بٹائی سے متعلق سوال
==============
لوگ اپنے کھیت دوسروں کو ٹھیکہ پر دیتے ہیں جس کی دو صورتیں ہوتی
ھیں .
(1)ایک طے شدہ رقم کھیتی دینے سے پہلے لے لی جاتی ہے.پھر کھیت ایک
سال کے لئے دیدیا جاتا ھے.
(2)کھیت طے شدہ غلہ کے عوض دیدیا جاتا ہے جس کی ادائیگی کھیت لینے
والے کو کرنی پڑتی ہے.
دونوں صورتوں میں نفع اور نقصان صرف کھیت لینے والے کو ہوتا ہے.
کیا یہ دونوں صورتیں جائز ہیں. اگر "ہاں" تو پہلی صورت
میں "عشری ادائیگی کی صورت کیا ہوگی.
برائے مہربانی کتاب وسنت کی روشنی میں جواب ارسال فرماکر عنداللہ
ماجور ہوں
جزاک اللہ خیر
الجواب بعون اللہ الوھاب
پہلی صورت : یہ صورت جائز ہے ، اس میں زمین مالک کو کرایہ دار کے
نفع و نقصان سے کوئی سروکار نہیں ہوتا۔ یہ ویسے ہی ہے جیسے کوئی زمین کو دوکان کے
لئے دے ۔ زمین مالک کو کرایہ سے نفع و نقصان کا کوئی واسطہ نہیں ۔
دوسری صورت : اس کی صحیح صورت یہ ہے کہ آدمی اپنی زمین کسی کے
حوالہ اس شرط پر کرے کہ وہ اس میں غلہ اُ گائے ، اور جو پیدا وار ہوگی، اس میں ایک
حصہ اس کا ہوگا،اور ایک حصہ کھیت کو بٹائی پر لینے والے کا۔
آپ نے پہلی صورت میں عشر کی بات کی ہے اس سے متعلق سوال کے جواب
میں شیخ ابن بازؒ لکھتے ہیں : زمین سے اگنے والے دانوں اور پھلوں کی زکوۃ کاشت کار
پر واجب ہے اگرچہ زمین اجرت پر لی گئی ہو، اور جس شخص نے زمین اجرت پر دی اور اس
کی بطور اجرت لی ہوئی رقم اگر نصاب کو پہنچ گئی اور ٹھیکہ کی تاریخ کے اعتبار سے
اس پر سال گزر گیا تو اس پر اس رقم کے اعتبار سے زکوۃ دینا واجب ہے۔ (دائمی کمیٹی
فتوی : 9388)
واللہ اعلم
مقبول احمد سلفی
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کوئی تبصرہ کرنا چاہتے ہیں تو مثبت انداز میں تبصرہ کر سکتے ہیں۔
اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔