عہد نبوی میں کتابت حدیث
===============
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو شروع میں یہ
خوف لاحق تھا کہ ایسا نہ ہو کہ لوگ حدیث اور قرآن دونوں کو ایک ساتھ ملا کر لکھ لیں
جس سے کچھ لوگوں کے لئے دونوں میں فرق کرنا مشکل ہوجائے، اسی لئے آپ صلی اللہ علیہ
وسلم نے صحابہ کو احادیث لکھنے سے منع کیا، جیسا کہ مسند احمد کی حدیث ہے:
لا تكتبوا عني، ومن كتب عني شيئا سوى القرآن
فليمحه (مسند أحمد: ج 3 ص 21)
“مجھ سے کچھ مت لکھو، اور جس نے قرآن کے
علاوہ مجھ سے کچھ بات لکھی ہو اسے چاہئے کہ مٹا دے”.
اور مسلم شریف کی روایت :
عن ابی سعید الخدری ان رسول اللہﷺ قال:
((لَاتَکْتُبُوْا عَنِّیْ وَمَنْ کَتَبَ عَنِّیْ غَیْرَالْقُرْاٰنِ فَلْیَمْحُہُ وَحَدِّثُوْا
عَنِّیْ وَلَاحَرَجَ وَمَنْ کَذَبَ عَلَیَّ مُتَعَمِّدًا فَلْیَتَبَوَّأَ مَقْعَدَہُ
مِنَ النَّارِ)) (مسلم،الزھد،الثبت فی الحدیث…ح:۳۰۰۴) ’’ابوسعیدخدری سے روایت کہ اللہ
کے رسولﷺ نے فرمایا:مجھ سے کچھ نہ لکھو اور جس نے قرآن کے علاوہ مجھ سے کچھ لکھا ہے
وہ اسے مٹا دے اور مجھ سے بیان کرو کوئی حرج نہیں اور جس نے جان بوجھ کر مجھ پر جھوٹ
بولا وہ اپنا ٹھکانا دوزخ میں بنا لے۔ ‘‘
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ
حکم سن 7 ہجری تک برقرار رہا، لیکن جب قرآن کی حفاظت کے تئیں اللہ کے رسول صلی اللہ
علیہ وسلم کو اطمینان حاصل ہو گیا تو اپنے ساتھیوں کو احادیث بھی قلمبند کرنے کی عام
اجازت دے دی، صحابہ میں کچھ لوگ ایسے تھے جو آپ کی باتیں سننے کے بعد انہیں باضابطہ
لکھ لیا کرتے تھے۔
حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں
کہ میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے جو کچھ سنتا اسے یاد کرنے کے لئے لکھ لیا
کرتا تھا، لوگوں نے مجھے روکا اور کہا: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ایک انسان
ہیں، کبھی خوشی کی حالت میں باتیں کرتے ہیں تو کبھی غصہ کی حالت میں، اس پر میں نے
لکھنا چھوڑ دیا: پھر میں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا تو آپ
نے اپنی انگلیوں سے اپنے منہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا:
اكتب فوالذي نفسي بيده لا يخرج منه إلا
حق (رواه أبو داود والحاكم)
“لکھ لیا کرو، قسم ہے اس ذات کی جس کے
ہاتھ میں میری جان ہے اس منہ سے حق (حق) کے سوا کچھ نہیں نکلتا”.
اسی طرح حضرت ابوهریرہ رضی اللہ عنہ بیان
کرتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے (فتح مکہ کے موقع پر) ایک خطبہ دیا.
ابو شاہ نے کہا: اے اللہ کے رسول! اسے میرے لئے لکھا دیجئے، آپ نے کہا: أكتبوا لأبي
شاة اسے ابوشاہ کے لیے لکھ دو. (بخاری، مسلم)
ترمذی کی روایت کے مطابق حضرت ابو هریرہ
رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ انصار میں سے ایک شخص نے کہا: میں آپ سے بہت سی باتیں
سنتا ہوں لیکن یاد نہیں رکھ پاتا۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا: اپنے ہاتھ
سے مدد لو، اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ کے اشارہ سے بتایا کہ لکھ لیا
کرو . (ترمذی)
اسی طرح صحیح بخاری میں حضرت ابو هریرہ
رضی اللہ عنہ کا بیان ہے:
ما في أصحاب رسول الله صلى الله عليه أحد
أكثر حديثا مني إلا ما كان من عبدالله بن عمرو فإنه كان يكتب ولا أكتب
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب
میں مجھ سے زیادہ حدیث بیان کرنے والے کوئی نہیں ہیں سوائے عبداللہ بن عمرو کے کہ وہ
لکھ لیتے تھے اور میں نہیں لکھتا تھا. (بخاری)
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کوئی تبصرہ کرنا چاہتے ہیں تو مثبت انداز میں تبصرہ کر سکتے ہیں۔
اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔