Saturday, December 20, 2014

شادی کی خاطر تبدیلی مذہب

شادی کی خاطر تبدیلی مذہب


عموما ایسا ہوتا ہے کہ دو محبت کرنے والے (لڑکا اور لڑکی) شادی کرنا چاہتے ہیں تو ان کے مابین اگر مذہب کا فرق ہوتو پھر ایک مسئلہ بن جاتاہے ۔ لیکن اکثر یہ مسئلہ اس طرح حل ہوجاتاہے کہ لڑکا یا لڑکی ایک دوسرے کا مذہب اختیار کر لیتا/لیتی ہے ۔ اسلام کے اندر اولا اجنبی لڑکا اور لڑکی کے درمیان محبت قائم کرنا ہی حرام ہے ، ان دونوں یہ کی معیت حرام کاری میں شمار ہوگی ۔ یہ بدترین خصلت فلموں کے ذریعہ عروج پارہی ہے ۔ اس وقت ایمان کا جنازہ نکل جاتا ہے جب مسلم لڑکا یا مسلم لڑکی پیار کی خاطر خود کو کافر کے حوالے کردیتا ہے اور پیار کی خاطر اپنا مذہب تبدیل کردیتاہے ۔
یہاں ہم پہلے یہ دیکھتے ہیں کہ اسلام میں شادی کا کیا معیار ہے ۔
1- عن أبيه عن أبي هريرة أن رسول الله صلی الله عليه وسلم قال تنکح النسا لأربع لمالها ولحسبها ولجمالها ولدينها فاظفر بذات الدين تربت يداک
سنن ابن ماجہ:جلد دوم:حدیث نمبر 14 حدیث مرفوع مکررات 7
ترجمہ : حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا عورت سے چار وجوہ سے نکاح کیا جاتا ہے اس کے مال کی وجہ سے اور اس کے حسب نسب کی وجہ سے اور اس کی خوبصورتی کی وجہ سے اور اس کی دینداری کی وجہ سے پس تو دیندار بیوی کو حاصل کر تیرے ہاتھ خاک آلود ہوں ۔
2- عن عبد الله بن عمرو قال قال رسول الله صلی الله عليه وسلم لا تزوجوا النسا لحسنهن فعسی حسنهن أن يرديهن ولا تزوجوهن لأموالهن فعسی أموالهن أن تطغيهن ولکن تزوجوهن علی الدين ولأمة خرما سودا ذات دين أفضل
سنن ابن ماجہ:جلد دوم:حدیث نمبر 15 حدیث مرفوع مکررات 7
ترجمہ :  حضرت عبداللہ بن عمرو سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا عورتوں سے ان کی خوبصورتی کی وجہ سے شادی نہ کرو ہوسکتا ہے کہ ان کی خوبصورتی ان کو ہلاکت میں ڈال دے اور نہ ان سے ان کے اموال ان کو سرکش بنادیں گے البتہ دینداری کی بنیاد پر شادی کرو اور یقینا کان میں سوراخ والی کالی باندی جو دیندار ہو بہتر ہے۔
گویا اسلام میں شادی کا معیار دین ہے ، اس کا معنی یہ نکلتاہے کہ کافر سے شادی حرام ہے یا پیارکی خاطر، یا نفسانی خواہشات کی تسکین کے لئے مذہب بدلنا انتہائی گھناؤنا اور بدترین عمل ہے ۔
آج کل جیسے فلموں میں دکھایاجاتاہے کہ مسلم کافر سے شادی کرلے یا کوئی مذہب والا کسی دوسرے مذہب والے سے شادی کرلے تو کوئی عیب کی بات نہیں ہے ، آج کل سماج میں بھی کچھ ایسا ہی منظر دیکھنے کو ملتا ہے ۔ الحفظ والاماں
یہاں ایک نصیحت آموز ایک واقعہ بیان کیا جاتاہے ۔
حضرت ام سلیم رضی اللہ عنہا جب بیوہ ہوئیں تو مدینہ منورہ کے ایک رئیس زادے ابو طلحہ شادی کا پیغام بھیجتے ہیں ، اس وقت ام سلیم مسلمان ہوچکی تھیں اور ابو طلحہ ابھی تک مسلمان نہیں ہوئے تھے ، لہذا ام سلیم نے یہ دو ٹوک جواب دے کر ان کے پیغام کو رد کردیا کہ اے ابو طلحہ ! اللہ کی قسم آپ کی وہ حیثیت ہے کہ آپ کا پیغام رد نہ کیا جائے ، لیکن مشکل یہ ہے کہ آپ کافر ہیں اور میں مسلمان عورت ہوں ، اور کسی مسلمان عورت کے لئے مناسب نہیں ہے کہ کسی کافر کے ساتھ شادی کرے۔
{ مسند احمد ، سنن نسائی }
حالانکہ ابھی تک مسلم و کافر کی شادی کے بطلان کا حکم نازل نہیں ہوا تھا پھر بھی ایک مسلمان عورت کی غیرت اور عزت نفس دیکھئے کہ اپنے کو کسی کافر کی قوامیت اور نگرانی میں دینا گوارا نہیں کیا ۔اس کے برعکس آج ہمارا کیسا شیوہ ہے ؟؟
یہاں ایک پواؤنٹ یہ قابل ذکر ہے کہ اگر کوئی کافریاکافرہ اسلام کی حقانیت سےواقف ہو اور اسلام کی طرف مائل تو مسلمان بناکر اس سے شادی کرنا درست ہے کیونکہ یہاں نفسانی خواہشات کا دخل نہیں ۔
کتبہ
مقبول احمد سلفی  


0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کوئی تبصرہ کرنا چاہتے ہیں تو مثبت انداز میں تبصرہ کر سکتے ہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔