کہ بچہ کس عمل کے نتیجے میں پیدا ہوتا ہے یا پھر مصنف نے کوئی نیا انکشاف کیا ہے !لہٰذا بخاری کی روایت پر اعتراض فضول ہے ۔یہ بدنیت مصنف کی محض بے لگام اتہام ہے ۔


منقول از محدث فورم


0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کوئی تبصرہ کرنا چاہتے ہیں تو مثبت انداز میں تبصرہ کر سکتے ہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔