Sunday, March 22, 2015

شاہ ولی اللہ اور تقلید

شاہ ولی اللہ اور تقلید

اولا تو شاہ ولی اللہ حنفی شمار کئے جاتے ہیں اور احناف انہیں اپنے میں گردانتے ہیں ، ان کا کہنا ہے کہ شاہ صاحب نے حنفی مذہب کو پسند کیا ہے ، ان کی دلیل "تفہیمات الہیہ
صفحہ ۴۸ کی یہ عبارت ہے ۔
عرفنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان فی المذھب الحنفی طریقة انیقة ھی اوفق الطرق بالسنة المعروفة التی جمعت ونقحت فی زمان البخاری واصحابہ وذلک ان یوٴخذ من اقوال الثلاثة قول اقربھم بھا فی المسألة، ثم بعد ذلک یتبع اختیارات الفقھاء الحنفیین الذین کانوا من علماء الحدیث فرب شیٴ سکت عنہ الثلاثة فی الاصول وما تعرضون لنفیہ ودلت الاحادیث علیہ فلیس بد من اثباتہ والکل مذہب حنفی ۔ الخ۔
یعنی شاہ صاحب کے کلام کا خلاصہ ہے کہ غور سے یہی معلوم ہوا کہ حنفی مذہب آج کل باقی مذاہب سے زیادہ بہتر ہے۔

ہم یہ کہیں گے شاہ صاحب کا مسلک کچھ بھی رہاہو ، ان کی تحریروں سے لوگوں کو شبہ میں مبتلا کیا جارہاہے ۔انہوں نے تقلید کا رد کیا ہے ،ان کا ماننا ہے کہ چوتھی صدی سے پہلے تقلید کا کوئی رواج نہیں تھا چنانچہ لکھتے ہیں۔
اعلم ان الناس کا نو قبل الما ئة الرابعة غیر مجمعین علی التقلید الخالص لمذھب واحد
یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ چوتھی صدی سے پہلے لوگ کسی ایک مخصوص مذہب کی تقلید پر متفق نہیں تھے (حجة اللہ البالغہ ص ۴۵۱)
بلکہ آپ کی مندرجہ ذیل عبارت سے تقلید کی بھرپور تردید ہوتی ہے ، اور یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ آپ تقلید کے حمایتی نہیں بلکہ مخالف ہیں ۔
شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
"
وقد صح اجماع الصاحبة کلھم اولھم عن آخرھم و اجماع التابعین اولھم عن آخرھم و اجماع تبع التابعین اولھم عن آخرھم علی الامتناع والمنع من ان یقصد احد الی قول انسان منھم او ممن قبلھم فیاخذہ کلھ"(عقدالجید لشاہ ولی اللہ محدث دھلوی رح ص:۴۱)
تمام صحابہ کرام، تمام تابعین اور تبع تابعین کا اس بات پر اجماع ثابت ہو چکا ہے کہ انہوں نےنہ صرف اپنے آپ کو تقلید سے محفوظ رکھا بلکہ اس کو شجر ممنوعہ قرآر دیا ہے کوئی ایسا شخص جس کا تعلق قرون ثلاثہ سے ہو صحابہ کرام، تابعین اور تبع تابعین میں سے کسی نے بھی اس کی ہر بات کو تسلیم نہیں کیا ہے اور جن باتوں کو قبول کیا ہے وہ صرف اور صرف دلیل کی بنیاد پر یہ ان کے صریح اجماع کی دلیل ہے۔
آپ کی بعض تحروں سے تقلید کا گمان ہوتا ہے اس کی کیا وجہ سے ؟
دراصل شاہ صاحب کی یہ خواہش تھی امت کے درمیان فقہی اختلافات کاجامدحل نکل آئے اورتقلیدمیں جوانتہاہ پسندی آگئی تھی اسپروہ مخالف تھے انہوں نے اس ضمن میں اپنی کتب الانصاف اورعقدالجیدمیں اس پرسیرحاصل بحث کی ہے۔شاہ صاحب کے نزدیک کتاب وسنت پرتقلیدکوفوقیت جاہلیت ہے،اسکے برعکس کتاب وسنت کووہ راستہ عین نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سمجھتے ہیں اوراس چیزکے ردپرکہ صرف تقلیدآڑھے آجاتی ہے احادیث صحیحہ سے پہلوتہی کودرست نہیں سمجھتے ہیں۔

شاہ ولی اللہ نے مسلمانوں کے مختلف علمی اور فقہی طبقوں کے افکار میں مطابقت کے پہلو نمایاں کرکے ان کے درمیان صلح وآشتی پیداکرنے کی کوشش کی اور اختلافی مسائل میں الجھے رہنے کی بجائے انہیں متفق علیہ مسائل کی طرف مائل کیا۔ تطبیق ان کا خاص فن ہے۔ مثلاً حنفی ، شافعی ،مالکی اور اہل حدیث کے درمیان یاصوفیائے کرام اور غیر صوفی علمائے عظام کے درمیان یاعقائدمیں معتزلہ،اشاعرہ،ماتریدیہ اور اہل حدیث کے درمیان، یافلسفہ و شریعت کے مابین قرب کی فضا پیداکی۔ غرض انہوں نے فقہی اختلافات میں نقطہ عدل و تطابق قائم کیا اور انتہاپسند فقہاء کے الجھے ہوئے طریق کے مقابلے میں معتدل ،صاف اور عملی طریق کو ترجیح دی۔ فرقہ وارانہ نزاعات میں غلو و تعصب کومٹانے کی کوشش کی اور یونانی فلسفہ کے بجائے ایمانی فلسفہ(دانش ایمان) کو رواج دیا۔ملاحظہ ہو۔(بحث نمبر۲،حجۃ اللہ البالفہ،الخیرالکثیروغیرہ)



0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کوئی تبصرہ کرنا چاہتے ہیں تو مثبت انداز میں تبصرہ کر سکتے ہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔