عید میلاد مختلف بریلوی علماء کی نظر میں
٭مروجہ عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ
وسلم کی کوئی اصل نہیں ہے اس کی ابتداء چاتھی صدی عیسوی میں ھوئی سب سے پہلے مصر
میں نام نہاد شیعوں نے یہ جشن منایا-(الخطط اللمقریزی 490/1)
نبی کے یوم پیدائیش کو یوم میلاد قرار
دینا عیسایئوں کا وطیرہ ہے مروجہ عید میلادالنبی، عید میلاد عیسی کے مشابہ ھے اور
بدعت سیہ ہے، جبکہ کفار کی مشابہت اور ان کی رسومات پر عمل کرنے سے منع کیا گیا
ہے، صحابہ کرام کے زمانے بلکہ تینوں زمانوں میں اس کا ثبوت نہیں ملتا یہ بعد کی
ایجاد ہے۔
٭احمد یار خان نعیمی صاحب فرماتے ھیں
کہ "میلاد شریف تینوں زمانوں نہ کسی نے کیا بعد کی ایجاد ھے" (جاءالحق
236/1)
٭جناب غلام رسول سعیدی بریلوی صاحب
یوں اعتراف حقیقت کرتے ھیں کہ "سلف صالحین یعنی صحابہ اور تابعین نے میلاد کی
محافل منعقد نہیں کیں" (شرح صحیح مسلم 179/3)
٭جناب عبدالسمیع رامپوری بریلوی صاحب
لکھتے ھیں کہ "یہ سامان فرحت و سرور اور وہ بھی ایک مخصوص مہنے ربیع الاول کے
ساتھ اور اس میں خاص وھی بارھوں دن معین کرنا بعد میں ھوا ھے یعنی چھٹی صدی کے آخر
میں"
(انوار ساطعہ 159)
(انوار ساطعہ 159)
٭خود طاھر القادری صاحب اپنی کتاب
"میلاد النبی" میں لکھتے ھیں کہ صحابہ 12 ربیع الاول کو میلاد نہیں
مناتے تھے بلکہ غمگین رھتے تھے کیونکہ جب ان کی زندگی میں 12 ربیع الاول کا دن آتا
تو وصال کے غم میں پیدایئش کی خوشی دب جاتی۔ منقول
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کوئی تبصرہ کرنا چاہتے ہیں تو مثبت انداز میں تبصرہ کر سکتے ہیں۔
اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔