Sunday, January 25, 2015

مدینہ کو یثرب کہنا یا منورہ کا اضافہ کرنا

مدینہ کو یثرب کہنا یا منورہ کا اضافہ کرنا

مدینہ کو یثرب کہنے کی ممانعت وارد ہے جیسا کہ بخاری و مسلم میں ہے ۔
عن أَبي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قال قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : ( يَقُولُونَ يَثْرِبُ ! وَهِيَ الْمَدِينَةُ ) .
ترجمہ: ابوھریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: وہ لوگ یثرب کہتے ہیں حالانہ یہ مدینہ ہے ۔
حافظ ابن حجرؒ فتح الباری میں لکھتے ہیں : نبی ﷺ کا قول : يَقُولُونَ يَثْرِب وَهِيَ الْمَدِينَة ، یعنی بعض منافقین اسے یثرب کہتے تھے۔اس کا مناسب نام مدینہ ہے ۔اس لئے بعض علماء نے اس حدیث سے یہ معنی اخذ کیا ہے کہ مدینہ کو یثرب کہنا مکروہ ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ قرآن کریم میں یثرب کا لفظ آیا ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہاں اللہ تعالی نے   منافقین کا قول نقل فرمایا ہے :واذاقالت طائفۃ مہنم یااھل یثرب لامقام لکم ۔( الاحزاب : 13)
جب ان میں سے ایک گروہ نے کہااے یثرب کے رہنے والو! تمہارے لئے کوئی جگہ اور ٹھکانا نہیں۔
چنانچہ امام نووی ؒ لکھتے ہیں:
قال النووی رحمہ ا تعالٰی قد حکی عیسٰی بن دینار ان من سماھا یثرب کتب علیہ خطیئۃ واما تسمیتھا فی القراٰن بیثرب فہی حکایۃ قول المنافقین الذین فی قلوبہم مرض (المرقاۃ شرح المشکوٰۃ کتا ب المناسک حدیث ۲۷۳۸ ,۵ /۶۲۲)
ترجمہ: امام نووی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا عیسٰی بن دینار رحمۃ اللہ علیہ سے حکایت کی گئی ہے کہ جس کسی نے مدینہ طیبہ کا نام یثرب رکھا یعنی اس نام سے پکارا تو وہ گناہ گار ہوگا، جہاں تک ک قران مجید میں یثرب نام کے ذکر کا تعلق ہے تو معلوم ہونا چاہئے کہ وہ منافقین کے قول کی حکایت ہے کہ جن کے دلوں میں بیماری ہے۔

لفظ یثرب کی کراہت کے اسباب
 (1)یثرب کا لفظ فساد وملامت سے خبر دیتاہے ، منافقین اسی طرف اشارہ کرکے یثرب کہتے ۔ اسی لئے نبی ﷺ نے اس نام کو ناپسند کیا اور اس کا نام مدینہ رکھا.
(2) اس میں منافقین کی شباہت پائی جاتی ہے ، اس وجہ سے کسی لڑکی کا نام بھی یثرب رکھنا مکروہ ہے۔
یثرب سے متعلق ایک حدیث ضعیف ہےجس میں نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں:من سمی المدینۃ یثرب فلیستغفر ھی طابة ھی طابة( رواہ الامام احمد)
ترجمہ :جو مدینہ کو یثرب کہے اس پر توبہ واجب ہے۔ مدینہ طابہ ہے مدینہ طابہ ہے۔
 اس حدیث کو علامہ البانی نے ضعیف قرار دیا ہے۔

لفظ مدینہ کے ساتھ منورہ کا اضافہ
شیخ ابن عثیمین ؒ سے سوال کیا گیا کہ مدینہ منورہ کہنے کا کیا حکم ہے اور اس کی کیا علت ہے ؟
تو انہوں نے جواب دیا : مدینہ منورہ یہ نیا نام ہے جو سلف کے نزدیک معروف نہیں ہے ، لیکن جنہوں نے اس کا نام رکھا ہے ان کا کہنا ہے کہ مدینہ دین اسلام سے منور ہوگیا اس لئے  کہ دین اسلام مقامات کو روشن کردیتا ہے ۔مجھے نہیں معلوم مگر یہ بھی اعتقاد ہوسکتا ہے کہ نبی ﷺ کے وجود سے یہ شہر روشن ہوگیا۔لیکن بہتر ہے کہ ہم مدینہ منورہ کے بجائے مدینہ نبویہ کہیں ۔ اور یہ بھی کہنا کوئی ضروری نہیں ہے صرف مدینہ کہنا ہی کافی ہے۔اس لئے ہم سلف کے اس طرح کی عبارتیں پاتے ہیں۔ مثلا
ذهب إلى المدينة (وہ مدینہ گیا)
رجع من المدينة (وہ مدینہ سے لوٹا)
سكن المدينة (وہ مدینہ میں سکونت اختیار کیا)
اور نبی ﷺ کا بھی فرمان ہے :  ( المدينة خيرٌ لهم ) یعنی مدینہ ان کے لئے بہتر ہے ۔ آپ نے نہ تو مدینہ منورہ کہا اور نہ ہی مدینہ نبویہ۔
لیکن اگر وصف لگانا ہی چاہتے ہیں تو مدینہ نبویہ کہنا مدینہ منورہ سے افضل ہے ۔اس لئے کہ نبوت سے مدینہ کو متصف کرنا نور سے متصف کرنے سے زیادہ خاص ہے۔ جب ہم مدینہ منورہ کہتے ہیں تو اس سے تمام اسلامی ملک مراد لیا جائے گا کیونکہ اسلام نے ساری جگہوں کو روشن کردیا ، اس لئے ایک خاص وصف نبویہ سے مدینہ کومتصف کرنا ضروری ہے ۔ (شیخ کے کلام کا مفہوم) ]لقاء الباب المفتوح - (189 / 24 [.
اعداد : مقبول احمد سلفیؔ
اسلامی سنٹر شمال طائف، سعودی عرب



0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کوئی تبصرہ کرنا چاہتے ہیں تو مثبت انداز میں تبصرہ کر سکتے ہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔