Tuesday, January 13, 2015

ایک مجلس کی تین طلاق ایک ہی شمار ہوتی ہے

ایک مجلس کی تین طلاق ایک ہی شمار ہوتی ہے

تین طلاقیں اگر ایک مجلس میں دے دی جائیں تو وہ تین شمار نہیں ہوں گی بلکہ ایک ہی شمار ہوگی۔
چنددلائل  ملاحظہ ہوں۔۔
(1)فرمانِ باری ہے﴿ الطَّلَاقُ مَرَّتَانِ ۖ فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسَانٍ  ... سورة البقرة
ترجمہ:  کہ ’’طلاق دو مرتبہ ہے، پس (اس کے بعد) بھلائی کے ساتھ روک لینا ہے یا احسان کے ساتھ چھوڑ دینا ہے۔‘‘
مطلب یہ ہے کہ مسلمان کو طلاق کے بعد بیوی سے رجوع کر کے اپنے پاس روک لینے یا طلاق کو مؤثر کرکے احسان کے ساتھ اسے اپنے سے جدا کر دینے کا دو مرتبہ حق حاصل ہے، البتہ تیسری طلاق کے بعد یہ حق نہیں، کیونکہ اس کے بعد بیوی ہمیشہ کیلئے جدا ہو جاتی ہے ، اس سے نہ رجوع ہو سکتا ہے نہ نکاح، یہاں تک کہ وہ کسی اور شخص سے آباد ہونے کی نیت سے باقاعدہ نکاح کرے، پھر وہ اپنی مرضی سے اسے طلاق دے دے یا فوت ہوجائے تو پہلے خاوند سے اس کا دوبارہ نکاح ہو سکتا ہے۔ قرآن کریم کے اس اندازِ بیان سے صاف واضح ہے کہ ایک ہی مرتبہ تین طلاقیں دے دینا یا ایک مجلس کی تین طلاقوں کو تین شمار کرکے بیوی کو ہمیشہ کیلئے جدا کر دینا، قرآن کے مذکورہ حکم سے متصادم ہے۔ اللہ تعالیٰ تو یہ فرماتے ہیں کہ پہلی اور دوسری طلاق کے بعد سوچنے اور نظر ثانی کا موقع اور گنجائش باقی ہے لیکن لوگ ایک ہی مجلس کی تین طلاقوں کو تین ہی شمار کر کے اللہ تعالیٰ کے دئیے ہوئے موقع اور گنجائش کو ختم کر دیتے ہیں۔ اس لئے ایک مجلس کی تین طلاقوں کو ایک طلاقِ رجعی شمار کرنا، جس کے بعد عدت کے اندر خاوند کو رجوع کرنے کا حق حاصل ہو، قرآن کریم کی رو سے زیادہ صحیح ہے اور ذیل کی احادیث مبارکہ سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے:

(2)سيدنا رکانہ بن عبد یزید﷜ نے اپنی بیوی کو ایک مجلس میں تین طلاقیں دے دیں لیکن بعد میں سخت غمگین ہوئے۔ رسول اللہﷺ نے ان سے پوچھا: « كيف طلقتها » کہ ’’تم نے اسے کس طرح طلاق دی تھی؟‘‘ انہوں نے کہا: تین مرتبہ۔ آپﷺ نے پوچھا: « في مجلس واحد؟ » کہ ’’ایک ہی مجلس میں؟‘‘ انہوں نے کہا: ہاں۔ آپﷺ نے فرمایا: « فإنما تلك واحدة، فارجعها إن شئت » کہ ’’پھر یہ ایک ہی طلاق ہوئی ہے، اگر تم چاہو تو رجوع کر سکتے ہو۔‘‘ راوی سیدنا ابن عباس﷜ فرماتے ہیں کہ اس کے بعد سیدنا رکانہ﷜ نے اپنی بیوی سے رجوع کر لیا۔ (مسند اَحمد)
(3)سیدنا ابن عباس﷜ سے ہی مروی ہے کہ عہد رسالتمابﷺ اور عہد ابو بکر﷜ اور عمر فاروق﷜ کی خلافت کے ابتدائی دو سالوں تک (ایک مجلس کی) تین طلاقیں ایک ہی طلاق شمار ہوتی تھیں۔ پھر سیدنا عمر﷜ نے فرمایا کہ جس معاملے (طلاق) میں لوگوں کو سوچ وبچار سے کام لینا چاہئے تھا اس میں وہ جلد بازی سے کام لینے لگے ہیں، لہٰذا ہم کیوں نہ اسے نافذ کر دیں، چنانچہ آپ نے اس کو ان پر لاگو کر دیا۔ (صحیح مسلم)

ان نصوص سے واضح ہوتا ہے کہ ایک مجلس میں دی گئی تین طلاق ایک ہی شمار ہوتی ہے اور نبی ﷺ کے زمانے میں ، حضرت ابوبکررضی اللہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خلافت کے ابتدائی دور تک اس پر عمل رہا ہے ۔
یہاں ایک اشکال واضح کردینا مناسب ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جو تین طلاق کو تین نافذ کیا دراصل یہ ان کا  اجتہاد ۔ سیاست۔ اور تعزیر وتحدید کے خیال سے کیا۔
چنانچہ مسلم شریف کی اسی روایت میں مذکور ہے ۔
فقال عمر بن الخطاب إن الناس قد استعجلوا في أمر قد كانت لهم فيه أناة فلو أمضيناه عليهم فأمضاه عليهم۔
حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا لوگ اس کام میں جلدی کرنے لگے ہیں۔ جس میں ان کو مہلت کرنا چاہیے تھی یعنی یہ لوگوں پر لازم تھا کہ طلاق عدت سے دیں۔ پس اس غلطی کو روکنے کےلئے اگر ہم طلاق ثلاثہ کا حکم نافذ ہی کردیں۔ تو لوگ فوری طلاق ثلاثہ دینے سے رک جایئں گے۔ 
یہ الفاظ بھی ہیں۔
فلما راي الناس تتابوا قال اجيز هن عليهم
آپ نے جب دیکھا کہ لوگ طلاقیں بہت دینے لگے ہیں۔ تو آپ نے ان پر تینوں کےنفاظ کا حکم صادر فرمادیا۔
اس بیان سے معلوم ہوا کہ وقتی روک  ھام کےلئے بطور سرزنش حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایسا کیا مقصد اس سے یہ تھا کہ لوگ عورتوں کی مدامی جدائی دیکھ کر فوری طلاق ثلاثہ کے بول دینے سے رک جایئں گے۔ اوراصل شریعت الٰہی پر قائم رہ کر طلاق عدت سے دینے لگیں گے۔
علمائے احناف بھی اس حقیقت کا اعتراف کرتے ہیں۔ *
:::واعلم ان في الصدر از اول اذا ارسل الثلاث جمله لم يحكم الا بوقوع واحده الي زمن عمر رضي الله تعاليٰ عنه ثم حكم بوقوع الثلاثه لكثرة بين الناس تهديدا
یعنی صدر اول سے زمانہ عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ تک جب کوئی شخص تین طلاق ایک مجلس میں دیتا تھا۔ تو ایک ہی طلاق رجعی کے واقع ہونے کا حکمدیا جاتا تھا۔ پھر جب لوگوں نے اس میں کثرت کردی۔ تو ڈرانے کےلئے تین واقع ہونے کا حکمدیا۔ (مجمع الانہر ص 382
::: انه كان في الصدر اول اذا ارسل الثلاث جمله لم يحكم الا بوقوع واحدة الي ذمن عمر رضي الله تعاليٰ عنه ثم حكم بوقوع الثلاثه سياسة لكثرته بين الناس
حاصل یہ ہے کہ عہد نبوی ﷺ وصدیقی میں ایک مجلس کی تین طلاقیں ایک رجعی ہوتی تھیں۔ پھر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس کو سیاسۃ تین قرار دیا۔ (طحاوی صفحہ 150)
بالآخر حضرت عمر اپنے اس عمل پہ پچھتائے جس کا ذکر حدیث کی بہت معتبرکتاب (مسند اسماعیل ) میں ہے۔
وقال عمررضي الله تعاليٰ عنه ما ندمت علي شي ندامتي علي ثلاث الا ان نكون حرمت الطلاق الخ
مجھے تین مسئلوں میں بڑی ندامت ہوئی جن میں سے ایک مسئلہ یہ بھی ہے۔ (بحوالہ غافۃ الہان ص 181۔ ص 182)
حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اس مقولہ کے بعد اب کسی کو یہ کہنے کی گنجائش نہیں ہےکہ ایک مجلس کی تین طلاق تین شمار ہوتی ہیں ۔ یہ سراسر غلط ہے ۔ درست موقف یہی ہے کہ ایک مجلس کی تین طلاق ایک ہی شمار کی جاتی ہے ۔
ماخوذ از محدث فورم بترمیم

واللہ اعلم بالصواب

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کوئی تبصرہ کرنا چاہتے ہیں تو مثبت انداز میں تبصرہ کر سکتے ہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔