Tuesday, June 30, 2015

کسی کی طرف سے شیر کئے گئے پانچ سوال کے جواب

کسی  کی طرف سے شیر کئے گئے پانچ سوال کے جواب
=================

مقبول احمد سلفی


(1) تہجد کی شرائط
نماز تہجد کے لئے وہی شرائط ہیں جو عام نمازوں کے لئے ہیں۔
حدث اکبر و اصغر سے پاک ہونا، کپڑاوبدن اور جگہ کا نجاست سے پاک ہونا، ستر چھپانا، قبلے کا استقبال ، وقت پر ادا کرنا(تہجد کا وقت: عشاء کے بعد سے طلوع فجر تک ہے )۔

(2) آپ ﷺ نے آٹھ رکعت تراویح پڑھی مگر صحابہ کرام ، اور حضرت عمر رضی اللہ عنہم نے بیس رکعت پڑھی ؟
سنت آٹھ رکعت ہی ہے ، آپ ﷺ سے یہی ثابت ہے ، اور صحابہ کرام سے بھی یہی ثبوت ملتا ہے ، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بھی آٹھ ہی رکعت پڑھی اور آٹھ ہی رکعت پڑھنے کا حکم بھی دیا، بیس رکعت تراویح والی کوئی روایت صحیح نہیں ہے ۔

(3) امام بخاری نے باب التہجد اور باب التراویح الگ الگ کیوں قائم کیا ؟
چونکہ قیام اللیل کو رمضان میں تراویح کہتے ہیں، اور رمضان میں قیام اللیل کے متعلق جو کچھ احادیث میں وارد ہے ، اسے الگ الگ بتانے کے لئے دو الگ الگ باب قائم کئے گئے ہیں۔

(4) صحابہ کے دور میں بخاری شریف تھی؟
صحابہ کرام کے دور بخاری شریف ہی نہیں احادیث کی جتنی کتابیں ہیں، ساری کتابوں کی حدیث موجود تھی کیونکہ احادیث تو نبی ﷺ کی سیرت و کردار کا نام ہے ۔ یہ الگ بات میں اسے بعد میں مدون کیا گیا۔

(5) یزید کو صحابی کہنا؟
یزید صحابی نہیں ہیں، بلکہ صحابی رسول حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے بیٹے ہیں، انہیں تابعی کہیں گے ۔



مکمل تحریر >>

Monday, June 29, 2015

رمضان کے تین عشرے کی مختلف دعائیں

رمضان کے تین عشرے کی مختلف دعائیں
==================
آج کل شوسل میڈیا پہ رمضان المبارک کے تعلق سے تین عشروں کیلئے جو الگ الگ تین دعائیں پھیلی ہوئی ہیں۔
پہلے عشرے کی دعا: یا حي یا قیوم برحمتك استغیث
دوسرے عشرے کی دعا:استغفر الله ربی من كل ذنب و اتوب الیه
تیسرے عشرے کی دعا: اللهم اجرنی من النار

ان دعاؤں کی تینوں عشروں کے ساتھ تخصیص کی سنت سے کوئی دلیل نہیں ہے۔
لہذا کوئی اسے نبی ﷺ سے ثابت ہونے کا عقیدہ نہ رکھے، اور رمضان میں کوئی بھی دعا کی جاسکتی ہے، ان دعاؤں کو بھی پڑھا جاسکتا ہے، مگر انہیں کسی عشرہ کے ساتھ خاص نہیں کیا جائے گا۔


واللہ اعلم
مکمل تحریر >>

Saturday, June 27, 2015

روزے کی حالت میں خواتین کا بے پردہ رہنا

روزے کی حالت میں خواتین کا بے پردہ رہنا
==================
مقبول احمد سلفی
روزہ ایک پاکیزہ عمل ہے ، اور خالص اللہ کی خشنودی کے لئے ہے، اس لئے روزہ کا شمار عظیم عبادتوں میں ہوتا ہے ۔ روزہ تقوی کا عظیم مظہر ہے ۔ روزہ ہم سے مطالبہ کرتا ہے کہ اس حالت میں گناہ کا کوئی کام نہ کریں، تاکہ اللہ کی رضا حاصل ہو۔ اگر کوئی خاتون روزہ کی حالت میں بے پردہ ہوگئی تو اس کا روزہ نہیں ٹوٹتا ، مگر بے پردگی اسلام میں حرام ہے ، اور پردہ میں چہرہ بھی داخل ہے ، بلکہ لوگوں کی توجہ کا اصل مرکز چہرہ ہی ہے ، اسے اجنبی مردوں سے چھپائے رکھنا عورت پر لازم ہے ۔
روزہ مسلم خاتون سے مطالبہ کرتا ہے کہ روزے کی حالت میں بے پردہ باہر نہ نکلیں۔ بازار میں بلاضرورت اور بے پردہ گھومنا باعث گناہ ہے ۔ اجنبی مردوں کے سامنے چہرہ کھلے آناجاناحرام ہے ۔ اور یہ بات بھی  ذہن نشیں کرلیں کہ یہ کام صرف روزہ کی حالت میں ہی نہیں عام حالات میں بھی ممنوع ہیں۔ روزے کی حالت میں یہ گناہ اور بھی شدید ہوجاتا ہے ۔ کتنے عیب کی بات ہے کہ ایک طرف خاتون روزہ رکھ کر اللہ کو راضی کرنا چاہتی ہے اور دوسری طرف بے پردہ ہوکر رب کو ناراض بھی کر رہی ہے ۔
یہ تو وہی ہوا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نیکی کر دریا میں ڈال





مکمل تحریر >>

Friday, June 26, 2015

قرآن گر جانے کا کفارہ؟

قرآن گر جانے کا کفارہ؟
مردوں میں تو نہیں البتہ عورتوں میں یہ بات کافی مشہور ہے کہ اگر غلطی سے بھی قرآن پاک گرجائے تو بہت بڑے گناہ کا سبب ہے ، اس وجہ سے اس غلطی کا تدارک کیسے کیا جائے بہت پریشان ہوجاتی ہیں ۔ ابھی رمضان کا مہینہ ہے ، قرآن کی تلاوت عام ہے جس کی وجہ سے یہ بات کافی جہتوں سے آرہی ہے ۔
اتنا جان لیں کہ قرآن مجید اللہ تعالیٰ کا پاک کلام ہے قرآن مجید کا احترام اور تعظیم فرض ہے اس کی بے ادبی و بے حرمتی ناجائز اور حرام ہے، بلکہ بسا اوقات اس کی توہین کفرتک پہنچا دیتی ہے۔اس لئے قرآن کریم لینے دینے ، اٹھانے ، رکھنے میں بہت احتیاط سے کام لینا چاہئے ۔
مگر پھر بھی غیر ارادی طور پر قرآن مجید ہاتھ سے چھوٹ کر گر جائے تو کوئی گناہ لازم نہیں آتا اور نہ ہی کوئی کفارہ ادا کرنا ہے۔

(1)عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: «إِنَّ اللَّهَ وَضَعَ عَنْ أُمَّتِي الْخَطَأَ، وَالنِّسْيَانَ، وَمَا اسْتُكْرِهُوا عَلَيْهِ»[سنن ابن ماجه رقم 2045 صحیح بالشواہد]۔
ترجمہ : صحابی رسول عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اللہ تعالی نے میری امت سے (انجانے میں ہونے والی ) غلطی ، بھول چوک اور زورزبردستی کے نتیجہ میں ہونے والے خلاف شرع کاموں کو معاف کردیاہے۔

(2)سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی سورۂ بقرہ کی آخری دو آیات کی فضیلت کے متعلق حدیث میں ہے ’’اے ہمارے رب ہم سے مؤاخذہ نہ کر، اگر ہم بھول جائیں یا ہم غلطی کر جائیں‘‘ تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’میں نے ایسا کر دیا‘‘ ۔
(مسلم کتاب الایمان، باب بیان تجاوز اللہ تعالیٰ عن حدیث النفس۔۔۔ الخ،ح: 330)

مذکورہ بالا دونوں حدیث سے پتہ چلتا ہے کہ بندے سے اگر بھول چوک ہوجائے تو اللہ تعالی یوں ہی معاف فرمادیتا ہے ، اگر بھول سے قرآن کریم بھی گر جائے تو وہ اللہ کے نزدیک معاف ہے، نیزقرآن مجید کے گرنے پر کوئی کفارہ وغیرہ اللہ تعالیٰ اور رسول اللہؐ نے بیان نہیں فرمایا۔ اس لئے ہم یہ کہیں گے کہ اس کام پر عنداللہ کوئی مواخذہ نہیں ، اور نہ ہی گوئی کفارہ دینا ہے ، اگر استغفار کرلیتا ہے تو بہتر ہے ، اور دل کی تسلی کے لئے مسکینوں میں صدقہ کردے تو بھی بہتر ہے ۔

  
مکمل تحریر >>

Wednesday, June 24, 2015

مسئلہ تراویح اور سعودی علماء

مسئلہ تراویح اور سعودی علماء

مکہ مکرمہ کی مسجد ِ حرام میں 20 تراویح کے بارے میں اکثر وبیشتر سوال کیا جاتا ہے کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت آٹھ سے زیادہ تراویح نہیں ہیں ، تو پھر بیت اللہ میں اس پر عمل کیوں نہیں کیا جاتا۔ ایک طرف سعودی عرب کی تمام مساجد میں جواکثر وبیشتر حکومت کے ہی زیر نگرانی ہیں ، آٹھ تراویح پڑھی جاتی ہیں ، پھر بیت اللہ میں کیوں 20 تراویح پڑھائی جاتی ہیں ؟ آئیے اس کی حقیقت اور تراویح کے بارے میں سعودی عرب کے جید علما کا موقف جانتے ہیں ۔

صحیح بخاری میں مروی ہے کہ ابو سلمہ بن عبد الرحمن نے حضرت عائشہ ؓسے پوچھا :
رمضان میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کیسے تھی ؟تو اُنہوں نے جواباًکہا :
''ما کان یزید في رمضان ولا في غیرہ علی إحدٰی عشرة رکعة''(صحیح بخاری: 2013)
''رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان میں اوردیگر مہینوں میں گیارہ رکعات سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے۔ ''

حضرت جابر بن عبد اللہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں رمضان میں آٹھ رکعات اور وتر پڑھائے، اگلی رات آئی تو ہم جمع ہوگئے، اور ہمیں امید تھی کہ آپؐ گھر سے باہر نکلیں گے لیکن ہم صبح تک انتظار کرتے رہ گئے۔ پھر ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس سلسلے میں بات کی تو آپؐ نے فرمایا: مجھے خطرہ تھا کہ کہیں تم پر فرض نہ کردیا جائے۔ ''(صحیح ابن خزیمہ :1070،ابن حبان2401، ابویعلی 3؍336، صحیح بخاری 2012)
اس حدیث کی سند کو شیخ البانی رحمة اللہ علیہ نے تخریج صحیح ابن خزیمہ میں حسن قرار دیا ہے، اس کے راوی عیسیٰ بن جاریہ پر کچھ محدثین نے جرح کی ہے جو مبہم ہے، اور اس کے مقابلے میں ابوزرعہ رحمة اللہ علیہ اورابن حبان رحمة اللہ علیہ نے اس کی تو ثیق کی ہے ،لہٰذا اسے جرحِ مبہم پر مقدم کیا جائے گا۔

امام مالک نے سائب بن یزید سے روایت کیا ہے کہ ''حضرت عمر ؓ نے اُبی بن کعبؓ اور تمیم داری ؓ کو گیارہ رکعات پڑھانے کا حکم دیا۔'(موطأ: 1؍73،مصنف ابن ابی شیبہ 2؍391)

ان احادیث سے معلوم ہوا کہ
•              رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رمضان اوردیگر مہینوں میں رات کی نمازگیارہ رکعات تھی ۔
•              یہی گیارہ رکعات آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان میں صحابہ کرامؓ کو بھی باجماعت پڑھائیں ۔
•              پھر جب حضرت عمرؓ نے نمازِ تراویح کے لئے لوگوں کو جمع کیا، تو اُنہوں نے بھی دوصحابہ کرام اُبی بن کعب ؓ اور تمیم داری ؓکو گیارہ رکعات ہی پڑھانے کا حکم دیا ۔


سعودی علماء اور مسئلہ تراویح
سعودی علما کا مسئلہ تراویح میں بالکل وہی موقف ہے ان کی تصریحات حسب ِذیل ہیں :
(1) شیخ ابن باز رحمة اللہ علیہ
''والأفضل ما کان النبيﷺ یفعله غالبًا وھو أن یقوم بثمان رکعات یسلم من کل رکعتین، ویوتر بثلاث مع الخشوع والطمأنینة وترتیل القراء ة، لما ثبت فی الصحیحین من عائشة رضی اﷲ عنھا قالت: کان رسول اﷲ ﷺ لا یزید في رمضان ولا في غیرہ علی إحدٰی عشرة رکعة...''(فتاوٰی اللجنة الدائمة 7؍212)
''اور افضل وہ ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم اکثر و بیشتر کرتے تھے، اور وہ یہ کہ انسان آٹھ رکعات پڑھے، اور ہر دو رکعت کے بعد سلام پھیرے، پھر تین وتر ادا کرے اور پوری نماز میں خشوع، اطمینان اور ترتیل قرآن ضروری ہے۔ بخاری و مسلم میں حضرت عائشہ سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان اور دیگر مہینوں میں گیارہ رکعات سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے...''

(2) سعودی عرب کی فتویٰ کونسل کا فتویٰ
''صلاة التراویح سنة سَنَّھا رسول اﷲ ﷺ، وقد دلَّت الأدلة علی أنه ﷺ ما کان یزید في رمضان ولا في غیرہ علی إحدی عشرة رکعة''( فتاوٰی اللجنة الدائمة : 7؍194)
''نماز تراویح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے،اور دلائل یہ بتاتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان اور اس کے علاوہ پورے سال میں گیارہ رکعات سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے۔''

اس فتوے پر چار سعودی علما کے دستخط ہیں :
شیخ عبداللہ بن قعود،
شیخ عبداللہ بن غدیان
شیخ عبدالرزاق عفیفی
شیخ ابن باز

(3)شیخ محمد بن صالح عثیمین رحمة اللہ علیہ
''واختلف السلف الصالح في عدد الرکعات في صلاة التراویح والوتر معها، فقیل: إحدی وأربعون رکعة، وقیل: تسع وثلاثون، وقیل: تسع وعشرون، وقیل ثلاث وعشرون، وقیل: تسع عشرة، وقیل: ثلاث عشرة، وقیل: إحدٰی عشرة، وقیل: غیر ذلك، وأرجح ھذہ الأقوال أنها إحدی عشرة أوثلاث عشرة لما في الصحیحین عن عائشة رضي اﷲ عنها... وعن ابن عباس رضی اﷲ عنهما  قال: کانت صلاة النبي ﷺ ثلاث عشرة رکعة، یعني من اللیل (رواہ البخاري) وفي الموطأ عن السائب بن یزید رضي اﷲ عنه قال: أمر عمر بن الخطاب رضي اﷲ عنه أبي بن کعب وتمیم الداري أن یقوما للناس بإحدی عشرة رکعة''( مجالس شہر رمضان: ص19)
''سلف صالحین نے نمازِ تراویح مع نمازِ وتر کی رکعات میں اختلاف کیا ہے، بعض نے اکتالیس، بعض نے اُنتالیس، بعض نے اُنتیس، بعض نے تیئس، بعض نے اُنیس، بعض نے تیرہ اور بعض نے گیارہ رکعات بیان کی ہیں اور بعض نے ان اقوال کے علاوہ دوسری تعداد بھی نقل کی ہے، لیکن ان سب اقوال میں سے سب سے زیادہ راجح گیارہ یا تیرہ رکعات والا قول ہے، کیونکہ صحیحین (بخاری و مسلم) میں حضرت عائشہؓ نے گیارہ رکعات بیان کی ہیں ، اور بخاری کی ایک اور روایت میں ابن عباس ؓنے تیرہ رکعات ذکر کی ہیں ، اور موطأ امام مالک میں سائب بن یزید کا بیان ہے کہ حضرت عمرؓ نے اُبی بن کعب اور تمیم داری رضی اللہ عنہما دونوں کو گیارہ رکعات پڑھانے کا حکم دیا تھا۔''

سعودی علماء کے مندرجہ بالا اقتباسات سے معلوم ہوا کہ یہ علما نمازِ تراویح کی رکعات کے مسئلے میں حضرت عائشہؓ والی حدیث پر اعتماد کرتے ہیں ، اور اس میں مذکور گیارہ رکعات سے وہ نمازِ تراویح کی گیارہ رکعات ہی مراد لیتے ہیں ۔
مسئلہ تراویح میں افضل یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت شدہ تعداد رکعات پر عمل کیا جائے، اور وہ ہے: گیارہ رکعات مع وتر۔

سعودی علما اسی بات کے قائل ہیں کہ حضرت عمرؓ نے بھی گیارہ رکعات ہی پڑھانے کا حکم دیا تھا۔

نوٹ:شیخ ابن عثیمین رحمة اللہ علیہ نے جو تیرہ رکعات کا ذکر کیا ہے، دراصل ان میں دو رکعات وہ ہیں جنہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دو مرتبہ وتر کے بعد پڑھا تھا، اور علما کا کہنا ہے کہ چونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم رات کے آخری حصے میں وتر پڑھتے تھے اور اس کے بعد فجر کی اذان ہوجاتی تھی، تو شاید آپؐ نے فجر کی دو سنتیں پڑھی تھیں ، جنہیں ابن عباس ؓ نے رات کی نماز میں شامل سمجھا، یا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وتر کے بعد یہ دو رکعات اس لئے پڑھی تھیں کہ وتر کے بعد بھی نفل نماز پڑھنے کا جواز باقی رہے۔ واللہ أعلم!

سعودی عرب کے ائمہ حرمین شریفین کے متعلق بھی یہ بات ہر ایک کو معلوم ہے کہ خانۂ کعبہ میں دو امام تراویح پڑھاتے ہیں ، ایک دس رکعات پڑھا کر چلاجاتاہے ، پھر دوسرا آتاہے اور وہ بھی دس رکعات تراویح پڑھاتاہے ، علاوہ ازیں سعودی عرب کی دیگر جمیع مساجد میں آٹھ رکعات ہی پڑھائی جاتی ہیں جو اس بات کی دلیل ہے کہ سعودی علماءبھی اسی موقف کو مستند سمجھتے ہیں کہ آٹھ تراویح ہی سنت اور افضل ہیں ۔

منقول از محدث میگزین بترمیم
مکمل تحریر >>

Tuesday, June 16, 2015

پچهلے رمضان کے روزوں کي قضا

پچهلے رمضان کے روزوں کي قضا

پچهلے رمضان کے روزوں کی قضا ہونے کی صورت میں جن مرد وعورت پر قضا تهی ان پر لازم تها کہ جتني جلدي ہو سکے رمضان کے روزوں کي قضا کر ليں.
اگر کسي کے ذمہ رمضان کے روزوں کي قضا تھي اور اس نے تاخير کي يہاں تک کہ دوسرا رمضان آگيا تو پہلے موجودہ رمضان کا روزہ رکهے پهرپچهلے رمضان کے چهوٹے روزوں کی قضا کرے.
یہاں ایک بات وضاحت طلب ہے کہ روزہ قضا کرنے میں تاخير کيلئے کوئي شرعی عذر نہ ہو تو قضا کے ساتھ بہت سے علماء کے نزديک ہر دن کے عوض ايکمسکين کو کھانا کھلانا بھي واجب ہے اور اگر تاخيرشرعی عذر کي بناپر ہو تو صرف قضا واجب ہے .
واللہ اعلم بالصواب
مقبول احمد سلفی


مکمل تحریر >>

روزہ رکھنے سے متعلق لوگوں کے اقسام

روزہ رکھنے سے متعلق لوگوں کے اقسام

(1)
روزہ ہر عاقل بالغ قادر مقیم مسلمان مرد و عورت پر واجب ہے ۔
(2)نابالغ بچے ، بچی پر روزہ واجب نہیں لیکن عادت ڈالنے کے لئے ان سے روزہ رکھوایا جائے گا اگر وہ روزہ رکھنے کی طاقت رکھتے ہوں ۔
(3)مریض اگر روزہ رکھنے کی طاقت نہ رکھتا ہو تو اس کو رخصت ہے مگر وہ بعد میں اس کی قضا کرے گا ۔
(4)مجنون (دیوانہ / پاگل) روزہ کا مکلف نہیں ہے ۔
(5) روزہ سے عاجز آنے والا مثلا دائمی مریض اور بوڑھا مرد یا بوڑھی عورت: ان پر واجب ہے کہ ہر دن کے بدلے کسی مسکین کو کھانا کھلایا کرے، اسے نصف صاع گندم یا کھجور یا چاول یا کوئی دوسری چیز دے جو اس کے گھر والے کھاتے ہیں، بشرطیکہ وہ اس پر قادر ہوں ۔
(6) حمل والی اور دودھ پلانے والی عورتوں کو نقصان کے پیش نظر روزہ چھوڑنے کی اجازت ہے اور جب آسانی پیدا ہو تو اس کی قضا کر لے ۔
(7) حیض اور نفاس والی عورتیں بھی حالت حیض و نفاس میں روزہ چھوڑیں گی اور بعد میں قضا کریں گی۔
(8) مضطر جو کسی سبب روزہ توڑنے پہ مجبور ہوجائے مثلا غرق ہونے یا جلنے سے بچانے کے لئے روزہ افطار کرنے پر مجبور ہو جائے تو اسے چائیے کہ بعد میں اس کی قضا کر لے ۔
(9) ویسے تو مسافر کے لئے افطار اور روزہ دونوں کا اختیار ہے مگر افضل صورت یہ ہے کہ اگر سفر کے سبب روزہ رکھنا باعث مشقت نہ ہو تو روزہ رکھ لے وگرنہ افطار کر لے اور بعد میں اس کی قضا کر لے ۔


مکمل تحریر >>

رکوع کے بعد ہاتھ باندھنا

رکوع کے بعد ہاتھ باندھنا

سوال: رکوع کے بعد ہاتھ باندھنا بدعت ہے یا سنت یا دونوں طرح درست ہے؟
جواب: قِیام میں ہاتھ باندھنا مسنون ہے جبکہ شریعت کی اصطلاح میں قیام کا اِطلاق صرف قبل از رکوع حالت پر ہے جس میں قراء ت بھی کی جاتی ہے ورنہ لازم آئے گا کہ ہر رکعت میں دو سجدوں کی طرح دو قیام بھی ہوں جبکہ اس با ت کا قائل کوئی بھی نہیں ۔سب لوگ جانتے ہیں ایک رکعت میں تکرارِ قیام صرف صلوٰۃِ کسوف میں معروف ہے۔ اسی بنا پر بعد از رکوع کی حالت کو اِعتدال یا رفع بعدالرکوع یا قَومہ سے تعبیر کیا جاتا ہے(حجۃ اللہ البالغہ)

محدثین کرام کی عادت ہے کہ پہلے قیام کو مطلقبیان کرتے ہیں اور دوسرے کو مقید اور جہاں دونوں اکٹھے آئیں توپہلے کو لفظ قِیام سے تعبیر کرتے ہیں اور دوسرے کو اعتدال یا رفع بعد الرکوع سے۔ اس سے معلوم ہواکہ سنن نسائی کی روایت میں «إذا کان قائما قبض بیمینه علی شماله»(جب آپ قیام کرتے تو اپنے دائیں ہاتھ سے بائیں کو پکڑتے) کا تعلق پہلے قیام سے مخصوص ہے۔ لفظ إذا رکوع سے پہلی حالت کے ساتھ مختص ہے عام نہیں۔ اگرچہ بعض حالات میں إذا سے عموم بھی مراد لیا جاتا ہے لیکن إذَا عموم کے لئے نص نہیں ہے ۔ عموم کیلئے مثلاً اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

﴿إِذا تُتلىٰ عَلَيهِم ءايـٰتُ الرَّ‌حمـٰنِ خَرّ‌وا سُجَّدًا وَبُكِيًّا ٥٨﴾... سورة مريم’’جب ان پر اللہ کی آیات تلاوت کی جاتی ہیں تو وہ سجدے کرتے اور روتے ہوئے جھک جاتے ہیں‘‘

﴿وَإِذا قُرِ‌ئَ عَلَيهِمُ القُر‌ءانُ لا يَسجُدونَ ٢١﴾... سورة الانشقاق

’’اور جب ان پر قرآن کی تلاوت کی جاتی ہے تو وہ سجدہ بجا نہیں لاتے‘‘

علاوہ ازیں رکوع کے بعد ہاتھ چھوڑنے کے لئے دلیل کی ضرورت نہیں کیونکہ انسان کی طبعی حالت یہی ہے۔ البتہ ہاتھ باندھنے کے لئے دلیل کی ضرورت ہے جو موجود نہیں۔ اس بنا پر اہل علم نے کہا کہ وضو کے بعد شرمگاہ کو ہاتھ لگنے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے جس طرح کہ بسرہ کی روایت میں ہے اور طلق بن علی کی روایت میں ہے کہ وضو نہیں ٹوٹتا تو طلق کی حدیث چونکہ اصل کے مطابق ہے اس لئے اس کا اعتبار نہیں ہوگا۔ اور بسرہ کی حدیث اصل حالت سے کسی تبدیلی کو بیان کرنے والی ہے لہٰذا راجح بات یہی ہے کہ وضو ٹوٹ جاتا ہے ۔

او ربراء کی حدیث میں ہے کہ نبیﷺ کا رکوع ، سجود، سجدوں کے درمیان وقفہ اور رکوع کے بعد وقفہ قریباً برابرہوتا سوائے قیام اورتشہد کے جو لمبے ہوتے ۔اس سے بھی معلوم ہوا کہ قیام کا اطلاق صرف رکوع سے پہلی حالت پر ہے۔ رکوع کے بعد ہاتھ باندھنے کے بارے میں علامہ البانی ؒفرماتے ہیں:

’’مجھے اس میں کوئی شک نہیں کہ اس قیام میں ہاتھ باندھنا بدعت اور گمراہی ہے کیونکہ صفۃ الصلاۃ کی اتنی ساری احادیث میں سے کسی میں وارد نہیں، اگر اس کا کوئی اصل موجود ہوتا تو منقول ہوتا، چاہے ایک طریق سے کیوں نہ ہو اس کی تائید اس بات سے ہوئی ہے کہ سلف صالحین میں سے کسی نے یہ فعل نہیں کیا اور جہاں تک مجھے علم ہے ،ائمہ حدیث میں سے کسی نے اس مسئلہ کو چھیڑا تک نہیں۔ ‘‘ (صفۃ الصلاۃ ص ۱۱۵)
منقول

مکمل تحریر >>

تشہد میں انگلی حرکت دینا

تشہد میں انگلی حرکت دینا


سوالتشہد کی حالت میں شروع ہی میں انگلی کو حرکت دینی شروع کردینی چاہئے یا درود کے بعد جب دعائیں شروع کریں پھر حرکت دینا چاہئے۔ مسنون عمل کون سا ہے؟ اسی طرح دو سجدوں کے درمیان بھی حرکت دینی چاہئے؟

جوابظاہر یہ ہے کہ تشہد میں اُنگلی کو حرکت شروع سے دے۔ حدیث کے لفظ یحرّکھا کا تقاضا یہی ہے کہ اسے سلام پھیرنے تک حرکت دیتا رہے۔ مولانا عبدالرحمن مبارکپوری ؒفرماتے ہیں:

«
ظاهر الأحادیث یدلّ علی الإشارة من ابتداء الجلوس»(تحفۃ الاحوذی: ۲؍۱۸۵)

’’
احادیث کی ظاہری دلالت تو یہی ہے کہ تشہد میں بیٹھنے کی ابتدا سے ہی اشارہ کیا جائے‘‘

پھر یدعو بھا (انگلی کے اشارے سے دعا کرتے )کا مفہوم بھی یہی ہے …سجدوں کے درمیان اشارہ والی حدیث عبدالرزاق نے المُصَنَّف(۲؍۶۸) اور اس سے احمد(۴؍۳۱۷) نے اور طبرانی نے معجم کبیر (۲۲؍۳۳) میں ذکر کیا ہے۔ اس روایت کے راوی وائل بن حجر ہیں۔لیکن اس بارے میں وائل کی جملہ روایات اس کے خلاف ہیں او رجن دوسرے صحابہ نے نبیﷺ کی نماز کی حالت بیان کیا ہے، ان کی روایات بھی وائل کی اس روایت کے خلاف ہیں۔ ان کے مطلق اور مقید الفاظ کا تعلق تشہد کی بیٹھک سے ہے ۔ پھر علامہ بکر بن عبداللہ ابوزید فرماتے ہیں:

’’
علمائِ سلف میں سے کسی نے سجدوں کے درمیان اشارہ کرنے کی صراحت نہیں کی او رنہ کسی نے اس کے متعلق کوئی عنوان قائم کیا ہے اور مسلمانوں کا مسلسل عمل سجدوں کے درمیان اشارہ نہ کرنا اور انگلی کو حرکت نہ دینا ہے ‘‘

امام بیہقی نے السنن الکبریٰ (۲؍۱۳۱) میں اس حدیث کے ضعف کی طرف اشارہ کیا ہے۔   شیخ الاسلام ابن باز او رعلامہ البانی رحمہما اللہ نے کہا کہ

’’
عبدالرزاق کی یہ روایت ثوری عن عاصم بہ سے ہے جس میں عبدالرزاق، ثوری سے متفرد ہے اور محمدبن یوسف فریابی اس کا مخالف ہے جبکہ وہ ہمہ وقت ثوری کے ساتھ رہے۔ انہوں نے حدیث کے آخر میں سجدئہ مذکور کا ذکر نہیں کیا۔ عبداللہ بن الولید نے محمد کی متابعت کی ہے۔حدیث کے آخر میں یہ زیادتی ثُمّ سَجَدَ عبدالرزاق کے وہموں سے ہے۔ روایات اس بات پر متفق ہیں کہ اشارہ کا تعلق پہلے اور دوسرے تشہد کے بیٹھنے سے ہے‘‘ ( تمام المنۃ :۱؍۲۱۴ تا ۲۱۷ ،السلسلۃ الصحیحۃ (۵؍۳۰۸ تا۳۱۴ حدیث نمبر۲۲۴۷،۲۲۴۸)

مزید تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو کتاب لاجدید فی أحکام الصلاۃ، ص ۳۸ تا ۴۶ ازعلامہ بکر بن عبداللہ ابوزید۔
مکمل تحریر >>

حمام میں بسم اللہ پڑھنا


حمام میں بسم اللہ پڑھنا

سوال: موجودہ رہائشی مکانوں میں غسل خانہ اور بیت الخلاء مشترکہ بنائے جاتے ہیں۔ کیا ان بیت الخلاء والے غسل خانوں میں وضو کیا جاسکتا ہے ، ان میں بسم اللہ پڑھنے کا کیا حکم ہے؟

جواب:مشترکہ غسل خانہ اور بیت الخلاء میں وضو کا جواز ہے لیکن وہاں بسم اللہ نہیں پڑھنی چاہئے۔ داخل ہونے سے پہلے بہ نیت ِوضو بسم اللہ پڑھ لے یا فراغت کے بعد باہر آکر بسم اللہ پڑھ کر پھر واپس جاکر وضو کرلے۔ سعودی عرب کے مفتی شیخ ابن عثیمین کا فتویٰ ہے کہ دل میں پڑھ لے، بآوازِ بلند نہ پڑھے۔ فرماتے ہیں:«التسمیة إذا کان الإنسان في الحمام تکون بقلبه ولا ینطق بها بلسانه» (فتاویٰ اسلامیہ:۱؍۲۱۹)

’’جب انسان بیت الخلاء میں ہو تو بسم اللہ دل میں ہی پڑھے ، زبان سے اس کو ادا نہ کرے‘‘
منقول

مکمل تحریر >>

Monday, June 15, 2015

Harmen Sharifain me 20 Rakat Taraweeh Kyon...???

Harmen Sharifain me 20 Rakat Taraweeh Kyon...???
👉👉ये सवाल अक्सर पुछा जाता है की जब सुन्नत 11 रकअत है तो फिर हरमैन शरिफैन में 20 रकअत क्यों?
इस सवाल के जवाब के लिए हमे कुछ पीछे जाकर तारीखी पसमंज़र को जानना होगा।
आज से तक़रीबन 100 साल कब्ल तक खाना ए काबा में चार मुसल्ले हुआ करते थे यानी चारों तरफ चार मज़हब हनफी, शाफी, मालिकी, हम्बली के मुसल्ले थे और मुस्लिम इत्तेहाद का जनाज़ा निकला हुआ था, जब शाफी नमाज़ पढ़ते तो बाकी बैठे रहते, जब मालिकी नमाज़ पढ़ते तो बाकी 3 इंतज़ार करते यानी कोई किसी के पीछे नमाज़ अदा नहीं करता था।
आले सऊद की हुकूमत आते ही मुसलमानों के मरकज़ से, इस तकलीफ़ देह सूरते हाल का खातमा किया गया और उसकी मरकज़ीयत बहाल करते हुए 4 मुसल्लों की रस्म को ख़त्म कर दिया, और सिर्फ एक मुसल्लाह जो सिर्फ कुरान व हदीस की तरफ मंसूब था उसे वहां क़ायम कर दिया। तमाम मुसलमानों को एक वक़्त, एक जमात और एक इमाम पर इकट्ठा कर दिया, यूँ पूरी दुनिया ने इस्लाम और मुसलमानों की मरकज़ियत और यकजहती को अपनी आँखों से देखा।
👉रहा यह सवाल की अगर किताब व सुन्नत में क़यामुल्लैल की तादात 11 रकत है और अहले सऊदी अरब भी 11 रकत के क़ायल हैं, तो हरमैन शरीफ़ैन मे 20 रकत नमाज़ ए तरावीह क्यों अदा की जाती है?
👉क्या ये खुला तज़ाद (टकराव) नहीं है?
जब ऐसे तारीक दौर के बाद सबसे पहले रमज़ान में सुन्नत ए नबवी सल्लल्लाहु अलेही वसल्लम के मुताबिक 11 रकअत तरावीह पढ़ाई गई, तो 20 रकअत पढ़ने वालों ने शोर मचा दिया। की अगर आप हमें 20 नहीं पढ़ने देंगे तो हमें बाकी 12 रकअत अपने इमाम के पीछे पढ़ने दी जाए। सऊदी हुकूमत ने सोचा अगर इन्हें अपना इमाम खड़ा करने की इजाज़त दे दी जाए, तो फिर हर फिरका यही मुतालबा करेगा और फिर से वही चारो मुसल्ले वापिस बिछ जायेंगे और इत्तेहाद का असल मकसद फ़ौत हों जाएगा।
👉👉लिहाज़ा हुकूमत ने इंतेज़ामी अम्र के पेशे नज़र दो इमामों को मुक़र्र किया और इसका हल ये सोचा गया की एक कारी 10 रकअत पढ़ा कर चला जाए और जिसको मसनून तादाद की अदायगी करनी हो वह भी अपना क़याम इस पहले इमाम के साथ पूरा कर ले 11 रकअत पढ़ने वाले उसके साथ हट कर 1 रकात वित्र पढ़ कर अपनी 11 मुकम्मल कर ले।
इधर दूसरा इमाम 10 रकअत अलग से और पढ़ाये और 20 पढ़ने वाले दोनों इमामो की इक्तेदा में अपनी 20 पूरी कर ले और यूँ इंतेज़ामी नुक्ता ए नज़र से हरमैन मे 20 रकत तरावीह दो इमामों के साथ अदा करने का सिलसिला चल निकला।
इस तरीक़े से क़यामुल्लैल की मसनून तादाद भी एक इमाम पूरी पढ़ाता है और वह वापस जाकर अपनी वित्र अलग पढ़ लेता है। इस तरह सुन्नते नबवी सल्लाहो अलैहे वासल्लम पर भी अमल हो जाता है और टकराव की सूरत पैदा नहीं हो पाती। वरना वहां भी 11 रकाअते ही पढ़ाई जाती है। दूसरे इमाम के आने से तादाद नहीं बढ़ती बल्कि बाहर से आने वाले हाजियो और दीगर लोगो को 2 जमाते होने से सहूलियत हो जाती है। वरना मक्का की दूसरी मस्जिदों में 11 रकअत ही पढ़ी जाती है।
एक बात और है सिर्फ 20 ही का अगर दावा है तो एक चीज़ और भी है की अमीन बिल जहर, फातेहा खुल्फुल इमाम, रफयादैन, तावरुक सब भी होता है । इस पर चुप्पी क्यों? आइए आपको बताते हैं कि कितने अमल ऐसे है जो मक्का मदीना के हैं और उस पर हमारे हनफी भाईयों का अमल नहीं है और वे लोगों को भी ये अमल करने से रोकते हैं
1⃣ मक्का मदीना में नमाज़ अव्वल वक़्त अदा की जाती है। आप लोग नहीं करते है।
2⃣ मक्का मदीना में नमाज़े मगिरब से पहले दो रकअत नफ्ल नमाज़ अदा की जाती है। आप लोग नही करते हो न करने का टाइम देते हो।
3⃣ मक्का मदीना में अज़ान के कलिमात दो-दो बार और तकबीर के कलिमात एक-एक बार कहे जाते है। आपके यहां अज़ान और तकबीर के कलिमात बराबर होते है।
4⃣ मक्का मदीना मे सीने पर हाथ बांधा जाता है। आपके यहां नाफ के नीचे बांधते हैं।
5⃣ मक्का मदीना में मुक्तदी जहरी नमाज़ों मे भी इमाम के पीछ सूरह फातिहा पढ़ते है। आपके यहां सिर्री नमाज़ो तक में नहीं पढ़ते।
6⃣मक्का मदीना में आमीन बुलन्द आवाज़ से कही जाती है। आप लोग मना करते हो।
7⃣मक्का मदीना में रूकू को जाते और उठते वक़्त और दो रकआत पढ़ कर तीसरी रकआत के लिए उठते वक़्त रफायदैन किया जाता है। आप नहीं करते और करने वाले को रोकते है।
8⃣ मक्का मदीना में औरतों को आम मसिजदों में नमाज़ बाजमाअत से अदा करने के लिए आने की इजाज़त है। आपके यहां मना है और जहां आती वहां की आप हंसी उड़ाते है और रोकने की कोशिश करते हैं।
9⃣मक्का मदीना में औरतें र्इद उल फितर व ईद इल अज़हा की नमाज़ जमाअत के साथ अदा करती है। आपके यहां र्इदगाह में नमाज़ के बाद घूमने तो जा सकती है लेकिन साथ में नमाज़ अदा नहीं कर सकती।
🔟मक्का मदीना में र्इदैन की नमाज़ों में बारह ज़ार्इद तकबीरों का एहतमाम होता है। आपके यहां सिर्फ 6 तकबीरे होती है।
👉11) मक्का मदीना में नमाज़े जनाज़ा मसिजद में अदा की जाती है। आपके यहाँ मस्जिद से बाहर|
👉12) मक्का मदीना में नमाज़े जनाज़ा में सूरह फातिहा पढ़ी जाती है। आपके यहां नहीं पढ़ी जाती।
👉13) मक्का मदीना में रोज़े की नीयत ज़बान से नहीं कही जाती। आपके यहां जन्त्री पर लिखी जाती है और कर्इ मस्जिदों से ऐलान होता है पढ़ने के लिए।
👉14) मक्का मदीना में अज़ान से पहले सलात व सलाम नहीं पढ़ा जाता। आपके यहां पढ़ते है।
👉15) मक्का मदीना में नमाज़ पहले ज़बान से नीयत नहीं कही जाती। आप लोग कहते हो और सिखाते हो।
👉16) मक्का मदीना में फर्ज़ नमाज़ों के बाद इज्तेमार्इ दुआ नहीं होती है। आप लोग करते हो।
👉17) मक्का मदीना में नमाज़ र्इद से पहले तकरीर या खुत्बा नहीं होता। आपके यहां होता है।
👉18) मक्का मदीना में नमाज़े जनाज़ा में सना नहीं पढ़ी जाती। आप लोग पढ़ते हो।
👉19) मक्का मदीना में नमाज़े वित्र की आखरी रकआत में किराअत के बाद रफायदैन नहीं किया जाता। आप लोग करते हो।
👉20) मक्का मदीना में वित्र को ताक़ अदद में अदा किया जाता है जैसे 3, 5, 7, । आपके यहां 3 के अलावा तादाद वित्र में जायज़ नहीं।
अगर बीस रकअत तरावीह पर मक्का मदीना का अमल अहनाफ के यहां दलील है। तो मक्का मदीना के बाकी अमलों को भी क़ुबूल करना चाहिए। इसे सिर्फ बीस रकत तरावीह तक ही क्यों महदूद कर दिया गया? बाकी मसअलों में उसको दलील क्यों नहीं बनाया जाता? कहीं यह बाज़ पर र्इमान लाना और बाज़ का इनकार वाला मामला तो नहीं। और अगर अहनाफ उसको अहले हदीस पर दलील बनाकर पेश करते हैं तो उनको यह जान लेना चाहिए कि अहले हदीस के यहां भी दलार्इल सिर्फ वही है जो सलफ सालेहीन के यहां दलील थे
अल्लाह दिलों की तंगी दूर करे और हिदायत दे । आमीन ।
مکمل تحریر >>

رمضان المبارك كے بعض مسائل

رمضان المبارك كے بعض مسائل

حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ

اس مختصر مضمون میں رمضان المبارك كے بعض مسائل پیش خدمت ہیں:
(1) ارشاد باری تعالی ہے: ﴿فَمَنْ شَهِدَ مِنْكُمْ الشَّهْرَ فَلْيَصُمْهُ «پس تم میں سے جو شخص یہ مہینہ (رمضان) پائے تو اس كے روزے ركھے» (البقرہ: 185
        اس آیت سے معلوم ہوا كہ ہر بالغ مكلّف مسلمان پر رمضان كے روزے ركھنا فرض ہے۔ اس عموم سے صرف وہی لوگ خارج ہیں جن كا استثناء قرآن، حدیث اور اجماع سے ثابت ہے۔ مثلا نا بالغ، مسافر، حائضہ عورت، بیمار اور شرعی معذور۔
(2) رسول اللہ نے فرمایا: «چاند دیكھ كر روزے ركھنا شروع كرو اور چاند دیكھ كر عید كرو، اگر (29 شعبان كو) بادل ہوں تو شعبان كے تیس دن پورے كر كے روزے ركھنا شروع كرو» (صحیح بخاری 1909، صحیح مسلم 1081، مفہوماً
        اس حدیث سے معلوم ہوا كہ ہر شہر اور ہر علاقے كے لوگ اپنا اپنا چاند دیكھ كر رمضان كے روزے ركھنا شروع كریں گے اور اسی طرح عید كریں گے۔
        یاد رہے كہ دُور كی رُویت كا كوئی اعتبار نہیں ہے مثلا اگر سعودی عرب میں چاند نظر آ جائے تو حضرو كے لوگ رمضان كے روزے ركھنا شروع نہیں كریں گے۔
        سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ كے دور میں مُلك شام میں جمعہ كی رات كو چاند نظر آیا جب كہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ نے مدینہ طیبہ میں ہفتہ كی رات كو چاند دیكھا تھا، پھر انہوں نے اپنے (ثقہ) شاگرد كے كہنے پر فرمایا: ہم تو تیس تك روزے ركھتے رہیں گے حتی كہ چاند نظر آجائے۔ پوچھا گیا كیا آپ (سیدنا) معاویہ رضی اللہ عنہ اور اُن كے روزے كا كوئی اعتبار نہیں كرتے؟ انہوں نے فرمایا كوئی اعتبار نہیں، كیونكہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں اسی طرح كا حكم دیا تھا (صحیح مسلم 1087)۔
        اس صحیح حدیث سے معلوم ہوا كہ ملك شام كی رُویت مدینے میں معتبر نہیں ہے۔ درج ذیل محدثین وعلماء نے اس حدیث پر ابواب باندھ كر یہ ثابت كیا ہے كہ ہر علاقے كے لوگ اپنا اپنا چاند دیكھیں گے:
(1)   امام ترمذی رحمہ اللہ (باب ما جاء لكل اهل بلد رؤیتہم) سنن الترمذی (693)۔
(2) امام الائمہ شیخ الاسلام ابن خزیمہ رحمہ اللہ (باب الدلیل علی أن الواجب علی أهل كل بلد صیام رمضان لرؤیتہم، لا رؤیتہ غیرهم) صحیح ابن خزیمہ (3/205 ح 1916)۔
(3) علامہ نووی (باب بیان أن لكل بلد رؤیتہم وأنہم إذا رأوا الہلال ببلد لا یثبت حكمہ لما بعد عنہم) شرح صحیح مسلم (ج 7، ص 197، تحت ح 1087، طبع احیاء التراث العربی بیروتو لبنان)۔
(4) محمد بن خلیفہ الوشتابی الابی (حدیث لكل قوم رؤیتہم) شرح صحیح مسلم (ج 4 ص 19 ح 1087)۔
(5) ابو العباس احمد بن ابراہیم القرطبی (ومن باب لاهل كل بلد رؤیتہم عند التباعد) المفہم لما اشكل من تلخیص كتاب مسلم (ج 3 ص 141 ح 955)۔
(6)  ابو جعفر الطحاوی نے فرمایا: اس حدیث میں یہ ہے كہ ابن عباس نے اپنے شہر كے علاوہ دوسرے شہر كی رُویت كا كوئی اعتبار نہیں كیا .... الخ (شرح مشكل الآثار 1/423 ح 481)۔
       محدثین كرام اور شارحین حدیث كے اس تفقہ كے مقابلے میں چودھویں صدی اور متاخر علماء كے منطقی استدلالات مردود ہیں، جو حدیث ابن عباس كے موقوف وغیرہ كہہ كر اپنی تاویلات كا نشانہ بناتے ہیں۔ حافظ ابن عبدالبر الاندلسی نے اس پر اجماع نقل كیا ہے كہ خراسان كی رُویت كا اندلس میں اور اندلس (Spain) كی رُویت كا خراسان میں كوئی اعتبار نہیں ہے۔ (الاستذكار 3/283 ح 592)۔
      تنبیہ: یہ كوئی مسئلہ نہیں ہے كہ ساری دنیا كے لوگ ایك ہی دن روزہ ركھیں اور ایك ہی دن عید كریں۔ جغرافیائی لحاظ سے ایسا ممكن ہی نہیں ہے كیونكہ جب مكہ ومدینہ میں دن ہو تا ہے تو امریكہ كے بعض علاقوں میں اس وقت رات ہوتی ہے۔
(3) یہ بر حق ہے كہ ہرعمل كی قبولیت كیلئے نیت ضروری ہے لیكن نیت دل كے ارادے كو كہتے ہیں مثلا رمضان كی تیاریاں كرنا، چاند دیكھنا یا معلوم كرنے كی كوشش كرنا، سحری كھانا اور تراویح پڑھنا وغیرہ سب كاموں سے نیت ثابت ہو جاتی ہے لیكن یاد رہے كہ زبان كے ساتھ روزے كی نیت مثلاً (بصوم غدٍ نویت من شہر رمضان) ثابت نہیں ہے۔
(4) اگر كوئی شخص حالت روزہ میں بھول كر كھا پی لے تو اس كا روزہ برقرار رہتا ہے لہذا وہ دوسرے لوگوں كے ساتھ شام كو غروب آفتاب كے بعد روزہ افطار كرے۔
        تنبیہ: یہ كوئی مسئلہ نہیں ہے كہ اگر كوئی شخص روزے میں بھول كر كھا یا پی رہا ہے تو اسے یاد نہیں دلانا چاہئے، لہذا اسے یاد دلانے میں كوئی حرج نہیں ہے۔
(5) روزہ افطار كرتے وقت درج ذیل دعا پڑھنا سنت سے ثابت ہے : (ذَهَبَ الظَّمَأُ وَابْتَلَّتِ الْعُرُوْقُ وَثَبَتَ الْأَجْرُ إِنْ شَاءَ اللهُ) «پیاس ختم ہوئی، رگیں تر ہو گئیں اور اجر ثابت ہو گیا، ان شاء اللہ»، (سنن أبی داود 2357، وسندہ حسن وصححہ الحاكم 1/22، والذهبي وحسنہ الدارقطني 2/182، وهو الصواب
        تنبیہ: سنن ابی داود كی ایك روایت میں (اَللَّهُمَّ لَكَ صُمْتُ وَعَلَىْ رِزْقِكَ أَفْطَرْتُ)كے الفاظ آئے ہیں لیكن یہ روایت ثابت نہیں ہے بلكہ مرسل ہونے كی وجہ سے ضعیف ہے۔
(6) گرمی یا پیاس كی وجہ سے سر پر پانی ڈالنا جائز ہے، دیكھئے:  موطا إمام مالك (ج 1، ص 294، ح 660، وسندہ صحیح، سنن أبی داود 2365)۔
        جنابت اور احتلام كی وجہ سے غسل كرنا فرض ہے لیكن اگر گرمی یا ضرورت ہو تو روزے كی حالت میں نہانا بالكل جائز ہے، كیونكہ اس كی ممانعت كی كوئی دلیل نہیں ہے۔ نیز دیكھئے صحیح بخاری (1925، 1926) وصحیح مسلم (1109)۔ امام محمد بن سیرین رحمہ اللہ (تابعی) كپڑا بھگو كر اپنے چہرے پر ڈالنے میں كوئی حرج نہیں سمجھتے تھے (مصنف ابن ابی شیبہ 3/40 ح 9214 وسندہ صحیح)۔
(7) كھجور یا پانی سے روزہ افطار كرنا چاہئے، دیكھئے: (سنن أبی داود: 3255 وسندہ صحیح، وصححہ الترمذی:  659، وابن خزیمہ:  2067، وابن حبان:  892، والحاكم علی شرط البخاري 1/431، ووافقہ الذهبي وأخطأ من ضعفہ
(8) ابراہیم نخعی رحمہ اللہ (تابعی صغیر) نے فرمایا: اگر تم چاند دیكھو تو كہو: (رَبِّيْ وَرَبُّكَ اللهُ) «میرا اور تیرا رب اللہ ہے»، (مصنف ابن ابی شیبہ 3/98، ح 9730 وسندہ صحیح)۔
        تنبیہ: اس بارے میں مرفوع روایات ضعیف ہیں۔
(9) روزے كی حالت میں مسواك كرنے میں سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ كوئی حرج نہیں سمجھتے تھے، دیكھئے مصنف ابن ابی شیبہ (3/35، ح 9149، وسندہ صحیح)۔
        سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: روزے كی حالت میں مسواك كرنے میں كوئی حرج نہیں ہے، چاہے مسواك خشك ہو یا تر (مصنف ابن ابی شیبہ 3/37، ح 9173، وسندہ صحیح) نیز دیكھئے صحیح بخاری (قبل ح 1934)۔
(10) امام زہری رحمہ اللہ (تابعی) نے فرمایا: میں نے اپنے اصحاب میں سے كسی كو بھی روزہ دار كےلئے سُرمے كا استعمال مكروہ قرار دیتے ہوئے نہیں دیكھا (یعنی وہ سب اسے جائز سمجھتے تھے) دیكھئے سنن ابی داود (2379 وسندہ حسن)۔ معلوم ہوا كہ سُرمہ ڈالنے سے روزہ خراب نہیں ہوتا۔
(11) اگر دوران وضو كلی كرتے ہوئے حلق میں پانی چلا جائے تو عطاء (بن ابی رباح رحمہ اللہ تابعی) نے فرمایا: كوئی حرج نہیں ہے، دیكھئے مصنف ابن ابی شیبہ (3/70، ح 9486، وسندہ قوي، روایۃ ابن جریج عن عطاء محمولۃ علی السماع
(12) جس شخص كو روزے كی حالت میں خود بخود قے آ جائے تو اس كا روزہ نہیں ٹوٹتا اور اگر كوئی شخص جان بوجھ كر قے كرے تو اس كا روزہ ٹوٹ جاتا ہے۔ یہ مسئلہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ سے ثابت ہے، دیكھئے مصنف ابن ابی شیبہ 3/38، ح 9188، وسندہ صحیح)۔
        تنبیہ: اس بارے میں مرفوع روایت ضعیف ہے۔
(13) سورج غروب ہوتے ہی روزہ جلدی افطار كرنا چاہئے، (صحیح بخاری 1957، صحیح مسلم 1098)۔
(14) جو شخص سحری كھا رہا ہو اور كھانے كا برتن اس كے ہاتھ میں ہو (یعنی وہ كھانا كھا رہا ہو) اور صبح كی اذان ہو جائے تو وہ كھانا كھا کراس سے فارغ ہو جائے، (سنن أبي داود: 2350، سندہ حسن
(15) اگر كوئی شخص كسی روزہ دار كو روزہ افطار كرائے تو اسے روزہ دار جتنا ثواب ملتا ہے اور روزہ دار كے ثواب میں كوئی كمی نہیں آتی، (سنن الترمذي 807، قال: «هذا حدیث حسن صحیح» وسندہ صحیح
(16) سیدنا عمر رضی اللہ عنہ یا كسی صحابی سے بھی بیس ركعات تراویح قولا یا فعلا ثابت نہیں ہے بلكہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے دو صحابیوں سیدنا ابی بن كعب اور سیدنا تمیم الداری رضی اللہ عنہما كو حكم دیا كہ لوگوں كو گیارہ ركعتیں پڑھائیں، دیكھئے: موطا إمام مالك (روایۃ یحیی بن یحیی 1/114، ح 249، وسندہ صحیح) شرح معانی الآثار للطحاوي (1/293)۔
        تقلید كے دعویدار محمد بن علی النیموی نے اس اثر كے بارے میں كہا: «وإسناده صحيح»اور اس كی سند صحیح ہے، (آثار السنن ص 250، ح 776)۔
        ان دو صحابیوں میں سے ایك مردوں كو اور دوسرے عورتوں كو تراویح كی نماز پڑھاتے تھے۔
        مصنف ابن ابی شیبہ كی ایك روایت كا خلاصہ یہ ہے كہ یہ دونوں صحابی گیارہ ركعات پڑھاتے تھے، (ج2، ص 392، ح 7670)۔
        سیدنا سائب بن یزید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے كہ ہم (یعنی صحابہ) عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ كے زمانے میں گیارہ ركعات پڑھتے تھے (سنن سعید بن منصور بحوالہ الحاوی للفتاوی، ج 1 ، ص349)۔ اس روایت كے بارے میں سیوطی نے كہا: «بسند في غاية الصحة»بہت زیادہ صحیح سند كے ساتھ (الحاوی للفتاوی، ج 1 ، ص 350)۔
        ان صحیح آثار كے مقابلے میں بعض تقلیدی حضرات السنن الكبری للبیہقی اور معرفۃ السنن والآثار كی جو روایتیں پیش كرتے ہیں، وہ سب شاذ (یعنی ضعیف) ہیں۔
(17) رمضان كے پورے مہینے میں با جماعت نماز تراویح پڑھنے كا ثبوت اس حدیث میں ہے، جس میں رسول اللہ نے فرمایا: (إنه من قام مع الإمام حتى ينصرف كتب له قيام ليلة) «بیشك جو شخص امام كے ساتھ (نماز سے) فارغ ہونے تك قیام كرتا ہے تو اس كیلئے پوری رات (كے ثواب) كا قیام لكھا جاتا ہے» (سنن الترمذی 806، وقال: «هذا حديث حسن صحيح» وسنده صحيح)۔
(1) نماز تراویح میں پورا قرآن پڑھنا كئی دلائل سے ثابت ہے، مثلا:
(1) ارشاد باری تعالی ہے : (اور قرآن میں سے جو میسر ہو، اسے پڑھو) (سورۃ المزمل 20)۔
(2) رسول اللہ ہر سال رمضان میں جبریل كے ساتھ قرآن مجید كا دورہ كرتے تھے ، (دیكھئے صحیح بخاری 4997، وصحیح مسلم 2308)۔
(3) یہ عمل سلف صالحین میں بلا انكار جاری وساری رہا ہے۔
(19) رمضان كے آخری عشرے میں اعتكاف كرنا سنت ہے لیكن یاد رہے كہ یہ فرض یا واجب نہیں ہے، سنیت كیلئے دیكھئے صحیح بخاری (2026) اور صحیح مسلم (5/1172)۔
        اعتكاف ہر مسجد میں جائز ہے اور جس حدیث میں آیا ہے كہ «تین مسجدوں كے سوا اعتكاف نہیں ہے» الخ، اس كی سند امام سفیان بن عیینہ كی تدلیس (عن) كی وجہ سے ضعیف ہے اور بعض علماء كا اسے صحیح قرار دینا غلط ہے۔
(20) اگر شرعی عذر (مثلا بارش) نہ ہو تو عید كی نماز عید گاہ (یا كھلے میدان) میں پڑھنی چاہئے، دلیل كیلئے دیكھئے صحیح بخاری (956) اور صحیح مسلم (9/889)۔
        سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اگر بارش ہو تو عید كی نماز مسجد میں پڑھ لو، (السنن الكبری للبیہقي، ج 3، ص 310، وسندہ قوي
(21) اگر كسی شرعی عذر كی وجہ سے رمضان كے روزے رہ جائیں اور اگلے سال كا رمضان آ جائے تو پہلے رمضان كے روزے ركھیں اور بعد میں قضا روزوں كے بدلے میں روزے ركھیں اور ہر روزے كے بدلے میں ایك مسكین كو كھانا بھی كھلائیں۔ یہ فتوی سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے ثابت ہے، (دیكھئے :السنن الدارقطني، ج2، ص 197، ح 2321، وقال: «إسناده صحيح» وسنده حسن)۔
(22) سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا: (الإفطار مما دخل وليس مما خرج) «جسم میں اگر كوئی چیز (مرضی سے) داخل ہو تو روزہ ٹوٹ جاتا ہے اور اگر كوئی چیز (مثلا خون) باہر نكلے تو روزہ نہیں ٹوٹتا»، (الأوسط لابن المنذر، ج1، ص 185، ث 81، وسنده صحيح/ ترجمہ مفہوماً ہے)۔
        اس اثر سے معلوم ہوا كہ ہر قسم كا ٹیكہ اور ڈرپ لگانے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے لہذا روزے كی حالت میں ہر قسم كے انجكشن لگانے سے اجتناب كریں۔
(23) روزے كی حالت میں اگر مكھی وغیرہ خود بخود منہ میں چلی جائے تو اس سے روزہ فاسد نہیں ہوتا كیونكہ ایسی حالت میں انسان مجبور محض ہے، دیكھئے سورۃ البقرۃ (173)۔
(24) روزے كی حالت میں آنكھ یا كان میں دوائی ڈالنے كا كوئی ثبوت نہیں ہے لہذا اس عمل سے اجتناب كریں۔
(25) روزے كی حالت میں خشك یا تر وتازہ مسواك اور سادہ برش كرنا جائز ہے لیكن ٹوتھ پیسٹ استعمال كرنے كا كوئی ثبوت نہیں ہے لہذا ٹوتھ پیسٹ یا دانتوں كی دوائی استعمال كرنے سے اجتناب كریں۔
(26) روزے كی حالت میں آكسیجن كا پمپ (جس میں دوا بھی ہوتی ہے) استعمال كرنے كا كوئی ثبوت میرے علم میں نہیں ہے لہذا اس فعل سے اجتناب كریں یا پھر اگر شدید بیماری ہے تو روزہ افطار كر كے اسے استعمال كریں، بعض موجودہ علماء روزے كی حالت میں آكسیجن كے پمپ كا استعمال جائز سمجھتے ہیں، واللہ اعلم۔
(27) چھوٹے بچوں كو روزہ ركھنے كی عادت ڈلوانا بہت اچھا كام ہے۔
(28) دائمی مریض جو روزے نہ ركھ سكتا ہو، اسے ہر روزے كا كفارہ دینا چاہئے۔
(29) اگر كوئی شخص فوت ہو جائے اور اس كے رمضان كے روزے رہ گئے ہوں تو پھر اس كے رہ جانے والے تمام روزوں كا كفارہ دینا چاہئے اوراگر اس پر نذر كے روزے بقایا تھے تو پھر اس كے وارثین یہ روزے ركھیں گے۔
(30) سفر میں روزہ ركھنا بھی جائز ہے لیكن اس روزے كی قضا بعد میں ادا كرنا ہوگی اور اگر طاقت ہو اور مشقت نہ ہو تو سفر میں روزے ركھنا بہتر ہے۔



مکمل تحریر >>