Monday, December 28, 2015

حدیث:"میں تم پر شرک کا خوف نہیں کرتا" کی وضاحت

حدیث:"میں تم پر شرک کا خوف نہیں کرتا" کی وضاحت
===================
مقبول احمد سلفی

عن عقبة أن النبي صلی الله عليه وسلم خرج يوما فصلی علی أهل أحد صلاته علی الميت ثم انصرف إلی المنبر فقال إني فرط لکم وأنا شهيد عليکم وإني لأنظر إلی حوضي الآن وإني أعطيت مفاتيح خزائن الأرض أو مفاتيح الأرض وإني والله ما أخاف عليکم أن تشرکوا بعدي ولکني أخاف عليکم أن تنافسوا فيها(صحیح بخاری)
حضرت عقبہ بن عامررضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن احد کی طرف گئے اور شہداء احد پر مثل نماز جنازہ نماز پڑھی پھر منبر پر آکر فرمایا بے شک میں تمہارا پیش رو اور تم پر گواہ ہوں۔میں حوض کو دیکھ رہا ہوں مجھے زمین کے خزانوں کی کنجیاں دی گئیں یا یہ فرمایا کہ زمین کی کنجیاں دی گئیں اور اللہ کی قسم ! مجھے اس کا ڈر نہیں کہ میرے بعد تم شرک کرو گے بلکہ اس کا ڈر ہے کہ تم دنیا حاصل کرنے میں رغبت کرو گے۔

اس حدیث کو لیکر امت میں شرک کرنے والی جماعت لوگوں کو یہ بتلاتی ہے کہ دیکھو نبی ﷺ نے فرمایا: "مجھے اس کا ڈر نہیں کہ میرے بعد تم شرک کرو گے۔"
درآصل اہل شرک کو شرک پہ اڑے رہنے کی دلیل چاہئے اس وجہ سے احادیث کا معنی مطلب بگاڑ کر پیش کرتے ہیں۔

رسول اللہ ﷺ کا فرمان: ’’ اللہ کی قسم ! مجھے اس کا ڈر نہیں کہ میرے بعد تم شرک کرو گے بلکہ اس کا ڈر ہے کہ تم دنیا حاصل کرنے میں رغبت کرو گے ‘‘ ۔
حدیث کے اس ٹکڑے کا صحیح مفہوم کیا ہے اس کے لئے دوسری احادیث اور اہل علم کے اقوال دیکھتے ہیں۔
چنانچہ قرآن کی بہت سی آیات اور بہت ساری احادیث اس بات پہ دلالت کرتی ہیں کہ امت محمدیہ بھی شرک کرے گی ۔
مثال کے طور پہ ایک آیت اور ایک حدیث دیکھتے ہیں:
(1)            قرآن : وَما يُؤمِنُ أَكثَرُ‌هُم بِاللَّهِ إِلّا وَهُم مُشرِ‌كونَ ۔ (سورة يوسف:106)
ترجمہ: اور ان میں سے اکثر لوگ اللہ پر ایمان لانے کے باوجود بھی شرک ہی کرتے ہیں۔
اس آیت کی روشنی میں بریلوی کی اکثریت اللہ پہ ایمان لانے کے باوجود شرک میں واقع ہے ۔
(2)             حدیث :«لولا تقومُ الساعةُ حتى تَلحقَ قبائلُ من أُمتي بالمشركينَ ، وحتى تعبدَ قبائلُ من أمتي الأوثانِ »(صحیح ابوداؤد:4252)
ترجمہ : قیامت قائم نہیں ہوگی جب تک میری اُمّت کے قبائل مشرکین سے نہ مل جائیں اور یہاں تک کہ میری اُمت کے قبائل بتوں کی عبادت نہ کریں۔
اب یہ بات صاف ہوگئی کہ اس امت میں بھی شرک کا وجود رہے گا۔ اب اوپر والی حدیث کا ٹکڑا "وإني والله ما أخاف عليکم أن تشرکوا بعدي" دیکھتے ہیں ۔
چنانچہ حافظ ابن حجر عسقلانی رقم طراز ہیں:
قوله «ما أخاف علیکم أن تشرکوا» أی على مجموعکم لأن ذلك قد وقع البعض أعاذنا الله تعالىٰ(فتح الباری:2؍271)
ترجمہ : "ما أخاف علیکم أن تشرکوا" کے قول سے مراد مسلمانوں کا مجموعہ، اس لئے کہ بعض لوگوں سے شرک واقع ہوچکا ہے ۔ اللہ تعالی ہمیں اپنی پناہ میں رکھے ۔
گویا حدیث کا مطلب ہواکہ سارے مسلمان یعنی مسلمانوں کا مجموعہ شرک میں واقع نہیں ہوگا مگرمسلمان کے بعض افراد شرک میں واقع ہوں گے ۔
یہی معنی علامہ عینی حنفی اورملاعلی قاری حنفی نے بھی بتلایا ہے۔ اور بریلوی عالم غلام رسول سعیدی نے بھی ایسا ہی معنی بیان کیا ہے ۔ چنانچہ لکھتے ہیں:
''آپﷺ نے فرمایا: ''مجھے یہ خوف نہیں ہے کہ تم میرے بعد مشرک ہوجاؤ گے، اس کا معنیٰ یہ ہے کہ مجھے یہ خوف نہیں ہے کہ تم مجموعی طور پر مشرک ہوجاؤ گے،اگرچہ بعض مسلمان مشرک ہوگئے،العیاذ بالله۔(نعمۃ الباری:3؍514)
آخر میں ہم وہی دعا کرتے ہیں جو نبی ﷺ نے حضرت ابوبکر صدیقؓ کو چھوٹے بڑے تمام قسم کے شرک سے محفوظ رہنے کے لئے سکھائی ہے ۔
اللهم إني أعوذ بك أن أشرك بك و أنا أعلم ، و استغفرك لما لا أعلم۔
٭ اس حدیث کو علامہ البانی نے صحیح قرار دیا ہے ۔(صحیح الادب المفرد:551)














0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کوئی تبصرہ کرنا چاہتے ہیں تو مثبت انداز میں تبصرہ کر سکتے ہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔