Thursday, October 15, 2015

نماز تراویح و تہجد دونوں ایک ہی ہیں۔

نماز تراویح و تہجد دونوں ایک ہی ہیں۔
=============

تہجد ، تراویح، قیام اللیل ، قیام رمضان، وتر ایک ہی نما ز کے مختلف نام ہیں۔

دلیل(1) : نبی ﷺ سے تہجد اور تراویح کا علیحدہ علیحدہ پڑھنا قطعاً ثابت نہیں ہے۔

دلیل (2) : ائمہ محدثین نے صدیقہ کائنات سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی حدیث پر قیام رمضان اور تراویح کے ابواب باندھے ہیں مثلاً
۱: صحیح بخاری ، کتاب الصوم (روزے کی کتاب) کتاب صلوۃ التراویح (تراویح کی کتاب) با ب فضل من قام رمضان (فضیلتِ قیامِ رمضان)
۲: مؤطا محمد بن الحسن الشیبانی : ص۱۴۱، باب قیام شہر رمضان و مافیہ من الفضل۔
مولوی عبدالحئی لکھنوی نے اس کے حاشیہ پر لکھا ہے: “قولہ ، قیام شھررمضان ویسمی التراویح”
یعنی: قیام رمضان اور تراویح ایک ہی چیز ہے۔
۳: السنن الکبری للبیہقی (۴۹۵/۲، ۴۹۶) باب ماروی فی عدد رکعات القیام فی شہر رمضان

دلیل (3) : مقتدین میں سے کسی محدث یا فقیہ نے نہیں کہا کہ اس حدیث کا تعلق نماز تراویح کے ساتھ نہیں ہے۔

دلیل(4) : اس حدیث کو متعدد اماموں نے بیس رکعات والی موضوع و منکر حدیث کے مقابلہ میں بطور معارضہ پیش کیا ہے مثلاً
۱: علامہ زیلعی حنفی (نصب الرایہ:۱۵۳/۲)
۲: حافظ ابن حجر عسقلانی (الدرایہ: ۲۰۳/۱)
۳: علامہ ابن ہمام حنفی(فتح القدیر:۴۶۷/۱، طبع دار الفکر)
۴: علامہ عینی حنفی (عمدۃ القاری: ۱۲۸/۱۱)
۵: علامہ سیوطی (الحاوی للفتاوی۳۴۸/۱) وغیرہم

دلیل (5) : سائل کا سوال صرف قیام رمضان سے تھا جس کو تراویح کہتے ہیں، تہجد کی نماز کے بارے میں سائل نے سوال ہی نہیں کیا تھا بلکہ ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے جواب میں سوال سے زائد نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلم کے قیامِ رمضان و غیر رمضان کی تشریح فرما دی، لہذا اس حدیث سے گیارہ رکعات تراویح کا ثبوت صریحاً ہے ۔

دلیل (6) : بعض لوگوں کا یہ دعویٰ ہے کہ تہجد اور تراویح علیحدہ علیحدہ دو نمازیں ہیں، ان کا اصول یہ ہے کہ نبیﷺ نے ۲۳ رکعات تراویح (۳+۲۰) پڑھیں جیسا کہ ان لوگوں کا عمل ہے اور اسی رات کو گیارہ رکعات تہجد (۳+۸) پڑھی۔ (جیسا کہ ان کے نزدیک صحیح بخاری کی حدیث سے ثابت ہوتا ہے ) یہاں پر اشکال یہ ہے کہ اس طرح تو لازم یہ آتا ہے کہ ایک رات میں آپ نے دو دفعہ وتر پڑھے، حالانکہ نبی ﷺ نے فرمایا “لا وتران فی لیلۃ” ایک رات میں دو وتر نہیں ہیں ۔ (ترمذی :۱۰۷/۱ ح ۴۷۰، ابوداود:۱۴۳۹، نسائی: ۱۶۷۸، صحیح ابن خزیمہ :۱۱۰۱، صحیح ابن حبان:۱۶۷۱ ساندہ صحیح) اس حدیث کے بارے میں امام ترمذی نے فرمایا”ھذا حدیث حسن غریب”
یاد رہے کہ اس حدیث کےسارے راوی ثقہ ہیں۔
چونکہ رسول اللہﷺ کے قول و فعل میں تضاد نہیں ہوسکتا لہذا یہ ثابت ہوگیا کہ آپﷺ نے رات میں صرف ایک ہی وتر پڑھا ہے، آپﷺ سے صرف گیارہ رکعات (۳+۸)ثابت ہیں، ۲۳ ثابت نہیں ہیں (۳+۲۰) لہذا تہجد اور تراویح میں فرق کرنا باطل ہے۔

دلیل (7) : مولوی انور شاہ کشمیری دیوبندی نے یہ تسلیم کیا ہے کہ تہجد اور تراویح کی نما ز ایک ہی ہے اور ان دونوں میں کوئی فرق نہیں ہے، دیکھئے فیض الباری (۴۲۰/۲) العر ف الشذی (۱۶۶/۱) یہ مخالفین کے گھر کی گواہی ہے۔ اس کشمیری قول کا جواب ابھی تک کسی طرف سے نہیں آیا ۔ ؏ گھر کو آگ لگ گئی ،گھر کے چراغ سے

دلیل (8) : سیدنا امیر المؤمنین حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی تہجد اور تروایح دونوں کو ایک سمجھتے تھے، تفصیل کےلئے دیکھئے فیض الباری (۴۲۰/۲)

دلیل(9) : متعدد علماء نے اس شخص کو تہجد پڑھنے سے منع فرمایا ہے جس نے نمازِ تراویح پڑھ لی ہو۔
(قیام اللیل للمروزی:بحوالہ فیض الباری:۴۲۰/۲)
یہ اس بات کی واضح دلیل ہے کہ ان علماء کے نزدیک تہجد اور تروایح ایک ہی نماز ہے۔

دلیل (10): سیدنا جابر بن عبداللہ الانصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت :“صلی بنا رسول اللہ ﷺ في رمضان ثمان رکعات والوتر الخ” بھی اس کی مؤید ہے جیسا کہ آگے باتفصیل آرہا ہے، لہذا اس حدیث کا تعلق تراویح کے ساتھ یقیناً ہے۔


وتلک عشرۃ کاملۃ۔ یہ دس دلائل ایک مقلد کو یہ سمجھنے کے لئے کافی ہیں کہ نماز تہجد اور نماز تراویح دونوں ایک ہی ہیں ۔


واللہ اعلم
منقول 




0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کوئی تبصرہ کرنا چاہتے ہیں تو مثبت انداز میں تبصرہ کر سکتے ہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔