Saturday, March 28, 2015

تحیۃ المسجد كی فضيلت اور مسائل

تحیۃ المسجد كی فضيلت اور مسائل

تحیۃ المسجد کی تعریف اور حکم
تحیۃ المسجد دو رکعات نمازہے جس کو نمازی مسجد میں داخل ہوتے وقت ادا کرتا ہے۔اور یہ نماز مسجد میں داخل ہونے والے ہر شخص کے حق میں بالاجماع سنت ہے ۔(فتح الباری:۲/۴۰۷)

تحیۃ المسجد سے مستثنی لوگ
مسجد کا خطیب تحیۃ المسجد سے مستثنی ہے ،جب وہ خطبہ جمعہ کے لئے مسجد میں داخل ہوتو دو رکعات تحیۃ المسجد نہیں پڑھے گا۔اسی طرح مسجد کا متولی بھی مستثنی ہے ،کیونکہ اس کا بار بار مسجد میں آنا جانا لگا رہتا ہے اور تحیۃ المسجد کی ان رکعات کو بار بار پڑھنے سے مشقت پیدا ہوتی ہے۔اسی طرح وہ شخص بھی مستثنی ہے جو مسجد میں داخل ہوا تو امام فرض نماز پڑھا رہا تھا یا فرض نماز کی اقامت ہو چکی تھی،کیونکہ فرض نماز کی موجودگی تحیۃ المسجد سے مستغنی کر دیتی ہے۔(سبل السلام:۱/۳۲۰)

بعض اہل علم فرماتے ہیں کہ تحیۃ المسجد کا تکرار مستحب ہے ،جب بھی کوئی مسجد میں داخل ہو تو تحیۃ المسجد پڑھے۔یہ قول امام نووی ؒ کا ہے اور اسی کو شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ ؒ نے اختیار کیا ہے اور حنابلہ کی کلام کا ظاہر بھی یہی ہے۔(المجموع:۴/۵۷)

امام شوکانی ؒ فرماتے ہیں کہ ظاہر حدیث سے تحیۃ المسجد مشروع ہے اگرچہ کثرت دخول ہی کیوں نہ ہو۔(نیل الأوطار:۳/۷۰)

تحیۃ المسجد کی حکمت
تحیۃ المسجد پڑھنے سے دل میں مسجد کا احترام پیدا ہوتاہے ،یہ بمنزل سلام کے ہے کہ آدمی جب کسی کے گھر جاتا ہے تو گھر والے کوملتے وقت سلام کہتا ہے۔امام نووی ؒفرماتے ہیں :کہ بعض نے تحیۃ المسجد کو مسجد کے رب کو سلام قرار دیا ہے ،کیونکہ اس کامقصدحصول قرب الہی ہے نہ کہ حصول قرب مسجد، جیسا کہ بادشاہ کے گھر میں داخل ہونے والا بادشاہ کو سلام عرض کرتا ہے نہ کہ اس کے گھر کو۔
[حاشیہ ابن قاسم: ۲/ ۲۵۲]

تحیۃ المسجد سے متعلق مسائل
(1)تحیۃ المسجد تمام اوقات میں مشروع ہے،کیونکہ یہ ایک سببی نماز ہے کہ جب بھی آپ مسجد میں داخل ہوں تحیۃ المسجد ادا کریں۔اس کو شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ ؒ نے اختیار کیاہے۔[الفتاوی لابن تیمیہ]اور شیخ صالح العثیمین ؒ وشیخ ابن بازؒ کی بھی یہی رائے ہے۔ (الشرح الممتع لابن عثیمین:۴/۱۷۹،وفتاوی مھمۃ تتعلق بالصلاۃلابن باز)
(2)تحیۃ المسجد کی نماز مسجد میں داخل ہوتے وقت بیٹھنے سے پہلے پہلے ادا کی جائے گی ،اگر کوئی شخص جان بوجھ کر بیٹھ گیا تو اس کے لئے اس کی مشروعیت ختم ہو جائے گی کیونکہ بیٹھ جانے سے اس کا وقت ہی فوت ہو گیا۔

(3)جو شخص جہالت کی وجہ سے یا بھول کر بیٹھ گیا اس کے لئے جائز ہے کہ وہ اٹھ کر دو رکعتیں تحیۃ المسجد ادا کرے کیونکہ وہ معذور ہے ۔بشرطیکہ بیٹھنے کا فاصلہ زیادہ لمبا نہ ہوا ہو۔(فتح الباری:۲/۴۰۸)

(4)تحیۃ المسجد ادا کرنا سنت ہے ،واجب نہیں جیسا کہ بعض کا خیال ہے۔اس کے سنت ہونے پر امام نووی ؒنے اجماع نقل کیا ہے ۔(نیل الاوطار:۳/۶۸)

(5)جب آدمی مسجد میں داخل ہو اور مؤذن اذان دے رہا ہو تو بہتر یہی ہے کہ پہلے اذان کا جواب دیا جائے پھر تحیۃ المسجد ادا کی جائے تاکہ اذان کے جواب کی فضیلت کو بھی حاصل کیا جا سکے۔ہاں البتہ جمعہ کے دن اگر خطبہ کی اذان ہو رہی ہے تو بہتر یہی ہے کہ اذان کا جواب دینے کی بجائے تحیۃ المسجد ادا کر لی جائے کیونکہ خطبہ جمعہ سننا زیادہ اہم ہے۔(الانصاف:۱/۴۲۷)

(6)جب آدمی مسجد میں داخل ہو اور خطیب خطبہ جمعہ دے رہا ہو تو اس کے لئے تحیۃ المسجد ادا کرنا مسنون ہے ،اور ترک کر دینا مکروہ ہے ۔[الفتاوی لابن تیمیہؒ:۲۳/۲۱۹]؛کیونکہ حدیث سے ثابت ہے کہ:((فلا یجلس حتی یصلی رکعتین)) [بخاری،مسلم]’’وہ دو رکعات ادا کرنے سے پہلے نہ بیٹھے۔‘‘دوسری حدیث میں ہے:((فلیرکع رکعتین ولیتجوز فیھما)) [بخاری،مسلم]’’اس کو چاہئیے کہ ہلکی پھلکی دو رکعتیں ادا کرے ۔‘‘اگر خطیب آخر خطبہ میں ہو اور غالب گمان یہی ہو کہ تحیۃ المسجد ادا کرنے سے فرض نماز کا شروع حصہ نہیں پا سکے گا ،تو نماز قائم ہونے تک کھڑا ہو جائے اور بیٹھے نہیں تا کہ فرض نماز ہی تحیۃ المسجدکے قائم مقام ہو جائے۔

(7)مسجد حرام کا تحیۃ اکثر فقہاء کے نزدیک طواف ہے ۔امام نووی ؒ فرماتے ہیں:((تحیۃ المسجد الحرام الطواف فی حق القادم ،أما المقیم فحکم المسجد الحرام وغیرہ فی ذلک سوائ))[فتح الباری:۲/۴۱۲]’’باہر سے آنے والے کے لئے مسجد حرام کا تحیۃ طواف ہے۔جب کہ مقیم کے لئے مسجد حرام اور باقی مساجد سب کا ایک ہی حکم ہے۔‘‘شاید امام نووی ؒ کی مراد وہ شخص ہو جو طواف کا ارادہ نہ رکھتا ہو ۔البتہ جو شخص طواف کرنا چاہتاہے اس کو یہ طواف تحیۃ المسجدکی دو رکعات سے مستغنی کر دے گا۔اور یہی درست ہے۔(حاشیہ ابن قاسم:۲/۴۸۷)

(8)نمازوں سے پہلے کی سنن تحیۃ المسجد سے کفایت کر جائیں گی،کیونکہ تحیۃ المسجد کا مقصود مسجد میں داخل ہوتے وقت سب سے پہلا کام نماز ادا کرنا ہے ،جو ان سنن کی ادائیگی سے پورا ہو جاتاہے۔اور اگر کوئی شخص سنن یا فرائض کے ساتھ ساتھ تحیۃ المسجد کی بھی نیت کر لیتا ہے تو دونوں ہی حاصل ہو جائیں گی۔امام نووی ؒ نے اس کو بلا اختلاف نقل کیا ہے۔(کشاف القناع:۱/۴۲۳)

(9)تحیۃ المسجد ایک رکعت اداکرنے یا نماز جنازہ پڑھنے یا سجدہ سہو وسجدہ شکر اد اکرنے سے حاصل نہیں ہو گی۔(کشاف القناع)
(10)اگر امام مسجد فرض نماز کا ٹائم ہو جانے کی وجہ سے فرض نماز کے ساتھ تحیۃ المسجد سے کفایت کرنا چاہے تو اس کو یہی کافی ہو جائے گا۔[سبل السلام :۱/۳۲۹]’’حضرت جابرسے روایت ہے کہ بلال سورج ڈھل جانے پر اذان کہہ دیا کرتے تھے اور اس وقت تک اقامت نہیں کہتے تھے جب تک نبی کریم ﷺ کو دیکھ نہ لیتے ،جب اللہ کے نبی ﷺ گھر سے نکلتے تو وہ اقامت کہہ دیتے۔‘‘[مسلم ]اور اگر امام بیٹھنے کی نیت سے آئے تو اس کے حق بھی میں حدیث کے عموم کی وجہ سے تحیۃ المسجد مشروع ہے۔نبی کریم ﷺ نے فرمایا:((اذا دخل أحد کم المسجد فلا یجلس حتی یصلی رکعتین))[بخاری ،مسلم]’’تم میں سے جب کوئی مسجد میں داخل ہو تو اسے چاہئیے کہ دو رکعات نماز پڑھنے کے بغیر نہ بیٹھے۔‘‘صحراء میں نماز کے وقت تحیۃ نہیں ہے۔[الفواکہ العدیدیہ:۱/۹۹]الا یہ کہ راستے پر موجود مسجد میں آپ نماز پڑھ رہے ہوں تب تحیۃ المسجد ادا کی جائے گی۔فرض نماز کے ساتھ اگر تحیۃ المسجد کی بھی نیت کر لی جائے تو کافی ہو جائے گا۔

(11)امام کے لئے جمعہ اور نماز عید سے پہلے تحیۃ المسجد مشروع نہیں ہے ،بلکہ جمعہ کو خطبہ اور عید کے دن نماز عید سے ابتداء کرے گا۔کیونکہ نبی کریم ﷺ نے ایسا ہی کیا۔لیکن مقتدی کے لئے بیٹھنے سے پہلے پہلے تحیۃ المسجد مشروع ہے ۔اگر نماز عید دیوار سے باہر ادا کی جارہی ہے تو تحیہ مشروع نہیں ہے۔جیسا کہ حدیث میں ہے کہ حضرت ام عطیہ رضی اللّٰہ عنھا فرماتی ہیں کہ:((أمرنا أن نخرج العواتق،والحیض فی العیدین ،یشھدن الخیر ودعوۃ المسلمین ،ویعتزل الحیض المصلی))[بخاری ،مسلم]’’ہمیں حکم دیا گیا کہ سب عورتوں کو عید گاہ کی طرف نکالیں حتی کہ حیض والیوں کو بھی ،تاکہ وہ خیر اور مسلمانوں کی دعا میں شریک ہو سکیں،لیکن حکم دیا گیا کہ حیض والی عورتیں عید گاہ سے دور رہیں۔‘‘یہی مذہب امام شافعی ؒکا بھی ہے اور اسی کو شیخ صالح العثیمین ؒنے اختیار کیا ہے ۔

(12)اگر کسی شخص نے فرض نماز ادا کر لی ہو اور پھر وہ کسی مسجد میں حاضر ہوا تو وہاں فرض نماز کھڑی تھی تو اس کے لئے اس فرض نماز میں داخل ہو جانا مسنون ہے ۔جیسا کہ نبی کریم ﷺ نے ثابت ہے:((اذا صلیتما فی رحالکما ثم أتیتما مسجد جماعۃ فصلیا معھم ، فانھا لکما نافلۃ))[رواہ الترمذی]’’جب تم دونوں نے اپنی رہائش پر نماز پڑھ لی پھر مسجد میں آئے تو ان مسجد والوں کے ساتھ بھی نماز پڑھو،یہ تمہارے لئے نفل ہو جائے گی۔‘‘

 ماخوذ از محدث فورم 

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کوئی تبصرہ کرنا چاہتے ہیں تو مثبت انداز میں تبصرہ کر سکتے ہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔