ناف کے نیچے ہاتھ باندھنے پر قول علی کی حقیقت
قول : علي رضي الله عنه قال: "من السنة وضع الأيدي علی الأيدي تحت
السرر")مصنف
ابن ابی شیبہ(
''ابو جحیفہ حضرت علیؓ سے روایت کرتے ہیں کہ ہاتھوں کوناف کے نیچے باندھنا سنت ہے۔''
یہ روایت اسی سند سے دارقطنی، مسنداحمد اور بیہقی میں درج ذیل الفاظ سے مروی ہے: من السنة وضع الکف علی الکف تحت السرةاور اسی سے ملتے جلتے الفاظ سے ابوداود میں بھی ہے۔
''ابو جحیفہ حضرت علیؓ سے روایت کرتے ہیں کہ ہاتھوں کوناف کے نیچے باندھنا سنت ہے۔''
یہ روایت اسی سند سے دارقطنی، مسنداحمد اور بیہقی میں درج ذیل الفاظ سے مروی ہے: من السنة وضع الکف علی الکف تحت السرةاور اسی سے ملتے جلتے الفاظ سے ابوداود میں بھی ہے۔
جواب :
*حضرت
علی رضی اللہ عنہ سے مروی اس حدیث کا مرکزی راوی عبدالرحمن بن اسحق ہے، اس کی کنیت
ابوشیبہ الواسطی ہے، یہ نعمان بن سعد کا شاگرد خاص ہے، وہ یہ روایت زیاد بن زید
اور نعمان بن سعد سے نقل کرتا ہے۔
*دراصل
یہ قول علیؓ سے بھی ثابت نہیں ہے کیونکہ یہ قول مسند
احمد ص۱۱۰ج
۱ (زوائد عبداللہ بن احمد) میں ہے اور اس کی سند میں راوی عبدالرحمان بن اسحاق
الواسطی ابو شیبہ ہے جس پر سخت جرح کی گئی ہے ۔ امام احمد اور ابو حاتم نے منکر
الحدیث کہا ہے اور امام یحییٰ بن معین نے اس کو متروک کہا ہے اور امام ابن حبان
فرماتے ہیں کہ روایات اور اسناد تبدیل کرتا تھا اور مشہور اشخاص سے منکر روایات
لاتا تھا اس کی روایت سے دلیل لینا حرام ہے اور بے شمار ائمہ مثلاً بخاری ابو زرعہ
، نسائی ، ابو داؤد ، ابن سعد ، یعقوب بن سفیان وغیرھم اس کو ضعیف کہتے ہیں (میزان الاعتدال ص
۵۴۸ ج ۲ اور تہذیب
التہذیب ص۱۳۴
ج۱) اور علامہ ابن العجمی نے اپنی کتاب الکشف
الحثیث میں
اس کو عمن رمی بوضع الحدیث میں ذکر کیا ہے۔
''*امام
نووی ؒ اس حدیث کے بارے میں رقم طراز ہیں: حضرت
علی ؓسے ناف کے نیچے ہاتھ باندھنے کے بارے میں مروی روایت کے ضعیف ہونے پر تمام
محدثین کا اتفاق ہے۔ اس روایت کو امام دارقطنی اور امام بیہقی نے عبدالرحمن بن
اسحق سے نقل کیا ہے جبکہ وہ تمام ماہرین فن کے نزدیک بالاتفاق ضعیف ہے۔''( شرح
النووی: ج۴؍ص۱۵۳)
*علامہ زیلعی حنفی نصب الرایہ ص۳۱۴ج۱ اور علامہ
عبدالحئی لکھنوی حنفی ھدایہ
کے حاشیہ ص۱۰۲ج۱
میں امام نووی سے نقل کرتے ہیں کہ یہ روایت بالاتفاق ضعیف ہے اسی طرح شیخ ابن
الھمام فتح
القدیر شرح الھدایہ ص۲۰۱میں
بھی نقل کرتے ہیں ۔
*نیز اس کے ضعیف ہونے کے لئے دوسری
دلیل یہ ہے کہ علی ؓ نے آیت ’’والنحر‘‘ کی تفسیر یہ کی ہے کہ سینے پرہاتھ باندھنے
چاہیئے .
*جہاں تک امام ترمذی ؒکی تحسین اور
امام حاکم ؒکی تصحیح کا تعلق ہے تو یہ حقیقت تمام اہل علم پرعیاں ہیں کہ ان حضرات
کا دیگر ائمہ کے خلاف کسی روایت کو حسن یا صحیح قرار دینا قابل حجت نہیں۔
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کوئی تبصرہ کرنا چاہتے ہیں تو مثبت انداز میں تبصرہ کر سکتے ہیں۔
اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔