تلاوت قرآن سے فارغ ہو کر صدق اللہ العظیم
کہنا کیسا ہے ؟
=======================
قرآن کی تلاوت سے فارغ ہو کر صدق اللہ العظیم کہنے
کی کوئی دلیل نہیں ہے گرچہ یہ اکثر قاریوں کا عمل ہے لیکن اکثریت کا عمل اس کے حق اور
سچ ہونے کی دلیل نہیں ہے ، فرمان الٰہی ہے {وما اکثر الناس ولو حرصت بمومنین}
البتہ جو لوگ قرآن کی تلاوت سے فارغ ہو
کر صدق اللہ العظیم کہنے کے قائل نہیں ہیں ان کے ساتھ دلیل ہے جیسا کہ امام بخاری و
امام مسلم رحمہم اللہ علیہھم اجمعین نے حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان فرماتے
ہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مجھے قرآن پڑھ کر سناؤ، میں نے کہا آپ کو
پڑھ کر سناؤں حالانکہ یہ آپ ہی پر نازل ہوا ہے ؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں
چاہتا ہوں کہ اس کو دوسروں سے سنوں پھر عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے سورہ نساء
پڑھنی شروع کی، یہاں تک کہ اس آیت پر پہنچے {فکیف اذا جئنا من کل امۃ بشھید و جئنا
بک علی ھئولاء شھیدا}
[کیا حال ہو گا جس وقت ہم لائیں گے ہر
امت میں سے ایک گواہی دینے والا اور لائیں گے ہم تجھ کو ان سب کے اوپر گواہ بنا کر]
( سورہ نساء آیت:41)
تو آپ نے فرمایا رک جاؤ(یہی اتنا کافی ہے ) حضرت
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں نے دیکھا آپ کی آنکھیں اشک آلود ہیں
، میرے ماں اور باپ آپ پر قربان ہوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عبداللہ بن مسعود
سے یہ نہیں فرمایا کہ صدق اللہ العظیم کہو اور نہ ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ ثابت
ہے اور نہ ہی صدر اول میں اس کا رواج تھا کہ وہ تلاوت قرآن سے فارغ ہوتے وقت صدق اللہ
العظیم کہتے تھے اور نہ ہی صحابہ کے بعد سلف صالحین سے ایسا جانا گیا، اب سوائے اس
کے کوئی چارہ نہیں رہ گیا کہ یہ کہا جائے کہ یہ بدعت ہے۔
سعودی عرب کے افتاء دائمی کمیٹی کا فتوی ہے کہ صدق
اللہ العظیم بذات خود اچھا ہے لیکن قرات سے فارغ ہوتے وقت ہمیشہ صدق اللہ العظیم کہنا
بدعت ہے اس لئے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفاء راشدین سے ایسا کرنا ثابت
نہیں ہے جب کے وہ لوگ کثرت سے تلاوت کرنے والے تھے تو معلوم ہوا کہ صدق اللہ العظیم
کہنے پر کتاب و سنت اور صحابہ کے عمل سے کوئی دلیل نہیں ملتی بلکہ یہ متاخرین کی بدعت
ہے ، فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے ( من عمل عملا لیس علیہ امرنا فھو رد) جس نے
کوئی ایسا کام کیا جس پر ہمارا معاملہ دین نہیں ہے تو وہ مردود ہے۔ ( من احدث فی امرنا
ھذا ما لیس منہ فھو رد) جس نے ہمارے اس دین میں ایسی بات ایجاد کی جو اس میں نہیں تو
وہ مردود ہے (دیکھئے شیخ فواد بن عبد العزیز الشلہوب کی کتاب (کتاب الاداب۔ باب آداب
تلاوۃ القرآن وما یتعلق بہ)
منقول
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کوئی تبصرہ کرنا چاہتے ہیں تو مثبت انداز میں تبصرہ کر سکتے ہیں۔
اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔