Sunday, March 8, 2015

موبائل میسیج کے ذریعہ بیوی کو تین طلاق دینا

موبائل میسیج کے ذریعہ بیوی کو تین طلاق دینا


سوال :بیرون ملک ساکن ایک شخص کا اپنی بیوی سے فون پر جھگڑا ہوا ہے ، اس کے بعد اس نے میسج میں تین طلاق لکھ کر بھیج دی ان طلاقوں کی شرعی حیثیت کیا ہے ؟

جواب : اس طرح موبائل میسیج کے ذریعہ طلاق دینے سے طلاق واقع ہو جائے گی ۔ 
رہی ایک ہی میسج میں تین بار طلاق لکھ دینے کی بات , تو ایک ہی مجلس میں دی گئی تین طلاقیں ایک ہی شمار ہوتی ہیں ۔ ایک مجلس کی تین طلاق کو ایک شمار کرنا رسول اللہﷺ ، ابوبکررضی اللہ عنہ، اورعمر فاروق رضی اللہ عنہ کی خلافت کے ابتدائی دوسالوں تک چلتا رہا پھر جناب عمر رضی اللہ عنہ نے ایک مجلس کی تین طلاقوں پر تین کا حکم لگا دیا تھا جیساکہ عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ:(کان الطلاق علی عہد رسول اللہ وأبی بکر رضی اللہ عنہ وسنتین من خلافت عمررضی اللہ عنہ طلاق الثلاث واحدۃ فقال عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ إن الناس قد استعجلوا فی أمر کانت لہم فیہ أناۃ فلو أمضیناہ علیہم فأمضاہ علیہم
[
مسلم کتاب الطلاق باب طلاق الثلاث (1472)]
رسول اللہﷺ ،ابوبکر رضی اللہ عنہ اور عمرفاروق رضی اللہ عنہ کی خلافت کے ابتدئی دوسالوں میں اکٹھی تین طلاقوں کو ایک ہی شمار کیا جاتا تھا پھر سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے فرمایا جس کام میں لوگوں کے لیے سوچ بیچار کا موقع تھا اس میں انہوں نے جلدی شروع کردی ہے تو ہم ان پر تینوں ہی لازم کردیتے ہیں لہذا انہوں نے تینوں ہی لازم کردیں۔
یادرہے کہ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا یہ فیصلہ سیاسی اور تہدیدی تھا جیساکہ فقہ حنفی کی مشہور کتاب حاشیۃ الطحطاوی علی الدر المختار 6/511،جامع الرموز1/506،مجمع الأنہر شرح ملتقی الأبحر میں بھی لکھا ہے کہ:واعلم أنَّ فی الصدر الأول إذا أرسل الثلاث جملۃ لم یحکم إلا بوقوع واحدۃ إلی زمن عمر رضی اللہ عنہ ثم حکم بوقوع الثلاث لکثرتہ بین الناس تہدیدًا
ترجمہ:اسلام کے ابتدائی دور سے لیکر عمررضی اللہ عنہ دور خلافت تک جب اکٹھی تین طلاقیں بھیجی جاتیں تو ان پر ایک طلاق کا حکم لگایا جاتا پھر جب یہ عادت لوگوں میں زیادہ ہوگئی تو پھر تہدیدی طور پر تین طلاقوں کا حکم لگا دیا گیا ۔
فقہ حنفی کی محولہ کتب کی اس صراحت سے یہ بات ظاہر ہو گئی ہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا فیصلہ سیاسی اور تہدیدی تھا ۔جبکہ رسول اللہﷺ کا فیصلہ شرعی اور حتمی ہے ۔
لہذا ایک مجلس کی تین طلاقیں ایک ہی طلاق کا حکم رکھتی ہیں ۔مگر بعض لوگوں نے آجکل حلالہ کا طریقہ رائج کر رکھا ہے کہ ایک مرد کے ساتھ عورت کانکاح مدت مقررہ تک کے لیے کر دیا جاتا ہے پھر وہ اس مدت کے پورا ہونے کے بعد عورت کو طلاق دے دیتا ہے اور پھر پہلا خاوند اس سے دوبارہ نکاح کر لیتا ہے ۔ یہ قطعاً جائز نہیں ہے بلکہ رسول اللہﷺ نے لعنت فرمائی ہے :[لعن اللہ المُحَلِّل والمُحَلَّل لہ ] حلالہ کرنے والے اور جس کے لیے حلالہ کیا جائے ان دونوں اللہ کی لعنت ہو۔
[
أبوداود کتاب النکاح باب فی التحلیل (2076)،ترمذی أبواب النکاح باب ماجاء فی المحل والمحلل لہ (1119) ]

لغت حدیث کی معروف کتاب النہایة فی غریب الأثر والحدیث لابن أثیر1/431میں حلالہ کی تعریف یوں کی گئی ہے (ہو أن یطلق رجل امرأتہ ثلاثا فیتزوجہا رجل آخر علی شریطۃ أن یطلقہا بعد وطئہا لتحل لزوجہا الأول) وہ یہ ہے کہ کوئی شخص اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دے تو اس عورت کے ساتھ دوسرا آدمی اس شرط پر نکاح کرے کہ وہ اس عورت سے جماع کرنے کے بعد اس کو طلاق دے دے گا تاکہ وہ عورت پہلے خاوند کے لے حلال ہوجائے۔
احناف کی فقہی اصطلاح پر لکھی گئی کتاب القاموس الفقہی کے صفحہ 100 پر مُحَلِّل (حلالہ کرنےوالا)کی یہ تعریف درج ہے:المُحَلِّلُ:ہو المتزوج ثلاثا لتحل للزوج الأوّل وفی الحدیث الشریف لعن اللہ المحلِّل والمحلَّل لہ
(
ترجمہ(محلِّل سے مراد وہ آدمی ہے جو تین دفعہ طلاق شدہ عورت سے شادی کرتا ہے تاکہ اس عورت کو پہلے خاوند کے لیے حلال کر دے اور حدیث شریف میں آتا ہے کہ اللہ حلالہ کرنے والے پر اور جس کے لیے حلالہ کیا جاتا ہے دونوں پر لعنت کرے ۔
لہذا حلالہ کا مروجہ طریقہ کار بالکل حرام ہے ۔
فتاوی طاہریہ سے ترمیم کے ساته


0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کوئی تبصرہ کرنا چاہتے ہیں تو مثبت انداز میں تبصرہ کر سکتے ہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔