Tuesday, August 18, 2015

ابلیس جن تھا یا فرشتہ ؟

ابلیس جن تھا یا فرشتہ ؟

ڈاکٹر ذاکر نائک سے پوچھا گیا:
’’قرآنِ مجید میں متعدد مقامات پر کہا گیا ہے کہ ابلیس ایک فرشتہ تھا لیکن سورۂ کہف میں فرمایا گیا ہے کہ ابلیس ایک جن تھا۔ کیا یہ بات قرآن میں تضاد کو ظاہر نہیں کرتی؟
تو ڈاکٹر صاحب نے جواب دیا:
قرآن کریم میں مختلف مقامات پر آدم و ابلیس کا قصہ بیان کیا گیا ہے۔ سورۂ بقرہ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿وَإِذ قُلنا لِلمَلـٰئِكَةِ اسجُدوا لِـٔادَمَ فَسَجَدوا إِلّا إِبليسَ﴾ہم نے فرشتوں سے کہا کہ آدم کو سجدہ کرو، سو ان سب نے سجدہ کیا سوائے ابلیس کے۔ (البقرۃ: ۳۴)
اس بات کا تذکرہ حسب ذیل آیات میں بھی کیا گیا ہے:
٭           سورۂ اعراف کی آیت: ۱۱
٭           سورۂ حجر کی آیات: ۳۱-۲۷
٭           سورۂ بنی اسرائیل کی آیت: ۶۱
٭           سورۂ طٰہٰ کی آیت: ۱۱۶
٭           سورۂ صٓ کی آیت: ۷۴-۷۱
لیکن (۱۸) ویں سورۃ الکہف کی آیت: ۵۰ کہتی ہے:
﴿وَإِذ قُلنا لِلمَلـٰئِكَةِ اسجُدوا لِـٔادَمَ فَسَجَدوا إِلّا إِبليسَ كانَ مِنَ الجِنِّ فَفَسَقَ عَن أَمرِ‌ رَ‌بِّهِ... ﴿٥٠﴾... سورة الكهف

’’اور جب ہم نے فرشتوں سے کہا: آدم کو سجدہ کرو تو ان سب نے سجدہ کیا سوائے ابلیس کے، وہ جنوں میں سے تھا۔ اس نے اپنے رب کے حکم کی نافرمانی کی۔‘‘

تغلیب کا کلیہ
--------------
سورۃ البقرہ کی مذکورہ بالا آیت کے پہلے حصے سے ہمیں یہ تاثر ملتا ہے کہ ابلیس ایک فرشتہ تھا۔ قرآن کریم عربی زبان میں نازل ہوا ہے۔ عربی گرامر میں ایک کلیہ تغلیب کے نام سے معروف ہے جس کے مطابق اگر اکثریت سے خطاب کیا جا رہا ہو تو اقلیت بھی خود بخود اس میں شامل ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر میں ۱۰۰ طالب علموں پر مشتمل ایک ایسی کلاس سے خطاب کر رہا ہوں جس میں لڑکوں کی تعداد ۹۹ ہے اور لڑکی صرف ایک ہے، اور میں عربی زبان میں یہ کہتا ہوں کہ سب لڑکے کھڑے ہو جائیں تو اس کا اطلاق لڑکی پر بھی ہوگا۔ مجھے الگ طور پر اس سے مخاطب ہونے کی ضرورت نہیں ہوگی۔
اسی طرح قرآن کے مطابق جب اللہ تعالیٰ نے فرشتوں سے خطاب کیا تو ابلیس بھی وہاں موجود تھا، تاہم اس امر کی ضرورت نہیں تھی کہ اس کا ذکر الگ سے کیا جاتا، لہٰذا سورۂ بقرہ اور دیگر سورتوں کی عبارت کے مطابق ابلیس فرشتہ ہو یا نہ ہو لیکن ۱۸ویں سورۃ الکہف کی پچاسویں آیت کے مطابق ابلیس ایک جن تھا۔ قرآن کریم میں کہیں یہ نہیں کہا گیا کہ ابلیس ایک فرشتہ تھا۔ سو قرآن کریم میں اس حوالے سے کوئی تضاد نہیں۔( اسلام پر 40 اعتراضات کے عقلی و نقلی جواب)

ابلیس ایک جن تھا فرشتہ نہیں، اسے کتاب و سنت کے حوالے سے اس طرح سمجھ سکتے ہیں۔
(1) قرآن کی آیتوں سے صاف ظاہر ہے کہ ابلیس جن تھا ، فرشتہ ہونے کی قرآن سے یا صحیح حدیث سے کوئی دلیل نہیں۔
(2) ابلیس آگ سے پیدا کیا گیا ۔ دلیل :قَالَ أَنَا خَيْرٌ مِنْهُ خَلَقْتَنِي مِنْ نَارٍ وَخَلَقْتَهُ مِنْ طِينٍ (الأعراف:12) جبکہ فرشتہ نور سے ۔ دلیل : خُلِقَت الملائكة من نور ،  وّخُلِقَ الجَّان من مارجٍ من نار ، وخُلِقَ آدم مما وُصِفَ لكم(مسلم : 2996)
(3) فرشتوں کی اولاد یعنی نسل نہیں ہوتی جب کہ ابلیس کی اولاد ہوتی ہے۔ ( سورۃ الکہف: 50)
(4)فرشتے کبھی اللہ کی نافرمانی نہیں کرتے جبکہ ابلیس (شیطان) نے اللہ کی نافرمانی کی اور اس کی اولاد قیامت تک اللہ کی نافرمانیاں کرتی رہیں گی۔
(5)یہ صحیح ہے کہ بعض اہل علم نے بھی کہا ہے کہ ابلیس فرشتوں میں سے تھا مگر ان اہل علم کے پاس کوئی صریح دلیل نہیں ۔دلیل کے طور پہ اثراورقول پیش کرتے ہیں یہ بھی اسرائیلیات سے ماخوذ ہے۔
(6)جنوں کو ارادہ و اختیار دیا گیا ہے ،اس لئے تو اطاعت سے انکار بھی کرتےہیں، جبکہ فرشتوں کے پاس اختیار نہیں وہ ہمیشہ اللہ کی اطاعت کرتےہیں۔


یہ ساری باتیں واضح کرتی ہیں کہ ابلیس جنوں میں سے تھا ۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کوئی تبصرہ کرنا چاہتے ہیں تو مثبت انداز میں تبصرہ کر سکتے ہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔