Saturday, January 24, 2015

شیخ عبدالقادر جیلانی ایک نظر میں

شیخ عبدالقادر جیلانی ایک نظر میں


(1) شیخ عبدالقادر جیلانی انتہائی متقی، دیندار، عالم باعمل اور اللہ کے ولی تھے۔
(2) شیخ 471ھ (یا 470ھ )کو بغداد کی قریب(جیلان ، کیلان) میں پیدا ہوئے اور وہیں عمر بھر دینی واصلاحی خدمات انجام دینے کے بعد 561ھ کو فوت ہو کر دفن ہوئے۔
(3) غنیۃ الطالبین، فتوح الغیباور الفتح الرباني آپ کی تصانیف ہیں جبکہ ان کے علاوہ دیگر کتابیں جنہیں آپ کی تصانیف میں شامل کیا جاتاہے، انکی کوئی دلیل نہیں۔
(4) شیخ عقائد و نظریات کے حوالہ سے صحیح العقیدہ مسلمان تھے۔
(5) شیخ نے اپنے متبعین کو طریقت و باطنیت کی بجائے قرآن و سنت پر مبنی شریعت کی تعلیمات سے روشناس کرایا۔
(6) شیخ فقہی مسائل میں حنبلی المسلک تھے مگر قرآن و سنت کے خلاف امام کی رائے پر ڈٹے رہنے کے قائل نہ تھے۔
(7) جن لوگوں نے شیخ کو 'حنفی' قرار دینے کی کوشش کی ہے، انہوں نے محض کذب بیانی سے کام لیا ہے۔
(8) شیخ جیلانی ان معنوں میں صوفی تھے کہ آپ زاہد تھے، ورنہ صوفیامتاخر کی طرح وحدت الوجود اور حلول وغیرہ جیسے گمراہانہ عقائد آپ میں نہیں پائے جاتے بلکہ آپ ایسے نظریات کی تردید کرنے والے تھے۔
(9) بشر ہونے کے ناطے شیخ بھی بعض تفردات کا شکار ہوئے جن میں زہد و تقویٰ میں غلو ومبالغہ سرفہرست ہے۔
(10) شیخ کی بہت سی کرامتیں زبان زدِ عام ہیں لیکن ان میں سے ننانوے فیصد غیر مستند اور جھوٹ کا پلندہ ہیں جنہیں عقیدت مندوں نے وضع کررکھا ہے۔
(11) آپ کی طرف منسوب سلسلہ قادریہ اور دیگر سلاسل جو اگرچہ تعلیم و تعلّم اور تزکیۂ نفس کی خاطر شروع ہوئے اور رفتہ رفتہ غلط عقائد کی آمیزش سے دین و شریعت کے متوازی آگئے، سراسر محل نظر ہیں بلکہ اب تو ان میں شمولیت سے بہرصورت اجتناب کرنا چاہئے۔
(12) شیخ جیلانی کو 'غوثِ اعظم' کہنا نہ صرف اللہ وحدہٗ لاشریک کی (معاذ اللہ) اہانت ہے بلکہ خود شیخ کی موحدانہ تعلیمات کے بھی سراسر منافی ہے۔
(13) صلاۃ ِغوثیہ اور یا عبد القادر شیئا ﷲ کہنا نہ صرف یہ کہ شیخ جیلانی کی تعلیمات سے بھی ثابت نہیں بلکہ یہ صریح کفر وشرک ہے!!
(14) شیخ جیلانی کے نام کی گیارہویں اگر بطورِ نذرو نیاز ہو تو صریح شرک ہے اور اگر محض ایصالِ ثواب کے لئے ہو تو واضح بدعت ہے۔
(15) اولیاء ومشائخ کی صرف انہی تعلیمات سے استفادہ کرنا چاہیے جو قرآن وسنت (شریعت) کے موافق ہوں جب کہ ان کی ایسی باتیں جو انہوں نے فی الواقع کہی ہوں یا محض ان کی طرف بعد والوں نے منسوب کر دی ہوں، انہیں لائق اعتماد نہیں سمجھنا چاہیے جو قرآن وسنت کے صریح منافی ہوں او رخود اولیاء وائمہ کرام کا بھی یہی نکتہ نظر تھا کہ اگر ہمارا کوئی قول وفعل قرآن وسنت کے منافی ہو تو اسے در خور اعتنانہ سمجھا جائے! 
ماخوذاز محدث میگزین


0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کوئی تبصرہ کرنا چاہتے ہیں تو مثبت انداز میں تبصرہ کر سکتے ہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔