واقعہ کربلا , شیعہ کی کرامت
سب جانتے ہیں کہ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ نے یزید کی خلافت کو
تسلیم نہیں کیا اور جب ان سے مدینہ میں بیعت ِ یزید کا مطالبہ کیا گیا تو آپ مدینہ
سے نکل کر مکہ تشریف لے آئے۔ کوفہ میں شیعان علی کو یہ بات معلوم ہوئی۔
"فاجتمعت الشیعۃ فی منزل سلیمان بن صرد الخزاعی“[اعلام الوریٰ باعلام الہدیٰ، ج:۱، ص: ۳۵۴ بحوالہ شاملۃ الروافض]
توشیعہ لوگ سلیمان بن صرد خزاعی کے گھر جمع ہوئے اور باہم مشورہ کیا کہ ہم شیعان علی ہیں۔ ہمیں حصول خلافت کےلیے جناب حسین رضی اللہ عنہ کی مدد کرنا چاہیے۔ اس لیے انہوں نے جناب حسین رضی اللہ عنہ کو خط لکھے۔ آپ رضی اللہ عنہ نے حضرت مسلم بن عقیل کو تحقیق احوال کےلیے روانہ فرمایا۔ تمام شیعوں نے ان سے بیعت کی۔ انہی کے بھروسے پر جناب امام کوفہ روانہ ہوگئے لیکن یزید کی سختی کے باعث تمام بیعت کنندگان جناب مسلم سے غداری کرگئے اور انہیں بیدردانہ شہید کردیا گیا۔ دوران ِ سفر جناب حسین رضی اللہ عنہ کو یہ بات معلوم ہوئی تو انہوں نے کوفہ جانے کا ارادہ ختم کردینا چاہا لیکن حضرت مسلم بن عقیل کے وارث آڑے آئے۔ وہ بدلہ لیے بغیر جانے کو تیار نہ تھے۔ مجبوراً سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کو اپنا سفر جاری رکھنا پڑا۔
یہی شیعہ جو بیعت سے منحرف ہوچکے تھے، اب لشکر ِ یزید میں شامل ہوکر سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کی مدد کی بجائے ان سے جنگ کرنے کےلیے میدان کربلا میں آگئے۔ جناب امام رضی اللہ عنہ نے ان شیعوں کو نام لے لے کر خطاب کیا اور کہا کہ تمہی لوگوں نے مجھے خطوط اور عریضے لکھ کر مکہ سے بلوایا ہے۔ اب کیوں میرے قتل کے درپے ہوگئے ہو؟ لیکن ان کی ایک نہ سنی اور سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کے مقابلے میں ڈٹے رہے تاآنکہ 61ھ کے محرم کی دس تاریخ کو اہل تشیع اپنے امام معصوم کی جان لینے میں کامیاب ہوگئے۔
"فاجتمعت الشیعۃ فی منزل سلیمان بن صرد الخزاعی“[اعلام الوریٰ باعلام الہدیٰ، ج:۱، ص: ۳۵۴ بحوالہ شاملۃ الروافض]
توشیعہ لوگ سلیمان بن صرد خزاعی کے گھر جمع ہوئے اور باہم مشورہ کیا کہ ہم شیعان علی ہیں۔ ہمیں حصول خلافت کےلیے جناب حسین رضی اللہ عنہ کی مدد کرنا چاہیے۔ اس لیے انہوں نے جناب حسین رضی اللہ عنہ کو خط لکھے۔ آپ رضی اللہ عنہ نے حضرت مسلم بن عقیل کو تحقیق احوال کےلیے روانہ فرمایا۔ تمام شیعوں نے ان سے بیعت کی۔ انہی کے بھروسے پر جناب امام کوفہ روانہ ہوگئے لیکن یزید کی سختی کے باعث تمام بیعت کنندگان جناب مسلم سے غداری کرگئے اور انہیں بیدردانہ شہید کردیا گیا۔ دوران ِ سفر جناب حسین رضی اللہ عنہ کو یہ بات معلوم ہوئی تو انہوں نے کوفہ جانے کا ارادہ ختم کردینا چاہا لیکن حضرت مسلم بن عقیل کے وارث آڑے آئے۔ وہ بدلہ لیے بغیر جانے کو تیار نہ تھے۔ مجبوراً سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کو اپنا سفر جاری رکھنا پڑا۔
یہی شیعہ جو بیعت سے منحرف ہوچکے تھے، اب لشکر ِ یزید میں شامل ہوکر سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کی مدد کی بجائے ان سے جنگ کرنے کےلیے میدان کربلا میں آگئے۔ جناب امام رضی اللہ عنہ نے ان شیعوں کو نام لے لے کر خطاب کیا اور کہا کہ تمہی لوگوں نے مجھے خطوط اور عریضے لکھ کر مکہ سے بلوایا ہے۔ اب کیوں میرے قتل کے درپے ہوگئے ہو؟ لیکن ان کی ایک نہ سنی اور سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کے مقابلے میں ڈٹے رہے تاآنکہ 61ھ کے محرم کی دس تاریخ کو اہل تشیع اپنے امام معصوم کی جان لینے میں کامیاب ہوگئے۔
سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت بہت ہی افسوس ناک واقعہ ہے اور
خصوصاً اس لحاظ سے کہ ان کے قاتل وہی لوگ ہیں جو حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے
مقابلہ میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی ناکامی کے ذمہ دار ہیں اور جن کی بدعہدیوں سے
تنگ آکر سیدنا حسن رضی اللہ عنہ نے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ سے صلح کی تھی اورجن
کے بارے میں حضرت حسن رضی اللہ عنہ نے فرمایا تھا: ”بخدا سوگند اس جماعت سے میرے
لیے معاویہ بہتر ہے۔ یہ لوگ دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم شیعہ ہیں اور میرا ارادۂ قتل
کیا ، میرا مال لوٹ لیا۔۔۔۔ بخدا اگر میں معاویہ سے جنگ کروں تو یہی لوگ مجھے اپنے
ہاتھ سے پکڑ کر معاویہ کو دے دیں۔“ (اردو ترجمہ جلاء العیون، ج: ۱،
ص: ۳۷۹،
از ملا باقر مجلسی) (حوالہ نمبر: 2)
یہ تو ہے ان لوگوں کا حقیقی کردار، لیکن جب حضرت حسین رضی اللہ عنہ شہید ہوگئے اور خاندان ِ اہل بیت نے ان کی مسلسل غداریوں کے باعث ان پر اعتماد کرنا چھوڑ دیا تو یہ لوگ کف ِ افسوس ملنے لگے اور آج تک افسوس اور غم و اندوہ کی کیفیت ان پر طاری ہے۔ ہر سال محرم کے مہینے میں اس کا مظاہرہ کیا جاتا ہے۔ مجالس ِ ماتم منعقد ہوتی ہیں۔ ائمہ کے مناقب اور صحابہ پر سبّ و شتم ہوتا ہے۔ ماتمی جلوس نکلتے ہیں۔ نوحہ و زاری اور بےصبری کا مظاہرہ ہوتا ہے، حالانکہ خود ان کی اپنی کتب اس طرز عمل کی شدت سے نفی کرتی ہیں۔
آج کل شیعہ والا عمل مسلمان کرتے ہیں اور اسے دین کا حصہ تصور کرتے ہیں ۔
یہ تو ہے ان لوگوں کا حقیقی کردار، لیکن جب حضرت حسین رضی اللہ عنہ شہید ہوگئے اور خاندان ِ اہل بیت نے ان کی مسلسل غداریوں کے باعث ان پر اعتماد کرنا چھوڑ دیا تو یہ لوگ کف ِ افسوس ملنے لگے اور آج تک افسوس اور غم و اندوہ کی کیفیت ان پر طاری ہے۔ ہر سال محرم کے مہینے میں اس کا مظاہرہ کیا جاتا ہے۔ مجالس ِ ماتم منعقد ہوتی ہیں۔ ائمہ کے مناقب اور صحابہ پر سبّ و شتم ہوتا ہے۔ ماتمی جلوس نکلتے ہیں۔ نوحہ و زاری اور بےصبری کا مظاہرہ ہوتا ہے، حالانکہ خود ان کی اپنی کتب اس طرز عمل کی شدت سے نفی کرتی ہیں۔
آج کل شیعہ والا عمل مسلمان کرتے ہیں اور اسے دین کا حصہ تصور کرتے ہیں ۔
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کوئی تبصرہ کرنا چاہتے ہیں تو مثبت انداز میں تبصرہ کر سکتے ہیں۔
اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔