دعا
میں ہاتھ اٹھانا / دعا کے بعد ہاتھ منہ پر پھیرنا : شرعی حیثیت
دعا کیلئے ہاتھوں کو اٹھانا ضروری نہیں ہے لیکن اس سے قبولیت دعا میں اثر ضرور آتا ہے جیسا کہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی حدیث ہے:
" ان ربکم تبارک وتعالی حیی کریم یستحی من عبدہ اذا رفع یدیہ الیہ ان یردھما صفرا " .
قال الشیخ الالبانی : صحیح
( صحیح ، سنن ابو داودابواب فضائل قرآن ، باب الدعاء /
سنن ترمذی کتاب الدعوات باب ان اللہ حی کریم /
ابن ماجہ کتاب الدعاء ، باب رفع الیدین فی الدعاء )
یقینا تمہارا رب با برکت ، بلند ، سخی ہے اور اسے بہت حیا آتی ہے اپنے بندے سے جب وہ اسکی طرف ہاتھ اٹھائے اور انہیں خالی لوٹا دے۔
باقی رہا مسئلہ ہاتھوں کو منہ پر پھیرنے کے متعلق تو اس میں اختلاف ہے بعض علماء اسکو جائز قرار نہیں دیتے انکے نزدیک منہ پر ہاتھ پھیرنے کی تمام احادیث میں ضعف ہے ، جبکہ دوسرے گروہ کے ہاں ان روایات کی تعداد زیادہ ہونے کی وجہ سے یہ روایات حسن لغیرہ کا درجہ حاصل کرلیتی ہیں اس لئے منہ پر ہاتھ پھیرنا انکے ہاں جائز ہے ۔
اس مسئلہ میں میرے محدود علم کے مطابق چھ احادیث ہیں جن میں سے چار مرفوع متصل (عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما/عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ / عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما / یزید بن سعید بن ثمامہ الکندی رضی اللہ عنہ سے )ہیں اور دو مرفوع مرسل( امام زہری رحمہ اللہ اور ولید بن عبد اللہ بن ابو مغیث سے ) ہیں لیکن تمام میں کوئی نہ کو ضعف ضرور ہے چنانچہ اس معاملے میں ہم حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کے بیان کو سامنے رکھتے ہیں :
بلوغ المرام حدیث ( ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم " اذا رفع یدیہ فی الدعاء، لم یحط ھما حتی یمسح بہما وجہہ) نمبر 1554/1555 کے ذیل میں لکھتے ہیں :
ولہ شواہد منہا حدیث ابن عباس عند ابی داود و غیرہ ، و مجموعہا یقتضی انہ حدیث حسن۔
یہی بات شارح بلوغ المرام محمد بن اسماعیل امیر صنعانی رحمہ اللہ نے سبل السلام میں اسی حدیث کی شرح میں اور سیوطی رحمہ اللہ نے جامع الصغیر میں بیان کیا ہے ۔
نوٹ : علامہ البانی رحمہ اللہ نے اسی حدیث کا حکم( ضعیف جداً ) کے ساتھ لگایا ہے
اس سے یہ بات کوئی نہ لے کہ :
چہرے پر ہاتھ پھیرنا بدعت ہے
نہیں ! یہ بات کسی عالم دین نے نہیں کہی (میرے علم کے مطابق)
کیونکہ بدعت وہ ہوتی ہے جس پر کوئی دلیل نہ ہو لیکن یہاں اگرچہ کوئی پکی ٹھکی دلیل نہیں ہے لیکن متعدد روایات کے باعث صرف اور صرف جواز کا قائل ہوا جاسکتا ہے؛
یہی وجہ ہے کہ علامہ ابن باز رحمہ اللہ کے فتاوی میں پڑھ رہا تھا تو اسمیں دو مختلف بیانا ت نظر آئے
(١) محتاط اور صحیح ترین یہ ہے کہ آپ دعا کے بعد منہ پر ہاتھ مت پھیریں
(٢) جبکہ دوسرا بیان یہ تھا کہ منہ پر ہاتھ پھیرنا مستحب ہے،
اسی طرح شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ نے بھی اپنے فتاوی میں اسکو بدعت نہیں کہا بلکہ یہ کہا کہ روایات ضعیف ہیں لہذا ان پر عمل نہ کیا جائے۔
حاصل کلام یہ ہے کہ :
اس مسئلہ میں تمام روایات ضعیف ہیں لیکن ان کی کثرت تعداد کی وجہ سے ان پر عمل کرنے والے کو بدعتی نہیں کہا جاسکتا یعنی اگر کو عمل کرے تو روک نہیں سکتے اور اگرکو ئی نہ کرے تو اسکو کرنے کا حکم نہیں دے سکتے لیکن عادت بنانا بہر حال غلط ہو گا۔
بشکریہ اردو مجلس
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کوئی تبصرہ کرنا چاہتے ہیں تو مثبت انداز میں تبصرہ کر سکتے ہیں۔
اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔