Tuesday, June 16, 2015

رکوع کے بعد ہاتھ باندھنا

رکوع کے بعد ہاتھ باندھنا

سوال: رکوع کے بعد ہاتھ باندھنا بدعت ہے یا سنت یا دونوں طرح درست ہے؟
جواب: قِیام میں ہاتھ باندھنا مسنون ہے جبکہ شریعت کی اصطلاح میں قیام کا اِطلاق صرف قبل از رکوع حالت پر ہے جس میں قراء ت بھی کی جاتی ہے ورنہ لازم آئے گا کہ ہر رکعت میں دو سجدوں کی طرح دو قیام بھی ہوں جبکہ اس با ت کا قائل کوئی بھی نہیں ۔سب لوگ جانتے ہیں ایک رکعت میں تکرارِ قیام صرف صلوٰۃِ کسوف میں معروف ہے۔ اسی بنا پر بعد از رکوع کی حالت کو اِعتدال یا رفع بعدالرکوع یا قَومہ سے تعبیر کیا جاتا ہے(حجۃ اللہ البالغہ)

محدثین کرام کی عادت ہے کہ پہلے قیام کو مطلقبیان کرتے ہیں اور دوسرے کو مقید اور جہاں دونوں اکٹھے آئیں توپہلے کو لفظ قِیام سے تعبیر کرتے ہیں اور دوسرے کو اعتدال یا رفع بعد الرکوع سے۔ اس سے معلوم ہواکہ سنن نسائی کی روایت میں «إذا کان قائما قبض بیمینه علی شماله»(جب آپ قیام کرتے تو اپنے دائیں ہاتھ سے بائیں کو پکڑتے) کا تعلق پہلے قیام سے مخصوص ہے۔ لفظ إذا رکوع سے پہلی حالت کے ساتھ مختص ہے عام نہیں۔ اگرچہ بعض حالات میں إذا سے عموم بھی مراد لیا جاتا ہے لیکن إذَا عموم کے لئے نص نہیں ہے ۔ عموم کیلئے مثلاً اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

﴿إِذا تُتلىٰ عَلَيهِم ءايـٰتُ الرَّ‌حمـٰنِ خَرّ‌وا سُجَّدًا وَبُكِيًّا ٥٨﴾... سورة مريم’’جب ان پر اللہ کی آیات تلاوت کی جاتی ہیں تو وہ سجدے کرتے اور روتے ہوئے جھک جاتے ہیں‘‘

﴿وَإِذا قُرِ‌ئَ عَلَيهِمُ القُر‌ءانُ لا يَسجُدونَ ٢١﴾... سورة الانشقاق

’’اور جب ان پر قرآن کی تلاوت کی جاتی ہے تو وہ سجدہ بجا نہیں لاتے‘‘

علاوہ ازیں رکوع کے بعد ہاتھ چھوڑنے کے لئے دلیل کی ضرورت نہیں کیونکہ انسان کی طبعی حالت یہی ہے۔ البتہ ہاتھ باندھنے کے لئے دلیل کی ضرورت ہے جو موجود نہیں۔ اس بنا پر اہل علم نے کہا کہ وضو کے بعد شرمگاہ کو ہاتھ لگنے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے جس طرح کہ بسرہ کی روایت میں ہے اور طلق بن علی کی روایت میں ہے کہ وضو نہیں ٹوٹتا تو طلق کی حدیث چونکہ اصل کے مطابق ہے اس لئے اس کا اعتبار نہیں ہوگا۔ اور بسرہ کی حدیث اصل حالت سے کسی تبدیلی کو بیان کرنے والی ہے لہٰذا راجح بات یہی ہے کہ وضو ٹوٹ جاتا ہے ۔

او ربراء کی حدیث میں ہے کہ نبیﷺ کا رکوع ، سجود، سجدوں کے درمیان وقفہ اور رکوع کے بعد وقفہ قریباً برابرہوتا سوائے قیام اورتشہد کے جو لمبے ہوتے ۔اس سے بھی معلوم ہوا کہ قیام کا اطلاق صرف رکوع سے پہلی حالت پر ہے۔ رکوع کے بعد ہاتھ باندھنے کے بارے میں علامہ البانی ؒفرماتے ہیں:

’’مجھے اس میں کوئی شک نہیں کہ اس قیام میں ہاتھ باندھنا بدعت اور گمراہی ہے کیونکہ صفۃ الصلاۃ کی اتنی ساری احادیث میں سے کسی میں وارد نہیں، اگر اس کا کوئی اصل موجود ہوتا تو منقول ہوتا، چاہے ایک طریق سے کیوں نہ ہو اس کی تائید اس بات سے ہوئی ہے کہ سلف صالحین میں سے کسی نے یہ فعل نہیں کیا اور جہاں تک مجھے علم ہے ،ائمہ حدیث میں سے کسی نے اس مسئلہ کو چھیڑا تک نہیں۔ ‘‘ (صفۃ الصلاۃ ص ۱۱۵)
منقول

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کوئی تبصرہ کرنا چاہتے ہیں تو مثبت انداز میں تبصرہ کر سکتے ہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔