Monday, December 14, 2015

آپ کے چند سوالات اور ان کے جوابات

آپ کے چند سوالات اور ان کے جوابات
===================


السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
کچه سوال ہیں شیخ صاحب براہ کرم جواب مطلوب ہے۔
سائل : شہزاد رضا پاکستان


الحمد للہ


(1) سوال : حج و عمرہ پر جاتے ہوئے لوگوں کو پیسے دینا کہ کبوتر چوک پر جو کبوتر ہیں ان کو دانا ڈال دینا ۔
جواب :لوگوں نے حرم شریف کے کبوتروں کو اپنے من سے فضیلت دیدی ہے ، اس وجہ سے ان کا بڑا خیال کیا جاتا ہے اور انہیں دانہ ڈالاجاتا ہے ۔ واضح رہے مکہ اور مدینہ کے کبوتروں کی کوئی افضلیت نہیں ہے ، اور نہ ہی ان کو دانہ ڈالنے کا اہتمام کیا جائے گا۔ اللہ تعالی جیسے ساری کامخلوق کا رازق ہے ان کبوتروں کا بھی ہے ۔ ایسا کرنے والوں کی اکثریت پاکستانی عوام کی ہے کیونکہ وہ اپنے ملکوں میں بھی ایسا کرتے ہیں ۔ ان کا دیکھا دیکھی دوسرے لوگ بھی ایسا کرنے لگے . جب خود دانہ نہیں ڈال سکتے تو پھر دوسروں کی طرف سے بدرجہ اولی نہیں ڈالا جائے گا ۔ اس کام سے پرہیز کیا جائے۔


(2) سوال : اپنی تسبیح زائرین کو دینا کہ خانہ کعبہ کو چهو کر لائے ۔
جواب : اولا تسبیح ہاتھ پہ گننا چاہئے جیساکہ رسول اللہ ﷺ کی سنت ہے۔ ثانیا تسبیح کو کعبہ سے چھوکر لانا بدعت ہے ۔ طواف کرتے ہوئے یا بغیر طواف کے کعبہ کا کوئی بھی حصہ برکت کی نیت سے نہیں چھوا جائے گا ۔ حجر اسود اور رکن یمانی چھونے کا حکم ہے مگر یہ بھی صرف اللہ کے حکم کی بجاآوری ہے نہ کہ حصول برکت کی نیت سے ۔ اگر کعبہ کا کوئی حصہ (حجراسود اور رکن یمانی کے علاوہ) برکت کی نیت سے چھوتا ہے یا کوئی سامان تسبیح وغیرہ چھواتا ہے تو وہ بدعت کا ارتکاب کرتا ہے ۔


(3) سوال : نبی کریم صلی اللہ وسلم کے روضہ پر میرا سلام کہنا :
جواب : ایسا کام غیر مسنون  اور غیر مشروع ہے ۔ اس کا ثبوت قرآن و حدیث میں کہیں نہیں ملتا ۔ سلام تو ایسی چیز ہے کہ کوئی کہیں سے بھی نبی ﷺ کو سلام کرسکتا ہے اور ہم کم ازکم پانچ بار نبی ﷺ کو درود وسلام بھیجتے ہی ہیں پھر دوسروں کے ہاتھوں بھیجنے کی کیا ضرورت؟
شاید ایسے لوگوں کو نبی پاک ﷺ کے فرمان پہ یقین نہیں ہے :
لا تجعلوا بيوتكم قبوراً ، ولا تجعلوا قبري عيداً ، وصلُّوا عليَّ فإن صلاتكم تبلغني حيث كنتم (ابوداؤد:2042)
ترجمہ :تم اپنے گھروں كو قبريں مت بناؤ اور ميرى قبر كو ميلہ گاہ نہ بناؤ، اور مجھ پر درود بھيجا كرو كيونكہ تم جہاں بھى ہو تمہارا درود مجھ تك پہنچ جاتا ہے۔
٭ اس حدیث کو شیخ البانیؒ نے صحیح قرار دیا ہے ۔(صحیح الجامع : 7226)
قبر پہ جاکے سلام پیش کرنے کے متعلق ایک روایت پیش کی جاتی ہے :
‘‘جو انسان میری قبر کے پاس کھڑا ہو کرمجھ پر درود وسلام پڑھتا ہے اسےمیں خود سنتا ہوں اور جو میری قبر سے دور رہ کر درود پڑھتا ہے وہ مجھے پہنچایا جاتا ہے۔’’
٭محدثین کے فیصلہ کے مطابق یہ حدیث خود ساختہ اور موضوع ہے۔ (سلسلہ الاحادیث الموضوعۃ نمبر۲۰۳)


(4) سوال : نبی کریم صلی اللہ وسلم کو درود کا هدیہ پیش کرنا کہ فلاں ابن فلاں نے آپ کے لئے اتنے درود تحفہ کئے ہیں۔
جواب : اولا معین تعداد کی صورت میں درود و سلام پڑھنا جس کا ثبوت نہیں ہے لغو کام ہے ، اور پھر معین تعداد کی صورت میں کسی کے ہاتھوں درود بھیجنے کا بھی وہی حکم ہے جو ابھی سلام کے متعلق گذرا ہے ۔


(5) خاص طور پر وہاں جا کر کبوتروں کا جوٹها دانہ اٹهانا کہ یہ بے اولاد لوگوں کے لیے اولاد کا سبب بنے گا ۔
جواب : کبوتروں کو دانہ ڈالنا ہی نہیں چاہئے ، آخر لوگ ایسا کیوں کرتے ہیں ؟ دنیا میں ہزاروں مخلوق ہے مگر صرف کبوتر کو دانہ ڈالنے کی کیا حکمت ہے ؟ یہ جہالت کے سوا کچھ نہیں ہے ۔ مزید برآں ان کبوتروں کا جھوٹا چننا حصول اولاد کا سبب تصور کرنا ضعیف الاعتقادی ہے ، بلکہ اس میں شرک کی آمیزش ہے ۔ اس کام سے فورا توبہ کرنا چاہئے ۔


(6)سوال : مدینہ جا کر خاک شفا یا آب شفا کے حصول کی کوشش کرنے کی شرعی حیثیت بهی بیان کردیں ۔
جواب : مدینے میں کسی جگہ ایسی نہ کوئی مٹی ہے اور نہ ہی ایسا پانی ہے جسے شریعت میں شفا قرار دیا گیا ۔ بدر میں ایک کنواں ہے جسے لوگوں نے بئر شفا کے نام سے مشہور کر رکھا ہے حالانکہ یہ بئر الروحاء ہے ، اور اس بئر کی کوئی خصوصیت نہیں ثابت ہے ۔ لہذا خواہ مخواہ ایسی چیزوں میں اپنا ایمان نہ ضائع کریں جس کا کوئی ثبوت نہیں ہو۔ اللہ تعالی نے زمزم کو شرف و فضیلت دی ہے ، اسے زیادہ سے زیادہ استعمال کریں ۔


کتبہ
مقبول احمد سلفی
دفترتعاونی برائے دعوت وارشاد شمال طائف(مسرہ) سعودی عرب


0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کوئی تبصرہ کرنا چاہتے ہیں تو مثبت انداز میں تبصرہ کر سکتے ہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔