Monday, May 25, 2015

ماہ شعبان کی حقیقت

ماہ شعبان کی حقیقت
ماہِ رواں ماہِ شعبان ہے ، اللہ تعالیٰ کے بنائے ہوئے مہینوں میں سے ایک مہینہ ، اِس مہینہ کی فضیلت کے بارے میں محدثین نے جو احادیث روایت کی ہیں اُن میں ہمیں ایک فضلیت تو یہ ملتی ہے کہ اِس مہینے میں زیادہ سے زیادہ روزے رکھے جائیں چنانچہاحادیث مبارکہ میں ہے کہ رسول کریمﷺ مکمل شعبان کے روزے رکھا کرتے تھے۔ سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے:
ما رأيت رسول اللهﷺ يصوم شهرين متتابعين، إلا أنه كان يصل شعبان برمضان ۔۔۔ (صحيح النسائي: 2174)
ترجمہ : "میں نے نبیﷺ کو کبھی بھی دو ماہ مسلسل روزے رکھتےہوئے نہيں دیکھا، لیکن آپﷺ شعبان کو رمضان کے ساتھ ملایا کرتے تھے"۔۔

دوسری احادیث میں وارد ہے کہ نبی کریمﷺ شعبان کے اکثر ایام کا روزہ رکھتے تھے۔ سیدہ امِ سلمہ رضی اللہ عنہا سے ہی مروی ہے:
سألت عائشة رضي الله عنها عن صيام رسول الله ﷺ فقالت: كان يصوم حتى نقول: قد صام، ويفطر حتى نقول: قد أفطر، ولم أره صائما من شهر قط أكثر من صيامه من شعبان. كان يصوم شعبان كله. كان يصوم شعبان إلا قليلا ۔۔۔ (صحيح مسلم: 1156)
ترجمہ : "میں نے عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا سے نبیﷺ کے روزوں کے بارے میں دریافت کیا تووہ کہنے لگیں: آپﷺ روزے رکھنے لگتے تو ہم کہتیں کہ آپ تو روزے ہی رکھتے ہیں، اورجب آپ ﷺ روزہ چھوڑتے تو ہم کہتے کہ اب نہيں رکھیں گے، میں نے نبی ﷺ کو شعبان کے مہینہ سے زيادہ کسی اورمہینہ میں زيادہ روزے رکھتے ہوئے نہيں دیکھا، آپ سارا شعبان ہی روزہ رکھتے تھے ، آپ ﷺ شعبان میں اکثر ایام روزہ رکھا کرتے تھے"۔

شعبان میں کثرتِ صیام کی حکمت
سیدنا اسامہ بن زید سے مروی ہے کہ میں نے اللہ تعالیٰ کے رسول ﷺ سے پوچھا کہ آپ جتنے روزے شعبان میں رکھتے ہیں کسی اورمہینہ میں اتنے روزے نہیں رکھتے؟ آپﷺ نے جواب میں فرمایا:
ذلك شهر يغفل الناس عنه ، بين رجب ورمضان ، وهو شهر ترفع فيه الأعمال إلى رب العالمين ، فأحب أن يرفع عملي ، وأنا صائم ۔۔۔ (صحيح النسائي: 2356)
ترجمہ : یہ ایسا مہینہ ہے جس میں لوگ غفلت کاشکار ہوجاتے ہیں جو رجب اور رمضان کے مابین ہے، یہ ایسا مہینہ ہے جس میں اعمال رب العالمین کی طرف اٹھائے جاتے ہیں، میں یہ پسند کرتا ہوں کہ میرے اعمال روزے کی حالت میں اٹھائے جائیں۔

ان کے علاوہ کچھ اور صحیح روایات ملتی ہیں ۔
(1)معاذ ابنِ جبل رضی اللہ عنہُ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
یطَّلعُ اللَّہ ُ تبارکَ و تعالیٰ اِلیٰ خلقِہِ لیلۃِ النِّصفِ مِن شعبانِ فَیَغفِرُ لِجمیع ِ خلقِہِ ، اِلاَّ لِمُشرِکٍ او مُشاحن۔(صحیح الجامع الصغیر:1819 ، سلسلہ احادیث صحیحہ :1144)
ترجمہ : اللہ تبارک و تعالیٰ شعبان کی درمیانی رات میں اپنی مخلوق(کے اعمال )کی خبر لیتا ہے اور اپنی ساری مخلوق کی مغفرت کر دیتا ہے ، سوائے شرک کرنے والے اور بغض و عناد رکھنے والے کے(اِنکی مغفرت نہیں ہوتی)﴾۔

(2)اور اِس کی دوسری روایت اِن الفاظ میں ہے:
اِذا کَان لَیلۃِ النِّصفِ مِن شعبانِ اَطلَعُ اللَّہ ُ اِلَی خَلقِہِ فَیَغفِرُ لِلمُؤمِنِینَ وَ یَملیَ لِلکَافِرِینَ وَ یَدعُ اَئہلِ الحِقدِ بِحِقدِہِم حَتَی یَدعُوہُ ۔(صحیح الجامع الصغیر و زیادتہُ:771)
ترجمہ: جب شعبان کی درمیانی رات ہوتی ہے تو اللہ تعالیٰ اپنی ساری مخلوق (کے اعمال )کی اطلاع لیتا ہے اور اِیمان والوں کی مغفرت کر دیتا ہے اور کافروں کو مزید ڈِھیل دیتا ہے اورآپس میں بغض(غصہ )رکھنا والے (مسلمانوں )کو مہلت دیتا ہے کہ وہ اپنا غُصہ چھوڑ دیں ﴾ ۔
یہ حدیث حسن ہے ۔


مذکورہ اِن دو روایات کو بنیاد بناکر شعبان کے تعلق سے ہزاروں بدعات گھڑی گئیں اور انہیں دین کا حصہ سمجھ کر عمل میں لایا جاتا ہے جبکہ  اِن احادیث میں کوئی ایسی خبر نہیں جِس کو بُنیاد بنا شب برات منائی جائے ، مردوں کی روحوں کی آمد کا عقیدہ رکھاجائے ، قبروں کی خصوصی زیارت کی جائے ، حلوہ خوری کا اہتمام کیا جائے ، آتش بازی کی جائے اور مخصوص نماز و مخصوص اذکار پڑھے جائیں ۔ حقیقتا اِن سب چیزوں کے لیے ہمارے پاس اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ  وسلم کی طرف سے کوئی ثابت شدہ سچی قابلِ اعتماد خبر نہیں۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کوئی تبصرہ کرنا چاہتے ہیں تو مثبت انداز میں تبصرہ کر سکتے ہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔