Tuesday, October 28, 2014

تعزیت اور اس کے آداب

تعزیت کا لغوی معنی تسلی دینا ہے۔ اصطلاحی طور پر اس کا مطلب یہ ہے کہ مصیبت زدہ یا میت کے اقارب سے اظہار افسوس کرنا، انہیں تسلی دینا، صبر کی تلقین کرنا اور ایسی باتیں کرنا جن سے ان کا غم ہلکا ہو۔ اس کے علاوہ میت کے لئے دعا کرنا بھی اس کے مفہوم میں شامل ہے۔ تعزیت کرنا مومن سے ہمدردی کا اظہار ہے اور مومن سے ہمدردی جز و ایمان ہے، اس کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ: ’’جو مومن اپنے بھائی کو کسی مصیبت پر تسلی دیتا ہے، اللہ تعالیٰ اسے قیامت کے دن عزت افزائی کا لباس پہنائیں گے۔ (ابن ماجہ، الجنائز: ۱۶۰۱)
محققین حدیث نے اس روایت کو حسن قرار دیا ہے، چنانچہ محدث العصر علامہ البانی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو احادیث صحیحہ میں نقل کیا ہے۔(سلسلہ الاحادیث الصحیحہ: ۱۹۵)
ایک دوسری حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جو شخص کسی مصیبت زدہ کو تسلی دے اسے قیامت کے دن مصیبت زدہ کے برابر ثواب ملے گا۔‘‘ (ترمذی، الجنائز: ۱۰۳۷)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی لخت جگر سے بایں الفاظ تعزیت کی تھی: ’’اللہ ہی کیلئے تھا جو اس نے لے لیا اور اسی کا ہے جو اس نے دے رکھا ہے، اس کے ہاں ہر چیز کا ایک وقت مقرر ہے لہٰذا صبر کر کے اس کا اجر و ثواب لینا چاہیے۔ (بخاری، الجنائز: ۱۲۸۴)
مختلف احادیث کے پیش نظر تعزیت کے درج ذیل آداب ہیں:
٭ اہل میت سے ہمدردی کرتے ہوئے ان کیلئے دعا خیر کی جائے اور انہیں صبر کی تلقین کرنا چاہیے۔
٭ گھر والوں کی ہر ممکن مدد کی جائے، ان کے لئے وقت اور مال کی قربانی دی جائے۔
٭ تعزیت کیلئے مناسب وقت کا انتخاب اور محدود مدت کیلئے ان کے ہاں ٹھہرا جائے۔
٭ کھانے پینے کے اوقات میں ان کے ہاں جانے سے پرہیز کیا جائے تا کہ وہ خواہ مخواہ تکلف میں نہ پڑیں۔
٭ وہاں بیٹھ کر لغو گفتگو نہ کی جائے اور سنت کے مطابق ان کے غم میں شریک ہو کر میت کیلئے دعا مغفرت کی جائے۔
٭ مروجہ طریقہ تعزیت سے گریز کریں جیسا کہ آنے والا ’’فاتحہ‘‘ کہہ کر اپنی حاضری لگواتا ہے۔
٭ وہاں فارغ نہ بیٹھیں بلکہ ذکر اور دعا و استغفار میں خود کو مصروف رکھیں۔

تعزیت کی تعریف اور آداب کو مدنظر رکھتے ہوئے اگر ہمارا کوئی دوست یا رشتہ دار بریلوی یا حنفی ہو اور وہ کھلم کھلا شرک نہ کرنے والا ہو تو ان کی تعزیت کرسکتے ہیں ، ان کے جنازہ میں بھی شریک ہوسکتے ہیں ، مگر جن کا شرک واضح ہو تو ان کے جنازہ میں شرکت کرنا، ان کے لئے مغفرت کی دعا کرنا ہمارے لئے جائز نہیں ہے ۔
اللہ تعالیٰ نے مشرکوں کے لیے مغفرت کی دعا کرنے سے منع فرمایا ہے :

﴿ مَا كَانَ لِلنَّبِيِّ وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَنْ يَّسْتَغْفِرُوْا لِلْمُشْرِكِيْنَ وَلَوْ كَانُوْٓا اُولِيْ قُرْبٰى مِنْۢ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَھُمْ اَنَّھُمْ اَصْحٰبُ الْجَحِيْمِ۝۱۱۳ (التوبۃ:113)
''نبی کیلئے اور دوسرے مسلمانوں کیلئے جائز نہیں کہ وہ مشرکین کیلئے مغفرت کی دعا مانگیں اگرچہ وہ رشتہ دار ہی ہوں اس امر کے ظاہر ہوجانے کے بعد کہ یہ لوگ جہنمی ہیں''۔
ربیع بن سلیمانفرماتے ہیں:

القرآن کلام اللہ غیر مخلوق فمن قال غیر ھذا فان مرض فلا تعودوہ وان مات فلا تشھدوا جنازتہ وھو کافر باللہ العظیم (شرح أصول اعتقادأھل السنۃ :۱/۳۲۲)
''قرآن اللہ تعالیٰ کا کلا م ہے ،مخلوق نہیں ۔جس کسی نے اس کے سوا کچھ اور کہا اگر وہ مریض ہو اُس کی عیادت مت کرو اور اگر وہ مر جائے اس کے جنازے میں مت شریک ہو کیونکہ وہ کافر ہے ۔''
حاصل کلام یہ ہے کہ قرآن و احادیث کی روشنی میں بدعت مکفرہ اور شرک کے مرتکب کے لئے استغفار کرنااور ان کے جنازہ میں شریک ہونا جائز نہیں ہے چاہے وہ کسی بھی مسلک سے تعلق رکھتا ہو۔
لیکن اگر کسی بریلوی رشتہ دار یا حنفی یا کسے باشد شیعہ یا کافر کے یہاں کوئی مصیبت آجائے تو ان کی عیادت کرنا ، ان کو دلاسہ دینا اور بغرض مصحلت ان کی تعزیت کرنا(ماسوااستغفارکے) جائز ہے ، نبی اکرمﷺ سے کافر کی عیادت کے لیے جانا ثابت ہے ۔

واللہ تعالی اعلم وصلی اللہ علی النبی وسلم



0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کوئی تبصرہ کرنا چاہتے ہیں تو مثبت انداز میں تبصرہ کر سکتے ہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔