Sunday, October 26, 2014

نماز سے متعلق جند مسائل

حالتِ نماز میں سلام کا جواب دینے کا طریقہ 

س: اگر مسجد میں جماعت ہو رہی ہو اور تمام نمازی با جماعت نماز ادا کر رہے ہوں اور باہرسے آنے والا بلند آواز سے السلام علیکم کہے تو نمازیوں کو اس کا جواب کس طرح دینا چاہئے ؟قرآن و حدیث کی روشنی میں وضاحت فرمائیں۔

ج: صورت مسؤلہ میں باہر سے آنے والا شخص جب سلام کہے تو نمازی اس کا جواب الفاظ سے نہ دیں کیونکہ نماز کی حالت میں کلام کرنا منع ہے بلکہ نماز ہاتھ کے اشارے سے جواب دے ۔ سیدنا عبداللہ بن عمرضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ :
'' میں نے بلال رضی اللہ تعالی عنہ سے کہا کہ نبی کریم کو نماز کی حالت میں جب لوگ سلام کرتے ہیں تو آپ ان لوگوں کو جواب دیتے ہوئے رسول ا للہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کیسے دیکھا ؟ سیدنا بلال رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایسے کہتے تھے اور اپنی ہتھیلی کو پھیلاتا '' (بلوغ الامرام مع سبل السلام ۱/۱۴۰)

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حالت نماز میں سلام کا جواب ہاتھ کے اشارے سے دیتے تھے۔ زبان سے کلام نہیں فرماتے تھے ۔ امام محمد بن اسماعیل الصنعانی اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں کہ :
'' یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ جب بھی کوئی آدمی کسی کو حالتِ نماز میں سلام کہے تو اس کا جواب ہاتھ کے اشارہ سے دے نہ کہ زبان سے بول کر '' ( سبل السلام ۱/۱۴۰)

ننگے سر نماز 

س: ننگے سر مرد کی نماز ہو جاتی ہے یا نہیں ۔ میں نے مسعود بی ایس سی کا ایک پمفلٹ پڑھا، اس میں لکھا ہے کہ نبی کریم ؑنے نے کبھی ننگے سر نماز نہیں پڑھی اور جابر والی روایت ثابت ہی نہیں۔ برائے مہربانی قرآن اور حدیث کے مکمل دلائل سے وضاحت کریں۔

ج: نماز میں ستر ڈھانپنا واجب ہے اور کندھوں پر بھی کسی چیز کا ہونا ضروری ہے ۔ اس کے علاوہ کپڑے شریعت میں ضروری طور پر ثابت نہیں ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف ایک کپڑے میں بھی نماز پڑھی ہے جیسا کہ سیدنا جابر سے مروی ہے ۔ ایک دن ایک کپڑے کو جسم پر لپیٹے نماز پڑھ رہے تھے جبکہ دوسرا کپڑا قریب رکھا ہوا تھا ۔ جب نماز سے فارغ ہوئے تو کسی نے کہا، آپ ایک ہی کپڑے میں نماز ادا کر رہے ہیں جبکہ دوسرا کپڑا آپ کے پاس موجود ہے ۔ انہوں نے کہا ہاں میں چاہتا ہوں کہ تہمارے جیسے جاہل مجھے دیکھ لیں۔ (رایت النبی صلی اللہ علیہ وسلم یصلی ھکذا )میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی طرح نماز پڑھتے دیکھا ہے۔ (بخاری شریف، کتاب الصلویٰۃ باب الصلوٰۃ بغیر رداء )

بخاری شریف میں ہی ایک دوسری روایت میں ایک کپڑے میں نماز کی کیفیت بیان کی گئی ہے ( قد عقدہ من قبل قفاہ ) کپڑے کو اپنی گدی پر باندھا ہوا تھا۔ ( یعنی سر پر کچھ نہ تھا )
دوسری دلیل ؛ عمر ابن سلم بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا ( یصلی فی ثوب واحد مشتملا بہ بیت ام سلمۃ واضعا طریفہ علی عاتقیہ ) اورمسلم شریف کی روایت میں متوشعا کے الفاظ ہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک کپڑے میں نماز پڑھ رہے تھے اس کے دونوں کنارے اپنے کندھوں پر باندھے ہوئے تھے ۔ اس سے یہ بھی ثابت ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سر پر وہ کپڑا نہ تھا۔
ہاں ! عورت کی نماز ننگے سر نہیں ہوتی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ۔
'' بالغ عورت کی نماز ڈوپٹہ ( اوڑھنی ) کے بغیر نہیں ہوتی "
یہ حدیث بھی اس کا بین ثبوت ہے کہ مرد کی ننگے سر نماز ہو جاتی ہے اس کیلئے ایسا کپڑا ضروری نہیں ورنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یہ کہہ دیتے مرد اور عورت کی نماز ننگے سر نہیں ہوتی ۔
اب دلائل سے کوئی یہ مت سمجھے کہ ایک کپڑے میں نماز اسو قت درست تھی جب مسلمانوں کے پاس کپڑے کم تھے اور جب اللہ تعالیٰ نے وسعت دے دی تو سر ڈھانپنا واجب ہوگا۔ اس بات کی حقیقت معلوم کرنے کیلئے ہم امیر المومنین ابن الخطاب رضی اللہ تعالی عنہ سے پوچھتے ہیں کیونکہ وہ یقیناً ہم سے بڑھ کر شریعت کو سمجنے والے تھے ایسے ہی حالات میں کسی شخص نے ان سے ایک کپڑے میں نماز پڑھنے کے بارے میں پوچھا تو سیدنا عمررضی اللہ تعالی عنہ نے ایک سے زیادہ کپڑوں کو شمار کر لیا مگر ان میں سر ڈھانپنے والے کپڑے کا نام ہی نہیں ۔
امیر المومنین رضی اللہ تعالی عنہ کو تو فراحی وسعت کے وقت بھی یہی سمجھ آئی کہ سر ڈھانپنا واجب نہیں ۔ اب ان احادیث صحیحہ مر فوعہ اور صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم کے فہم کو ترک کرکے اپنی عقل کو سامنے رکھنا ہر گز انصاف نہیں ۔

قبروں والی مسجد میں نماز
س: وہ مساجد جن میں قربیں ہوں کیا ان مساجد میں نماز ہو جاتی ہے یا نہیں ؟ قرآن و سنت کی روشنی میں مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کا حوالہ دیتے ہوئے وضاحت کریں۔ ( اکرب علی ، رشیدہ پورہ لاہور )

ج: ایسی مساجد میں نماز نہیں پڑھنی چاہئے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبروں پر مساجد بنانے والوں کو معلون قرار دیا ہے اور قبروں پر مساجد بنانے سے قبروں پر اور قبروں کی طرف نماز ُڑھنے سےر وک دیا ہے ۔ جندن بن عبداللہ بھی کہتے ہیں میں نے اللہ کےر سول صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے پہلے ان سے سنا۔ انہوں نے کچھ باتیں ذکر کیں:
'' کہ جو تم سے پہلے تھے ( یہود و نصاری ٰ ) وہ اپنے ابنیاء اور ینک لوگوں کی قبروں کو مسجدیں بنا لیتے تھے خبر دار تم قبروں کو مسجد نہ بنانا میں تم کو اس سے منع کرتا ہوں ''۔ ( رواہ مسلم (۵۳۲) ابو داؤد )

ایک دوسری حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا االلہ تعالیٰ یہودیوں اور عیسائیوں پر لعنت کرے انہوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کو مسجدیں بنا لیا ۔ (بخاری (۳۹۰٠) مسلم (۵۲۹٩)

ان احادیث سے ثبات ہو اکہ قبروں پر مسجدیں بنانا حرام ہے کیونکہر سولا للہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس روک دیا ہے ۔ جب قربوں پر مسجدیں بنانے سے روک دیا گیا ہے تو ایسی مساجد میں نامز پڑھنی بالا ولی درست نہیں ہے کیونکہ یہ شریعت کا اول ہے کہ وسیلہ ( ذریعہ کی حرمت اس چیز کے حرام ہونے کاو ملتزم ہوتی ہے جو اس وسیلہ سے مقصود ہو مثلاً شریعت نے شراب کی خرید و فروخت کو حرام قرار دیا ہے اور اس حرمت کے اندرا س کے پینی کی حرمت بھی موجود ہے ۔ یہاں شراب کی خرید و فروخت وسیلہ ہے اور اس کامقصود شراب نوشی رکان ہے۔ اور یہ بات بھی بالکل واضح ہے کہ قربوں پر مساجد بنانا کا حرما ہونا یہ صرف مساجد کی ذات کی وجہ سے نہیں بلکہ امز کی وجہ سے ہے۔ جس طرح گھروں اور محلوں میں مساجد بنانے کا حکم صرف مساجد کی ذات کی وجہ سے نہیں بلکہ نماز کیلئے ہے۔ مساجد بنانے کا حکم کا مقصد صرف یہ نہیں کہ ہم مسجدیں بناتے جائیں اور ان میں کوئی بھی نماز پڑحنے کیلئے نہ آئے ۔ یہ بات آپ اس مثال سے سمجھیں کہ ایک شخص کسی غیر آباد جنگل میں مسجد بانتا ہے جہاں کوئی نہیں رہتا اور نہ کوئی نماز پڑھنے کیلئے آتا ہے تو ایسے شخص کو اس مسجد بنانے کا کوئی ثوا ب نہیں ہوگا بلکہ ممکن ہے وہ گنہگار ہو کیونکہ اُس نے مال کو ایسی جگہ پر صرف کیا ہے جہاں سے کوئی بھی فائدہ نہیں پہنچتا ۔اس سے یہ بات واضح ہو گئی کہ جس طرح شریعت نے مساجد بنانے کا حکم دیا ہے تو ضمناً ان میں نماز پڑھنے کا حکم بھی دیا ہے ( کیونکہ مسجد بنانے کا مقصد نماز ادا کرنا ہی تو ہوتا ہے ) اسی رح جب شرعیت نے قربوں پر مسجدیں بنانے سے روکا ہے تو ضمناً ایسی مسجدوں میں نماز پڑھنے سے بھی روک اہے اور یہ بات کسی بھی عقلمند آدمی سے مخفی نہیں ۔ اس لئے امام احمد بن جنبل رحمۃ اللہ نے ایسی مساجد میں ادا کی گئی نماز کو باطل قرار دیا ہے لیکن مسجد نبوی اس حکم سے متشنی ٰہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا نا لے کر اس کی فضیلت بیان کی ہے جو دوسری قبروں پر بنی ہوئی مسجدوں میں نہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں راس مسجد میں نماز دوسری مساجد کی ہزار نمازوں سے بہتر ہے سوائے مسجد الحرام اور مسجد نبوی میں روضۃ من ریاض الجنۃ بھی ہے ۔ جس طرح بیت اللہ ابراہیم علیہ السلام نے تعمیر کیا اس کی فضیلت اللہ تعالیٰ کی طرف سے معلوم تھی بعد میں مشرکین نے بت رکھ دئیے مگر رول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہواں نماز پڑھتے تھے اگر مسجد نبوی میں نامز کو فاسد اور اندر ست قرار دے دیں تو مسجد نبوی کی فضیلت کو ختم کر کے دوسری مساجد کے برابر قرار دینے کے مترادف ہو گا جو کسی لحاظ سے بھی جائز نہیں پھر یہ بھی یاد رہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ مسجد اپنے اور مسلمانوں کیلئے بنائی تھی جس کی بنیاد تقویٰ پر رکھی گئی جبکہ قربیں ولید بن عبدالمالک کے دور میں داخل کی گئی ہیں اس وقت مدینہ رالرسول میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہرضی اللہ تعالی عنہ میں سے کوئی بھی موجود نہیں تھا ۔ پھر بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر کے پیچھے نماز پڑھنے سے بچنا چاہئے ( واللہ تعالیٰ اعلم)

دیگر مسائل کے لئے نیچے دئے گئے رابطہ  پر کلک کریں۔

http://forum.mohaddis.com/threads/%D8%A2%D9%BE-%DA%A9%DB%92-%D9%85%D8%B3%D8%A7%D8%A6%D9%84-%D8%A7%D9%88%D8%B1-%D8%A7%D9%86-%DA%A9%D8%A7-%D8%AD%D9%84.5731/page-8

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کوئی تبصرہ کرنا چاہتے ہیں تو مثبت انداز میں تبصرہ کر سکتے ہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔