Monday, April 6, 2015

عقیقہ کرنے کا مستحب وقت

عقیقہ کرنے کا مستحب وقت

بچہ کی ولادت کے ساتویں دن عقیقہ کرنا افضل اور مسنون ہے۔ جیسا کہ حضرت سمرۃ بن جندبؓ کی حدیث میںمروی اور رسول اللہ ﷺ کے فعل مبارک سے ثابت ہے:

(1) ''کل غلام رھین بعقیقته تذبح عنه یوم سابعه و یحلق و یسقیٰ'' (سنن أبي داود و ترمذي والنسائي و ابن ماجة)

(2) ''عق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عن حسن و حسین یوم السابع و سماھما و أمر أن یماط عن رؤو سھما الأذٰی'' (تربیة الأولاد في الإسلام تالیف أستاد عبداللہ ناصح علوان)

مندرجہ بالا دونوں احادیث پچھلے صفحات میں گزر چکی ہیں، ان احادیث کی روشنی میں عقیقہ کے ذبیحہ کے لیے ولادت کا ساتواں دن بلا شک و شبہ مستحب قرار پاتا ہے۔ لیکن بعض احادیث سے ثابت ہے کہ اگر ولادت کے ساتویں دن عقیقہ نہ کیا جاسکے تو چودہویں دن کیا جائے اور اگر چودہویں دن بھی نہ کیا جاسکے تو اکیسویں دن کیا جائے۔

حضرت بریدہؓ رسول اللہ ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپؐ نے عقیقہ کے بارے میں فرمایا:
''تذبح لسبع ولأ ربع عشرة ولإ حدیٰ و عشرین'' (سنن بیہقی ج9 صفحہ303 و إسنادہ ضعیف)
''ساتویں، چودہویں او راکیسویں دن ذبح کیا جائے گا۔''

حضرت اُم کرز اور ابوکرزؓ روایت کرتے ہیں کہ حضرت عائشہؓ نے عقیقہ کےمتعلق فرمایا:
''ولکن ذاك یوم السابع فإن لم يکن ففي أربعة عشر فإن لم یکن ففي إحدیٰ عشرین'' (مستدرک حاکم ج4 صفحہ 238۔239)
''یہ (عقیقہ) ساتویں دن ہونا چاہیے اور اگر نہ ہوسکے تو چودہویں دن اور پھربھی نہ ہوسکے تو اکیسویں دن''

میمونی کا قول ہے : ''میں نے عبداللہ سے سوال کیا کہ لڑکے پر عقیقہ کب کیا جاتا ہے ؟'' انہوں نے جواب دیا: ''حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں:
''(في) سبعة أیام و أربعة عشر ولأ حدو عشرین''
یعنی ''ساتویں دن، چودہویں دن اور اکیسویں دن۔''

صالح بن احمد فرماتے ہیں : ''میں نے اپنے والد سے عقیقہ کے بارے میں دریافت کیا تو انہوں نے فرمایا:
''تذبح یوم السابع وإن لم یفعل ففي أربعة عشر فإن لم یفعل ففي إحدیٰ و عشرین''
یعنی ''ساتویں دن ذبح کیا جائےگا پس اگر ایسا نہ کرسکے تو چودہویں دن اور اگر چودہویں دن بھی نہ کرسکے توپھر اکیسویں دن''

دن کی اس تعیین کے سلسلہ میں محققین کی رائے ہے کہ ''عقیقہ ساتویں دن کئے جانے کی قید لزوم کے باب سے نہیں بلکہ استحباب کی وجہ سے ہے۔ پس اگر ساتویں دن کے بجائے چودہویں او راکیسویں دن اور بعض کے نزدیک چوتھے، آٹھویں ، دسویں یا اس کے بعد کبھی بھی کرلے تو عقیقہ ہوجاتا ہے۔ چنانچہ امام مالک رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
''والظاھر أن التقید بالیوم السابع إنما ھو علیٰ وجه الاستحباب وإلا فلو ذبح عنه الیوم الرابع أو الثامن أو العاشر أو مابعدہ أجزأت العقیقة''(تربیة الأولاد في الإسلام تألیف استاذ شیخ عبداللہ ناصح علوان)
''او ریہ ظاہر ہے کہ ساتویں دن کی قید محض استحباب کی وجہ سے ہے، اگر بچہ کی طرف سے چوتھے یا آٹھویں یا دسویں یا اس کے بعد کسی اور دن ذبیحہ کیا جائے تو بھی عقیقہ ہوجاتا ہے۔''

خلاصہ کلام یہ ہےکہ اگرباب اپنی اولاد کے ساتویں دن قدرت و استطاعت رکھتا ہو تو مستحب طریقہ پر ا س کا عقیقہ کرکے رسول اللہ ﷺ کی اس سنت کو زندہ رکھے اور اس کی فضیلت و برکات نیز اللہ تعالیٰ کے اجر وثواب سے بہرہ مند ہو۔ اگر کسی مجبوی کی وجہ سے ساتویں دن نہ کرسکتا ہو تو چودہویں دن کرلے، اگر ایسا بھی کرنا ممکن نہ ہو تو اکیسویں دن کرلے۔ اگر اکیسویں دن کی استطاعت بھی نہ ہو تو جب بھی اللہ تعالیٰ استطاعت بخشے، بلاتاخیر عقیقہ کر ڈالے۔
''يُرِ‌يدُ ٱللَّهُ بِكُمُ ٱلْيُسْرَ‌ وَلَا يُرِ‌يدُ بِكُمُ ٱلْعُسْرَ‌...﴿١٨٥﴾...سورۃ البقرۃ''
اور ''وَمَا جَعَلَ عَلَيْكُمْ فِى ٱلدِّينِ مِنْ حَرَ‌جٍ...﴿٧٨﴾...سورۃ الحج''
کا یہی تقاضا ہے۔
ایسی صورت میں نفس عقیقہ تو ہوجائے گا، لیکن ساتویں یا چودہویں او راکیسویں دن، عقیقہ کرنے میں جو اجر و ثواب ہے ، وہ حاصل نہ ہوگا بلکہ سید قاسم محمود صاحب تو یہاں تک لکھتے ہیں کہ ''اگر والدین (عقیقہ) نہ دے سکیں تو بچہ جوان ہوکر خود کرے۔ ''(شاہکار اسلامی انسائیکلو پیڈیا مرتبہ سید قاسم محمود صفحہ 1082 )

واللہ اعلم


محدث میگزین

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کوئی تبصرہ کرنا چاہتے ہیں تو مثبت انداز میں تبصرہ کر سکتے ہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔